ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم سب لوگ مدینہ سے صرف حج کا خیال کر کے نکلے۔ پھر جب (مقام) سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا ہوا، کیا تمہیں حیض آ گیا؟“ میں نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دی ہے، لہٰذا جو مناسک حج کرنے والا ادا کرتا ہے، تم بھی کرو مگر تم کعبہ کا طواف نہ کرنا۔“ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں (کہ پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔
ایک روایت میں ہے کہ (ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف ہوتے اور اپنا سرمبارک ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں کر دیتے اور وہ بحالت حیض، اپنے حجرہ میں رہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک میں کنگھی کر دیا کرتی تھیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں (سرمبارک رکھ کر) تکیہ لگا لیتے تھے حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس دوران کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ یکایک مجھے حیض آ گیا تو میں آہستگی سے کھسک گئی اور اپنے حیض کے کپڑے سنبھالے، تو آپ نے فرمایا کہ: ”کیا تمہیں نفاس (حیض) آ گیا؟“ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ نے مجھے بلایا میں آپ کے ہمراہ (اسی ایک) چادر میں لیٹ گئی۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ظرف سے غسل کرتے تھے اور ہم دونوں جنبی ہوتے تھے اور حالت حیض میں مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے تھے تو میں ازار پہن (باندھ) لیتی تھی، پھر آپ مجھ سے اختلاط کرتے تھے (یعنی صرف جسم سے جسم ملا لیتے لیکن مجامعت نہیں فرماتے تھے) اور آپ بحالت اعتکاف اپنا سرمبارک میری طرف نکال دیتے تھے اور میں اس کو دھو دیتی تھی، حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی بی بی حائضہ ہو جاتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اختلاط کرنا چاہتے تو اسے حکم دیتے تھے کہ اپنے حیض (کے زور اور غلبہ) کی حالت میں ازار پہن (باندھ) لے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اختلاط کرتے تھے (لیکن مجامعت نہیں فرماتے تھے) ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تم میں سے اپنی شہوت پر کون اس قدر قابو رکھ سکتا ہے جس قدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش پر قابو رکھتے تھے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عیدالفطر کے دن نکلے اور (عیدگاہ میں) عورتوں (کی جماعت) پر گزرے تو آپ نے فرمایا: ”اے عورتو! صدقہ دیا کرو اس لیے کہ میں نے تمہیں (معراج میں) زیادہ دوزخ میں دیکھا ہے۔“ وہ بولیں کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لعن طعن کثرت سے کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو اور میں نے تم سے زیادہ کسی کو باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے، پختہ رائے مرد کی عقل کا (اڑا) لیجانے والا نہیں دیکھا۔“ عورتوں نے کہا یا رسول اللہ! ہمارے دین میں اور ہماری عقل میں کیا نقصان (کمی) ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت کی گواہی (شرعاً) مرد کی گواہی کے نصف کے برابر نہیں ہے؟“ انھوں نے کہا ہاں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے؟“ انھوں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پس یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے بھی اعتکاف کیا حالانکہ وہ مستحاضہ تھیں، خون کو (خارج ہوتے ہوئے) دیکھتی تھیں۔ پس وہ اکثر اپنے نیچے خون (کی کثرت کے سبب) سے طشت رکھ لیا کرتی تھیں۔
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں) ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کی ممانعت کی جاتی تھی مگر شوہر پرچار مہینہ دس دن تک سوگ کا حکم تھا اور ایسی حالت میں نہ ہم سرمہ لگاتیں نہ خوشبو لگاتیں اور نہ رنگیں کپڑا سوا عصب (جس کپڑے کا سوت بناوٹ سے پہلے رنگا گیا ہو) کے پہنتیں اور ہمیں طہارت کے بعد، جب کوئی ہم میں سے حائضہ ہو، تھوڑی کست اظفار (خوشبو) کی اجازت دیدی گئی تھی اور ہمیں جنازوں کے ہمراہ جانے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔