سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ ناک جھاڑے اور جو کوئی پتھر سے استنجاء کرے تو چاہیے کہ طاق (پتھروں سے) کرے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی تم میں سے وضو کرے تو چاہیے کہ وہ اپنی ناک میں پانی ڈالے پھر (اس کو) صاف کرے اور جو کوئی پتھر سے استنجاء کرے تو چاہیے کہ طاق (پتھروں سے) کرے اور جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو وہ اپنے ہاتھ کو وضو کے پانی میں ڈالنے سے پہلے دھو لے، اس وجہ سے کہ تم میں سے کوئی (بھی) یہ نہیں جانتا کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں (جسم کے کس کس حصے پر پھرتا) رہا ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے (ابن حریج نے) کہا کہ میں نے تمہیں دیکھا کہ (طواف میں) سوائے دونوں یمانی (رکنوں) کے اور کسی رکن کو تم مس نہیں کرتے اور میں نے تمہیں دیکھا کہ تم سبتی جوتیاں پہنتے ہو اور میں نے دیکھا کہ تم زردی سے (اپنے بالوں کو یا لباس کو) رنگ لیتے ہو اور میں نے تمہیں دیکھا کہ جب تم مکہ میں ہوتے ہو تو اور لوگ تو جب (ذی الحجہ کا) چاند دیکھتے ہیں (اسی وقت سے) احرام باندھ لیتے ہیں اور تم جب تک ترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کا دن نہیں آ جاتا احرام نہیں باندھتے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے کہ (بیشک میں) یہ کام کرتا ہوں تو ان میں جہاں تک ارکان یمانی کا (طواف میں) مس کرنا ہے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں یمانی (رکنوں) کے سوا اور کسی رکن کو مس کرتے نہیں دیکھا۔ اسی طرح سبتی جوتے ہیں تو بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جوتے پہنے ہوئے دیکھا ہے جن پر بال نہ ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جوتے میں وضو فرماتے تھے (یعنی پیر دھوتے تھے، مسح نہیں کرتے تھے)۔ لہٰذا میں پسند کرتا ہوں کہ ایسے ہی جوتے پہنوں۔ اسی طرح زردی (کا رنگ ہے)، تو بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے رنگتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہٰذا میں پسند کرتا ہوں کہ اسی سے رنگوں اور اسی طرح احرام باندھنا ہے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (احرام باندھتے ہوئے) نہیں دیکھا تاوقتیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری نہ چلے (یعنی آٹھویں تاریخ کو)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتی پہننے میں، کنگھی کرنے، طہارت (وضو، غسل) کرنے میں (غرض تمام کاموں میں) داہنی جانب سے ابتداء کرنا اچھا لگتا تھا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ نماز کا وقت ہو گیا تھا اور لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا لیکن کہیں سے نہ ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (ایک برتن میں) وضو کے لیے پانی لایا گیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا: ”اس سے وضو کریں۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پانی کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ رہا تھا یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔
اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنا سر منڈوایا تو سب سے پہلے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال لیے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی کے برتن میں سے کتا پانی وغیرہ پیے تو اسے چاہیے کہ اسے سات مرتبہ دھو ڈالے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کتے مسجد میں آتے جاتے رہتے تھے بعض اوقات پیشاب (بھی) کر جایا کرتے تھے لیکن لوگ ان کے آنے جانے کے سبب سے مسجد میں پانی وغیرہ چھڑکتے (تک) نہ تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ برابر نماز میں (شمار ہوتا) ہے جب تک کہ مسجد میں نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے تاوقتیکہ بےوضو نہ ہو جائے۔“
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے امیرالمؤمنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ بتلائیے اگر (کوئی شخص) جماع کرے اور انزال نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا جس طرح نماز کے لیے وضو کرتا ہے وضو کر لے اور اپنی شرمگاہ کو دھو ڈالے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ (سیدنا زید رضی اللہ عنہ راوی حدیث کہتے ہیں کہ) پھر میں نے یہ مسئلہ علی، زبیر، طلحہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے (بھی) اس شخص کو یہی حکم دیا۔