سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض سخت ہو گیا تو آپ نے فرمایا: ”میرے پاس لکھنے کی چیزیں لاؤ تاکہ میں تمہارے لیے ایک نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد پھر تم گمراہ نہ ہو گے۔“ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض غالب ہے (طبیعت انتہائی ناساز ہے) اور چونکہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب موجود ہے تو وہی ہمیں کافی ہے۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اختلاف کیا یہاں تک کہ شور بہت ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس سے اٹھ جاؤ اور میرے پاس تنازع (کھڑا) کرنے کا کیا کام؟“
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سبحان اللہ آج کی رات کس قدر فتنے نازل کیے گئے ہیں اور کس قدر خزانے کھولے گئے ہیں۔ (اے لوگو!) ان حجرہ والیوں کو جگا دو (کہ کچھ عبادت کریں) کیونکہ بہت سی دنیا میں پہننے والی ایسی ہیں جو (اعمال نہ ہونے کے سبب) آخرت میں برہنہ ہوں گی۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) اپنی اخیر عمر مبارک میں عشاء کی نماز پڑھائی پھر جب سلام پھیر چکے تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ”تم اپنی اس رات کو اچھی طرح یاد رکھنا (دیکھو) آج کی رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے باقی نہ رہے گا۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک شب اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں سویا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی شب میں انھیں کے ہاں تھے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز (مسجد میں) پڑھی پھر اپنے گھر میں آئے اور چار رکعتیں پڑھیں اور سو رہے پھر بیدار ہوئے اور فرمایا: ”چھوٹا لڑکا سو گیا؟“ یا اسی کی مثل کوئی لفظ فرمایا پھر (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپ نے مجھے اپنی داہنی جانب کر لیا اور پانچ رکعتیں پڑھیں اس کے بعد دو رکعتیں (سنت فجر) پڑھیں پھر سو رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے لینے کی آواز میں نے سنی پھر آپ نماز (فجر) کے لیے (مسجد تشریف لے گئے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بہت سی حدیثیں یاد و بیان کیں اور اگر کتاب اللہ میں (یہ) دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں ایک حدیث بھی نہ بیان کرتا، پھر پڑھتے تھے ”جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں .... رحم و کرم کرنے والا ہوں۔“(البقرہ: 159، 160) بیشک ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بازاروں میں خریدوفروخت کرنے کا شغل رہتا تھا اور ہمارے انصاری بھائی اپنے مال کے کام میں مشغول رہے تھے اور ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) اپنا پیٹ بھر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا تھا اور ایسے اوقات میں حاضر رہتا تھا کہ لوگ حاضر نہ ہوتے تھے اور وہ باتیں یاد کر لیتا تھا جو وہ لوگ نہ یاد کرتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ! میں آپ سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں مگر انھیں بھول جاتا ہوں، تو آپ نے فرمایا: ”اپنی چادر پھیلاؤ۔“ چنانچہ میں نے چادر پھیلائی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے چلو بنایا (اور ایک فرضی لپ اس چادر میں ڈال دی) پھر فرمایا: ”(اس چادر کو) اپنے اوپر لپیٹ لو۔“ چنانچہ میں نے لپیٹ لی پھر اس کے بعد میں کچھ نہیں بھولا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو ظرف (علم کے، دو طرح کے علم) یاد کر لیے ہیں چنانچہ ان میں سے ایک تو میں نے ظاہر کر دیا اور دوسرے کو اگر ظاہر کروں تو میری یہ گردن کاٹ دی جائے گی۔
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حجتہ الوداع میں فرمایا: ”تم لوگوں کو چپ کر دو۔“(جب لوگ خاموش ہو گئے تو) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اے لوگو!) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے ایک دوسرے کو گردن زنی (قتل) کرنے لگے۔“
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”موسیٰ علیہ السلام (ایک دن) بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا عالم تو میں ہی ہوں۔ لہٰذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انھوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف کیوں نہ کی؟ پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے، تم میں بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے اے میرے پروردگار! میری ان سے کس طرح ملاقات ہو گی؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو (اور مجمع البحرین کی طرف چلو) پھر جب (جس مقام پر) مچھلی کو نہ پاؤ تو (سمجھ لینا کہ) وہ بندہ وہیں ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام چل پڑے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون کو بھی لے لیا اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ یہاں تک کہ جب صخرہ (ایک پتھر) کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سر (زمین پر) رکھ لیے اور سو گئے تو (یہیں) مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راہ بنا لی اور (مچھلی کے زندہ ہو جانے سے) موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم کو تعجب ہوا، پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ (یعنی مچھلی والا کھانا) بیشک ہم نے اپنے اس سفر سے تکلیف اٹھائی اور موسیٰ علیہ السلام جب تک کہ اس جگہ سے آگے نہیں نکل گئے، جس کا انھیں حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انھوں نے کچھ تکلیف محسوس نہیں کی۔ (اب جو ان کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی)۔ تب انھوں نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا (آپ کو یاد پڑتا) ہے کہ جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی (کا بتانا بالکل ہی) بھول گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہی وہ (مقام) ہے جس کو ہم تلاش کر رہے تھے۔ پھر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے قدموں کے نشانات پر واپس لوٹ گئے۔ پس جب اس پتھر تک پہنچے (تو کیا دیکھتے ہیں کہ) ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے (یا یہ کہا کہ اس نے کپڑا لپیٹ رکھا تھا) بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے انھیں سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے کہا کہ تیرے ملک میں سلام کہاں سے آیا؟ تو انھوں نے کہا کہ میں (یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں، میں) موسیٰ (علیہ السلام) ہوں۔ خضر علیہ السلام نے کہا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ (علیہ السلام) انھوں نے کہا ”ہاں“ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں اس (امید) پر تمہاری پیروی کر سکتا ہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے۔ مجھے بھی سکھا دو؟ انھوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ (رہ کر میری باتوں پر) ہرگز صبر نہ کر سکو گے۔ اے موسیٰ! بیشک میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر (مطلع) ہوں کہ جسے خاص کر اس نے مجھے عطا کیا ہے، تم اسے نہیں جانتے اور تم ایسے علم پر (مطلع) ہو جو اللہ نے تمہیں تعلیم کیا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا انشاءاللہ تم مجھے صبر کرنے والا پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا، (چنانچہ خضر علیہ السلام راضی ہو گئے) پھر وہ دونوں دریا کے کنارے چلے، (اور) ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی۔ اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس (سے ہو کر) گزری تو کشتی والوں سے انھوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر (علیہ السلام) پہچان لیے گئے اور کشتی والوں نے انھیں بے کرایہ بٹھا لیا۔ پھر (اسی اثنا میں) ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور اس نے ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں۔ خضر (علیہ السلام) بولے کہ اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف اس چڑیا کی چونچ کی بقدر کم کیا ہے۔ پھر خضر (علیہ السلام) نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ ان لوگوں نے ہم کو بغیر کرایہ (لیے ہوئے) بٹھا لیا اور آپ نے ان کی کشتی کی طرف قصد کیا اور اسے توڑ دیا تاکہ اس پر سوار لوگ غرق ہو جائیں۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا ”کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبر نہ کر سکو گے۔“ موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں بھول گیا تھا اس لیے میرا مؤاخذہ نہ کیجئیے اور میرے معاملے میں مجھ پر تنگی نہ کیجئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی بار موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر یہ بات (اعتراض کی) ہو گئی۔ پھر وہ دونوں (کشتی سے اتر کر) چلے تو ایک لڑکا (ملا جو اور) لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا۔ خضر (علیہ السلام) نے اس کا سر اوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ایک بےگناہ جان کو بے وجہ تم نے قتل کر دیا۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا: کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ (رہ کر میری باتوں پر) ہرگز صبر نہ کر سکو گے؟“ ابن عینیہ (راوی حدیث) نے کہا ہے کہ (پہلے جواب کی نسبت) اس میں زیادہ تاکید تھی۔ پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے۔ وہاں کے رہنے والوں سے انھوں نے کھانا مانگا چنانچہ ان لوگوں نے ان کی مہمانی کرنے سے (صاف) انکار کر دیا۔ پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو کہ گرنے ہی والی تھی تو خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کر دیا۔ (اب پھر) موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے۔ خضر (علیہ السلام) بولے کہ (بس اب اس مرحلے پر) ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس قدر بیان فرما کر) ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تو ان کے اور حالات ہم سے بیان کیے جاتے۔“
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑنے سے کیا مراد ہے؟ اس لیے کہ کوئی ہم میں سے غصہ کے سبب سے لڑتا ہے اور کوئی (ذاتی و گروہی) حمیت کی خاطر جنگ کرتا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر (مبارک) اس کی طرف (متوجہ ہونے کے لیے) اٹھایا اور (راوی کہتا ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اسی سبب سے اٹھایا چونکہ وہ کھڑا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس لیے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے (اور اس کا بول بالا ہو) تو وہ اللہ کی راہ میں (لڑتا) ہے۔“