سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی) ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لیا اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں ملوث ہو گیا (تو وہ) مثل اس چرواہے کے ہے جو سلطانی چراگاہ کے قریب چراتا ہے عین ممکن ہے کہ وہ (اپنے مویشی) اس میں چھوڑ دے۔ (اے لوگو!) آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں اور خبردار ہو جاؤ کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے (خوب) سن لو! وہ ٹکڑا دل ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبدالقیس (قبیلہ عبدالقیس) کے لوگ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے (ان سے) فرمایا کہ: یہ کون سی قوم یا (یہ پوچھا کہ) کون سی جماعت ہے؟ وہ بولے کہ (ہم) ربیعہ (کے خاندان) سے (ہیں) آپ نے فرمایا: قوم یا وفد کا آنا مبارک ہو، تم ذلیل ہو گے نہ شرمسار۔ پھر ان لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم سوا ماہ حرام کے (کسی اور وقت میں) آپ کے پاس نہیں آ سکتے (اس لیے کہ) ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کفار کا قبیلہ مضر رہتا ہے (ان سے ہمیں اندیشہ ہے) لہٰذا آپ ہمیں کوئی ٹھوس بات (خلاصہ احکام) بتا دیجئیے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو (بھی) اس کی اطلاع کر دیں اور ہم سب اس (پر عمل کرنے) سے جنت میں داخل ہو جائیں اور ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پینے کی چیزوں کی بابت (بھی) پوچھا کہ (کون سی حلال ہیں اور کون سی حرام) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا۔ (1) ان کو حکم دیا صرف اللہ پر ایمان لانے کا (یہ کہہ کر) فرمایا: تم لوگ جانتے ہو کہ صرف اللہ پر ایمان لانا (کس طرح پر ہوتا) ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خوب واقف ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (حقیقی) نہیں اور یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ (ان کو حکم دیا) نماز پڑھنے کا۔ زکوٰۃ دینے کا۔ رمضان کے روزے رکھنے کا اور (حکم دیا) اس بات کا کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ (بیت المال میں) دے دیا کرو اور چار چیزوں (یعنی چار قسم کے برتنوں میں پانی یا اور کوئی چیز پینے) سے منع کیا۔ (1) سبز لاکھی مرتبان سے (2) کدو کے تونبے سے (3) کریدے ہوئے لکڑی کے برتن (4) روغنی برتن سے اور کبھی (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مزفت کی جگہ) مقیر کہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان باتوں کو یاد کر لو اور اپنے پیچھے والوں کو اس کی تبلیغ کر دو۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال (کے نتیجے) نیت کے موافق (ہوتے) ہیں اور یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے (دیکھیں کتاب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر (نزول) وحی کا آغاز۔۔۔ باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء کس طرح ہوئی۔۔۔) اور (یہاں) اس میں یہ زیادہ ہے کہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جو وہ نیت کرے۔ لہٰذا جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی تو (اللہ کے ہاں) اس کی ہجرت اسی (کام) کے لیے (لکھی جاتی) ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مرد اپنے اہل و عیال پر ثواب سمجھ کر خرچ کرے تو وہ اس کے حق میں صدقہ (کا حکم رکھتا) ہے۔
سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیرخواہی کرنے کے اقرار پر بیعت کی۔
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسلام پر قائم رہنے اور ہر مسلمان کی خیرخواہی کرنے کی شرط عائد کی۔ پس اسی پر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔