خلیفہ راشد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت، دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو، پس اس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے (شمار) ہو گی جن کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے (روایت ہے) کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ! آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح کی آواز آتی ہے اور (نزول وحی کی تمام حالتوں میں) یہ (حالت) مجھ پر زیادہ دشوار ہے۔ پھر (یہ حالت) مجھ سے دور (موقوف) ہو جاتی ہے اس حال میں کہ (فرشتے نے) جو کچھ کہا اس کو اخذ کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی صورت میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے تو جو کچھ وہ کہتا ہے اس کو میں حفظ کر لیتا ہوں۔“ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بیشک میں نے سخت سردی والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتے ہوئے دیکھی اور سلسلہ منقطع ہونے پر (یہ دیکھا کہ اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی (مقدس) پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا تھا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے۔ پس جو خواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تھے وہ (صاف صاف) صبح کی روشنی کے مثل ظاہر ہو جاتا تھا۔ (پھر اللہ کی طرف سے) خلوت کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی گئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے اور وہاں آپ کئی رات (لگاتار) عبادت کیا کرتے تھے۔ بغیر اس کے کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آتے اور اسی قدر زادراہ بھی لے جاتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی آ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں تھے یعنی فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا کہ پڑھو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے (زور سے) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی۔ پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے! تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور (زور سے) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے۔ تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پھر پکڑ لیا اور سہ بار مجھے (زور سے) بھینچا پھر مجھ سے کہا کہ ((اقرا باسم ربک)) الخ (العلق: 1 - 3)”اپنے پروردگار کے نام (کی برکت) سے پڑھو جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا پڑھو اور (یقین کر لو کہ) تمہارا پروردگار بڑا بزرگ ہے“۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس واقعہ کے سبب سے (مارے خوف کے) کانپنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور (وہاں موجود لوگوں سے) کہا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو۔ چنانچہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اوڑھا دیا یہاں تک کہ (جب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے خوف جاتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے سب حال (جو غار میں گزرا تھا) بیان کر کے کہا کہ بلاشبہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا بولیں کہ ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ یقیناً آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ناتواں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، جو چیز لوگوں کے پاس نہیں وہ انہیں کما دیتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور (اللہ کی راہ میں) مدد کرتے ہیں۔ پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر چلیں اور ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی جو کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا کے بیٹے تھے، کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لائیں اور ورقہ وہ شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گیا تھا اور عبرانی کتاب لکھا کرتا تھا۔ یعنی جس قدر اللہ کو منظور ہوتا تھا انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتا تھا اور بڑا بوڑھا آدمی تھا کہ بینائی جا چکی تھی۔ تو اس سے ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے (ان کا حال) سنو! ورقہ بولے، اے میرے بھتیجے! تم کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا ان سے بیان کر دیا تو ورقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ وہ فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ اے کاش! میں اس وقت (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہوں گے) جوان ہوتا۔ اے کاش میں (اس وقت تک) زندہ رہتا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قوم (مکہ سے) نکالے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر بہت تعجب سے) فرمایا: کیا یہ لوگ مجھے نکالیں گے؟ ورقہ نے کہا ہاں جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی بات بیان کی اس سے (ہمیشہ) دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کی نبوت) کا دور مل گیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی بھرپور طریقے سے مدد کروں گا۔ مگر چند ہی روز گزرے تھے کہ ورقہ کی وفات ہو گئی اور وحی (کی آمد عارضی طور پر چند روز کے لیے) رک گئی۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ وحی کے بند ہو جانے کا حال بیان کرتے ہیں اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دن) اس حال میں کہ میں چلا جا رہا تھا تو یکایک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، میں نے اپنی نظر اٹھائی تو (کیا دیکھتا ہوں کہ) وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا، ایک کرسی پر زمین و آسمان کے درمیان میں معلق بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس (کے دیکھنے) سے ڈر گیا۔ پھر لوٹ آیا تو میں نے (گھر میں آ کر) کہا مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو۔ پھر (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ”اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھ کھڑا ہو اور (لوگوں کو عذاب الہٰی سے) ڈرا اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر اور ناپاکی (یعنی بتوں کی پرستش) کو چھوڑ دے۔ (المدثر: 1 - 5)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے کلام ”لا تحرک۔۔۔۔“ الخ (سورۃ القیامہ: 16 کی تفسیر) میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (قرآن کے) نزول کے وقت سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ازاں جملہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہونٹ (جلد جلد) ہلاتے تھے (تاکہ وحی یاد ہو جائے) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (سعید راوی سے) کہا کہ میں اپنے ہونٹوں کو تمہارے (سمجھانے کے لیے) اسی طرح حرکت دیتا ہوں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے (الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھ کر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: ”اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )(قرآن کو جلد یاد کرنے کے لیے) اس کے ساتھ تم اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کرو تاکہ جلدی (اخذ) کر لو ‘ یقیناً اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے“(سورۃ القیامہ: 16 - 17) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں (یعنی) قرآن کا تمہارے سینہ میں جمع (محفوظ) کر دینا اور اس کو تمہیں پڑھا دینا۔ پھر ”جس وقت ہم اس کو پڑھ چکیں تو پھر تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو“۔ (سورۃ القیامہ: 18) ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (یعنی) اس کو توجہ سے سنو اور چپ رہو۔ پھر یقیناً اس (کے مطلب) کا سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے (سورۃ القیامہ: 19)(یعنی) پھر بیشک ہمارے ذمہ ہے یہ کہ انھیں یاد ہو جائے پھر اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام (کلام الہٰی لے کر) آتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم توجہ سے سنتے تھے۔ جب جبرائیل علیہ السلام چلے چاتے تو اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح پڑھتے جس طرح جبرائیل علیہ السلام نے اس کو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے) پڑھا تھا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں سخی ہو جاتے تھے (خصوصاً) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبرائیل علیہ السلام (آ کر) ملتے تھے اور جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی ہر رات میں ملتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ تو یقیناً (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خلق اللہ کی نفع رسانی میں) تند و تیز ہوا سے بھی زیادہ (سخاوت میں) تیز ہوتے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا (اور وہ) قریش کے چند سواروں میں (اس وقت بیٹھے ہوئے تھے) اور وہ لوگ شام میں تاجر (بن کر گئے) تھے (اور یہ واقعہ) اس زمانہ میں (ہوا ہے) جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان اور (نیز دیگر) کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا۔ چنانچہ سب قریش ہرقل کے پاس آئے اور یہ لوگ (اس وقت) ایلیاء میں تھے۔ تو ہرقل نے ان کو اپنے دربار میں طلب کیا اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے) تھے۔ پھر ان (سب قریشیوں) کو اس نے (اپنے قریب) بلایا اور اپنے ترجمان کو طلب کیا اور (قریشیوں سے مخاطب ہو کر) کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے جو اپنے کو نبی کہتا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں ان سب سے زیادہ (ان کا) قریب النسب ہوں (یہ سن کر) ہرقل نے کہا کہ ابوسفیان کو میرے قریب کر دو اور اس کے ساتھیوں کو (بھی) قریب رکھو اور ان کو ابوسفیان کے پس پشت (کھڑا) کرو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابوسفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے) پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بیان کرے تو تم (فوراً) اس کی تکذیب کر دینا۔ (ابوسفیان) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر (مجھے) اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے یقیناً میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا۔ غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا تھا، یہ تھا کہ ان کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہیں۔ (پھر) ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے ان سے پہلے بھی اس بات (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر) ہرقل نے کہا کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ (پھر) ہرقل نے کہا کہ بااثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ میں نے کہا (امیروں نے نہیں بلکہ) کمزور لوگوں نے۔ (پھر) ہرقل بولا کہ آیا ان کے پیرو (روز بروز) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا (کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ آیا ان (لوگوں) میں سے (کوئی) ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے بدظن ہو کر منحرف بھی ہو جاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا وہ (کبھی) وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اور اب ہم ان کی طرف سے مہلت میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی) ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے اور مجھے موقع نہیں ملا کہ میں بات (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں) داخل کر دیتا۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا تم نے (کبھی) اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ تو (ہرقل) بولا تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے؟ میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول (کے مثل) رہتی ہے کہ (کبھی) وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور (کبھی) ہم ان سے لے لیتے ہیں (یعنی کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ)(پھر) ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (شرکیہ باتیں و عبادتیں) جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، سب چھوڑ دو اور ہمیں نماز (پڑھنے) اور سچ بولنے اور پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہو کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں (اعلیٰ) نسب والے ہیں چنانچہ تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح (عالی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (یعنی اپنی نبوت کی خبر) تم میں سے کسی اور نے بھی ان سے پہلے کہی تھی؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ میں نے (اپنے دل میں) یہ کہا تھا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہوا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ پس میں نے (اپنے دل میں) کہا تھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک (اقتدار حاصل کرنا) چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انھوں نے جو یہ بات (نبوت کا دعویٰ) کہی ہے، کہیں تم ان پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ تو تم نے کہا کہ نہیں۔ پس (اب) میں یقیناً جانتا ہوں کہ (کوئی شخص) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں سے تو جھوٹ بولنا (غلط بیانی) چھوڑ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے (بااثر) لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے اور (دراصل) تمام پیغمبر کے پیرو یہی لوگ (ہوتے رہے) ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم؟ تو تم نے بیان کیا کہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور (درحقیقت) ایمان کا یہی حال (ہوتا) ہے تاوقتیکہ کمال کو پہنچ جائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے ناخوش ہو کہ (دین سے) پھر بھی جاتا ہے؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں! اور ایمان (کا حال) ایسا ہی ہے جب اس کی بشاشت دلوں میں رچ بس جائے (تو پھر نہیں نکلتی) اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں! اور (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو نیز تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز (پڑھنے) سچ بولنے اور پرہیزگاری (اختیار کرنے) کا حکم دیتے ہیں پس اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بیشک میں (کتب سابقہ کی پیش گوئی سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔ پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام و سعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقیناً میں ان کے قدموں کو دھوتا۔ پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (مقدس) خط، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا دحیہ کلبی کے ہمراہ امیر بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور امیر بصریٰ نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، منگوایا (اور اس کو پڑھوایا) تو اس میں (یہ مضمون) تھا۔ ”اللہ نہایت مہربان رحم والے کے نام سے“ (یہ خط ہے) اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بعد اس کے (واضح ہو کہ) میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام لاؤ گے تو (قہر الہٰی سے) بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا ثواب دوگنا دے گا اور اگر تم (میری دعوت سے) سے منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری) تمام رعیت کے (ایمان نہ لانے) کا گناہ ہو گا اور ”اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو سوائے اللہ کے پروردگار بنائے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دینا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم تو اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں“۔ (آل عمران: 64) ابوسفیان کہتے ہیں کہ ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا، کہہ چکا اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں بہت ہی شور ہونے لگا۔ آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے) نکال دیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا، جب کہ ہم سب باہر کر دیے گئے، کہ (دیکھو تو) ابوکبثہ کے بیٹے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ و رتبہ ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنو اصفر (روم) کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے۔ پس ہمیشہ میں اس کا یقین رکھتا رہا کہ وہ عنقریب غالب ہو جائیں گے یہاں تک کہ اللہ نے مجھ کو مشرف بہ اسلام کر دیا۔ فرمایا اور ابن ناطور جو ایلیاء کا حاکم، ہرقل کا مصاحب اور شام کے عیسائیوں کا پیر پادری ہے، وہ بیان کرتا ہے کہ ہرقل جب ایلیاء میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر اٹھا تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہمیں (اس وقت) آپ کی حالت کچھ اچھی دکھائی نہیں دیتی۔ ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کاہن تھا، علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا، تو اس نے اپنے خواص سے، جب کہ انھوں نے پوچھا یہ کہا کہ میں نے رات کو جب ستاروں میں نظر کی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہو گیا تو (دیکھو کہ) اس دور کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں (حاکموں کو) لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کر دیے جائیں۔ پس وہ لوگ اپنی اسی منصوبہ بندی میں تھے کہ ہرقل کے پاس آدمی لایا گیا جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر بیان کرتا تھا سو جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی تو (اپنے لوگوں سے) کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے یا نہیں؟ لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے۔ اور ہرقل نے اس سے اہل عرب کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) اس دور کے لوگوں کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو گیا۔ پھر ہرقل نے اپنے دوست کو رومیہ (یہ حال) لکھ بھیجا وہ علم (نجوم) میں اسی کا ہم پلہ تھا اور (یہ لکھ کر) ہرقل حمص کی طرف چلا گیا۔ پھر حمص سے باہر بھی نہیں جانے پایا تھا کہ اس کے دوست کا خط (اس کے جواب میں) آ گیا۔ وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور یہ (اس نے لکھا تھا) کہ وہ نبی ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے سرداران روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر دیے جائیں، تو وہ بند کر دیے گئے، پھر ہرقل (اپنے بالاخانے) نمودار ہوا اور کہا کہ اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ) تمہارا بھی ہے؟ اور (تمہیں) یہ منظور ہے) کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو) تو اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لو۔ تو (اس کے سنتے ہی) وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے، کواڑوں کو بند پایا۔ بالآخر جب ہرقل نے (اس درجے) ان کی نفرت دیکھی اور (ان کے) ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس واپس لاؤ اور (جب وہ آئے تو ان سے) کہا کہ میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا (مقصود) تھا اور وہ مجھے معلوم ہو گئی۔ پس لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔