-" إن امة من بني إسرائيل مسخت، وانا اخشى ان تكون هذه. يعني الضباب".-" إن أمة من بني إسرائيل مسخت، وأنا أخشى أن تكون هذه. يعني الضباب".
سیدنا عبدالرحمٰن بن حسنہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، سانڈے ہمارے ہاتھ لگ گئے، (ان کو پکانا شروع کیا گیا اور) ہنڈیاں ابل رہی تھیں، اسی اثنا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو اسرائیل کی ایک امت کی شکلیں مسخ ہو گئی تھی اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ جانور وہی ہو گا۔“ یہ سن کر ہم نے ہنڈیاں انڈیل دیں، حالانکہ ہم بھوکے تھے۔
-" إن الله تبارك وتعالى قبض قبضة بيمينه فقال: هذه لهذه ولا ابالي وقبض قبضة اخرى، يعني: بيده الاخرى، فقال: هذه لهذه ولا ابالي".-" إن الله تبارك وتعالى قبض قبضة بيمينه فقال: هذه لهذه ولا أبالي وقبض قبضة أخرى، يعني: بيده الأخرى، فقال: هذه لهذه ولا أبالي".
ابونضرہ کہتے ہیں: ایک صحابی بیمار ہو گئے، اس کے ساتھی اس کی تیماری داری کرنے کے لیے اس کے پاس گئے، وہ رونے لگ گیا۔ اس سے پوچھا گیا: اللہ کے بندے! کیوں رو رہے ہو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے یہ نہیں کہا تھا کہ ”اپنی مونچھیں کاٹ دو اور پھر اسی چیز پر برقرار رہنا، یہاں تک کہ مجھے آ ملو۔“؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی یہ بشارت مجھے دی تھی) لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے دائیں ہاتھ سے (اپنے بندوں کی) کی ایک مٹھی بھری اور فرمایا کہ اس مٹھی والے (جنت) کے لیے ہیں اور مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے، پھر دوسرے ہاتھ سے دوسری مٹھی بھری اور فرمایا کہ اس مٹھی والے (جہنم) کے لیے ہیں اور میں کسی کی کوئی پروا نہیں کرتا۔“ ( میرے رونے کی وجہ یہ فکر ہے کہ) میں یہ نہیں جانتا کہ میں کس مٹھی میں ہوں گا۔
-" إن الله عز وجل قبض قبضة فقال: في الجنة برحمتي، وقبض قبضة فقال: في النار ولا ابالي".-" إن الله عز وجل قبض قبضة فقال: في الجنة برحمتي، وقبض قبضة فقال: في النار ولا أبالي".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے ایک مٹھی بھری اور فرمایا: یہ میری رحمت سے جنت میں ہوں گے اور دوسری مٹھی بھری اور فرمایا: یہ جہنم میں ہوں گے اور میں کوئی پروا نہیں کرتا۔“
-" إن الله حين خلق الخلق كتب بيده على نفسه: إن رحمتي تغلب غضبي".-" إن الله حين خلق الخلق كتب بيده على نفسه: إن رحمتي تغلب غضبي".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا تو اپنے ہاتھ سے اپنے بارے میں لکھا کہ بیشک میری رحمت، میرے غضب پر غالب آ جاتی ہے۔“
-" إن صاحب الشمال ليرفع القلم ست ساعات عن العبد المسلم المخطئ او المسيء، فإن ندم واستغفر الله منها القاها وإلا كتب واحدة".-" إن صاحب الشمال ليرفع القلم ست ساعات عن العبد المسلم المخطئ أو المسيء، فإن ندم واستغفر الله منها ألقاها وإلا كتب واحدة".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائیں طرف والا فرشتہ (جو برائیاں لکھتا ہے) چھ گھڑیوں تک غلطی کرنے والے مسلمان بندے کی غلطی لکھنے سے اپنا قلم روکے رکھتا ہے، اگر (اس وقت کے اندر اندر ایسا مسلمان) پچھتا کر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنا شروع کر دے تو وہ قلم رکھ دیتا ہے (یعنی وہ گناہ سرے سے نہیں لکھا جاتا اور اگر اتنے وقت میں بھی اسے ندامت کا موقع نہ ملے تو) وہ ایک برائی لکھ لیتا ہے۔“
-" إن الشيطان قال: وعزتك يا رب لا ابرح اغوي عبادك ما دامت ارواحهم في اجسادهم فقال الرب تبارك وتعالى: وعزتي وجلالي: لا ازال اغفر لهم ما استغفروني".-" إن الشيطان قال: وعزتك يا رب لا أبرح أغوي عبادك ما دامت أرواحهم في أجسادهم فقال الرب تبارك وتعالى: وعزتي وجلالي: لا أزال أغفر لهم ما استغفروني".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک شیطان نے کہا تھا: اے میرے ربّ! تیری عزت کی قسم! جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی، میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا اور رب تبارک و تعالیٰ نے اس کے جواب میں کہا: مجھے میری عزت اور میرے جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے تو میں ان کو معاف کرتا رہوں گا۔“
-" إن الشيطان قد ايس ان يعبد بارضكم هذه، ولكنه قد رضي منكم بما تحقرون".-" إن الشيطان قد أيس أن يعبد بأرضكم هذه، ولكنه قد رضي منكم بما تحقرون".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک شیطان اس بات سے ناامید ہو چکا ہے کہ تمہاری سر زمین ( جزیرہ عرب) میں اس کی عبادت ہو سکے، لیکن (جن برائیوں کو) تم لوگ حقیر سمجھتے ہو وہ تم سے ان کا ارتکاب کروا کر ہی راضی ہوتا رہے گا۔“
-" إن الله خلق آدم من قبضة قبضها من جميع الارض، فجاء بنو آدم على قدر الارض، جاء منهم الاحمر والابيض والاسود، وبين ذلك، والسهل والحزن، والخبيث والطيب".-" إن الله خلق آدم من قبضة قبضها من جميع الأرض، فجاء بنو آدم على قدر الأرض، جاء منهم الأحمر والأبيض والأسود، وبين ذلك، والسهل والحزن، والخبيث والطيب".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے ساری زمین سے ایک مٹھی بھری اور اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، یہی وجہ ہے کہ اولاد آدم زمین کی مٹی کی نوعیت کے مطابق پیدا ہوئے ہیں، یعنی کوئی سرخ ہے، کوئی سفید ہے، کوئی سیاہ ہے اور کسی کی رنگتیں ان کے درمیان درمیان ہیں اور کوئی نرم ہے، کوئی سخت ہے، کوئی خبیث ہے اور کوئی طیب ہے۔“
-" إن الله خلق خلقه في ظلمة والقى عليهم من-" إن الله خلق خلقه في ظلمة وألقى عليهم من
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا اور پھر اس پر اپنا نور ڈالا، جس کو وہ نور نصیب ہوا وہ ہدایت پا گیا اور جس سے تجاوز کر گیا، وہ گمراہ ہو گیا۔“ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جو کچھ ہونے والا ہے، قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے۔
-" إن الله عز وجل خلق آدم، ثم اخذ الخلق من ظهره وقال: هؤلاء إلى الجنة ولا ابالي وهؤلاء إلى النار ولا ابالي، فقال قائل: يا رسول الله فعلى ماذا نعمل؟ قال: على مواقع القدر".-" إن الله عز وجل خلق آدم، ثم أخذ الخلق من ظهره وقال: هؤلاء إلى الجنة ولا أبالي وهؤلاء إلى النار ولا أبالي، فقال قائل: يا رسول الله فعلى ماذا نعمل؟ قال: على مواقع القدر".
سیدنا عبدالرحمٰن بن قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ اسلام کو پیدا کیا پھر ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: یہ جنت کے لیے ہیں اور میں بے پروا ہوں اور یہ جہنم کے لیے ہیں اور میں کوئی پروا نہیں کرتا۔“ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تقدیر کے مطابق۔ “