-" اخروا الاحمال (على الإبل) فإن اليد معلقة، والرجل موثقة".-" أخروا الأحمال (على الإبل) فإن اليد معلقة، والرجل موثقة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹوں سے بوجھ اتار دیا کرو، کیونکہ (اس حالت میں) ان کے ہاتھ بھی بندھے ہوتے ہیں اور ٹانگیں بھی بندھی ہوتی ہیں۔“
-" إذا سرتم في ارض خصبة، فاعطوا الدواب حقها او حظها، وإذا سرتم في ارض جدبة فانجوا عليها، وعليكم بالدلجة، فإن الارض تطوى بالليل، وإذا عرستم، فلا تعرسوا على قارعة الطريق فإنها ماوى كل دابة".-" إذا سرتم في أرض خصبة، فأعطوا الدواب حقها أو حظها، وإذا سرتم في أرض جدبة فانجوا عليها، وعليكم بالدلجة، فإن الأرض تطوى بالليل، وإذا عرستم، فلا تعرسوا على قارعة الطريق فإنها مأوى كل دابة".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سبزہ زاروں میں سفر کر رہے ہو تو جانوروں کو ان کا حق دیا کرو (یعنی ان کو چرنے دیا کرو) اور جب قحط زدہ زمین سے گزر ہو رہا ہو تو تیز چلا کرو اور رات کو سفر کیا کرو کیونکہ رات میں زمین کی مسافت مختصر ہو جاتی ہے۔ جب تم کہیں پڑاؤ ڈالو تو وسط راہ میں ڈیرہ مت لگایا کرو، کیونکہ (ایسے مقامات رات کو) ہر قسم کے جانوروں کا ٹھکانہ ہوتے ہیں۔“
-" بينما رجل يمشي بطريق، إذ اشتد عليه العطش، فوجد بئرا فنزل فيها فشرب وخرج فإذا كلب يلهث ياكل الثرى من العطش، فقال الرجل: لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي بلغ مني، فنزل البئر فملا خفه، ثم امسكه بفيه حتى رقي فسقى الكلب فشكر الله له، فغفر له، فقالوا: يا رسول الله وإن لنا في البهائم لاجرا؟ فقال: في كل ذات كبد رطبة اجر".-" بينما رجل يمشي بطريق، إذ اشتد عليه العطش، فوجد بئرا فنزل فيها فشرب وخرج فإذا كلب يلهث يأكل الثرى من العطش، فقال الرجل: لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي بلغ مني، فنزل البئر فملأ خفه، ثم أمسكه بفيه حتى رقي فسقى الكلب فشكر الله له، فغفر له، فقالوا: يا رسول الله وإن لنا في البهائم لأجرا؟ فقال: في كل ذات كبد رطبة أجر".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ایک دفعہ کا ذکر ہے کے) ایک آدمی راستے پرچلا جا رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی، اس نے ایک کنواں پایا، پس اس میں اتر کر اس نے پانی پیا، پھر باہر نکل آیا، وہیں ایک کتا تھا جو پیاس کے مارے زبان باہر نکالے (ہانپتے ہوئے) کیچڑ چاٹ رہا تھا، پس اس آدمی نے (دل میں) کہا: کہ اس کتے کو بھی اسی طرح پیاس نے ستایا ہے جس طرح میں اس کی شدت سے بے حال ہو گیا تھا، چنانچہ وہ (دوبارہ) کنویں میں اترا اور اپنا موزہ پانی سے بھرا اور اسے اپنے منہ سے پکڑ کر اوپر چڑھ آیا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل اور جذبے کی قدر کی اور اسے معاف کر دیا۔ (یہ سن کر) صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے لیے چوپایوں (پر ترس کھانے) میں بھی اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ہاں) ہر تر جگر والے (جاندار کی خدمت اور دیکھ بھال) میں اجر ہے۔“
-" بينما كلب يطيف بركية قد كاد يقتله العطش، إذ راته بغي من بغايا بني إسرائيل فنزعت موقها، فاستقت له به فسقته إياه، فغفر لها به".-" بينما كلب يطيف بركية قد كاد يقتله العطش، إذ رأته بغي من بغايا بني إسرائيل فنزعت موقها، فاستقت له به فسقته إياه، فغفر لها به".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک وقت ایک کتا کنویں کے گرد چکر لگا رہا تھا، اسے پیاس مارے دے رہی تھی، اچانک اسے بنی اسرائیل کی فاحشہ عورتوں میں سے ایک بدکار عورت نے دیکھا، بس اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس کے ذریعے سے اس نے اس کے لیے (کنویں سے) پانی کھینچا اور اسے پلا دیا، پس اس کے اس عمل کی وجہ سے اسے بخش دیا گیا۔“
-" عذبت امراة في هرة سجنتها حتى ماتت، فدخلت فيها النار، لا هي اطعمتها وسقتها إذ حبستها ولا هي تركتها تاكل من خشاش الارض".-" عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت، فدخلت فيها النار، لا هي أطعمتها وسقتها إذ حبستها ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا، اس نے اسے قید کر دیا تھا حتی کہ وہ مر گئی، پس وہ اس کی وجہ سے جہنم میں داخل ہو گئی۔ نہ اس نے اسے کھلایا نہ پلایا جب کہ اس نے اسے قید کر رکھا تھا اور نہ اسے اس نے چھوڑا کہ وہ خود زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔“
-" لا تسموا بالحريق. يعني في الوجه".-" لا تسموا بالحريق. يعني في الوجه".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اونٹ پر جا رہے تھے، انہوں نے اس اونٹ کے چہرے کو داغ کر خاص نشان ڈالا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عباس! یہ کون سی علامت ہے؟“ انہوں نے کہا: ہم جاہلیت میں یہ علامت لگاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”داغ کر علامت نہ لگایا کرو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد چہرے پر داغنے سے منع کرنا تھا۔
-" لا تصحب الملائكة ركبا معهم جلجل".-" لا تصحب الملائكة ركبا معهم جلجل".
ابوبکر بن موسی کہتے ہیں کہ میں سالم بن عبداللہ بن عمر کے ساتھ تھا، ام البنین کا ایک قافلہ گزرا، اس سے گھنٹیوں کی آواز آ رہی تھی۔ سالم نے اپنے باپ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے اس قافلے کے ساتھ نہیں ہوتے جس میں گھونگرو (اور چھوٹی گھنٹیاں) ہوں۔“ ان لوگوں (کے قافلے) میں بہت سارے گھونگرو ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے اور وہ مسجد میں باآواز بلند اشعار پڑھ رہے تھے، انہوں نے اسے گھورا، لیکن انہوں نے کہا: میں مسجد میں اس وقت بھی اشعار پڑھتا تھا، جب تجھ سے بہتر ہستی (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) مسجد میں موجود ہوتی تھی۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: میں تجھے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”(حسان!) تم میری طرف سے (اشعار کی صورت میں) جواب دو۔ اے اللہ! روح القدس کے ذریعے اس کی مدد فرما۔“
- (يا ابن رواحة! انزل، فحرك الركاب).- (يا ابن رواحة! انزل، فَحَرِّكِ الرِّكاب).
سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”ابن رواحہ! نیچے اترو اور سواریوں کو بھگاؤ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں تو یہ کام ترک کر چکا ہوں۔ (یہ سن کر) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: سن اور اطاعت کر۔ اس نے اپنے آپ کو نیچے گرا دیا اور کہا: اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم نہ ہدایت پاتے، نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے ہم پر سکینت نازل کر دے اور جب (دشمنوں) سے آمنا سامنا ہو جائے تو قدموں کو ثابت قدم رکھنا۔
- (يا ام سليم! إن الله عز وجل قد كفانا واحسن).- (يا أمّ سُليمٍ! إنّ الله عزّ وجلّ قد كفانا وأحسن).
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حنین والے دن ام سلیم، ابوطلحہ کے ساتھ تھیں، ام سلیم کے پاس ایک خنجر بھی تھا، ابوطلحہ نے پوچھا: ام سلیم! یہ تیرے پاس کیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے یہ اٹھایا ہوا ہے کہ اگر کوئی کافر میرے قریب ہوا تو میں اس کا پیٹ پھاڑ کر آنتیں نکال دوں گی۔ ابوطلحہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا آپ ام سلیم کی بات سن رہے ہیں؟ وہ ایسے ایسے کہہ رہی ہے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب وہ شکست کھا کر بے مہارے بنیں گے تو میں ان کو قتل کر دوں گی۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام سلیم! بیشک اللہ عزوجل نے ہمیں کفایت کیا ہے اور بہت خوب کیا ہے۔“