- (إن تطعنوا في إمارته - يريد اسامة بن زيد-؛ فقد طعنتم في إمارة ابيه من قبله، وايم الله! إن كان لخليقا لها، وايم الله! إن كان لاحب الناس إلي، وايم الله! إن هذا لخليقا لها- يريد اسامة بن زيد- وايم الله! إن كان لاحبهم إلي من بعده؛ فاوصيكم به؛ فإنه من صالحيكم).- (إن تَطعنوا في إمارتِه - يريدُ أسامةَ بنَ زيدٍ-؛ فقدْ طعنتُم في إمارةِ أبيه من قبْلِه، وايْمُ اللهِ! إنّ كان لَخليقاً لها، وايم اللهِ! إنْ كان لأحبَّ الناسِ إليَّ، وايمُ اللهِ! إنّ هذا لَخليقاً لها- يريد أسامةَ بن زيدٍ- وايْمُ اللهِ! إنْ كان لأحبَّهم إليَّ من بعدِه؛ فأُوصِيكم به؛ فإنه من صَالحيكم).
سالم بن عبداللہ اپنے باپ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا: ”اگر تم اس (اسامہ بن زید) کی امارت پر تنقید کرتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم نے اس سے پہلے اس کے باپ کی امارت پر بھی طنز کیا ہے۔ اللہ کی قسم! وہ (زید) تو اسی (عہدے) کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ اللہ کی قسم! وہ لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ اللہ کی قسم! یہ (اسامہ) اسی (امارت) کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ کی قسم! یہ زید کے بعد مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ میں تمہیں اس کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، وہ تو تمہارے نیکو کار لوگوں میں سے ہے۔“
-" ليوشك رجل ان يتمنى انه خر من الثريا، ولم يل من امر الناس شيئا".-" ليوشك رجل أن يتمنى أنه خر من الثريا، ولم يل من أمر الناس شيئا".
یزید بن شریک کہتے ہیں کہ ضحاک بن قیس نے اس زیبائش کا کپڑا دے کر مروان کے پاس بھیجا۔ مروان نے چوکیدار سے کہا: دیکھو، دروازے پر کون ہے؟ اس نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی اور کہا: ابوہریرہ! رسول اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث بیان کرو۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”عنقریب آدمی یہ تمنا کرے گا کہ اگر وہ ثریا ستارے سے گر پڑے (تو کوئی بات نہیں، لیکن کہیں) ایسا نہ ہو کہ اسے لوگوں کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا دیا جائے۔“
-" إن شئتم انباتكم عن الإمارة وما هي؟ اولها ملامة وثانيها ندامة وثالثها عذاب يوم القيامة، إلا من عدل، فكيف يعدل مع اقربيه؟".-" إن شئتم أنبأتكم عن الإمارة وما هي؟ أولها ملامة وثانيها ندامة وثالثها عذاب يوم القيامة، إلا من عدل، فكيف يعدل مع أقربيه؟".
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہتے ہو تو میں تم پر امارت کی حقیقت واضح کر دیتا ہوں کہ یہ ہے کیا؟ سب سے پہلے ملامت ہوتی ہے، اس کے بعد ندامت ہوتی ہے اور آخر میں روز قیامت عذاب ہوتا ہے، مگر وہ جس نے عدل و انصا ف کیا، بھلا کون ہے جو اپنے قرابتداروں کے سا تھ انصاف والا معاملہ کر سکے گا۔
-" إنكم ستحرصون على الإمارة وستكون ندامة [وحسرة] يوم القيامة، فنعم المرضعة وبئست الفاطمة".-" إنكم ستحرصون على الإمارة وستكون ندامة [وحسرة] يوم القيامة، فنعم المرضعة وبئست الفاطمة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یقیناً حکومت اور امارت کی حرص کرو گے (لیکن یاد رکھو کہ) یہ قیامت والے دن ندامت اور حسرت (کا باعث) ہو گی، دودھ پلانے والی تو بڑی اچھی ہوتی ہے لیکن دودھ چھڑانے والی بڑی بری ہوتی ہے (یعنی امارت کے آغاز میں تو سکون ملتا ہے لیکن اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا)۔“
-" ما من رجل يلي امر عشرة فما فوق ذلك إلا اتى الله عز وجل مغلولا يوم القيامة يده إلى عنقه فكه بره او اوبقه إثمه، اولها ملامة واوسطها ندامة وآخرها خزى يوم القيامة".-" ما من رجل يلي أمر عشرة فما فوق ذلك إلا أتى الله عز وجل مغلولا يوم القيامة يده إلى عنقه فكه بره أو أوبقه إثمه، أولها ملامة وأوسطها ندامة وآخرها خزى يوم القيامة".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی دس افراد کے معاملات کی ذمہ داری سنبھالتا ہے، وہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کے پاس اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن تک جکڑے ہوں گے۔ اس کی نیکی اس کو آزاد کرائے گی یا اس کی برائی اس کو ہلاک کر دے گی۔ (اس امارت) کی ابتدا میں ملامت، درمیان میں ندامت اور آخر میں یعنی قیامت کے روز رسوائی ہوتی ہے۔“
حسن سے روایت ہے کہ سیدنا عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ، جو صحابی رسول تھے، عبداللہ بن زیاد کے پاس گئے اور کہا: میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بدترین حاکم وہ ہے جو ظالم ہو۔“ بچ کر رہنا، کہیں تو بھی ان میں سے نہ ہو جائے۔ اس نے کہا: بیٹھ جا، تو ردی قسم کے صحابہ میں سے ہے۔ انہوں نے کہا: کیا صحابہ کرام میں بھی ردی لوگ تھے؟ گٹھیا قسم کے لوگ تو صحابہ کے بعد والوں اور غیروں میں پائے جاتے ہیں۔
-" دفن في الطينة التي خلق منها".-" دفن في الطينة التي خلق منها".
سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھر، جس میں چند قریشی بیٹھے تھے، کے دروازے پر تشریف لائے، دروازے کی چوکھٹ پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور پوچھا: ”آیا گھر میں صرف قریشی ہیں؟“ کہا: گیا: اے اللہ کے رسول! (ہم سب قریشی ہیں البتہ) ہمارا بھانجا بھی موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قوم کا بھانجا تو ان میں سے ہی ہوتا ہے۔“ پھر فرمایا: ”یہ (امارت کا) معاملہ اس وقت تک قریشیوں میں رہے گا جب تک وہ رحم کی درخواست پر رحم کرتے رہیں گے، عدل کے ساتھ فیصلے کرتے رہیں گے اور تقسیم کے وقت انصاف کرتے رہیں گے، جو ایسا نہیں کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو گی، اس کی فرضی عبادت قبول ہو گی نہ نفلی۔“
-" اما بعد يا معشر قريش! فإنكم اهل هذا الامر ما لم تعصوا الله، فإذا عصيتموه بعث إليكم من يلحاكم كما يلحى هذا القضيب - لقضيب في يده".-" أما بعد يا معشر قريش! فإنكم أهل هذا الأمر ما لم تعصوا الله، فإذا عصيتموه بعث إليكم من يلحاكم كما يلحى هذا القضيب - لقضيب في يده".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم تقریبا قریش کے اسی (۸۰) آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، تمام کے تمام قریشی تھے۔ اللہ کی قسم! اس دن یہ لوگ بہت خوبصورت نظر آ رہے تھے، انہوں نے عورتوں کا ذکر کیا، ان کے بارے میں باتیں کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ گفتگو کرتے رہے (اور اتنا زیادہ کلام کیا کہ) میں نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جائیں۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے خطبہ شہادت پڑھا اور فرمایا: ”حمد و صلوٰۃ کے بعد (میں یہ کہوں گا کہ) قریشیو! تم لوگ اس (امارت) کے مستحق ہو، جب تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرو گے، اگر تم نے نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھیجے گا جو تمہاری چمڑی ادھیڑ دیں گے، جس طرح اس شاخ (جو آپ کے ہاتھ میں تھی) کا چھلکا اتار لیا جاتا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شاخ کا چھلکا اتارا، (جس کی وجہ سے) وہ اچانک سفید اور سخت نظر آنے لگی۔
-" إن هذا الامر في قريش لا يعاديهم احد إلا كبه الله على وجهه ما اقاموا الدين".-" إن هذا الأمر في قريش لا يعاديهم أحد إلا كبه الله على وجهه ما أقاموا الدين".
امام زہری کہتے ہیں کہ محمد بن جبیر بن مطعم ایک قریشی وفد میں شریک سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ انہوں نے ان کو یہ بات پہنچائی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی کہ عنقریب قحطان کا ایک بادشاہ ہو گا۔ وہ غصے میں آ گئے، کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بعض لوگ ایسی باتیں بیان کرتے ہیں، جو نہ تو اللہ کی کتاب میں پائی جاتی ہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوتی ہیں۔ یہ لوگ پرلے درجے کے جاہل ہیں۔ اس قسم کی خواہشات سے بچو جو خواہش پرستوں کو گمراہ کر دیتی ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”یہ (امارت والا) معاملہ قریشیوں میں رہے گا، جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے، ان سے دشمنی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ منہ کے بل گرا دے گا۔“
-" لا يزال هذا الامر في قريش ما بقي من الناس اثنان".-" لا يزال هذا الأمر في قريش ما بقي من الناس اثنان".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک دو آدمی بھی باقی رہیں گے، یہ (امارت والا) معاملہ قریش میں رہے گا۔“