حدثنا قتيبة بن سعيد قال: حدثنا الليث، عن ابن ابي مليكة، عن يعلى بن مملك انه سال ام سلمة، عن قراءة رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هي تنعت «قراءة مفسرة حرفا حرفا» حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعَلَى بْنِ مَمْلَكٍ أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ، عَنْ قِرَاءَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ «قِرَاءَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا»
یعلی بن مملک فرماتے ہیں، میں نے ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے متعلق سوال کیا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراۃ کھول کھول کر ایک ایک حرف بیان کرنے لگیں۔
تخریج الحدیث: «حسن» : «(سنن ترمذي: 2923، وقال: حسن صحيح غريب)، سنن ابي داود (1466)، صحيح ابن خزيمه (1158)» فائدہ: یعلی بن مملک کو ترمذی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے ثقہ قرار دیا، لہٰذا وہ صدوق حسن الحدیث تھے اور ان تک سند صحیح ہے۔
حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا وهب بن جرير بن حازم قال: حدثنا ابي، عن قتادة، قال: قلت لانس بن مالك: كيف كانت قراءة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: «مدا» حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: «مَدًّا»
امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کس طرح ہوا کرتی تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت حروف و الفاظ کو بڑھا کر لمبا کر کے ہوا کرتی تھی۔
حدثنا علي بن حجر قال: حدثنا يحيى بن سعيد الاموي، عن ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، عن ام سلمة، قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يقطع قراءته يقول: {الحمد لله رب العالمين} [الفاتحة: 2] ثم يقف، ثم يقول: {الرحمن الرحيم} [الفاتحة: 1] ثم يقف، وكان يقرا (ملك يوم الدين)حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْطَعُ قِرَاءَتَهُ يَقُولُ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الفاتحة: 2] ثُمَّ يَقِفُ، ثُمَّ يَقُولُ: {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1] ثُمَّ يَقِفُ، وَكَانَ يَقْرَأُ (مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ)
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرأت کرتے وقت ہر آیت پر وقف فرماتے تھے۔ «الحمد لله رب العالمين» پڑھتے تو وقف فرماتے۔ «الرحمن الرحيم» پڑھتے تو وقف فرماتے اور «مالك يوم الدين»(بغیر الف کے مَلِکِ) پڑھتے۔
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف والحديث حسن» : «(سنن ترمذي: 2927، وقال: غريب)، مسند احمد (302/6 ح 27118)، وصححه ابن خزيمه (493، والحاكم علٰي شرط الشيخين (232/2) ووافقه الذهبي.» روایتِ مذکورہ کی سند میں امام عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج المکی رحمہ اللہ مدلس ہیں اور سندعن سے ہے۔ مسند احمد میں بعض ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ اُن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے خوش الحانی اور حروف کی صحیح ادائیگی کے ساتھ قراءت کی۔ ابن ابی ملیکہ (تابعی) نے فرمایا: «الحمدلله رب العالمين» . پھر ٹھہر گئے۔ «الرحمٰن الرحيم» ۔ پھر ٹھہر گئے۔ «مٰلك يوم الدين» (ج 6 ص 288 ح 26471 وسندہ صحیح) اس حدیث کے ساتھ درج بالا حدیث بھی حسن ہے۔ واللہ اعلم
حدثنا قتيبة قال: حدثنا الليث، عن معاوية بن صالح، عن عبد الله بن ابي قيس قال: سالت عائشة، عن قراءة النبي صلى الله عليه وسلم اكان يسر بالقراءة ام يجهر؟ قالت: «كل ذلك قد كان يفعل قد كان ربما اسر وربما جهر» . فقلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعةحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْهَرُ؟ قَالَتْ: «كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ قَدْ كَانَ رُبَّمَا أَسَرَّ وَرُبَّمَا جَهَرَ» . فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً
عبداللہ بن ابی قیس فرماتے ہیں، میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے بارے میں سوال کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم (رات کی نماز میں) قراءت مخفی کرتے تھے یا بلند آواز سے کرتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں طرح قراءت کرتے تھے۔ کبھی پوشیدہ آواز میں قراءت کرتے اور کبھی بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ہے کہ اس نے دین کے معاملہ میں بڑی وسعت اور کشادگی فرمائی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «(سنن ترمذي: 449، وقال: صحيح غريب)، سنن ابي داود (1437)، وصححه ابن خزيمة (1160) والحاكم عليٰ شرط مسلم (310/1) ووافقه الذهبي، واصله فى صحيح مسلم (307)»
حدثنا محمود بن غيلان قال: حدثنا وكيع قال: حدثنا مسعر، عن ابي العلاء العبدي، عن يحيى بن جعدة، عن ام هانئ، قالت: «كنت اسمع قراءة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل وانا على عريشي» حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ الْعَبْدِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، قَالَتْ: «كُنْتُ أَسْمَعُ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ وَأَنَا عَلَى عَرِيشِي»
سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے گھر کی چھت پر رات کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت سنتی تھی۔
تخریج الحدیث: «حسن» : «سنن ابن ماجه (1349)»
حدثنا محمود بن غيلان قال: حدثنا ابو داود قال: حدثنا شعبة، عن معاوية بن قرة قال: سمعت عبد الله بن مغفل يقول:" رايت النبي صلى الله عليه وسلم على ناقته يوم الفتح وهو يقرا: {إنا فتحنا لك فتحا مبينا ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تاخر} [الفتح: 2]". قال: «فقرا ورجع» قال: وقال معاوية بن قرة: «لولا ان يجتمع الناس علي لاخذت لكم في ذلك الصوت» او قال: «اللحن» حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ يَقُولُ:" رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَتِهِ يَوْمَ الْفَتْحِ وَهُوَ يَقْرَأُ: {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ} [الفتح: 2]". قَالَ: «فَقَرَأَ وَرَجَّعَ» قَالَ: وَقَالَ مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ: «لَوْلَا أَنْ يَجْتَمِعَ النَّاسُ عَلَيَّ لَأَخَذْتُ لَكُمْ فِي ذَلِكَ الصَّوْتِ» أَوْ قَالَ: «اللَّحْنِ»
معاویہ بن قرۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، میں نے سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے یہ پڑھتے ہوئے سنا: «إنا فتحنا لك فتحا مبينا ٭ ليغفر لك الله ما تقدم من ذبنك وما تاخر» آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیات دھرا دھرا کر پڑھ رہے تھے۔ معاویہ بن قرۃ کہتے ہیں، اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ لوگ میرے اردگرد جمع ہو جائیں گے، تو میں اسی طرح تم کو قرأت اور تجوید و تحسین سے پڑھ کر سناتا۔
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «صحيح بخاري (4281)، صحيح مسلم (794)»
حدثنا قتيبة بن سعيد قال: حدثنا نوح بن قيس الحداني، عن حسام بن مصك، عن قتادة قال: «ما بعث الله نبيا إلا حسن الوجه، حسن الصوت، وكان نبيكم صلى الله عليه وسلم حسن الوجه، حسن الصوت، وكان لا يرجع» حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ الْحُدَّانِيُّ، عَنْ حُسَامِ بْنِ مِصَكٍّ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: «مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا حَسَنَ الْوَجْهِ، حَسَنَ الصَّوْتِ، وَكَانَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَسَنَ الْوَجْهِ، حَسَنَ الصَّوْتِ، وَكَانَ لَا يُرَجِّعُ»
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو خوبصورت چہرہ اور خوش کن آواز دے کر بھیجا ہے، تمہارے نبی بڑے خوبصورت چہرے اور خوش کُن آواز والے تھے، لیکن وہ قراءت گانے کے انداز میں نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : اس روایت کی سند حسام بن مصک کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا: «ضعيف يكاد أن يترك» وہ ضعیف ہے اور قریب ہے کہ متروک ہو جاتا۔ [تقريب التهذيب: 1193]
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن قال: حدثنا يحيى بن حسان قال: حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن عمرو بن ابي عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: «كانت قراءة النبي صلى الله عليه وسلم ربما يسمعها من في الحجرة وهو في البيت» حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُبَّمَا يَسْمَعُهَا مَنْ فِي الْحُجْرَةِ وَهُوَ فِي الْبَيْتِ»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات ایسے ہوتی کہ آپ گھر میں تلاوت کرتے تو صحن میں موجود شخص آپ کی آواز سن لیتا۔
تخریج الحدیث: «سنده حسن» : «سنن ابي داود (1327)»