(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، اخبرني سالم، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال:"كنت اعلم في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الارض تكرى، ثم خشي عبد الله ان يكون النبي صلى الله عليه وسلم قد احدث في ذلك شيئا لم يكن يعلمه، فترك كراء الارض".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:"كُنْتُ أَعْلَمُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَرْضَ تُكْرَى، ثُمَّ خَشِيَ عَبْدُ اللَّهِ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَحْدَثَ فِي ذَلِكَ شَيْئًا لَمْ يَكُنْ يَعْلَمُهُ، فَتَرَكَ كِرَاءَ الْأَرْضِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مجھے معلوم تھا کہ زمین کو بٹائی پر دیا جاتا تھا۔ پھر انہیں ڈر ہوا کہ ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کوئی نئی ہدایت فرمائی ہو جس کا علم انہیں نہ ہوا ہو۔ چنانچہ انہوں نے (احتیاطاً) زمین کو بٹائی پر دینا چھوڑ دیا۔
Narrated Salim: `Abdullah bin `Umar said, "I knew that the land was rented for cultivation in the lifetime of Allah's Apostle ." Later on Ibn `Umar was afraid that the Prophet had forbidden it, and he had no knowledge of it, so he gave up renting his land.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 536
وقال ابن عباس: إن امثل ما انتم صانعون، ان تستاجروا الارض البيضاء من السنة إلى السنة.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ أَمْثَلَ مَا أَنْتُمْ صَانِعُونَ، أَنْ تَسْتَأْجِرُوا الْأَرْضَ الْبَيْضَاءَ مِنَ السَّنَةِ إِلَى السَّنَةِ.
اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ بہتر کام جو تم کرنا چاہو یہ ہے کہ اپنی خالی زمین کو ایک سال سے دوسرے سال تک کرایہ پر دو۔
(مرفوع) حدثنا عمرو بن خالد، حدثنا الليث، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن، عن حنظلة بن قيس، عن رافع بن خديج، قال: حدثني عماي،" انهم كانوا يكرون الارض على عهد النبي صلى الله عليه وسلم بما ينبت على الاربعاء او شيء يستثنيه صاحب الارض، فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك". فقلت لرافع: فكيف هي بالدينار والدرهم؟ فقال رافع: ليس بها باس بالدينار والدرهم، وقال الليث: وكان الذي نهي عن ذلك ما لو نظر فيه ذوو الفهم بالحلال والحرام، لم يجيزوه لما فيه من المخاطرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمَّايَ،" أَنَّهُمْ كَانُوا يُكْرُونَ الْأَرْضَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا يَنْبُتُ عَلَى الْأَرْبِعَاءِ أَوْ شَيْءٍ يَسْتَثْنِيهِ صَاحِبُ الْأَرْضِ، فَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ". فَقُلْتُ لِرَافِعٍ: فَكَيْفَ هِيَ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ؟ فَقَالَ رَافِعٌ: لَيْسَ بِهَا بَأْسٌ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ، وَقَالَ اللَّيْثُ: وَكَانَ الَّذِي نُهِيَ عَنْ ذَلِكَ مَا لَوْ نَظَرَ فِيهِ ذَوُو الْفَهْمِ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ، لَمْ يُجِيزُوهُ لِمَا فِيهِ مِنَ الْمُخَاطَرَةِ.
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حنظلہ بن قیس نے بیان کیا، ان سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے چچا (ظہیر اور مہیر رضی اللہ عنہما) نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین کو بٹائی پر نہر (کے قریب کی پیداوار) کی شرط پر دیا کرتے۔ یا کوئی بھی ایسا خطہ ہوتا جسے مالک زمین (اپنے لیے) چھانٹ لیتا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ حنظلہ نے کہا کہ اس پر میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا، اگر درہم و دینار کے بدلے یہ معاملہ کیا جائے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر دینار و درہم کے بدلے میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور لیث نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کی بٹائی سے منع فرمایا تھا، وہ ایسی صورت ہے کہ حلال و حرام کی تمیز رکھنے والا کوئی بھی شخص اسے جائز نہیں قرار دے سکتا۔ کیونکہ اس میں کھلا دھوکہ ہے۔
Narrated Hanzla bin Qais: Rafi` bin Khadij said, "My two uncles told me that they (i.e. the companions of the Prophet) used to rent the land in the lifetime of the Prophet for the yield on the banks of water streams (rivers) or for a portion of the yield stipulated by the owner of the land. The Prophet forbade it." I said to Rafi`, "What about renting the land for Dinars and Dirhams?" He replied, "There is no harm in renting for Dinars- Dirhams. Al-Laith said, "If those who have discernment for distinguishing what is legal from what is illegal looked into what has been forbidden concerning this matter they would not permit it, for it is surrounded with dangers."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 537
(مرفوع) حدثنا عمرو بن خالد، حدثنا الليث، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن، عن حنظلة بن قيس، عن رافع بن خديج، قال: حدثني عماي،" انهم كانوا يكرون الارض على عهد النبي صلى الله عليه وسلم بما ينبت على الاربعاء او شيء يستثنيه صاحب الارض، فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك". فقلت لرافع: فكيف هي بالدينار والدرهم؟ فقال رافع: ليس بها باس بالدينار والدرهم، وقال الليث: وكان الذي نهي عن ذلك ما لو نظر فيه ذوو الفهم بالحلال والحرام، لم يجيزوه لما فيه من المخاطرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمَّايَ،" أَنَّهُمْ كَانُوا يُكْرُونَ الْأَرْضَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا يَنْبُتُ عَلَى الْأَرْبِعَاءِ أَوْ شَيْءٍ يَسْتَثْنِيهِ صَاحِبُ الْأَرْضِ، فَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ". فَقُلْتُ لِرَافِعٍ: فَكَيْفَ هِيَ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ؟ فَقَالَ رَافِعٌ: لَيْسَ بِهَا بَأْسٌ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ، وَقَالَ اللَّيْثُ: وَكَانَ الَّذِي نُهِيَ عَنْ ذَلِكَ مَا لَوْ نَظَرَ فِيهِ ذَوُو الْفَهْمِ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ، لَمْ يُجِيزُوهُ لِمَا فِيهِ مِنَ الْمُخَاطَرَةِ.
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حنظلہ بن قیس نے بیان کیا، ان سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے چچا (ظہیر اور مہیر رضی اللہ عنہما) نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین کو بٹائی پر نہر (کے قریب کی پیداوار) کی شرط پر دیا کرتے۔ یا کوئی بھی ایسا خطہ ہوتا جسے مالک زمین (اپنے لیے) چھانٹ لیتا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ حنظلہ نے کہا کہ اس پر میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا، اگر درہم و دینار کے بدلے یہ معاملہ کیا جائے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر دینار و درہم کے بدلے میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور لیث نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کی بٹائی سے منع فرمایا تھا، وہ ایسی صورت ہے کہ حلال و حرام کی تمیز رکھنے والا کوئی بھی شخص اسے جائز نہیں قرار دے سکتا۔ کیونکہ اس میں کھلا دھوکہ ہے۔
Narrated Hanzla bin Qais: Rafi` bin Khadij said, "My two uncles told me that they (i.e. the companions of the Prophet) used to rent the land in the lifetime of the Prophet for the yield on the banks of water streams (rivers) or for a portion of the yield stipulated by the owner of the land. The Prophet forbade it." I said to Rafi`, "What about renting the land for Dinars and Dirhams?" He replied, "There is no harm in renting for Dinars- Dirhams. Al-Laith said, "If those who have discernment for distinguishing what is legal from what is illegal looked into what has been forbidden concerning this matter they would not permit it, for it is surrounded with dangers."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 537
(قدسي) حدثنا محمد بن سنان، حدثنا فليح، حدثنا هلال. ح وحدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابو عامر، حدثنا فليح، عن هلال بن علي، عن عطاء بن يسار، عن ابي هريرة رضي الله عنه،" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يوما يحدث وعنده رجل من اهل البادية، ان رجلا من اهل الجنة استاذن ربه في الزرع، فقال له: الست فيما شئت؟ قال: بلى، ولكني احب ان ازرع، قال: فبذر، فبادر الطرف نباته واستواؤه واستحصاده، فكان امثال الجبال، فيقول: الله دونك يا ابن آدم، فإنه لا يشبعك شيء، فقال الاعرابي: والله لا تجده إلا قرشيا او انصاريا، فإنهم اصحاب زرع، واما نحن فلسنا باصحاب زرع، فضحك النبي صلى الله عليه وسلم".(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، حَدَّثَنَا هِلَالٌ. ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَوْمًا يُحَدِّثُ وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ فِي الزَّرْعِ، فَقَالَ لَهُ: أَلَسْتَ فِيمَا شِئْتَ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَزْرَعَ، قَالَ: فَبَذَرَ، فَبَادَرَ الطَّرْفَ نَبَاتُهُ وَاسْتِوَاؤُهُ وَاسْتِحْصَادُهُ، فَكَانَ أَمْثَالَ الْجِبَالِ، فَيَقُولُ: اللَّهُ دُونَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، فَإِنَّهُ لَا يُشْبِعُكَ شَيْءٌ، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: وَاللَّهِ لَا تَجِدُهُ إِلَّا قُرَشِيًّا أَوْ أَنْصَارِيًّا، فَإِنَّهُمْ أَصْحَابُ زَرْعٍ، وَأَمَّا نَحْنُ فَلَسْنَا بِأَصْحَابِ زَرْعٍ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، (دوسری سند) اور ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیان فرما رہے تھے ایک دیہاتی بھی مجلس میں حاضر تھا کہ اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کھیتی کرنے کی اجازت چاہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا اپنی موجودہ حالت پر تو راضی نہیں ہے؟ وہ کہے گا کیوں نہیں! لیکن میرا جی کھیتی کرنے کو چاہتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس نے بیج ڈالا۔ پلک جھپکنے میں وہ اگ بھی آیا۔ پک بھی گیا اور کاٹ بھی لیا گیا۔ اور اس کے دانے پہاڑوں کی طرح ہوئے۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! اسے رکھ لے، تجھے کوئی چیز آسودہ نہیں کر سکتی۔ یہ سن کر دیہاتی نے کہا کہ قسم اللہ کی وہ تو کوئی قریشی یا انصاری ہی ہو گا۔ کیونکہ یہی لوگ کھیتی کرنے والے ہیں۔ ہم تو کھیتی ہی نہیں کرتے۔ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی آ گئی۔
Narrated Abu Huraira: Once the Prophet was narrating (a story), while a bedouin was sitting with him. "One of the inhabitants of Paradise will ask Allah to allow him to cultivate the land. Allah will ask him, 'Are you not living in the pleasures you like?' He will say, 'Yes, but I like to cultivate the land.' " The Prophet added, "When the man (will be permitted he) will sow the seeds and the plants will grow up and get ripe, ready for reaping and so on till it will be as huge as mountains within a wink. Allah will then say to him, 'O son of Adam! Take here you are, gather (the yield); nothing satisfies you.' " On that, the bedouin said, "The man must be either from Quraish (i.e. an emigrant) or an Ansari, for they are farmers, whereas we are not farmers." The Prophet smiled (at this).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 538
(موقوف) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد رضي الله عنه، انه قال:" إنا كنا نفرح بيوم الجمعة، كانت لنا عجوز تاخذ من اصول سلق لنا كنا نغرسه في اربعائنا، فتجعله في قدر لها، فتجعل فيه حبات من شعير، لا اعلم إلا انه قال: ليس فيه شحم ولا ودك، فإذا صلينا الجمعة زرناها فقربته إلينا، فكنا نفرح بيوم الجمعة من اجل ذلك، وما كنا نتغدى ولا نقيل إلا بعد الجمعة".(موقوف) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ:" إِنَّا كُنَّا نَفْرَحُ بِيَوْمِ الْجُمُعَةِ، كَانَتْ لَنَا عَجُوزٌ تَأْخُذُ مِنْ أُصُولِ سِلْقٍ لَنَا كُنَّا نَغْرِسُهُ فِي أَرْبِعَائِنَا، فَتَجْعَلُهُ فِي قِدْرٍ لَهَا، فَتَجْعَلُ فِيهِ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِيرٍ، لَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: لَيْسَ فِيهِ شَحْمٌ وَلَا وَدَكٌ، فَإِذَا صَلَّيْنَا الْجُمُعَةَ زُرْنَاهَا فَقَرَّبَتْهُ إِلَيْنَا، فَكُنَّا نَفْرَحُ بِيَوْمِ الْجُمُعَةِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ، وَمَا كُنَّا نَتَغَدَّى وَلَا نَقِيلُ إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ جمعہ کے دن ہمیں بہت خوشی (اس بات کی) ہوتی تھی کہ ہماری ایک بوڑھی عورت تھیں جو اس چقندر کو اکھاڑ لاتیں جسے ہم اپنے باغ کی مینڈوں پر بو دیا کرتے تھے۔ وہ ان کو اپنی ہانڈی میں پکاتیں اور اس میں تھوڑے سے جَو بھی ڈال دیتیں۔ ابوحازم نے کہا میں نہیں جانتا کہ سہل نے یوں کہا نہ اس میں چربی ہوتی نہ چکنائی۔ پھر جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ لیتے تو ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ وہ اپنا پکوان ہمارے سامنے کر دیتیں۔ اور اس لیے ہمیں جمعہ کے دن کی خوشی ہوتی تھی۔ اور ہم دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔
Narrated Sahl bin Sa`d: We used to be very happy on Friday as an old lady used to cut some roots of the Silq, which we used to plant on the banks of our small water streams, and cook them in a pot of her's, adding to them, some grains of barley. (Ya'qub, the sub-narrator said, "I think the narrator mentioned that the food did not contain fat or melted fat (taken from meat).") When we offered the Friday prayer we would go to her and she would serve us with the dish. So, we used to be happy on Fridays because of that. We used not to take our meals or the midday nap except after the Jumua prayer (i.e. Friday prayer).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 539
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" يقولون إن ابا هريرة يكثر الحديث والله الموعد، ويقولون ما للمهاجرين، والانصار لا يحدثون مثل احاديثه، وإن إخوتي من المهاجرين كان يشغلهم الصفق بالاسواق، وإن إخوتي من الانصار كان يشغلهم عمل اموالهم، وكنت امرا مسكينا الزم رسول الله صلى الله عليه وسلم على ملء بطني، فاحضر حين يغيبون، واعي حين ينسون، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يوما لن يبسط احد منكم ثوبه حتى اقضي مقالتي هذه، ثم يجمعه إلى صدره فينسى من مقالتي شيئا ابدا، فبسطت نمرة ليس علي ثوب غيرها حتى قضى النبي صلى الله عليه وسلم مقالته، ثم جمعتها إلى صدري، فوالذي بعثه بالحق ما نسيت من مقالته تلك إلى يومي هذا، والله لولا آيتان في كتاب الله ما حدثتكم شيئا ابد إن الذين يكتمون ما انزلنا من البينات والهدى إلى قوله الرحيم سورة البقرة آية 160".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" يَقُولُونَ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ وَاللَّهُ الْمَوْعِدُ، وَيَقُولُونَ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ لَا يُحَدِّثُونَ مِثْلَ أَحَادِيثِهِ، وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنْ الْمُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنْ الْأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمْ عَمَلُ أَمْوَالِهِمْ، وَكُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، فَأَحْضُرُ حِينَ يَغِيبُونَ، وَأَعِي حِينَ يَنْسَوْنَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَوْمًا لَنْ يَبْسُطَ أَحَدٌ مِنْكُمْ ثَوْبَهُ حَتَّى أَقْضِيَ مَقَالَتِي هَذِهِ، ثُمَّ يَجْمَعَهُ إِلَى صَدْرِهِ فَيَنْسَى مِنْ مَقَالَتِي شَيْئًا أَبَدًا، فَبَسَطْتُ نَمِرَةً لَيْسَ عَلَيَّ ثَوْبٌ غَيْرُهَا حَتَّى قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ، ثُمَّ جَمَعْتُهَا إِلَى صَدْرِي، فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا نَسِيتُ مِنْ مَقَالَتِهِ تِلْكَ إِلَى يَوْمِي هَذَا، وَاللَّهِ لَوْلَا آيَتَانِ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا حَدَّثْتُكُمْ شَيْئًا أَبَدً إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى إِلَى قَوْلِهِ الرَّحِيمُ سورة البقرة آية 160".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، آپ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں ابوہریرہ بہت حدیث بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے بھی اللہ سے ملنا ہے (میں غلط بیانی کیسے کر سکتا ہوں) یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار آخر اس کی طرح کیوں احادیث بیان نہیں کرتے؟ بات یہ ہے کہ میرے بھائی مہاجرین بازاروں میں خرید و فروخت میں مشغول رہا کرتے اور میرے بھائی انصار کو ان کی جائیداد (کھیت اور باغات وغیرہ) مشغول رکھا کرتی تھی۔ صرف میں ایک مسکین آدمی تھا۔ پیٹ بھر لینے کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ہی میں برابر حاضر رہا کرتا۔ جب یہ سب حضرات غیر حاضر رہتے تو میں حاضر ہوتا۔ اس لیے جن احادیث کو یہ یاد نہیں کر سکتے تھے، میں انہیں یاد رکھتا تھا، اور ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم میں سے جو شخص بھی اپنے کپڑے کو میری اس تقریر کے ختم ہونے تک پھیلائے رکھے پھر (تقریر ختم ہونے پر) اسے اپنے سینے سے لگا لے تو وہ میری احادیث کو کبھی نہیں بھولے گا۔ میں نے اپنی کملی کو پھیلا دیا۔ جس کے سوا میرا بدن پر اور کوئی کپڑا نہیں تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تقریر ختم فرمائی تو میں نے وہ چادر اپنے سینے سے لگا لی۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث کیا، پھر آج تک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی ارشاد کی وجہ سے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث نہیں بھولا) اللہ گواہ ہے کہ اگر قرآن کی دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں تم سے کوئی حدیث کبھی بیان نہ کرتا آیت «إن الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات» سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «الرحيم» تک۔ (جس میں) اس دین کے چھپانے والے پر، جسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں بھیجا ہے، سخت لعنت کی گئی ہے۔
Narrated Abu Huraira: The people say that Abu Huraira narrates too many narrations. In fact Allah knows whether I say the truth or not. They also ask, "Why do the emigrants and the Ansar not narrate as he does?" In fact, my emigrant brethren were busy trading in the markets, and my Ansar brethren were busy with their properties. I was a poor man keeping the company of Allah's Apostle and was satisfied with what filled my stomach. So, I used to be present while they (i.e. the emigrants and the Ansar) were absent, and I used to remember while they forgot (the Hadith). One day the Prophet said, "Whoever spreads his sheet till I finish this statement of mine and then gathers it on his chest, will never forget anything of my statement." So, I spread my covering sheet which was the only garment I had, till the Prophet finished his statement and then I gathered it over my chest. By Him Who had sent him (i.e. Allah's Apostle) with the truth, since then I did not forget even a single word of that statement of his, until this day of mine. By Allah, but for two verses in Allah's Book, I would never have related any narration (from the Prophet). (These two verses are): "Verily! Those who conceal the clear signs and the guidance which we have sent down .....(up to) the Merciful.' (2.159-160)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 540