73- مالك عن ابن شهاب عن ابى عبيد مولى ابن ازهر انه قال: شهدت العيد مع عمر بن الخطاب فجاء فصلى ثم انصرف فخطب الناس، ثم قال: إن هذين يومان نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامهما: يوم فطركم من صيامكم والآخر يوم تاكلون منه من نسككم. قال ابو عبيد: ثم شهدت العيد مع عثمان بن عفان فجاء فصلى ثم انصرف فخطب فقال لهم: إنه قد اجتمع لكم فى يومكم هذا عيدان، فمن احب من اهل العالية ان ينتظر الجمعة فلينتظرها، ومن احب ان يرجع فليرجع فقد اذنت له. قال ابو عبيد: ثم شهدت العيد مع على بن ابى طالب وعثمان محصور فجاء فصلى ثم انصرف فخطب.73- مالك عن ابن شهاب عن أبى عبيد مولى ابن أزهر أنه قال: شهدت العيد مع عمر بن الخطاب فجاء فصلى ثم انصرف فخطب الناس، ثم قال: إن هذين يومان نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامهما: يوم فطركم من صيامكم والآخر يوم تأكلون منه من نسككم. قال أبو عبيد: ثم شهدت العيد مع عثمان بن عفان فجاء فصلى ثم انصرف فخطب فقال لهم: إنه قد اجتمع لكم فى يومكم هذا عيدان، فمن أحب من أهل العالية أن ينتظر الجمعة فلينتظرها، ومن أحب أن يرجع فليرجع فقد أذنت له. قال أبو عبيد: ثم شهدت العيد مع على بن أبى طالب وعثمان محصور فجاء فصلى ثم انصرف فخطب.
ابوعبید مولیٰ ابن ازہر سے روایت ہے: میں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید میں حاضر ہوا آپ تشریف لائے تو نماز پڑھائی، پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں کو خطبہ دیا پھر فرمایا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے ان دو دنوں کے روزوں سے منع فرمایا ہے: جس دن تم اپنے روزوں سے افطار کرتے ہو یعنی عیدالفطر اور دوسرا دن جب تم اپنی قربانیوں میں سے کھاتے ہو یعنی عیدالاضحی۔ ابوعبید نے کہا: پھر میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید پڑھی آپ تشریف لائے تو نماز پڑھائی پھر فارغ ہو کر خطبہ دیا اور لوگوں سے فرمایا: آج تمہارے لئے دو عیدیں اکٹھی ہو گئی ہیں، نماز عید اور جمعہ کا دن نواحی بستیوں والوں میں سے اگر کوئی جمعہ کا انتظار کرنا چاہے تو کر لے اور جو اپنے گھر واپس جانا چاہے تو چلا جائے، میں نے اسے اجازت دے دی ہے۔ ابوعبید نے کہا: پھر میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی نماز پڑھی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محاصرے میں تھے انہوں (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) نے آ کر نماز پڑھائی پھر فارغ ہو کر خطبہ دیا ۔
تخریج الحدیث: «73- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 178/1 ح 431، ك 10 ب 2 ح 5) التمهيد (239/10) الاستذكار: 401، و أخرجه البخاري (1990) ومسلم (1137) من حديث مالك به.»
98- وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن صيام يومين: يوم الفطر ويوم الاضحى.98- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن صيام يومين: يوم الفطر ويوم الأضحى.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں عیدالفطر اور عیدالاضحی کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «98- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 300/1 ح 674، ك 18 ب 12 ح 36، 376/1 ح 756، ك 20 ب 24، ح 136) التمهيد 26/13، الاستذكار: 624، و أخرجه مسلم (1138) من حديث مالك به.»
424- وبه: انها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول لا يفطر، ويفطر حتى نقول لا يصوم؛ وما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر قط إلا رمضان، وما رايته فى شهر اكثر صياما منه فى شعبان.424- وبه: أنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول لا يفطر، ويفطر حتى نقول لا يصوم؛ وما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر قط إلا رمضان، وما رأيته فى شهر أكثر صياما منه فى شعبان.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنا شروع کرتے حتیٰ کہ ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اب) افطار نہیں کریں گے اور افطار کرنا شروع کرتے حتیٰ کہ ہم کہتے آپ (اب) روزے نہیں رکھیں گے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں سب سے زیادہ روزے رکھے ہوں۔
تخریج الحدیث: «424- متفق عليه، الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 309/1 ح 495، ك 18 ب 22 ح 56) التمهيد 164/21، الاستذكار: 644، و أخرجه البخاري (1969) ومسلم (1156/175) من حديث مالك به.»
27- قال مالك: حدثني ابن شهاب عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف انه سمع معاوية بن ابى سفيان يوم عاشوراء عام حج وهو على المنبر يقول: يا اهل المدينة، اين علماؤكم؟! سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لهذا اليوم: ”هذا يوم عاشوراء ولم يكتب الله عليكم صيامه وانا صائم، فمن شاء فليصم ومن شاء فليفطر.“27- قال مالك: حدثني ابن شهاب عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف أنه سمع معاوية بن أبى سفيان يوم عاشوراء عام حج وهو على المنبر يقول: يا أهل المدينة، أين علماؤكم؟! سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لهذا اليوم: ”هذا يوم عاشوراء ولم يكتب الله عليكم صيامه وأنا صائم، فمن شاء فليصم ومن شاء فليفطر.“
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے جس سال حج کیا تھا، عاشوراء (دس محرم) والے دن منبر پر فرمایا: اے مدینے والو! تمہارے علماءکہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے، اس کا روزہ اللہ نے تم پر فرض نہیں کیا۔ میں روزے سے ہوں، جس کی مرضی ہے روزہ رکھے اور جس کی مرضی ہے (یہ) روزہ نہ رکھے۔
تخریج الحدیث: «27- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 299/1 ح 672، ك 18 ب 11 ح 34) التمهيد 203/7، الاستذكار: 622، و أخرجه البخاري (2003) ومسلم (1129) من حديث مالك به.»
466- وبه: انها قالت: كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش فى الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه فى الجاهلية، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة صامه وامر بصيامه، فلما فرض رمضان كان هو الفريضة وترك يوم عاشوراء، فمن شاء صامه ومن شاء تركه.466- وبه: أنها قالت: كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش فى الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه فى الجاهلية، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة صامه وأمر بصيامه، فلما فرض رمضان كان هو الفريضة وترك يوم عاشوراء، فمن شاء صامه ومن شاء تركه.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ جاہلیت میں قریش عاشوراءکے ایک دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعثت سے پہلے اسے رکھا کرتے تھے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہ روزہ خود بھی رکھا اور اسے رکھنے کا حکم بھی دیا۔ پھر جب رمضان فرض ہوا تو اسی کے روزے فرض قرار پائے اور عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا گیا، پس جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے اسے ترک کر دے یعنی نہ رکھے۔
تخریج الحدیث: «466- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 299/1 ح 671، ك 18 ب 11 ح 33) التمهيد 148/22، الاستذكار: 621، و أخرجه البخاري (2002) من حديث مالك به.»