108- مالك عن ابى الزبير المكي عن ابى الطفيل عامر بن واثلة ان معاذ بن جبل اخبره انهم خرجوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام تبوك، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء. قال: فاخر الصلاة يوما ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعا، ثم دخل ثم خرج فصلى المغرب والعشاء جميعا. ثم قال: ”إنكم ستاتون غدا إن شاء الله عين تبوك، وإنكم لن تاتوها حتى يضحى النهار، فمن جاءها فلا يمس من مائها شيئا حتى آتي.“ قال: فجئناها وقد سبق إليها رجلان والعين مثل الشراك تبض بشيء من ماء، فسالهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هل مسستما من مائها شيئا؟“ فقالا: نعم. فسبهما وقال لهما ما شاء الله ان يقول، ثم غرفوا من العين بايديهم قليلا قليلا حتى اجتمع فى شيء ثم غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه وجهه ويديه ثم اعاده فيها فجرت العين بماء كثير، فاستقى الناس، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”يوشك يا معاذ إن طالت بك حياة ان ترى ما ههنا قد ملئ جنانا.“108- مالك عن أبى الزبير المكي عن أبى الطفيل عامر بن واثلة أن معاذ بن جبل أخبره أنهم خرجوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام تبوك، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء. قال: فأخر الصلاة يوما ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعا، ثم دخل ثم خرج فصلى المغرب والعشاء جميعا. ثم قال: ”إنكم ستأتون غدا إن شاء الله عين تبوك، وإنكم لن تأتوها حتى يضحى النهار، فمن جاءها فلا يمس من مائها شيئا حتى آتي.“ قال: فجئناها وقد سبق إليها رجلان والعين مثل الشراك تبض بشيء من ماء، فسألهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هل مسستما من مائها شيئا؟“ فقالا: نعم. فسبهما وقال لهما ما شاء الله أن يقول، ثم غرفوا من العين بأيديهم قليلا قليلا حتى اجتمع فى شيء ثم غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه وجهه ويديه ثم أعاده فيها فجرت العين بماء كثير، فاستقى الناس، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”يوشك يا معاذ إن طالت بك حياة أن ترى ما ههنا قد ملئ جنانا.“
ابوالزبیر (محمد بن تدرس) المکی سے روایت ہے، وہ سیدنا ابوالطفیل عامر بن واثلہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہیں (سیدنا) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ غزوہ تبوک والے سال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جہاد کے لئے) نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر کی اور مغرب و عشاء کی (نمازیں) جمع کرتے تھے، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مؤخر کی پھر (خیمے سے) باہر آ کر ظہر و عصر کی دونوں نمازیں پڑھائیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے، پھر (بعد میں) باہر آ کر مغرب و عشاء کی دونوں نمازیں اکٹھی پڑھائیں پھر فرمایا: ”تم سب ان شاء اللہ کل تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور تم دن چڑھنے سے پہلے نہیں پہنچ سکو گے، پس تم میں سے جو بھی چشمے پر پہنچے تو میرے آنے سے پہلے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔“ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر جب ہم وہاں پہنچے تو دو آ دمی ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے اور چشمہ (تھوڑے سے) پانی کے ساتھ چمک رہا تھا گویا کہ ایک تسمہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا: ”کیا تم نے اس چشمے کے پانی میں سے کچھ چھوا ہے؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹا اور جو اللہ چاہتا تھا وہ فرمایا، پھر لوگوں نے چشمے میں سے اپنے ہاتھوں کے ساتھ تھوڑے تھوڑے چُلّو بھر کے پانی لیا حتیٰ کہ وہ کسی چیز (برتن) میں اکٹھا ہو گیا، پھر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اپنا چہرا (رُخ انور) اور ہاتھ دھوئے، پھر اس پانی کو چشمے میں ڈال دیا تو اس چشمے سے بہت زیادہ پانی بہنے لگا لوگوں نے پانی پیا اور پلایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ! اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو عنقریب دیکھو گے کہ یہ علاقہ باغوں سے بھرا ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «108- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 143/1، 144 ح 326، ك 9 ب 1 ح 2) التمهيد 193/12، 194 وقال: ”هذا حديث صحيح ثابت“، الاستذكار: 296، و أخرجه مسلم (706/10 بعد ح 2281) من حديث مالك به وصرح ابوالزبير بالسماع عند احمد (229/5) وابن خزيمه (966)»
199- وبه: قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا عجل به السير يجمع بين المغرب والعشاء.199- وبه: قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا عجل به السير يجمع بين المغرب والعشاء.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جب جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «199- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 144/1 ح 327، ك 9 ب 1 ح 3) التمهيد 141/14، الاستذكار:297، و أخرجه مسلم (703) من حديث مالك به.»
273- مالك عن صالح بن كيسان عن عروة بن الزبير عن عائشة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم انها قالت: فرضت الصلاة ركعتين ركعتين فى السفر والحضر، فاقرت صلاة السفر، وزيد فى صلاة الحضر.273- مالك عن صالح بن كيسان عن عروة بن الزبير عن عائشة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت: فرضت الصلاة ركعتين ركعتين فى السفر والحضر، فأقرت صلاة السفر، وزيد فى صلاة الحضر.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نماز (پہلے سفر اور حضر میں دو دو رکعتیں فرض ہوئی تھی پھر سفر والی نماز تو اپنے حال پر) باقی رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا۔
تخریج الحدیث: «273- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 146/1 ح 333، ك 9 ب 2 ح 8 وقال: هذا حديث صحيح الإسناد عند جماعة أهل النقل) التمهيد 293/16، الاستذكار: 304، و أخرجه البخاري (350) مسلم (685) من حديث مالك به.»
84- مالك عن ابن شهاب عن رجل من آل خالد بن اسيد انه سال عبد الله ابن عمر فقال: يا ابا عبد الرحمن، إنا نجد صلاة الخوف وصلاة الحضر فى القرآن ولا نجد صلاة السفر، فقال عبد الله بن عمر: يا ابن اخي، إن الله تعالى بعث إلينا محمدا صلى الله عليه وسلم ولا نعلم شيئا، فإنما نفعل كما رايناه يفعل. كمل حديث الزهري وهو خمسة وثمانون حديثا.84- مالك عن ابن شهاب عن رجل من آل خالد بن أسيد أنه سأل عبد الله ابن عمر فقال: يا أبا عبد الرحمن، إنا نجد صلاة الخوف وصلاة الحضر فى القرآن ولا نجد صلاة السفر، فقال عبد الله بن عمر: يا ابن أخي، إن الله تعالى بعث إلينا محمدا صلى الله عليه وسلم ولا نعلم شيئا، فإنما نفعل كما رأيناه يفعل. كمل حديث الزهري وهو خمسة وثمانون حديثا.
آل خالد بن اسید کے ایک آدمی (امیہ بن عبداللہ بن خالد) سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: اے ابوعبدالرحمٰن! ہم قرآن میں نماز خوف اور نماز حضر کا ذکر پاتے ہیں اور نماز سفر کا ذکر نہیں پاتے؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اے بھتیجے! اللہ نے ہمارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور ہم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، لہٰذا ہم تو اسی طرح عمل کرتے ہیں جیسے ہم نے آپ کو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ زہری کی حدیثیں مکمل ہو گئیں، یہ پچاسی (85) حدیثیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «84- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 145/1، 146ح 332، ك 9 ب 2 ح 7) التمهيد 161/11، الاستذكار: 303، و أخرجه الحاكم الكبير فى عوالي مالك (209) من حديث مالك به ورواه محمد بن عبدالله الشعيثي عن اميه بن عبدالله بن خالد بن اسيدانه قال لا بن عمر به، أخرجه النسائي (226/1 ح 458) وسنده حسن، وصرح الزهري بالسماع من عبدالملك بن ابي بكر بن عبدالرحمٰن عند البيهقي (136/3) ويعقوب بن سفيان الفارسي فى المعرفة والتاريخ (372/1) وللحديث طريق آخر عند ابي داود (457) والنسائي (1435) وابن ماجه (1066) وسنده حسن وصححه ابن خزيمة (946) وابن حبان (الموارد: 101) والحاكم (258/1) ووافقه الذهبي.»
400- مالك عن عمرو بن يحيى المازني عن ابى الحباب سعيد بن يسار عن ابن عمر انه قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وهو على حمار وهو موجه إلى خيبر.400- مالك عن عمرو بن يحيى المازني عن أبى الحباب سعيد بن يسار عن ابن عمر أنه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وهو على حمار وهو موجه إلى خيبر.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر بیٹھے خیبر کی طرف رخ کئے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «400- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 150/1، 151 ح 352، ك 9 ب 7 ح 25) التمهيد 131/20، الاستذكار: 323، و أخرجه مسلم (700/35، دارالسلام: 1614) من حديث مالك به.»
522- مالك عن ابى بكر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر بن الخطاب رضى الله عنه عن سعيد بن يسار انه قال: كنت اسير مع عبد الله بن عمر بطريق مكة، قال سعيد: فلما خشيت الصبح نزلت فاوترت ثم ادركته، فقال لي عبد الله بن عمر: اين كنت؟ فقلت: خشيت الفجر فنزلت فاوترت، فقال: اليس لك فى رسول الله صلى الله عليه وسلم اسوة حسنة؟ فقلت: بلى والله؛ قال: فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر على البعير.522- مالك عن أبى بكر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر بن الخطاب رضى الله عنه عن سعيد بن يسار أنه قال: كنت أسير مع عبد الله بن عمر بطريق مكة، قال سعيد: فلما خشيت الصبح نزلت فأوترت ثم أدركته، فقال لي عبد الله بن عمر: أين كنت؟ فقلت: خشيت الفجر فنزلت فأوترت، فقال: أليس لك فى رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوة حسنة؟ فقلت: بلى والله؛ قال: فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر على البعير.
سعید بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکے کے راستے میں سفر کر رہا تھا، پھر جب مجھے صبح کا ڈر ہوا تو میں نے (سواری سے) اتر کر وتر پڑھا اور انہیں جا ملا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے پوچھا: تم کہاں تھے؟ میں نے کہا: مجھے صبح کا ڈر ہوا تو میں نے اتر کر وتر پڑھ لیا۔ انہوں نے فرمایا: کیا تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی) میں بہترین نمونہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم! ضرور ہے۔ انہوں نے فرمایا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر وتر پڑھ لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «522- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 124/1 ح 268، ك 7 ب 3 ح 15) التمهيد 137/24، الاستذكار: 239، و أخرجه البخاري (999) و مسلم (700/36) من حديث مالك به.»
190- مالك عن موسى بن عقبة عن كريب مولى ابن عباس عن اسامة بن زيد انه سمعه يقول: دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة، حتى إذا كان بالشعب نزل فبال ثم توضا ولم يسبغ الوضوء، فقلت له: الصلاة، فقال: ”الصلاة امامك.“ فركب. فلما جاء المزدلفة نزل فتوضا واسبغ الوضوء، ثم اقيمت الصلاة فصلى المغرب، ثم اناخ كل إنسان بعيره فى منزله، ثم اقيمت العشاء فصلاها، ولم يصل بينهما شيئا.190- مالك عن موسى بن عقبة عن كريب مولى ابن عباس عن أسامة بن زيد أنه سمعه يقول: دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة، حتى إذا كان بالشعب نزل فبال ثم توضأ ولم يسبغ الوضوء، فقلت له: الصلاة، فقال: ”الصلاة أمامك.“ فركب. فلما جاء المزدلفة نزل فتوضأ وأسبغ الوضوء، ثم أقيمت الصلاة فصلى المغرب، ثم أناخ كل إنسان بعيره فى منزله، ثم أقيمت العشاء فصلاها، ولم يصل بينهما شيئا.
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے واپس لوٹے حتیٰ کہ جب (مزدلفہ سے پہلے) ایک گھاٹی پر اترے تو پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور پورا وضو نہ کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: نماز پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز آگے ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور جب مزدلفہ میں پہنچے تو اتر کر وضو کیا اور پورا وضو کیا، پھر نماز کی اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہر انسان نے اپنے اونٹ کو اپنے مقام پر بٹھا دیا۔ پھر عشاء کی اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔
تخریج الحدیث: «190- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 400/1، 401 ح 925، ك 20 ب 65 ح 197) التمهيد 156/13، الاستذكار:865، و أخرجه البخاري (139) ومسلم (1280) من حديث مالك به.»
514- مالك عن يزيد بن رومان عن صالح بن خوات عمن صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم ذات الرقاع صلاة الخوف ان طائفة صفت معه وطائفة وجاه العدو، فصلى بالذين معه ركعة، ثم ثبت قائما واتموا لانفسهم، ثم انصرفوا وصفوا وجاه العدو، وجاءت الطائفة الاخرى فصلى بهم الركعة التى بقيت من صلاته، ثم ثبت جالسا واتموا لانفسهم، ثم سلم بهم.514- مالك عن يزيد بن رومان عن صالح بن خوات عمن صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم ذات الرقاع صلاة الخوف أن طائفة صفت معه وطائفة وجاه العدو، فصلى بالذين معه ركعة، ثم ثبت قائما وأتموا لأنفسهم، ثم انصرفوا وصفوا وجاه العدو، وجاءت الطائفة الأخرى فصلى بهم الركعة التى بقيت من صلاته، ثم ثبت جالسا وأتموا لأنفسهم، ثم سلم بهم.
اس صحابی سے روایت ہے جنہوں نے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف پڑھی تھی۔ ایک گروہ نے آپ کے ساتھ صف بنا لی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں موجود رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کو ایک رکعت پڑھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے اور انہوں نے خود دوسری رکعت پڑھ لی پھر (سلام پھیر کر) چلے گئے اور دشمن کے مقابلے میں صف بنا لی۔ دوسرے گروہ نے آ کر آپ کے ساتھ ایک رکعت پڑھی جو کہ آپ کی نماز میں سے باقی رہ گئی تھی پھر آپ بیٹھے رہے اور انہوں نے اپنی نماز پوری کی پھر آپ نے ان کے ساتھ سلام پھیر دیا۔
تخریج الحدیث: «514- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 183/1 ح 441، ك 11 ب 1 ح 1) التمهيد 31/23، الاستذكار: 410، و أخرجه البخاري (4129) ومسلم (842) من حديث مالك به.»