سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قرآن کریم کی قرأت و تلاوت
Chapters on Recitation
12. باب مِنْهُ
12. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2945
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو اسامة، حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من نفس عن اخيه كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة، ومن ستر مسلما ستره الله في الدنيا والآخرة، ومن يسر على معسر يسر الله عليه في الدنيا والآخرة، والله في عون العبد ما كان العبد في عون اخيه، ومن سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له طريقا إلى الجنة، وما قعد قوم في مسجد يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم إلا نزلت عليهم السكينة، وغشيتهم الرحمة، وحفتهم الملائكة، ومن ابطا به عمله لم يسرع به نسبه "، قال ابو عيسى: هكذا روى غير واحد، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل هذا الحديث، وروى اسباط بن محمد، عن الاعمش، قال: حدثت عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم فذكر بعض هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ نَفَّسَ عَنْ أَخِيهِ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا قَعَدَ قَوْمٌ فِي مَسْجِدٍ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ بَعْضَ هَذَا الْحَدِيثِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کی کوئی دنیاوی مصیبت دور کی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کوئی نہ کوئی مصیبت دور فرمائے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی۔ تو اللہ اس کی دنیا و آخرت میں پردہ پوشی کرے گا، اور جس نے کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی، تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا۔ اللہ اپنے بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اور جو ایسی راہ چلتا ہے جس میں اسے علم کی تلاش ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ ہموار کر دیتا ہے اور جب قوم (لوگ) مسجد میں بیٹھ کر کلام اللہ (قرآن) کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے پڑھتے پڑھاتے (سمجھتے سمجھاتے) ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت الٰہی ڈھانپ لیتی ہے۔ ملائکہ انہیں اپنے گھیرے میں لیے رہتے ہیں، جس کے عمل نے اسے پیچھے کر دیا تو آخرت میں اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ایسے ہی کئی رواۃ نے اسی حدیث کی طرح اعمش سے اعمش نے ابوصالح کے واسطہ سے، اور ابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،
۲- اسباط بن محمد نے بھی اعمش سے روایت کی ہے، (اس روایت میں ہے کہ) اعمش کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا گیا ہے ۲؎ ابوصالح کے واسطہ سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں پھر اس حدیث کا بعض حصہ ذکر کیا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2646 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی یہ کہنا کہ میں فلاں خاندان کا ہوں، اس کے کہنے اور سمجھنے سے اس کا رتبہ و مرتبہ بلند نہیں ہو جائے گا، بلند ہو گا تو قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہو گا۔
۲؎: یعنی اس سند میں اعمش اور ابوصالح کے درمیان ایک اور راوی کا واسطہ ہے، جبکہ پہلی سند میں اعمش کی ابوصالح سے براہ راست روایت ہے، اور اعمش ابوصالح سے براہ راست روایت کرتے ہیں، بلکہ اعمش تو ابوصالح کے راویہ (بہت بڑے راوی) ہیں حتیٰ کہ ابوصالح سے روایت میں اعمش کے عنعنہ کو بھی تحدیث (براہ راست سماع) پر محمول کیا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (225)
13. باب مِنْهُ
13. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2946
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبيد بن اسباط بن محمد القرشي، قال: حدثني ابي، عن مطرف، عن ابي إسحاق، عن ابي بردة، عن عبد الله بن عمرو، قال: قلت: يا رسول الله، في كم اقرا القرآن؟ قال: " اختمه في شهر "، قلت: إني اطيق افضل من ذلك، قال: " اختمه في عشرين "، قلت: إني اطيق افضل من ذلك، قال: " اختمه في خمسة عشر "، قلت: إني اطيق افضل من ذلك، قال: " اختمه في عشر "، قلت: إني اطيق افضل من ذلك، قال: اختمه في خمس، قلت: إني اطيق افضل من ذلك، قال: فما رخص لي "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، يستغرب من حديث ابي بردة، عن عبد الله بن عمرو، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن عبد الله بن عمرو، وروي عن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لم يفقه من قرا القرآن في اقل من ثلاث "، وروي عن عبد الله بن عمرو، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له: " اقرا القرآن في اربعين "، وقال إسحاق بن إبراهيم: ولا نحب للرجل ان ياتي عليه اكثر من اربعين يوما، ولم يقرا القرآن لهذا الحديث، وقال بعض اهل العلم لا يقرا القرآن في اقل من ثلاث للحديث الذي روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، ورخص فيه بعض اهل العلم، وروي عن عثمان بن عفان انه كان يقرا القرآن في ركعة يوتر بها، وروي عن سعيد بن جبير، انه قرا القرآن في ركعة في الكعبة، والترتيل في القراءة احب إلى اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي كَمْ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قَالَ: " اخْتِمْهُ فِي شَهْرٍ "، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " اخْتِمْهُ فِي عِشْرِينَ "، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " اخْتِمْهُ فِي خَمْسَةَ عَشَرَ "، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " اخْتِمْهُ فِي عَشْرٍ "، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: اخْتِمْهُ فِي خَمْسٍ، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَمَا رَخَّصَ لِي "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوًجْهِ، يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمْ يَفْقَهْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ "، وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: " اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي أَرْبَعِينَ "، وَقَالَ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ: وَلَا نُحِبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَأْتِيَ عَلَيْهِ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، وَلَمْ يَقْرَأْ الْقُرْآنَ لِهَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يُقْرَأُ الْقُرْآنُ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ لِلْحَدِيثِ الَّذِي رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَرُوِي عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ يُوتِرُ بِهَا، وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ فِي الْكَعْبَةِ، وَالتَّرْتِيلُ فِي الْقِرَاءَةِ أَحَبُّ إِلَى أَهْلِ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کتنے دنوں میں قرآن پڑھ ڈالوں؟ آپ نے فرمایا: مہینے میں ایک بار ختم کرو، میں نے کہا میں اس سے بڑھ کر (یعنی کم مدت میں) ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تو بیس دن میں ختم کرو۔ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی یعنی اور بھی کم مدت میں ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: پندرہ دن میں ختم کر لیا کرو۔ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: دس دن میں ختم کر لیا کرو۔ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: پانچ دن میں ختم کر لیا کرو۔ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ تو آپ نے مجھے پانچ دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنے کی اجازت نہیں دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- یہ حدیث بطریق: «أبي بردة عن عبد الله بن عمرو» غریب سمجھی گئی ہے،
۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے۔ عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن تین دن سے کم مدت میں پڑھا، اس نے قرآن کو نہیں سمجھا،
۴- عبداللہ بن عمرو سے (یہ بھی) مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: قرآن چالیس دن میں پڑھ ڈالا کرو،
۵- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: ہم اس حدیث کی بنا پر کسی آدمی کے لیے یہ پسند نہیں کرتے کہ اس پر چالیس دن سے زیادہ گزر جائیں اور وہ قرآن پاک ختم نہ کر چکا ہو،
۶- اس حدیث کی بنا پر جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن پڑھ کر نہ ختم کیا جائے،
۷- اور بعض اہل علم نے اس کی رخصت دی ہے،
۸- اور عثمان بن عفان سے متعلق ہے مروی ہے کہ وہ وتر کی ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے تھے،
۹- سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ انہوں نے کعبہ کے اندر ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھا،
۱۰- قرأت میں ترتیل (ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا) اہل علم کے نزدیک پسندیدہ ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 8956) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط ہیں، نیز حدیث میں یہ ہے کہ اختمه في خمس یعنی پانچ دن میں قرآن ختم کرو، عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کم دن میں قرآن ختم کرنے کی مجھے اجازت نہیں دی، امام ترمذی اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ غرابت بسند ابو بردة عن عبداللہ بن عمرو ہے، واضح رہے کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا کہ اقرأ القرآن في كل شهر قال: إني أطيق أكثر فما زال حتى قال: $في ثلاث# تم ہر مہینے میں قرآن ختم کرو، تو انہوں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں اور برابر یہ کہتے رہے کہ میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”تین دن میں قرآن ختم کرو“ (صحیح البخاری/الصیام 54 (1978)، اور صحیح بخاری (فضائل القرآن 34 5054)، اور صحیح مسلم (صیام 35 /182) وأبوداو سنن ابی داود/ الصلاة 325 (1388) میں ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے: فاقرأه في كل سبع ولا تزد على ذلك یعنی ہر سات دن پر قرآن ختم کرو، اور اس سے زیادہ نہ کرو، تو اس سے پتہ چلا کہ فما رخص لي مجھے پانچ دن سے کم کی اجازت نہیں سنن الدارمی/ کا جملہ شاذ ہے، اور تین دن میں قرآن ختم کرنے کی اجازت محفوظ اور ثابت ہے، اور ایسے ہی دوسری روایت میں سات دن ختم کرنے کی اجازت ہے) اور سبب ضعف ابواسحاق السبیعی ہیں)۔»

وضاحت:
۱؎: ایک دن یا تین دن میں ختم کرنے سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا اور تلاوت کرنا زیادہ پسندیدہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد، وقد، الصحيحة أنه قال له: " اقرأه في كل ثلاث "، صحيح أبي داود (1255) // (1237 / 1388) //، صحيح أبي داود (1260) // (1242 / 1394) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2946) إسناده ضعيف
أبو إسحاق عنعن (تقدم:107)
حدیث نمبر: 2947
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي النضر البغدادي، حدثنا علي بن الحسن هو ابن شقيق، عن عبد الله بن المبارك، عن معمر، عن سماك بن الفضل، عن وهب بن منبه، عن عبد الله بن عمرو، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له: " اقرا القرآن في اربعين "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد روى بعضهم عن معمر، عن سماك بن الفضل، عن وهب بن منبه، ان النبي صلى الله عليه وسلم امر عبد الله بن عمرو ان يقرا القرآن في اربعين.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ هُوَ ابْنُ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: " اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي أَرْبَعِينَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَرْبَعِينَ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: چالیس دن میں قرآن پورا پڑھ لیا کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- بعضوں نے معمر سے، اور معمر نے سماک بن فضل کے واسطہ سے وہب بن منہہ سے روایت کی ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کو حکم دیا کہ وہ قرآن چالیس دن میں پڑھا کریں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 326 (1395) (تحفة الأشراف: 8944) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1261)، الصحيحة (1512)
حدیث نمبر: 2948
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا الهيثم بن الربيع، حدثنا صالح المري، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن ابن عباس، قال: قال رجل: يا رسول الله، اي العمل احب إلى الله؟، قال: " الحال المرتحل "، قال: وما الحال المرتحل؟، قال: " الذي يضرب من اول القرآن إلى آخره، كلما حل ارتحل "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه من حديث ابن عباس إلا من هذا الوجه، وإسناده ليس بالقوي.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟، قَالَ: " الْحَالُّ الْمُرْتَحِلُ "، قَالَ: وَمَا الْحَالُّ الْمُرْتَحِلُ؟، قَالَ: " الَّذِي يَضْرِبُ مِنْ أَوَّلِ الْقُرْآنِ إِلَى آخِرِهِ، كُلَّمَا حَلَّ ارْتَحَلَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِسْنَادُهُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: «الحال» اور «المرتحل» (اترنے اور کوچ کرنے والا) عمل۔ اس نے کہا: «الحال» اور «المرتحل» (اترنے اور کوچ کرنے والا) سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: جو قرآن شروع سے لے کر آخر تک پڑھتا ہے، جب بھی وہ اترتا ہے کوچ کر دیتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف ابن عباس رضی الله عنہما کی اس روایت سے جانتے ہیں جو اس سند سے آئی ہے اور اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5429) (ضعیف الإسناد) (سند میں صالح المری ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (2948) إسناده ضعيف
صالح المري: ضعيف (تقدم:2133)
حدیث نمبر: 2948M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا صالح المري، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه بمعناه، ولم يذكر فيه عن ابن عباس، قال ابو عيسى: وهذا عندي اصح من حديث نصر بن علي، عن الهيثم بن الربيع.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ الْهَيْثَمِ بْنِ الرَّبِيعِ.
مجھ سے بیان کیا محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: بیان کیا مجھ سے مسلم بن ابراہیم نے، وہ کہتے ہیں: بیان کیا مجھ سے صالح مری نے قتادہ کے واسطہ سے اور قتادہ نے زرارہ بن اوفی کے واسطہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی جیسی اسی معنی کی حدیث روایت کی، لیکن اس میں ابن عباس سے روایت کا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ روایت میرے نزدیک نضر بن علی کی اس روایت سے جسے وہ ہیثم بن ربیع سے روایت کرتے ہیں (یعنی: پہلی سند سے) زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18653) (ضعیف) (سند ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے، اس لیے کہ زرارہ تابعی ہیں، اور انہوں نے روایت میں واسطہ نہیں ذکر کیا ہے)»

وضاحت:
۱؎: مفہوم یہ ہے جو قاری مسافر کے مثل اپنی منزل تک پہنچ کر پھر نئے سرے سے سفر کا آغاز کر دیتا ہے۔ یعنی ایک بار قرآن ختم کرے دوبارہ شروع کر دیتا ہے اس کا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
حدیث نمبر: 2949
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا النضر بن شميل، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن يزيد بن عبد الله بن الشخير، عن عبد الله بن عمرو، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لم يفقه من قرا القرآن في اقل من ثلاث "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلًّمَ، قَالَ: " لَمْ يَفْقَهْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلاثٍ "، قَالَ أَبُو عَيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں جس نے تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کر ڈالا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 326 (1394)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 178 (1347) (تحفة الأشراف: 8950)، و مسند احمد (2/146، 189) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1260)، المشكاة (2201)، الصحيحة (1513)
حدیث نمبر: 2949M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، بهذا الإسناد نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدثَنَا شُعْبَةُ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
بیان کیا مجھ سے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: بیان کیا مجھ سے محمد بن جعفر نے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے شعبہ نے اس سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1260)، المشكاة (2201)، الصحيحة (1513)

Previous    1    2    3    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.