57. باب: اگر کسی شخص نے کچھ اسباب یا ایک جانور خریدا اور اس کو بائع ہی کے پاس رکھوا دیا اور وہ اسباب تلف ہو گیا یا جانور مر گیا اور ابھی مشتری نے اس پر قبضہ نہیں کیا تھا۔
(57) Chapter. If somebody buys some goods or (an) animal and let it with the seller, or it dies before he takes it into his possession.
وقال ابن عمر رضي الله عنه: ما ادركت الصفقة حيا مجموعا فهو من المبتاع.وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا أَدْرَكَتِ الصَّفْقَةُ حَيًّا مَجْمُوعًا فَهُوَ مِنَ الْمُبْتَاعِ.
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا، بیع کے وقت جو مال زندہ تھا اور بیع میں شریک تھا۔ وہ اگر تلف ہو گیا تو خریدار پر پڑے گا (بائع اس کا تاوان نہ دے گا)۔
(مرفوع) حدثنا فروة بن ابي المغراء، اخبرنا علي بن مسهر، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" لقل يوم كان ياتي على النبي صلى الله عليه وسلم، إلا ياتي فيه بيت ابي بكر احد طرفي النهار، فلما اذن له في الخروج إلى المدينة لم يرعنا إلا وقد اتانا ظهرا، فخبر به ابو بكر، فقال: ما جاءنا النبي صلى الله عليه وسلم في هذه الساعة إلا لامر حدث، فلما دخل عليه، قال لابي بكر: اخرج من عندك، قال: يا رسول الله، إنما هما ابنتاي يعني عائشة واسماء، قال: اشعرت انه قد اذن لي في الخروج، قال: الصحبة يا رسول الله، قال: الصحبة، قال: يا رسول الله، إن عندي ناقتين اعددتهما للخروج، فخذ إحداهما، قال: قد اخذتها بالثمن".(مرفوع) حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" لَقَلَّ يَوْمٌ كَانَ يَأْتِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا يَأْتِي فِيهِ بَيْتَ أَبِي بَكْرٍ أَحَدَ طَرَفَيِ النَّهَارِ، فَلَمَّا أُذِنَ لَهُ فِي الْخُرُوجِ إِلَى الْمَدِينَةِ لَمْ يَرُعْنَا إِلَّا وَقَدْ أَتَانَا ظُهْرًا، فَخُبِّرَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: مَا جَاءَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا لِأَمْرٍ حَدَثَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ: أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا هُمَا ابْنَتَايَ يَعْنِي عَائِشَةَ وَأَسْمَاءَ، قَالَ: أَشَعَرْتَ أَنَّهُ قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ، قَالَ: الصُّحْبَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الصُّحْبَةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عِنْدِي نَاقَتَيْنِ أَعْدَدْتُهُمَا لِلْخُرُوجِ، فَخُذْ إِحْدَاهُمَا، قَالَ: قَدْ أَخَذْتُهَا بِالثَّمَنِ".
ہم سے فروہ بن ابی مغراء نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے باپ نے، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایسے دن (مکی زندگی میں) بہت ہی کم آئے، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام میں کسی نہ کسی وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف نہ لائے ہوں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی گئی، تو ہماری گھبراہٹ کا سبب یہ ہوا کہ آپ (معمول کے خلاف اچانک) ظہر کے وقت ہمارے گھر تشریف لائے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہمارے یہاں کوئی نئی بات پیش آنے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت جو لوگ تمہارے پاس ہوں انہیں ہٹا دو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! یہاں تو صرف میری یہی دو بیٹیاں ہیں یعنی عائشہ اور اسماء رضی اللہ عنہما۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہے مجھے تو یہاں سے نکلنے کی اجازت مل گئی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں جنہیں میں نے نکلنے ہی کے لیے تیار کر رکھا تھا۔ آپ ان میں سے ایک لے لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، قیمت کے بدلے میں، میں نے ایک اونٹنی لے لی۔
Narrated Aisha: Rarely did the Prophet fail to visit Abu Bakr's house everyday, either in the morning or in the evening. When the permission for migration to Medina was granted, all of a sudden the Prophet came to us at noon and Abu Bakr was informed, who said, "Certainly the Prophet has come for some urgent matter." The Prophet said to Abu Bark, when the latter entered "Let nobody stay in your home." Abu Bakr said, "O Allah's Apostle! There are only my two daughters (namely `Aisha and Asma') present." The Prophet said, "I feel (am informed) that I have been granted the permission for migration." Abu Bakr said, "I will accompany you, O Allah's Apostle!" The Prophet said, "You will accompany me." Abu Bakr then said "O Allah's Apostle! I have two she-camels I have prepared specially for migration, so I offer you one of them. The Prophet said, "I have accepted it on the condition that I will pay its price."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 348
58. باب: کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی بیع میں دخل اندازی نہ کرے اور اپنے بھائی کے بھاؤ لگاتے وقت اس کے بھاؤ کو نہ بگاڑے جب تک وہ اجازت نہ دے یا چھوڑ نہ دے۔
(58) Chapter. A seller should not urge somebody (in case of optional sale) to cancle a bargain the latter has already agreed upon with another seller so as to sell him his own goods; and a buyer should not urge the seller to cencle a barbain already agreed upon with another buyer so as to buy the goods himself, unless they are given permission in both cases, or the bargains are cancelled with the willingness of both the seller and the buyer.
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يبيع بعضكم على بيع اخيه".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَبِيعُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص اپنے بھائی کی خرید و فروخت میں دخل اندازی نہ کرے۔
Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle said, "Do not urge somebody to return what he has already bought (i.e. in optional sale) from another seller so as to sell him your own goods."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 349
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبيع حاضر لباد، ولا تناجشوا، ولا يبيع الرجل على بيع اخيه، ولا يخطب على خطبة اخيه، ولا تسال المراة طلاق اختها لتكفا ما في إنائها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ، وَلَا يَخْطُبُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ، وَلَا تَسْأَلُ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْفَأَ مَا فِي إِنَائِهَا".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال و اسباب بیچے اور یہ کہ کوئی (سامان خریدنے کی نیت کے بغیر دوسرے اصل خریداروں سے) بڑھ کر بولی نہ دے۔ اسی طرح کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے میں مداخلت نہ کرے۔ کوئی شخص (کسی عورت کو) دوسرے کے پیغام نکاح ہوتے ہوئے اپنا پیغام نہ بھیجے۔ اور کوئی عورت اپنی کسی دینی بہن کو اس نیت سے طلاق نہ دلوائے کہ اس کے حصہ کو خود حاصل کر لے۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle forbade the selling of things by a town dweller on behalf of a desert dweller; and similarly Najsh was forbidden. And one should not urge somebody to return the goods to the seller so as to sell him his own goods; nor should one demand the hand of a girl who has already been engaged to someone else; and a woman should not try to cause some other woman to be divorced in order to take her place.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 350
ہم سے بشیر بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں حسین مکتب نے خبر دی، انہیں عطاء بن ابی رباح نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نے اپنا ایک غلام اپنے مرنے کے بعد کی شرط کے ساتھ آزاد کیا۔ لیکن اتفاق سے وہ شخص مفلس ہو گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے غلام کو لے کر فرمایا کہ اسے مجھ سے کون خریدے گا۔ اس پر نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسے اتنی اتنی قیمت پر خرید لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام ان کے حوالہ کر دیا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: A man decided that a slave of his would be manumitted after his death and later on he was in need of money, so the Prophet took the slave and said, "Who will buy this slave from me?" Nu'aim bin `Abdullah bought him for such and such price and the Prophet gave him the slave.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 351
ومن قال: لا يجوز ذلك البيع، وقال ابن ابي اوفى: الناجش آكل ربا خائن وهو خداع باطل لا يحل، قال النبي صلى الله عليه وسلم: الخديعة في النار، ومن عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد.وَمَنْ قَالَ: لَا يَجُوزُ ذَلِكَ الْبَيْعُ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي أَوْفَى: النَّاجِشُ آكِلُ رِبًا خَائِنٌ وَهُوَ خِدَاعٌ بَاطِلٌ لَا يَحِلُّ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْخَدِيعَةُ فِي النَّارِ، وَمَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ.
اور بعض نے کہا یہ بیع ہی جائز نہیں اور ابن ابی اوفی نے کہا کہ «ناجش» سود خوار اور خائن ہے۔ اور «نجش» فریب ہے، خلاف شرع بالکل درست نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فریب دوزخ میں لے جائے گا اور جو شخص ایسا کام کرے جس کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «نجش»(فریب، دھوکہ) سے منع فرمایا تھا۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن بيع حبل الحبلة"، وكان بيعا يتبايعه اهل الجاهلية، كان الرجل يبتاع الجزور إلى ان تنتج الناقة، ثم تنتج التي في بطنها.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ"، وَكَانَ بَيْعًا يَتَبَايَعُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، كَانَ الرَّجُلُ يَبْتَاعُ الْجَزُورَ إِلَى أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ، ثُمَّ تُنْتَجُ الَّتِي فِي بَطْنِهَا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کی بیع سے منع فرمایا۔ اس بیع کا طریقہ جاہلیت میں رائج تھا۔ ایک شخص ایک اونٹ یا اونٹنی خریدتا اور قیمت دینے کی میعاد یہ مقرر کرتا کہ ایک اونٹنی جنے پھر اس کے پیٹ کی اونٹنی بڑی ہو کر جنے۔
Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle forbade the sale called 'Habal-al-Habala which was a kind of sale practiced in the Pre- Islamic Period of ignorance. One would pay the price of a she-camel which was not born yet would be born by the immediate offspring of an extant she-camel.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 353