(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله ابن المبارك، عن معمر، عن الزهري، عن عبد الرحمن بن ماعز، عن سفيان بن عبد الله الثقفي، قال: قلت: يا رسول الله حدثني بامر اعتصم به، قال: " قل ربي الله ثم استقم "، قلت: يا رسول الله ما اخوف ما تخاف علي فاخذ بلسان نفسه، ثم قال: هذا , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه، عن سفيان بن عبد الله الثقفي.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَاعِزٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ حَدِّثْنِي بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهِ، قَالَ: " قُلْ رَبِّيَ اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقِمْ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَخْوَفُ مَا تَخَافُ عَلَيَّ فَأَخَذَ بِلِسَانِ نَفْسِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ.
سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھ سے ایسی بات بیان فرمائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں، آپ نے فرمایا: ”کہو: میرا رب (معبود حقیقی) اللہ ہے پھر اسی عہد پر قائم رہو“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو مجھ سے کس چیز کا زیادہ خوف ہے؟ آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: ”اسی کا زیادہ خوف ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث سفیان بن عبداللہ ثقفی سے کئی سندوں سے مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 14 (38)، سنن ابن ماجہ/الفتن 12 (3972) (تحفة الأشراف: 4478)، و مسند احمد (3/413) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام سے پرہیز کرو اس لیے کہ ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام دل کو سخت بنا دیتا ہے اور لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور سخت دل والا ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7123) (ضعیف) (سند میں ابراہیم میں قدرے کلام ہے، یہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم نہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال میں سے ہے جس کو ابراہیم نے حدیث رسول بنا دیا ہے، دیکھیے الضعیفة: 908، و 920)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (920)، المشكاة (2276 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6265) //
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، وغير واحد , قالوا: حدثنا محمد بن يزيد بن خنيس المكي، قال: سمعت سعيد بن حسان المخزومي , قال: حدثتني ام صالح، عن صفية بنت شيبة، عن ام حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " كل كلام ابن آدم عليه لا له، إلا امر بمعروف، او نهي عن منكر، او ذكر الله " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث محمد بن يزيد بن خنيس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ الْمَكِّيُّ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ حَسَّانَ الْمَخْزُومِيَّ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ صَالِحٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كُلُّ كَلَامِ ابْنِ آدَمَ عَلَيْهِ لَا لَهُ، إِلَّا أَمْرٌ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ، أَوْ ذِكْرُ اللَّهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ.
ام المؤمنین حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کی ساری باتیں اس کے لیے وبال ہیں ان میں سے اسے امربالمعروف، نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کے سوا اسے کسی اور کا ثواب نہیں ملے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے اسے ہم صرف محمد بن یزید بن خنیس کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 12 (3974) (تحفة الأشراف: 15877) (ضعیف) (سند میں ”محمد بن یزید بن خنیس“ لین الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3974) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (861)، ضعيف الجامع الصغير (4283) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2412) إسناده ضعيف / جه 3974 أم صالح لا يعرف حالها (تق: 8740)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا جعفر بن عون، حدثنا ابو العميس، عن عون بن ابي جحيفة، عن ابيه، قال: " آخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بين سلمان وبين ابي الدرداء فزار سلمان ابا الدرداء فراى ام الدرداء متبذلة، فقال: ما شانك متبذلة؟ قالت: إن اخاك ابا الدرداء ليس له حاجة في الدنيا، قال: فلما جاء ابو الدرداء قرب إليه طعاما، فقال: كل فإني صائم، قال: ما انا بآكل حتى تاكل، قال: فاكل، فلما كان الليل ذهب ابو الدرداء ليقوم، فقال له سلمان: نم، فنام، ثم ذهب يقوم، فقال له: نم، فنام، فلما كان عند الصبح قال له سلمان: قم الآن فقاما فصليا، فقال: " إن لنفسك عليك حقا، ولربك عليك حقا، ولضيفك عليك حقا، وإن لاهلك عليك حقا، فاعط كل ذي حق حقه " , فاتيا النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرا ذلك فقال له: صدق سلمان , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، وابو العميس اسمه: عتبة بن عبد الله، وهو اخو عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ وَبَيْنَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً، فَقَالَ: مَا شَأْنُكِ مُتَبَذِّلَةً؟ قَالَتْ: إِنَّ أَخَاكَ أَبَا الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ قَرَّبَ إِلَيْهِ طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ، قَالَ: فَأَكَلَ، فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لِيَقُومَ، فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: نَمْ، فَنَامَ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ، فَقَالَ لَهُ: نَمْ، فَنَامَ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الصُّبْحِ قَالَ لَهُ سَلْمَانُ: قُمِ الْآنَ فَقَامَا فَصَلَّيَا، فَقَالَ: " إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ " , فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَا ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ: صَدَقَ سَلْمَانُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْعُمَيْسِ اسْمُهُ: عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَهُوَ أَخُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيِّ.
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابو الدرداء کے مابین بھائی چارہ کروایا تو ایک دن سلمان نے ابوالدرداء رضی الله عنہ کی زیارت کی، دیکھا کہ ان کی بیوی ام الدرداء معمولی کپڑے میں ملبوس ہیں، چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری اس حالت کی کیا وجہ ہے؟ ان کی بیوی نے جواب دیا: تمہارے بھائی ابوالدرداء رضی الله عنہ کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے کہ جب ابو الدرداء گھر آئے تو پہلے انہوں نے سلمان رضی الله عنہ کے سامنے کھانا پیش کیا اور کہا: کھاؤ میں آج روزے سے ہوں۔ سلمان رضی الله عنہ نے کہا: میں نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ تم بھی میرے ساتھ کھاؤ۔ چنانچہ سلمان نے بھی کھایا۔ پھر جب رات آئی تو ابوالدرداء رضی الله عنہ تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، تو سلمان نے ان سے کہا: سو جاؤ وہ سو گئے۔ پھر تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا سو جاؤ، چنانچہ وہ سو گئے، پھر جب صبح قریب ہوئی تو سلمان نے ان سے کہا: اب اٹھ جاؤ چنانچہ دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلمان نے ان سے کہا: ”تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرو“، اس کے بعد دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس گفتگو کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”سلمان نے سچ کہا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں بہت سارے فوائد ہیں: ایک بھائی کا دوسرے بھائی کی زیارت کرنا تاکہ اس کے حالات سے آگاہی ہو، عبادت کا وہی طریقہ اپنانا چاہیئے جو مسنون ہے تاکہ دوسروں کے حقوق کی پامالی نہ ہو، زیارت کے وقت اپنے بھائی کو اچھی باتوں کی نصیحت کرنا اور اس کی کوتاہیوں سے اسے باخبر کرنا، کسی پریشان حال کی پریشانی کی بابت اس سے معلومات حاصل کرنا، رات کی عبادت کا اہتمام کرنا وغیرہ۔
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن عبد الوهاب بن الورد، عن رجل من اهل المدينة، قال: كتب معاوية إلى عائشة ام المؤمنين رضي الله عنها , ان اكتبي إلي كتابا توصيني فيه ولا تكثري علي، فكتبت عائشة رضي الله عنها إلى معاوية سلام عليك، اما بعد فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من التمس رضاء الله بسخط الناس كفاه الله مؤنة الناس، ومن التمس رضاء الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس، والسلام عليك " ,(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ الْوَرْدِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , أَنِ اكْتُبِي إِلَيَّ كِتَابًا تُوصِينِي فِيهِ وَلَا تُكْثِرِي عَلَيَّ، فَكَتَبَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى مُعَاوِيَةَ سَلَامٌ عَلَيْكَ، أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنِ الْتَمَسَ رِضَاءَ اللَّهِ بِسَخَطِ النَّاسِ كَفَاهُ اللَّهُ مُؤْنَةَ النَّاسِ، وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَاءِ النَّاسِ بِسَخَطِ اللَّهِ وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ، وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ " ,
عبدالوہاب بن ورد سے روایت ہے کہ ان سے مدینہ کے ایک شخص نے بیان کیا: معاویہ رضی الله عنہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ایک خط لکھا کہ مجھے ایک خط لکھئیے اور اس میں کچھ وصیت کیجئے۔ چنانچہ عائشہ رضی الله عنہا نے معاویہ رضی الله عنہ کے پاس خط لکھا: دعا و سلام کے بعد معلوم ہو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو لوگوں کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہو تو لوگوں سے پہنچنے والی تکلیف کے سلسلے میں اللہ اس کے لیے کافی ہو گا اور جو اللہ کی ناراضگی میں لوگوں کی رضا کا طالب ہو تو اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کو اسے تکلیف دینے کے لیے مقرر کر دے گا“، (والسلام علیک تم پر اللہ کی سلامتی نازل ہو)۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17815) (صحیح) (سند میں ایک راوی ”رجل من أھل المدینة“ مبہم ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحة رقم: 2311)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا مندی ہر چیز پر مقدم ہے، اس لیے اگر کوئی ایسا امر پیش ہو جسے انجام دینے سے اللہ کی رضا مندی حاصل ہو گی لیکن لوگوں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا تو لوگوں کو نظر انداز کر کے اللہ کی رضا مندی کا طالب بنے، کیونکہ ایسی صورت میں اسے اللہ کی نصرت و تائید حاصل رہے گی، اور اگر بندوں کے غیض و غضب سے خائف ہو کر اللہ کی رضا کو بھول بیٹھا تو ایسا شخص رب العالمین کی نصرت و تائید سے محروم رہے گا، ساتھ ہی اسے انہی بندوں کے ذریعہ ایسی ایذا اور تکلیف پہنچائے گا جو اس کے لیے باعث ندامت ہو گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2311)، تخريج الطحاوية (278)
قال الشيخ زبير على زئي: (2414) إسناده ضعيف رجل من أهل المدينة مجهول و روي ابن حبان (الإحسان: 277) عن عائشه رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من أرضي الله بسخط الناس كفاه الله ومن أسخط الله برضا الناس وكله الله إلى الناس“ وسنده صحيح و رواه أحمد فى الزهد (ص 164 ح 908) عن عائشه موقوفاً وسنده صحيح و حديث ابن حبان و أحمد يغني عنه