(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة، قال: كتب به إلي منصور وقراته عليه، سمع ابا عثمان مولى المغيرة بن شعبة، عن ابي هريرة، قال: سمعت ابا القاسم صلى الله عليه وسلم يقول: " لا تنزع الرحمة إلا من شقي "، قال: وابو عثمان الذي روى عن ابي هريرة لا يعرف اسمه، ويقال: هو والد موسى بن ابي عثمان الذي روى عنه ابو الزناد، وقد روى ابو الزناد، عن موسى بن ابي عثمان، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم غير حديث، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: كَتَبَ بِهِ إِلَيَّ مَنْصُورٌ وَقَرَأْتُهُ عَلَيْهِ، سَمِعَ أَبَا عُثْمَانَ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا تُنْزَعُ الرَّحْمَةُ إِلَّا مِنْ شَقِيٍّ "، قَالَ: وَأَبُو عُثْمَانَ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا يُعْرَفُ اسْمُهُ، وَيُقَالُ: هُوَ وَالِدُ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ الَّذِي رَوَى عَنْهُ أَبُو الزِّنَادِ، وَقَدْ رَوَى أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ حَدِيثٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”صرف بدبخت ہی (کے دل) سے رحم ختم کیا جاتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوعثمان جنہوں نے ابوہریرہ سے یہ حدیث روایت کی ہے ان کا نام نہیں معلوم ہے، کہا جاتا ہے، وہ اس موسیٰ بن ابوعثمان کے والد ہیں جن سے ابوالزناد نے روایت کی ہے، ابوالزناد نے «عن موسى بن أبي عثمان عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن ابي قابوس، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الراحمون يرحمهم الرحمن، ارحموا من في الارض يرحمكم من في السماء، الرحم شجنة من الرحمن فمن وصلها وصله الله، ومن قطعها قطعه الله "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي قَابُوسَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ، الرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعَهُ اللَّهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا، رحم رحمن سے مشتق (نکلا) ہے، جس نے اس کو جوڑا اللہ اس کو (اپنی رحمت سے) جوڑے گا اور جس نے اس کو توڑا اللہ اس کو اپنی رحمت سے کاٹ دے گا“۔
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مالی اور بدنی عبادتوں میں نماز اور زکاۃ سب سے اصل ہیں، نیز «لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ» کی شہادت و اعتراف کے بعد ارکان اسلام میں یہ دونوں (زکاۃ و صلاۃ) سب سے اہم ہیں اسی لیے ان کا تذکرہ خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خیر خواہی عام وخاص سب کے لیے ہے، طبرانی میں ہے کہ جریر رضی الله عنہ نے اپنے غلام کو تین سو درہم کا ایک گھوڑا خریدنے کا حکم دیا، غلام گھوڑے کے ساتھ گھوڑے کے مالک کو بھی لے آیا، جریر رضی الله عنہ نے کہا کہ تمہارا گھوڑا تین سو درہم سے زیادہ قیمت کا ہے، کیا اسے چار سو میں بیچو گے؟ وہ راضی ہو گیا، پھر آپ نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ قیمت کا ہے کیا پانچ سو درہم میں فروخت کرو گے، چنانچہ وہ راضی ہو گیا، پھر اسی طرح اس کی قیمت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ اسے آٹھ سو درہم میں خریدا، اس سلسلہ میں ان سے عرض کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی بیعت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا صفوان بن عيسى، عن محمد بن عجلان، عن القعقاع بن حكيم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الدين النصيحة " ثلاث مرار، قالوا: يا رسول الله، لمن؟ قال: " لله، ولكتابه، ولائمة المسلمين، وعامتهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن ابن عمر، وتميم الداري، وجرير، وحكيم بن ابي يزيد، عن ابيه، وثوبان.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدِّينُ النَّصِيحَةُ " ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَنْ؟ قَالَ: " لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَتَمِيمٍ الدَّارِيِّ، وَجَرِيرٍ، وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، وَثَوْبَانَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”دین سراپا خیر خواہی ہے“، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: ”اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں) اور عام مسلمانوں کے لیے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، تمیم داری، جریر، «حكيم بن أبي يزيد عن أبيه» اور ثوبان رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا اور اس کی ذات پر صحیح طور پر ایمان رکھنا یہ اللہ کے ساتھ خیر خواہی ہے، جس کا فائدہ انسان کو خود اپنی ذات کو پہنچتا ہے، ورنہ اللہ عزوجل کی خیر خواہی کون کر سکتا ہے، اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ نصیحت اور خیر خواہی کا حق اللہ کے لیے ہے جو وہ اپنی مخلوق سے کرتا ہے، اور اس کی کتاب (قرآن) کے ساتھ خیر خواہی اس کے احکام پر عمل کرنا ہے، اس میں غور و فکر اور تدبر کرنا اس کی تعلیمات کو پھیلانا اس میں تحریف سے بچنا، اس کی تصدیق کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کا التزام کرنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا پابند ہونا، اس کی رسالت کی تصدیق کرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا یہ رسول کی خیر خواہی ہے، مسلمان حکمراں اور ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق اور غیر معصیت میں ان کی اعانت و اطاعت کی جائے، سیدھے راستے سے انحراف کرنے کی صورت میں ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کرتے ہوئے انہیں معروف کا حکم دیا جائے، سوائے اس کے کہ ان سے صریحاً کفر کا اظہار ہو تو ایسی صورت میں ترک اعانت ضروری ہے، عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ دنیا و آخرت سے متعلق جو بھی خیر اور بھلائی کے کام ہیں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے، اور شر و فساد کے کاموں میں ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، اور برائی سے روکا جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (26)، غاية المرام (332)
(مرفوع) حدثنا عبيد بن اسباط بن محمد القرشي، حدثني ابي، عن هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المسلم اخو المسلم، لا يخونه ولا يكذبه ولا يخذله، كل المسلم على المسلم حرام، عرضه وماله ودمه، التقوى ها هنا، بحسب امرئ من الشر ان يحتقر اخاه المسلم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وفي الباب عن علي، وابي ايوب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَخُونُهُ وَلَا يَكْذِبُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، عِرْضُهُ وَمَالُهُ وَدَمُهُ، التَّقْوَى هَا هُنَا، بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْتَقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي أَيُّوبَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے، اس سے جھوٹ نہ بولے، اور اس کو بےیار و مددگار نہ چھوڑے، ہر مسلمان کی عزت، دولت اور خون دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے، تقویٰ یہاں (دل میں) ہے، ایک شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر و کمتر سمجھے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں علی اور ابوایوب رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں مسلمانوں کی عزت آبرو اور جان و مال کی حفاظت کرنے کی تاکید کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ بتائی گئی ہے کہ تقویٰ کا معاملہ انسان کا اندرونی معاملہ ہے، اس کا تعلق دل سے ہے، اس کا حال اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا، اس لیے دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھتے ہوئے اپنے بارے میں قطعا یہ گمان نہیں کرنا چاہیئے کہ میں زہد و تقویٰ کے اونچے مقام پر فائز ہوں، کیونکہ اس کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے“۔
(مرفوع) حدثني احمد بن محمد، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا يحيى بن عبيد الله، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن احدكم مرآة اخيه، فإن راى به اذى فليمطه عنه "، قال ابو عيسى: ويحيى بن عبيد الله ضعفه شعبة، قال: وفي الباب عن انس.(مرفوع) حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَحَدَكُمْ مِرْآةُ أَخِيهِ، فَإِنْ رَأَى بِهِ أَذًى فَلْيُمِطْهُ عَنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ضَعَّفَهُ شُعْبَةُ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر آدمی اپنے بھائی کے لیے آئینہ ہے، اگر وہ اپنے بھائی کے اندر کوئی عیب دیکھے تو اسے (اطلاع کے ذریعہ) دور کر دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- شعبہ نے یحییٰ بن عبیداللہ کو ضعیف کہا ہے، ۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14121) (ضعیف جداً) (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، الضعيفة (1889) // ضعيف الجامع الصغير (1371) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1929) إسناده ضعيف جدًا يحيي بن عبيدالله: متروك وأفحش الحاكم فرماه بالوضع (تق: 7599) وقال الھيثمي: وقد ضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 319/10) وحديث أبى داود(4918) يغني عنه
(مرفوع) حدثنا عبيد بن اسباط بن محمد القرشي، حدثني ابي، عن الاعمش، قال: حدثت، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من نفس عن مسلم كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة، ومن يسر على معسر في الدنيا يسر الله عليه في الدنيا والآخرة، ومن ستر على مسلم في الدنيا ستر الله عليه في الدنيا والآخرة، والله في عون العبد ما كان العبد في عون اخيه "، قال: وفي الباب عن ابن عمر، وعقبة بن عامر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روى ابو عوانة، وغير واحد هذا الحديث، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه، ولم يذكروا فيه: حدثت عن ابي صالح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حُدِّثْتُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ فِي الدُّنْيَا يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ عَلَى مُسْلِمٍ فِي الدُّنْيَا سَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ أبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى أَبُو عَوَانَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور فرما دے گا، جس نے دنیا میں کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں میں آسانی کرے گا، اور جس نے دنیا میں کسی مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے عیب کی پردہ پوشی کرے گا، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں ہوتا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کو ابو عوانہ اور کئی لوگوں نے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، لیکن اس میں «حدثت عن أبي صالح» کے الفاظ نہیں بیان کیے ہیں، ۳- اس باب میں ابن عمر اور عقبہ بن عامر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1425 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا کی خاطر دنیاوی مفاد کے بغیر جو کوئی مسلمانوں کی حاجات و ضروریات کا خاص خیال رکھے اور انہیں پوری کرے تو اس کا یہ عمل نہایت فضیلت والا ہے، ایسے شخص کی حاجات خود رب العالمین پوری کرتا ہے، مزید اسے آخرت میں اجر عظیم سے بھی نوازے گا۔
ابو الدرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے بھائی کی عزت (اس کی غیر موجودگی میں) بچائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم سے بچائے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں اسماء بنت یزید رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: بعض احادیث میں «عن عرض أخيه» کے بعد «بالغيب» کا اضافہ ہے، مفہوم یہ ہے کہ جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں اس کا دفاع کرے اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے اس کی بڑی فضیلت ہے، اور اس کا بڑا مقام ہے، اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ رب العالمین اسے جہنم کی آگ سے قیامت کے دن محفوظ رکھے گا۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري. ح قال: وحدثنا سعيد بن عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن ابي ايوب الانصاري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث، يلتقيان فيصد هذا ويصد هذا وخيرهما الذي يبدا بالسلام "، قال: وفي الباب عن عبد الله بن مسعود، وانس، وابي هريرة، وهشام بن عامر، وابي هند الداري، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ. ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ، يَلْتَقِيَانِ فَيَصُدُّ هَذَا وَيَصُدُّ هَذَا وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبِي هِنْدٍ الدَّارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے (کسی دوسرے مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھے، جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو وہ اس سے منہ پھیر لے اور یہ اس سے منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، انس، ابوہریرہ، ہشام بن عامر اور ابوہند داری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ناراض رہنا درست نہیں، اور اگر اس ناراضگی کا تعلق کسی دینی معاملہ سے ہو تو علماء کا کہنا ہے کہ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے جب تک وہ سبب دور نہ ہو جائے جس سے یہ دینی ناراضگی پائی جا رہی ہے۔