(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا قبيصة، عن سفيان، عن عبد الرحمن بن زياد بن انعم، عن عبد الله بن يزيد، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ما دعوة اسرع إجابة من دعوة غائب لغائب "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، والافريقي يضعف في الحديث وهو عبد الرحمن بن زياد بن انعم، وعبد الله بن يزيد هو ابو عبد الرحمن الحبلي.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا دَعْوَةٌ أَسْرَعَ إِجَابَةً مِنْ دَعْوَةِ غَائِبٍ لِغَائِبٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْأَفْرِيقِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ هُوَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی دعا اتنی جلد قبول نہیں ہوتی ہے جتنی جلد غائب آدمی کے حق میں غائب آدمی کی دعا قبول ہوتی ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- راوی افریقی حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں، ان کا نام عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 36 (1535) (تحفة الأشراف: 8852) (ضعیف) (سند میں ”عبدالرحمن بن أبی نعم“ ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ ایسی دعا ریا کاری اور دکھاوے سے خالی ہوتی ہے، صدق دلی اور خلوص نیت سے نکلی ہوئی یہ دعا قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (269 / 2) // عندنا برقم (330 / 1535)، ضعيف الجامع الصغير (5065)، المشكاة (2247) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1980) إسناده ضعيف / د 1535
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " المستبان ما قالا فعلى البادي منهما ما لم يعتد المظلوم "، وفي الباب عن سعد، وابن مسعود، وعبد الله بن مغفل، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَى الْبَادِي مِنْهُمَا مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُومُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ سَعْدٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گالی گلوچ کرنے والے دو آدمیوں میں سے گالی کا گناہ ان میں سے شروع کرنے والے پر ہو گا، جب تک مظلوم حد سے آگے نہ بڑھ جائے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سعد، ابن مسعود اور عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہم سے بھی حدیثیں مروی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود الحفري، عن سفيان، عن زياد بن علاقة، قال: سمعت المغيرة بن شعبة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تسبوا الاموات فتؤذوا الاحياء "، قال ابو عيسى: وقد اختلف اصحاب سفيان في هذا الحديث، فروى بعضهم مثل رواية الحفري، وروى بعضهم عن سفيان، عن زياد بن علاقة، قال: سمعت رجلا يحدث عند المغيرة بن شعبة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قَال: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَتُؤْذُوا الْأَحْيَاءَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدِ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ سُفْيَانَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَوَى بَعْضُهُمْ مِثْلَ رِوَايَةِ الْحَفَرِيِّ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قَال: سَمِعْتُ رَجُلًا يُحَدِّثُ عِنْدَ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردوں کو گالی دے کر زندوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی روایت کرنے میں سفیان کے شاگرد مختلف ہیں، بعض نے حفری کی حدیث کے مثل روایت کی ہے (یعنی: «عن زياد بن علاقة، عن المغيرة» کے طریق سے) اور بعض نے اسے «عن سفيان عن زياد بن علاقة قال سمعت رجلا يحدث عند المغيرة بن شعبة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن زبيد بن الحارث، عن ابي وائل، عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سباب المسلم فسوق، وقتاله كفر "، قال زبيد: قلت لابي وائل: اانت سمعته من عبد الله؟ قال: نعم، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زُبَيْدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ "، قَالَ زُبَيْدٌ: قُلْتُ لِأَبِي وَائِلٍ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جھگڑا کرنا کفر ہے“۱؎۔ راوی زبید بن حارث کہتے ہیں: میں نے ابووائل شقیق بن سلمہ سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے سنی ہے؟ کہا: ہاں۔
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزت و احترام کا خاص خیال رکھے کیونکہ ناحق کسی کو گالی دینا باعث فسق ہے، اور ناحق جھگڑا کرنا کفار کا عمل ہے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا علي بن مسهر، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن النعمان بن سعد، عن علي، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن في الجنة غرفا ترى ظهورها من بطونها، وبطونها من ظهورها "، فقام اعرابي، فقال: لمن هي يا رسول الله؟ قال: " لمن اطاب الكلام، واطعم الطعام، وادام الصيام، وصلى لله بالليل والناس نيام "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث عبد الرحمن بن إسحاق، وقد تكلم بعض اهل الحديث في عبد الرحمن بن إسحاق هذا من قبل حفظه، وهو كوفي، وعبد الرحمن بن إسحاق القرشي مدني، وهو اثبت من هذا، وكلاهما كانا في عصر واحد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا تُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا، وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا "، فَقَامَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَدَامَ الصِّيَامَ، وَصَلَّى لِلَّهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق هَذَا مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَهُوَ كُوفِيٌّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق الْقُرَشِيُّ مَدَنِيُّ، وَهُوَ أَثْبَتُ مِنْ هَذَا، وَكِلَاهُمَا كَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا“، (یہ سن کر) ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”جو اچھی طرح بات کرے، کھانا کھلائے، خوب روزہ رکھے اور اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، اسحاق بن عبدالرحمٰن کے حافظے کے تعلق سے بعض محدثین نے کلام کیا ہے، یہ کوفہ کے رہنے والے ہیں، ۳- عبدالرحمٰن بن اسحاق نام کے ایک دوسرے راوی ہیں، وہ قرشی اور مدینہ کے رہنے والے ہیں، یہ ان سے اثبت ہیں، اور دونوں کے دونوں ہم عصر ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤالف وأعادہ في صفة الجنة 3 (2527) (تحفة الأشراف: 10296) و مسند احمد (1/156) (حسن) (سند میں عبد الرحمن بن اسحاق واسطی سخت ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)»
وضاحت: ۱؎: خوش کلامی، کثرت سے روزے رکھنا، اور رات میں جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں اللہ کے لیے نماز پڑھنی یہ ایسے اعمال ہیں جو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والے ہیں، شرط یہ ہے کہ یہ سب اعمال ریاکاری اور دکھاوے سے خالی ہوں۔
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (2335)، التعليق الرغيب (2 / 46)
قال الشيخ زبير على زئي: (1984) إسناده ضعيف /ياتي: 2527 عبدالرحمن بن إسحاق الكوفي ضعيف (د 756) وللحديث شواھد ضعيفة عند أحمد (343/5) والطبراني الكبير (301/3ح 3467) وغيرھما وروي الحاكم (80/1ح 270) مرفوعاً بلفظ: ((إن فى الجنة غرفاً يرى ظاھرھا من باطنھا و باطنھا من ظاھر ھا)) فقال أبو مالك الأشعري: لمن يا رسول الله؟ قال: ((لمن أطاب الكلام وأطعم اطعام و بات قائماً والناس نيام)) وسنده حسن وھو يغني عنه
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " نعما لاحدهم ان يطيع ربه ويؤدي حق سيده "، يعني: المملوك، وقال كعب: صدق الله ورسوله، وفي الباب عن ابي موسى، وابن عمر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " نِعِمَّا لِأَحَدِهِمْ أَنْ يُطِيعَ رَبَّهُ وَيُؤَدِّيَ حَقَّ سَيِّدِهِ "، يَعْنِي: الْمَمْلُوكَ، وَقَالَ كَعْبٌ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي مُوسَى، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے لیے کیا ہی اچھا ہے کہ اپنے رب کی اطاعت کریں اور اپنے مالک کا حق ادا کریں“، آپ کے اس فرمان کا مطلب لونڈی و غلام سے تھا ۱؎۔ کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوموسیٰ اشعری اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: گویا وہ غلام اور لونڈی جو رب العالمین کی عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے مالک کے جملہ حقوق کو اچھی طرح سے ادا کریں ان کے لیے دو گنا ثواب ہے، ایک رب کی عبادت کا دوسرا مالک کا حق ادا کرنے کا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (3 / 159)
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن ابي اليقظان، عن زاذان، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة على كثبان المسك، اراه قال: يوم القيامة: عبد ادى حق الله وحق مواليه، ورجل ام قوما وهم به راضون، ورجل ينادي بالصلوات الخمس في كل يوم وليلة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه من حديث سفيان الثوري، عن ابي اليقظان إلا من حديث وكيع، وابو اليقظان اسمه عثمان بن قيس، ويقال: ابن عمير وهو اشهر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ عَلَى كُثْبَانِ الْمِسْكِ، أُرَاهُ قَالَ: يَوْمَ الْقِيَامَةِ: عَبْدٌ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ بِهِ رَاضُونَ، وَرَجُلٌ يُنَادِي بِالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ إِلا مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ، وَأَبُو الْيَقْظَانِ اسْمُهُ عُثْمَانُ بْنُ قَيْسٍ، وَيُقَالُ: ابْنُ عُمَيْرٍ وَهُوَ أَشْهَرُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمی مشک کے ٹیلے پر ہوں گے، قیامت کے دن، پہلا وہ غلام جو اللہ کا اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے، دوسرا وہ آدمی جو کسی قوم کی امامت کرے اور وہ اس سے راضی ہوں، اور تیسرا وہ آدمی جو رات اور دن میں نماز کے لیے پانچ بار بلاتا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے سفیان ثوری کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ ابوالیقظان سے روایت کرتے ہیں، ۲- ابوالیقظان کا نام عثمان بن قیس ہے، انہیں عثمان بن عمیر بھی کہا جاتا ہے اور یہی مشہور ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وأعادہ في صفة الجنة 25 (2566) (تحفة الأشراف: 6718)، وانظر مسند احمد (2/26) (ضعیف) (سند میں أبوالیقظان ضعیف، مختلط اور مدلس راوی ہے، اور تشیع میں بھی غالی ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اذان دیتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (666) // ضعيف الجامع الصغير (2579)، وسيأتي برقم (470 / 2705) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1986) إسناده ضعيف /يأتي 2566 أبو اليقظان عثمان بن عمير: ضعيف (تقدم:126)
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، برائی کے بعد (جو تم سے ہو جائے) بھلائی کرو جو برائی کو مٹا دے ۱؎ اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) قال محمود: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن حبيب بن ابي ثابت، عن ميمون بن ابي شبيب، عن معاذ بن جبل، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه، قال محمود: والصحيح حديث ابي ذر.(مرفوع) قَالَ مَحْمُودٌ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، قَالَ مَحْمُودٌ: وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ.
اس سند سے معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ محمود بن غیلان کہتے ہیں: صحیح ابوذر کی حدیث ہے۔