(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا عبد الله بن نمير، حدثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن سعيد بن ابي هند، عن ابي موسى الاشعري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " حرم لباس الحرير والذهب على ذكور امتي، واحل لإناثهم "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن عمر، وعلي، وعقبة بن عامر، وانس، وحذيفة، وام هانئ، وعبد الله بن عمرو، وعمران بن حصين، وعبد الله بن الزبير، وجابر، وابي ريحان، وابن عمر، والبراء، وواثلة بن الاسقع، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " حُرِّمَ لِبَاسُ الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي، وَأُحِلَّ لِإِنَاثِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَنَسٍ، وَحُذَيْفَةَ، وَأُمِّ هَانِئٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي رَيْحَانَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَالْبَرَاءِ، وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ریشم کا لباس اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے اور ان کی عورتوں کے لیے حلال کیا گیا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، علی، عقبہ بن عامر، انس، حذیفہ، ام ہانی، عبداللہ بن عمرو، عمران بن حصین، عبداللہ بن زبیر، جابر، ابوریحان، ابن عمر، براء، اور واثلہ بن اسقع رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزینة 40 (5151)، و74 (5267)، (تحفة الأشراف: 8998)، و مسند احمد (4/392، 393، 407) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مسلمان مردوں کے لیے سونا اور ریشم کے کپڑے حرام ہیں، حرمت کی کئی وجہیں ہیں: کفار و مشرکین سے اس میں مشابہت پائی جاتی ہے، زیب و زینت عورتوں کا خاص وصف ہے، مردوں کے لیے یہ پسندیدہ نہیں، اس پہلو سے یہ دونوں حرام ہیں، اسلام جس سادگی کی تعلیم دیتا ہے یہ اس سادگی کے خلاف ہے، حالانکہ سادگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایمان کا حصہ ہے، آپ کا ارشاد ہے «البذاذة من الإيمان» یعنی سادہ اور بےتکلف رہن سہن اختیار کرنا ایمان کا حصہ ہے، یہ دونوں چیزیں عورتوں کے لیے حلال ہیں، لیکن حلال ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے استعمال میں حد سے تجاوز کیا جائے، اسی طرح یہاں حلت کا تعلق صرف سونے کے زیورات سے ہے، نہ کہ ان سے بنے ہوئے برتنوں سے کیونکہ سونے (اور چاندی) سے بنے ہوئے برتن سب کے لیے حرام ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثنا ابي، عن قتادة، عن الشعبي، عن سويد بن غفلة، عن عمر، انه خطب بالجابية، فقال: " نهى نبي الله صلى الله عليه وسلم عن الحرير، إلا موضع اصبعين، او ثلاث، او اربع "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ خَطَبَ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: " نَهَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَرِيرِ، إِلَّا مَوْضِعَ أُصْبُعَيْنِ، أَوْ ثَلَاثٍ، أَوْ أَرْبَعٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سوید بن غفلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر نے مقام جابیہ میں خطبہ دیا اور کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم سے منع فرمایا سوائے دو، یا تین، یا چار انگشت کے برابر ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ریشم کا لباس مردوں کے لیے شرعی طور پر حرام ہے، البتہ دو یا تین یا چار انگلی کے برابر کسی کپڑے پر ریشم لگا ہو، یا کوئی عذر مثلاً خارش وغیرہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن انس بن مالك، ان عبد الرحمن بن عوف، والزبير بن العوام " شكيا القمل إلى النبي صلى الله عليه وسلم في غزاة لهما، فرخص لهما في قمص الحرير "، قال: ورايته عليهما، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ " شَكَيَا الْقَمْلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ لَهُمَا، فَرَخَّصَ لَهُمَا فِي قُمُصِ الْحَرِيرِ "، قَالَ: وَرَأَيْتُهُ عَلَيْهِمَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف اور زبیر بن عوام رضی الله عنہما نے ایک غزوہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوؤں کی شکایت کی، تو آپ نے انہیں ریشم کی قمیص کی اجازت دے دی، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے ان کے بدن پر ریشم کی قمیص دیکھی۔
(مرفوع) حدثنا ابو عمار، حدثنا الفضل بن موسى، عن محمد بن عمرو، حدثنا واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ، قال: " قدم انس بن مالك، فاتيته، فقال: من انت؟ فقلت: انا واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ، قال: فبكى، وقال: إنك لشبيه بسعد، وإن سعدا كان من اعظم الناس واطولهم، وإنه بعث إلى النبي صلى الله عليه وسلم جبة من ديباج منسوج فيها الذهب، فلبسها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصعد المنبر فقام او قعد، فجعل الناس يلمسونها، فقالوا: ما راينا كاليوم ثوبا قط، فقال: " اتعجبون من هذه؟ لمناديل سعد في الجنة خير مما ترون "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن اسماء بنت ابي بكر، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ: " قَدِمَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ: فَبَكَى، وَقَالَ: إِنَّكَ لَشَبِيهٌ بِسَعْدٍ، وَإِنَّ سَعْدًا كَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِهِمْ، وَإِنَّهُ بُعِثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبَّةٌ مِنْ دِيبَاجٍ مَنْسُوجٌ فِيهَا الذَّهَبُ، فَلَبِسَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَامَ أَوْ قَعَدَ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَلْمِسُونَهَا، فَقَالُوا: مَا رَأَيْنَا كَالْيَوْمِ ثَوْبًا قَطُّ، فَقَالَ: " أَتَعْجَبُونَ مِنْ هَذِهِ؟ لَمَنَادِيلُ سَعْدٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِمَّا تَرَوْنَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی الله عنہ (ہمارے پاس) آئے تو میں ان کے پاس گیا، انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ رضی الله عنہ ہوں، انس رضی الله عنہ رو پڑے اور بولے: تم سعد کی شکل کے ہو، سعد بڑے دراز قد اور لمبے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ریشمی جبہ بھیجا گیا جس میں زری کا کام کیا ہوا تھا ۱؎ آپ اسے پہن کر منبر پر چڑھے، کھڑے ہوئے یا بیٹھے تو لوگ اسے چھو کر کہنے لگے: ہم نے آج کی طرح کبھی کوئی کپڑا نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس پر تعجب کر رہے ہو؟ جنت میں سعد کے رومال اس سے کہیں بہتر ہیں جو تم دیکھ رہے ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں اسماء بنت ابی بکر سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: " ما رايت من ذي لمة في حلة حمراء احسن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، له شعر يضرب منكبيه بعيد ما بين المنكبين، لم يكن بالقصير ولا بالطويل "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن جابر بن سمرة، وابي رمثة، وابي جحيفة، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: " مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَهُ شَعْرٌ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، لَمْ يَكُنْ بِالْقَصِيرِ وَلَا بِالطَّوِيلِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَأَبِي رِمْثَةَ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال شانوں کو چھوتے تھے، آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی، آپ نہ کوتاہ قد تھے اور نہ لمبے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر بن سمرہ، ابورمثہ اور ابوجحیفہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 33 (3551)، واللباس 35 (5848)، و68 (5903)، صحیح مسلم/الفضائل 25 (2337)، سنن ابی داود/ الترجل 9 (4183)، سنن النسائی/الزینة 9 (5063)، و 59 (5234)، و 93 (5248)، سنن ابن ماجہ/اللباس 20 (3599)، (تحفة الأشراف: 1847)، و مسند احمد (4/281، 295) و یأتي برقم 3635 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سرخ لباس کی بابت حالات و ظروف کی رعایت ضروری ہے، اگر یہ عورتوں کا مخصوص زیب و زینت والا لباس ہے جیسا کہ آج کے اس دور میں شادی کے موقع پر سرخ جوڑا دلہن کو خاص طور سے دیا جاتا ہے تو مردوں کا اس سے بچنا بہتر ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سرخ جوڑے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیسا تھا؟ خلاصہ اقوال یہ ہے کہ یہ سرخ جوڑا یا دیگر لال لباس جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہنے تھے، ان میں تانا اور بانا میں رنگوں کا اختلاف تھا، بالکل خالص لال رنگ کے وہ جوڑے نہیں تھے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا مالك بن انس، عن نافع، عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين، عن ابيه، عن علي، قال: " نهاني النبي صلى الله عليه وسلم عن لبس القسي والمعصفر "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن انس، وعبد الله بن عمرو، وحديث علي حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " نَهَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الْقَسِّيِّ وَالْمُعَصْفَرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَحَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قسی کے بنے ہوئے ریشمی اور زرد رنگ کے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 264 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «معصفر» وہ کپڑا ہے جو عصفر سے رنگا ہوا ہو، اس کا رنگ سرخی اور زردی کے درمیان ہوتا ہے، اس رنگ کا لباس عام طور سے کاہن، جوگی اور سادھو پہنتے ہیں، ممکن ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کاہنوں کا لباس یہی رہا ہو جس کی وجہ سے اسے پہننے سے منع کیا گیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3602)، ويأتي بأتم (3637)
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى الفزاري، حدثنا سيف بن هارون البرجمي، عن سليمان التيمي، عن ابي عثمان، عن سلمان، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والفراء، فقال: " الحلال ما احل الله في كتابه، والحرام ما حرم الله في كتابه، وما سكت عنه فهو مما عفا عنه "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن المغيرة، وهذا حديث غريب لا نعرفه مرفوعا إلا من هذا الوجه، وروى سفيان، وغيره، عن سليمان التيمي، عن ابي عثمان، عن سلمان قوله، وكان هذا الحديث الموقوف اصح، وسالت البخاري عن هذا الحديث، فقال: ما اراه محفوظا روى سفيان، عن سليمان التيمي، عن ابي عثمان، عن سلمان، موقوفا، قال البخاري: وسيف بن هارون مقارب الحديث، وسيف بن محمد، عن عاصم ذاهب الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ الْبُرْجُمِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ، فَقَالَ: " الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى سُفْيَانُ، وَغَيْرُهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَوْلَهُ، وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ الْمَوْقُوفَ أَصَحُّ، وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: مَا أُرَاهُ مَحْفُوظًا رَوَى سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، مَوْقُوفًا، قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَسَيْفُ بْنُ هَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَاصِمٍ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ.
سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ۲- اسے سفیان نے بسند «سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان» موقوفاً روایت کیا ہے، گویا یہ موقوف حدیث زیادہ صحیح ہے، اس باب میں مغیرہ سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: میں اس کو محفوظ نہیں سمجھتا ہوں، سفیان نے بسند «سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان» موقوفا روایت کی ہے، ۴- امام بخاری کہتے ہیں: سیف بن ہارون مقارب الحدیث ہیں، اور سیف بن محمد عاصم سے روایت کرنے میں ذاہب الحدیث ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأطعمة 60 (3367)، (تحفة الأشراف: 4496) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی سیف سخت ضعیف ہیں، دیکھئے: غایة المرام رقم: 3، وتراجع الألبانی 428)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں، اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے «هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا» لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو، کیونکہ حرمت کی دلیل آ جانے کے بعد وہ حرام ہو جائیں گی، فقہاء کے مذکورہ اصول اور مذکورہ آیت سے بعض نے پان، تمباکو اور بیڑی سگریٹ کے مباح ہونے پر استدلال کیا ہے، لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ضرر رساں نہ ہوں، اگر دیر یا سویر نقصان ظاہر ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہ ہرگز مباح نہیں ہوں گی، اور مذکورہ چیزوں میں جو ضرر و نقصان ہے یہ کسی سے مخفی نہیں، نیز ان کا استعمال «تبذیر»(اسراف اور فضول خرچی) کے باب میں آتا ہے، لہٰذا ان کی حرمت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3366)
قال الشيخ زبير على زئي: (1726) إسناده ضعيف / جه 3367 سيف بن ھارون البرجمي: ضعيف أفحش ابن حبان القول فيه (تق: 2727) وفيه علة أخري وللحديث شاھد ضعيف عندالحاكم فى المستدرك (375/2 ح 3419) وأثر الحاكم (115/4 ح 7113 سنده صحيح) يغني عنه
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک بکری مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری والے سے کہا: تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی؟ پھر تم دباغت دے کر اس سے فائدہ حاصل کرتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ مردہ جانور کی کھال سے فائدہ دباغت (پکانے) کے بعد ہی اٹھایا جا سکتا ہے، اور ان روایتوں کو جن میں دباغت (پکانے) کی قید نہیں ہے، اسی دباغت والی روایت پر محمول کیا جائے گا۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، وعبد العزيز بن محمد، عن زيد بن اسلم، عن عبد الرحمن بن وعلة، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ايما إهاب دبغ فقد طهر "، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم قالوا في جلود الميتة: إذا دبغت فقد طهرت، قال ابو عيسى: قال الشافعي: ايما إهاب ميتة دبغ فقد طهر، إلا الكلب والخنزير، واحتج بهذا الحديث، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: إنهم كرهوا جلود السباع وإن دبغ، وهو قول عبد الله بن المبارك، واحمد، وإسحاق، وشددوا في لبسها، والصلاة فيها، قال إسحاق بن إبراهيم: إنما معنى قول رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ايما إهاب دبغ فقد طهر ": جلد ما يؤكل لحمه، هكذا فسره النضر بن شميل، وقال إسحاق: قال النضر بن شميل: إنما يقال الإهاب: لجلد ما يؤكل لحمه، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن سلمة بن المحبق، وميمونة، وعائشة، وحديث ابن عباس حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، وروي عن ابن عباس، عن ميمونة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وروي عنه، عن سودة، وسمعت محمدا يصحح حديث ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وحديث ابن عباس، عن ميمونة، وقال: احتمل ان يكون روى ابن عباس، عن ميمونة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وروى ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يذكر فيه عن ميمونة، قال ابو عيسى: والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم، وهو قول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَعْلَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ "، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا فِي جُلُودِ الْمَيْتَةِ: إِذَا دُبِغَتْ فَقَدْ طَهُرَتْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ الشَّافِعِيُّ: أَيُّمَا إِهَابِ مَيْتَةٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ، إِلَّا الْكَلْبَ وَالْخِنْزِيرَ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِنَّهُمْ كَرِهُوا جُلُودَ السِّبَاعِ وَإِنْ دُبِغَ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَشَدَّدُوا فِي لُبْسِهَا، وَالصَّلَاةِ فِيهَا، قَالَ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ: إِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ ": جِلْدُ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ، هَكَذَا فَسَّرَهُ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، وقَالَ إِسْحَاق: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: إِنَّمَا يُقَالُ الْإِهَابُ: لِجِلْدِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ، وَمَيْمُونَةَ، وَعَائِشَةَ، وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُوِيَ عَنْهُ، عَنْ سَوْدَةَ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا يُصَحِّحُ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، وَقَالَ: احْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ رَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَيْمُونَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چمڑے کو دباغت دی گئی، وہ پاک ہو گیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بواسطہ ابن عباس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری سندوں سے بھی اسی طرح مروی ہے، ۳- یہ حدیث ابن عباس سے کبھی میمونہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کبھی سودہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، ۴- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ابن عباس کی حدیث اور میمونہ کے واسطہ سے مروی ابن عباس کی حدیث کو صحیح کہتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا: احتمال ہے کہ ابن عباس نے بواسطہ میمونہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہو، اور ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست بھی روایت کیا، اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۵- نضر بن شمیل نے بھی اس کا یہی مفہوم بیان کیا ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: نضر بن شمیل نے کہا: «إهاب» اس جانور کے چمڑے کو کہا جاتا ہے، جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، ۶- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں: مردار کا چمڑا دباغت دینے کے بعد پاک ہو جاتا ہے“، ۷- شافعی کہتے ہیں: کتے اور سور کے علاوہ جس مردار جانور کا چمڑا دباغت دیا جائے وہ پاک ہو جائے گا، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے، ۸- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں نے درندوں کے چمڑوں کو مکروہ سمجھا ہے، اگرچہ اس کو دباغت دی گئی ہو، عبداللہ بن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ان لوگوں نے اسے پہننے اور اس میں نماز ادا کرنے کو برا سمجھا ہے، ۹- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «أيما إهاب دبغ فقد طهر» کا مطلب یہ ہے کہ اس جانور کا چمڑا دباغت سے پاک ہو جائے گا جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، ۱۰- اس باب میں سلمہ بن محبق، میمونہ اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر چمڑا جسے دباغت دیا گیا ہو وہ پاک ہے، لیکن اس عموم سے درندوں کی کھالیں نکل جائیں گی، کیونکہ اس سلسلہ میں فرمان رسول ہے «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن جلود السباع» یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھالوں (کے استعمال) سے منع فرمایا ہے، اس حدیث کی بنیاد پر درندوں کی کھالیں ہر صورت میں ناپاک ہی رہیں گی، اور ان کا استعمال ناجائز ہو گا۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن طريف الكوفي، حدثنا محمد بن فضيل، عن الاعمش، والشيباني، عن الحكم، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن عبد الله بن عكيم، قال: اتانا كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ان لا تنتفعوا من الميتة بإهاب ولا عصب "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، ويروى عن عبد الله بن عكيم، عن اشياخ لهم هذا الحديث، وليس العمل على هذا عند اكثر اهل العلم، وقد روي هذا الحديث عن عبد الله بن عكيم، انه قال: اتانا كتاب النبي صلى الله عليه وسلم قبل وفاته بشهرين، قال: وسمعت احمد بن الحسن، يقول: كان احمد بن حنبل يذهب إلى هذا الحديث لما ذكر فيه قبل وفاته بشهرين، وكان يقول: كان هذا آخر امر النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ترك احمد بن حنبل هذا الحديث لما اضطربوا في إسناده، حيث روى بعضهم فقال: عن عبد الله بن عكيم، عن اشياخ لهم من جهينة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، وَالشَّيْبَانِيِّ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، قَالَ: أَتَانَا كِتَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْ لَا تَنْتَفِعُوا مِنَ الْمَيْتَةِ بِإِهَابٍ وَلَا عَصَبٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَيُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، عَنْ أَشْيَاخٍ لَهُمْ هَذَا الْحَدِيثُ، وَلَيْسَ الْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَانَا كِتَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِشَهْرَيْنِ، قَالَ: وسَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: كَانَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ يَذْهَبُ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ لِمَا ذُكِرَ فِيهِ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِشَهْرَيْنِ، وَكَانَ يَقُولُ: كَانَ هَذَا آخِرَ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تَرَكَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ هَذَا الْحَدِيثَ لَمَّا اضْطَرَبُوا فِي إِسْنَادِهِ، حَيْثُ رَوَى بَعْضُهُمْ فَقَالَ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، عَنْ أَشْيَاخٍ لَهُمْ مِنْ جُهَيْنَةَ.
عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط آیا کہ تم لوگ مردہ جانوروں کے چمڑے ۱؎ اور پٹھوں سے فائدے نہ حاصل کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث عبداللہ بن عکیم سے ان کے شیوخ کے واسطہ سے بھی آئی ہے، ۳- اکثر اہل علم کا اس پر عمل نہیں ہے، ۴- عبداللہ بن عکیم سے یہ حدیث مروی ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط آپ کی وفات سے دو ماہ پہلے آیا، ۵- میں نے احمد بن حسن کو کہتے سنا، احمد بن حنبل اسی حدیث کو اختیار کرتے تھے اس وجہ سے کہ اس میں آپ کی وفات سے دو ماہ قبل کا ذکر ہے، وہ یہ بھی کہتے تھے: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حکم تھا، ۶- پھر احمد بن حنبل نے اس حدیث کو چھوڑ دیا اس لیے کہ راویوں سے اس کی سند میں اضطراب واقع ہے، چنانچہ بعض لوگ اسے عبداللہ بن عکیم سے ان کے جہینہ کے شیوخ کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں۔