زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مجاہد کا سامان سفر تیار کیا، یا اس کے گھر والے کی خبرگیری کی حقیقت میں اس نے جہاد کیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 3761) (صحیح بما قبلہ) (سند میں ”محمد بن ابی لیلیٰ“ ضعیف ہیں، مگر پچھلی سند صحیح ہے)»
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مجاہد کا سامان سفر تیار کیا حقیقت میں اس نے جہاد کیا اور جس نے غازی کے گھر والے کی خبرگیری کی حقیقت میں اس نے جہاد کیا“۔
(مرفوع) حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث، حدثنا الوليد بن مسلم، عن يزيد بن ابي مريم، قال: لحقني عباية بن رفاعة بن رافع وانا ماش إلى الجمعة، فقال: ابشر، فإن خطاك هذه في سبيل الله، سمعت ابا عبس، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اغبرت قدماه في سبيل الله، فهما حرام على النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح، وابو عبس اسمه عبد الرحمن بن جبر، وفي الباب، عن ابي بكر، ورجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو عيسى: ويزيد بن ابي مريم رجل شامي، روى عنه الوليد بن مسلم، ويحيى بن حمزة، وغير واحد من اهل الشام، وبريد بن ابي مريم كوفي ابوه من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم واسمه: مالك بن ربيعة، وبريد بن ابي مريم، سمع من انس بن مالك، وروى عن يزيد بن ابي مريم ابو إسحاق الهمداني، وعطاء بن السائب، ويونس بن ابي إسحاق، وشعبة، احاديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: لَحِقَنِي عَبَايَةُ بْنُ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ وَأَنَا مَاشٍ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَبْشِرْ، فَإِنَّ خُطَاكَ هَذِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، سَمِعْتُ أَبَا عَبْسٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَهُمَا حَرَامٌ عَلَى النَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَبْسٍ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَبْرٍ، وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ رَجُلٌ شَامِيٌّ، رَوَى عَنْهُ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَيَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، وَبُرَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ كُوفِيٌّ أَبُوهُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْمُهُ: مَالِكُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَبُرَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَرَوَى عَنْ يَزِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، وَيُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، وَشُعْبَةُ، أَحَادِيثَ.
یزید بن ابی مریم کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے لیے جا رہا تھا کہ مجھے عبایہ بن رفاعہ بن رافع ملے، انہوں نے کہا: خوش ہو جاؤ، تمہارے یہ قدم اللہ کے راستے میں ہیں، میں نے ابوعبس رضی الله عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے دونوں پیر اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوں، انہیں جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- ابوعبس کا نام عبدالرحمٰن بن جبر ہے، ۳- اس باب میں ابوبکر اور ایک دوسرے صحابی سے بھی احادیث آئی ہیں۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ڈر سے رونے والا جہنم میں داخل نہیں ہو گا یہاں تک کہ دودھ تھن میں واپس لوٹ جائے، (اور یہ محال ہے) اور جہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجہاد (3109)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 9 (2774)، (تحفة الأشراف: 14283)، و مسند احمد (2/505)، ویأتي في الزہد برقم 2311) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جس طرح دنیا و آخرت ایک دوسرے کی ضد ہیں کہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے، اسی طرح راہ جہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3828)، التعليق الرغيب (2 / 166)
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن سالم بن ابي الجعد، ان شرحبيل بن السمط قال: يا كعب بن مرة، حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحذر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من شاب شيبة في الإسلام، كانت له نورا يوم القيامة "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن فضالة بن عبيد، وعبد الله بن عمرو، وحديث كعب بن مرة حديث حسن، هكذا رواه الاعمش، عن عمرو بن مرة، وقد روي هذا الحديث عن منصور، عن سالم بن ابي الجعد، وادخل بينه وبين كعب بن مرة في الإسناد رجلا، ويقال: كعب بن مرة، ويقال: مرة بن كعب البهزي، والمعروف من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مرة بن كعب البهزي، وقد روى عن النبي صلى الله عليه وسلم احاديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، أَنَّ شُرَحْبِيلَ بْنَ السِّمْطِ قَالَ: يَا كَعْبُ بْنَ مُرَّةَ، حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ، كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَحَدِيثُ كَعْبِ بْنِ مُرَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، هَكَذَا رَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، وَأَدْخَلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ كَعْبِ بْنِ مُرَّةَ فِي الْإِسْنَادِ رَجُلًا، وَيُقَالُ: كَعْبُ بْنُ مُرَّةَ، وَيُقَالُ: مُرَّةُ بْنُ كَعْبٍ الْبَهْزِيُّ، وَالْمَعْرُوفُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّةُ بْنُ كَعْبٍ الْبَهْزِيُّ، وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ.
سالم بن ابی جعد سے روایت ہے، شرحبیل بن سمط نے کہا: کعب بن مرہ رضی الله عنہ! ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کیجئے اور کمی زیادتی سے محتاط رہئیے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو اسلام میں بوڑھا ہو جائے، تو قیامت کے دن یہ اس کے لیے نور بن کر آئے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں فضالہ بن عبید اور عبداللہ بن عمرو سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- کعب بن مرہ رضی الله عنہ کی حدیث کو اعمش نے اسی طرح عمرو بن مرہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث منصور سے بھی آئی ہے، انہوں نے سالم بن ابی جعد سے روایت کی ہے، انہوں نے سالم اور کعب بن مرہ کے درمیان سند میں ایک آدمی کو داخل کیا ہے، ۳- کعب بن مرہ کو کبھی کعب بن بن مرہ اور مرہ بن کعب بہزی بھی کہا گیا ہے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجہاد 26 (3146)، (تحفة الأشراف: 11164)، و مسند احمد (4/235-236) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1244)، المشكاة (4459 / التحقيق الثانى)
قال الشيخ زبير على زئي: (1634) إسناده ضعيف / ن 3146 السند منقطع، سالم بن أبى الجعد لم يسمع من شرجيل بن السمط (سنن أبى داود: 3967 طرفه الآخر) ولبعض الحديث شواھد وحديث مسلم (1509) يغني عنه
عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں بوڑھا ہو جائے قیامت کے دن اس کے لیے ایک نور ہو گا“۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة، الخيل لثلاثة: هي لرجل اجر، وهي لرجل ستر، وهي على رجل وزر، فاما الذي له اجر، فالذي يتخذها في سبيل الله فيعدها له هي له اجر، لا يغيب في بطونها شيء إلا كتب الله له اجرا "، وفي الحديث قصة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روى مالك بن انس، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحو هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ: هِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَهِيَ عَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ، فَالَّذِي يَتَّخِذُهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُعِدُّهَا لَهُ هِيَ لَهُ أَجْرٌ، لَا يَغِيبُ فِي بُطُونِهَا شَيْءٌ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَجْرًا "، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر بندھی ہوئی ہے، گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک گھوڑا وہ ہے جو آدمی کے لیے باعث اجر ہے، ایک وہ گھوڑا ہے جو آدمی کی (عزت و وقار) کے لیے پردہ پوشی کا باعث ہے، اور ایک گھوڑا وہ ہے جو آدمی کے لیے باعث گناہ ہے، وہ آدمی جس کے لیے گھوڑا باعث اجر ہے وہ ایسا شخص ہے جو اس کو جہاد کے لیے رکھتا ہے، اور اسی کے لیے تیار کرتا ہے، یہ گھوڑا اس شخص کے لیے باعث اجر ہے، اس کے پیٹ میں جو چیز (خوراک) بھی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اجر و ثواب لکھ دیتا ہے“، اس حدیث میں ایک قصہ کا ذکر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مالک بن انس نے بطریق: «زيد بن أسلم عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابي حسين، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله ليدخل بالسهم الواحد ثلاثة الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، والممد به، وقال: ارموا واركبوا، ولان ترموا احب إلي من ان تركبوا، كل ما يلهو به الرجل المسلم باطل إلا رميه بقوسه، وتاديبه فرسه، وملاعبته اهله، فإنهن من الحق ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَيُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَةً الْجَنَّةَ، صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَالْمُمِدَّ بِهِ، وَقَالَ: ارْمُوا وَارْكَبُوا، وَلَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا، كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ، وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتَهُ أَهْلَهُ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ ".
عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابن ابی الحسین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: تیر بنانے والے کو جو بناتے وقت ثواب کی نیت رکھتا ہو، تیر انداز کو اور تیر دینے والے کو“، آپ نے فرمایا: ”تیر اندازی کرو اور سواری سیکھو، تمہارا تیر اندازی کرنا میرے نزدیک تمہارے سواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، ہر وہ چیز جس سے مسلمان کھیلتا ہے باطل ہے سوائے کمان سے اس کا تیر اندازی کرنا، گھوڑے کو تربیت دینا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، یہ تینوں چیزیں اس کے لیے درست ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18914) (ضعیف) (اس کی سند میں دو راوی تبع تابعی اورتابعی ساقط ہیں، لیکن ”كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلاَّ رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتَهُ أَهْلَهُ“ والا ٹکڑا اگلی سند سے تقویت پا کر صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2811) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (618)، وفي صحيح ابن ماجة برقم (2267)، ضعيف أبي داود (540 / 2513)، الصحيحة (315) //
اس سند سے عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں کعب بن مرہ، عمرو بن عبسہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 24 (2513)، سنن النسائی/الجہاد 27 (3148)، والخیل 8 (3608)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 19 (2811)، (تحفة الأشراف: 9922)، و مسند احمد (4/146)، سنن الدارمی/الجہاد 14 (2449) (حسن) (اس کے راوی عبد اللہ بن زید الازرق لین الحدیث (مقبول) ہیں، مگر ان کی متابعت خالد بن زید یا یزید نے کی ہے (عند النسائی وابی داود) اس لیے یہ حدیث ”حسن لغیرہ“ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، (نیز اس ٹکڑے کے مزید شواہد کے لیے ملاحظہ ہو: الصحیحة: 315)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2811) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (618)، وفي صحيح ابن ماجة برقم (2267)، ضعيف أبي داود (540 / 2513)، الصحيحة (315) //