(مرفوع) حدثنا هناد , حدثنا عبدة , عن عبيد الله بن عمر , عن نافع , عن ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ادرك عمر وهو في ركب , وهو يحلف بابيه , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم , ليحلف حالف بالله , او ليسكت " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا عَبْدَةُ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْرَكَ عُمَرَ وَهُوَ فِي رَكْبٍ , وَهُوَ يَحْلِفُ بِأَبِيهِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ , لِيَحْلِفْ حَالِفٌ بِاللَّهِ , أَوْ لِيَسْكُتْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ کو ایک قافلہ میں پایا، وہ اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تم لوگوں کو باپ، دادا کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے، قسم کھانے والا اللہ کی قسم کھائے ورنہ چپ چاپ رہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 8058) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا ابو خالد الاحمر، عن الحسن بن عبيد الله , عن سعد بن عبيدة , ان ابن عمر سمع رجلا يقول: لا , والكعبة , فقال ابن عمر: لا يحلف بغير الله , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من حلف بغير الله فقد كفر او اشرك " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن , وفسر هذا الحديث عند بعض اهل العلم , ان قوله: " فقد كفر او اشرك " , على التغليظ والحجة , في ذلك حديث ابن عمر ان النبي صلى الله عليه وسلم , سمع عمر يقول: وابي وابي , فقال: " الا إن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم "، وحديث ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " من قال في حلفه واللات والعزى , فليقل: لا إله إلا الله " , قال ابو عيسى: هذا مثل ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه قال: إن الرياء شرك , وقد فسر بعض اهل العلم هذه الآية: فمن كان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا سورة الكهف آية 110 قال: لا يرائي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ , أَنَّ ابْنَ عُمَرَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: لَا , وَالْكَعْبَةِ , فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَا يُحْلَفُ بِغَيْرِ اللَّهِ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَفُسِّرَ هَذَا الْحَدِيثُ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , أَنَّ قَوْلَهُ: " فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ " , عَلَى التَّغْلِيظِ وَالْحُجَّةُ , فِي ذَلِكَ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , سَمِعَ عُمَرَ يَقُولُ: وَأَبِي وَأَبِي , فَقَالَ: " أَلَا إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ "، وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ قَالَ فِي حَلِفِهِ وَاللَّاتِ وَالْعُزَّى , فَلْيَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ الرِّيَاءَ شِرْكٌ , وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذِهِ الْآيَةَ: فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلا صَالِحًا سورة الكهف آية 110 قَالَ: لَا يُرَائِي.
سعد بن عبیدہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے ایک آدمی کو کہتے سنا: ایسا نہیں قسم ہے کعبہ کی، تو اس سے کہا: غیر اللہ کی قسم نہ کھائی جائے، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کی تفسیر بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان «فقد كفر أو أشرك» تنبیہ و تغلیظ کے طور پر ہے، اس کی دلیل ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کو کہتے سنا: میرے باپ کی قسم، میرے باپ کی قسم! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ باپ، دادا کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے“، نیز ابوہریرہ رضی الله عنہ کی (روایت) کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھائی وہ «لا إله إلا الله» کہے،
امام ترمذی کہتے ہیں: ۳- یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی طرح ہے ”بیشک ریا، شرک ہے، ۴- بعض اہل علم نے آیت کریمہ «فمن كان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا»(الکہف: ۱۱۰) کی یہ تفسیر کی ہے کہ وہ ریا نہ کرے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأیمان 5 (3251)، (تحفة الأشراف: 7045)، و مسند احمد 2/87، 125) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2561)، الصحيحة (2042)
(مرفوع) حدثنا عبد القدوس بن محمد العطار البصري , حدثنا عمرو بن عاصم , عن عمران القطان , عن حميد , عن انس , قال: نذرت امراة ان تمشي إلى بيت الله , فسئل نبي الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك , فقال: " إن الله لغني عن مشيها مروها فلتركب " , قال: وفي الباب , عن ابي هريرة , وعقبة بن عامر , وابن عباس , قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , وقالوا: إذا نذرت امراة ان تمشي فلتركب ولتهد شاة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ , حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ , عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ , عَنْ حُمَيْدٍ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: نَذَرَتِ امْرَأَةٌ أَنْ تَمْشِيَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ , فَسُئِلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ , فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ مَشْيِهَا مُرُوهَا فَلْتَرْكَبْ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَقَالُوا: إِذَا نَذَرَتِ امْرَأَةٌ أَنْ تَمْشِيَ فَلْتَرْكَبْ وَلْتُهْدِ شَاةً.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک (پیدل) چل کر جائے گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس کے (پیدل) چلنے سے بے نیاز ہے، اسے حکم دو کہ وہ سوار ہو کر جائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، عقبہ بن عامر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب عورت (حج کو پیدل) چل کر جانے کی نذر مان لے تو وہ سوار ہو جائے اور ایک بکری دم میں دے۔
(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى , حدثنا خالد بن الحارث , حدثنا حميد , عن ثابت , عن انس , قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بشيخ كبير يتهادى بين ابنيه , فقال: " ما بال هذا " , قالوا: يا رسول الله , نذر ان يمشي , قال: " إن الله عز وجل لغني عن تعذيب هذا نفسه " , قال: " فامره ان يركب " , حدثنا محمد بن المثنى , حدثنا ابن ابي عدي , عن حميد , عن انس , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا فذكر نحوه، هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى , حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ , حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ , عَنْ ثَابِتٍ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْخٍ كَبِيرٍ يَتَهَادَى بَيْنَ ابْنَيْهِ , فَقَالَ: " مَا بَالُ هَذَا " , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ , قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَغَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ " , قَالَ: " فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْكَبَ " , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ حُمَيْدٍ , عَنْ أَنَسٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا فَذَكَرَ نَحْوَهُ، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوڑھے کے قریب سے گزرے جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے (حج کے لیے) چل رہا تھا، آپ نے پوچھا: کیا معاملہ ہے ان کا؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! انہوں نے (پیدل) چلنے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل اس کے اپنی جان کو عذاب دینے سے بے نیاز ہے“، پھر آپ نے اس کو سوار ہونے کا حکم دیا۔ اس سند سے بھی انس رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اور یہ صحیح حدیث ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا عبد العزيز بن محمد , عن العلاء بن عبد الرحمن , عن ابيه , عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تنذروا , فإن النذر لا يغني من القدر شيئا , وإنما يستخرج به من البخيل " , قال: وفي الباب , عن ابن عمر , قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , كرهوا النذر , وقال عبد الله بن المبارك: معنى الكراهية في النذر: في الطاعة والمعصية , وإن نذر الرجل بالطاعة فوفى به , فله فيه اجر , ويكره له النذر.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَنْذِرُوا , فَإِنَّ النَّذْرَ لَا يُغْنِي مِنَ الْقَدَرِ شَيْئًا , وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , كَرِهُوا النَّذْرَ , وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: مَعْنَى الْكَرَاهِيَةِ فِي النَّذْرِ: فِي الطَّاعَةِ وَالْمَعْصِيَةِ , وَإِنْ نَذَرَ الرَّجُلُ بِالطَّاعَةِ فَوَفَّى بِهِ , فَلَهُ فِيهِ أَجْرٌ , وَيُكْرَهُ لَهُ النَّذْرُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر مت مانو، اس لیے کہ نذر تقدیر کے سامنے کچھ کام نہیں آتی، صرف بخیل اور کنجوس کا مال اس طریقہ سے نکال لیا جاتا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ نذر کو مکروہ سمجھتے ہیں، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: نذر کے اندر کراہیت کا مفہوم طاعت اور معصیت دونوں سے متعلق ہے، اگر کسی نے اطاعت کی نذر مانی اور اسے پورا کیا تو اسے اس نذر کے پورا کرنے کا اجر ملے گا، لیکن یہ نذر مکروہ ہو گی ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأیمان 26 (6692)، صحیح مسلم/النذور 2 (1640)، سنن ابی داود/ الأیمان 21 (3288)، سنن النسائی/الأیمان 25 (3835)، و 26 (3836)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 15 (2123)، (تحفة الأشراف: 140500)، و مسند احمد (2/235، 301، 314، 412، 463) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نذر سے منع کرنا دراصل بہتر کی طرف رہنمائی کرنا مقصود ہے، صدقہ و خیرات کو مقصود کے حصول سے معلق کرنا کسی بھی صاحب عظمت و مروت کے شایان شان نہیں، یہ عمل اس بخیل کا ہے جو کبھی خرچ نہیں کرتا اور کرنے پر بہتر چیز کی خواہش رکھتا ہے اور ایسا وہی شخص کرتا ہے جس کا دل صدقہ و خیرات کرنا نہیں چاہتا صرف کسی تنگی کے پیش نظر اصلاح حال کے لیے صدقہ و خیرات کی نذر مانتا ہے، نذر سے منع کرنے کی یہی وجہ ہے «واللہ اعلم» ۔
۲؎: اور اگر معصیت کی نذر ہو تو اس کا پورا کرنا صحیح نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور , اخبرنا يحيى بن سعيد القطان , عن عبيد الله بن عمر , عن نافع , عن ابن عمر , عن عمر , قال: قلت: يا رسول الله , إني كنت نذرت ان اعتكف ليلة في المسجد الحرام في الجاهلية , قال: " اوف بنذرك " , قال: وفي الباب , عن عبد الله بن عمرو , وابن عباس , قال ابو عيسى: حديث عمر حديث حسن صحيح , وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث , قالوا: إذا اسلم الرجل , وعليه نذر طاعة , فليف به , وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: لا اعتكاف إلا بصوم , وقال آخرون من اهل العلم: ليس على المعتكف صوم , إلا ان يوجب على نفسه صوما , واحتجوا بحديث عمر انه نذر ان يعتكف ليلة في الجاهلية , فامره النبي صلى الله عليه وسلم بالوفاء , وهو قول احمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ عُمَرَ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , قَالَ: " أَوْفِ بِنَذْرِكَ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ , قَالُوا: إِذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ , وَعَلَيْهِ نَذْرُ طَاعَةٍ , فَلْيَفِ بِهِ , وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ , وقَالَ آخَرُونَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ عَلَى الْمُعْتَكِفِ صَوْمٌ , إِلَّا أَنْ يُوجِبَ عَلَى نَفْسِهِ صَوْمًا , وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ أَنَّهُ نَذَرَ أَنْ يَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ , فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْوَفَاءِ , وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد الحرام میں اعتکاف کروں گا، (تو اس کا حکم بتائیں؟) آپ نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی اسلام لائے، اور اس کے اوپر جاہلیت کی نذر طاعت واجب ہو تو اسے پوری کرے، ۴- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ بغیر روزے کے اعتکاف نہیں ہے اور دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ معتکف پر روزہ واجب نہیں ہے الا یہ کہ وہ خود اپنے اوپر (نذر مانتے وقت) روزہ واجب کر لے، ان لوگوں نے عمر رضی الله عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے جاہلیت میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا (اور روزے کا کوئی ذکر نہیں کیا)، احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھاتے تھے تو اکثر «لا ومقلب القلوب» کہتے تھے ”نہیں، دلوں کے بدلنے والے کی قسم“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قسم کھانے کا انداز و طریقہ بیان ہوا ہے کہ پہلے سے جو بات چل رہی تھی اگر صحیح نہ ہوتی تو آپ پہلے لفظ «لا» سے اس کی نفی اور تردید فرماتے، پھر اللہ کے صفاتی نام سے اس کی قسم کھاتے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء سے قسم کھانی جائز ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن الهاد، عن عمر بن علي بن الحسين بن علي بن ابي طالب، عن سعيد ابن مرجانة، عن ابي هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من اعتق رقبة مؤمنة، اعتق الله منه بكل عضو منه عضوا من النار، حتى يعتق فرجه بفرجه "، قال: وفي الباب، عن عائشة، وعمرو بن عبسة، وابن عباس، وواثلة بن الاسقع، وابي امامة، وعقبة بن عامر، وكعب بن مرة، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وابن الهاد اسمه يزيد بن عبد الله بن اسامة بن الهاد وهو مدني ثقة، قد روى عنه مالك بن انس، وغير واحد من اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ مَرْجَانَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُؤْمِنَةً، أَعْتَقَ اللَّهُ مِنْهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنَ النَّارِ، حَتَّى يَعْتِقَ فَرْجَهُ بِفَرْجِهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَمْرِو بْنِ عَبْسَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَابْنُ الْهَادِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ وَهُوَ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ، قَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے ایک مومن غلام کو آزاد کیا، اللہ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کے ایک ایک عضو کو آگ سے آزاد کرے گا، یہاں تک کہ اس (غلام) کی شرمگاہ کے بدلے اس کی شرمگاہ کو آزاد کرے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح، غریب ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، عمرو بن عبسہ، ابن عباس، واثلہ بن اسقع، ابوامامہ، عقبہ بن عامر اور کعب بن مرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا المحاربي، عن شعبة، عن حصين، عن هلال بن يساف، عن سويد بن مقرن المزني، قال: " لقد رايتنا سبعة إخوة ما لنا خادم إلا واحدة، فلطمها احدنا، فامرنا النبي صلى الله عليه وسلم ان نعتقها " قال: وفي الباب، عن ابن عمر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روى غير واحد هذا الحديث، عن حصين بن عبد الرحمن، فذكر بعضهم في الحديث قال: " لطمها على وجهها ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ الْمُزَنِيِّ، قَالَ: " لَقَدْ رَأَيْتُنَا سَبْعَةَ إِخْوَةٍ مَا لَنَا خَادِمٌ إِلَّا وَاحِدَةٌ، فَلَطَمَهَا أَحَدُنَا، فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُعْتِقَهَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَذَكَرَ بَعْضُهُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ: " لَطَمَهَا عَلَى وَجْهِهَا ".
سوید بن مقرن مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صورت حال یہ تھی کہ ہم سات بھائی تھے، ہمارے پاس ایک ہی خادمہ تھی، ہم میں سے کسی نے اس کو طمانچہ مار دیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اس کو آزاد کر دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے حصین بن عبدالرحمٰن سے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، بعض لوگوں نے اپنی روایت میں یہ ذکر کیا ہے کہ سوید بن مقرن مزنی نے «لطمها على وجهها» کہا یعنی ”اس نے اس کے چہرے پر طمانچہ مارا“۔ ۳- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأیمان 8 (1658)، سنن ابی داود/ الأدب 133 (5166)، (تحفة الأشراف: 4811)، و مسند احمد (3/448)، و (5/444) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، عن هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي قلابة، عن ثابت بن الضحاك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حلف بملة غير الإسلام كاذبا، فهو كما قال "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد اختلف اهل العلم في هذا إذا حلف الرجل بملة سوى الإسلام، فقال: هو يهودي، او نصراني، إن فعل كذا وكذا، ففعل ذلك الشيء، فقال بعضهم: قد اتى عظيما ولا كفارة عليه، وهو قول اهل المدينة، وبه يقول مالك بن انس، وإلى هذا القول ذهب ابو عبيد، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين وغيرهم: عليه في ذلك الكفارة، وهو قول سفيان، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ غَيْرِ الْإِسْلَامِ كَاذِبًا، فَهُوَ كَمَا قَالَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا إِذَا حَلَفَ الرَّجُلُ بِمِلَّةٍ سِوَى الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: هُوَ يَهُودِيٌّ، أَوْ نَصْرَانِيٌّ، إِنْ فَعَلَ كَذَا وَكَذَا، فَفَعَلَ ذَلِكَ الشَّيْءَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ أَتَى عَظِيمًا وَلَا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَإِلَى هَذَا الْقَوْلِ ذَهَبَ أَبُو عُبَيْدٍ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ: عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ الْكَفَّارَةُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائی وہ ویسے ہی ہو گیا جیسے اس نے کہا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جب کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی قسم کھائے اور یہ کہے: اگر اس نے ایسا ایسا کیا تو یہودی یا نصرانی ہو گا، پھر اس نے وہ کام کر لیا، تو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس نے بہت بڑا گناہ کیا لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہے، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، مالک بن انس بھی اسی کے قائل ہیں اور ابو عبید نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ۳- اور صحابہ و تابعین وغیرہ میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس صورت میں اس پر کفارہ واجب ہے، سفیان، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔