سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book on Sacrifices
23. باب مِنَ الْعَقِيقَةِ
23. باب: عقیقہ سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: About The 'Aqiqah
حدیث نمبر: 1522
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر , اخبرنا علي بن مسهر , عن إسماعيل بن مسلم , عن الحسن , عن سمرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الغلام مرتهن بعقيقته , يذبح عنه يوم السابع , ويسمى ويحلق راسه ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ , عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ سَمُرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْغُلَامُ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ , يُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ , وَيُسَمَّى وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ ".
سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ عقیقہ کے بدلے گروی رکھا ہوا ہے ۱؎، پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور اس کے سر کے بال منڈائے جائیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العقیقة 2 (5472)، (اشارة بعد حدیث سلمان الضبي) سنن ابی داود/ الضحایا 21 (2837)، سنن النسائی/العقیقة 5 (4225)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 1 (3165)، (تحفة الأشراف: 4581)، و مسند احمد (5/7، 8، 12، 17، 18، 22) وسنن الدارمی/الأضاحي 9 (2012) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «مرتهن» کے مفہوم میں اختلاف ہے: سب سے عمدہ بات وہ ہے جو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمائی ہے کہ یہ شفاعت کے متعلق ہے، یعنی جب بچہ مر جائے اور اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو قیامت کے دن وہ اپنے والدین کے حق میں شفاعت نہیں کر سکے گا، ایک قول یہ ہے کہ عقیقہ ضروری اور لازمی ہے اس کے بغیر چارہ کار نہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بالوں کی گندگی و ناپاکی میں مرہون ہے، اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ اس سے گندگی کو دور کرو۔
۲؎: اس سلسلہ میں صحیح حدیث تو درکنار کوئی ضعیف حدیث بھی نہیں ملتی جس سے اس شرط کے قائلین کی تائید ہوتی ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3165)
حدیث نمبر: 1522M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا سعيد بن ابي عروبة , عن قتادة , عن الحسن , عن سمرة بن جندب , عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اهل العلم , يستحبون ان يذبح عن الغلام العقيقة يوم السابع , فإن لم يتهيا يوم السابع , فيوم الرابع عشر , فإن لم يتهيا عق عنه يوم حاد وعشرين , وقالوا: لا يجزئ في العقيقة من الشاة , إلا ما يجزئ في الاضحية.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُذْبَحَ عَنِ الْغُلَامِ الْعَقِيقَةُ يَوْمَ السَّابِعِ , فَإِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ يَوْمَ السَّابِعِ , فَيَوْمَ الرَّابِعَ عَشَرَ , فَإِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ عُقَّ عَنْهُ يَوْمَ حَادٍ وَعِشْرِينَ , وَقَالُوا: لَا يُجْزِئُ فِي الْعَقِيقَةِ مِنَ الشَّاةِ , إِلَّا مَا يُجْزِئُ فِي الْأُضْحِيَّةِ.
اس سند سے بھی سمرہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ بچے کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب سمجھتے ہیں، اگر ساتویں دن نہ کر سکے تو چودہویں دن، اگر پھر بھی نہ کر سکے تو اکیسویں دن عقیقہ کیا جائے، یہ لوگ کہتے ہیں: اسی بکری کا عقیقہ درست ہو گا جس کی قربانی درست ہو گی ۲؎۔

تخریج الحدیث: «*تخريج: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 4574) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3165)
24. باب تَرْكِ أَخْذِ الشَّعْرِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ
24. باب: جو قربانی کرنا چاہتا ہو وہ بال نہ کاٹے۔
Chapter: To Avoid Removing One's Hair For Those Who Want To Offer Sacrifice
حدیث نمبر: 1523
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحكم البصري , حدثنا محمد بن جعفر , عن شعبة , عن مالك بن انس , عن عمرو او عمر بن مسلم , عن سعيد بن المسيب , عن ام سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من راى هلال ذي الحجة , واراد ان يضحي , فلا ياخذن من شعره , ولا من اظفاره " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والصحيح هو عمرو بن مسلم , قد روى عنه محمد بن عمرو بن علقمة , وغير واحد , وقد روي هذا الحديث عن سعيد بن المسيب , عن ام سلمة , عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه نحو هذا , وهو قول بعض اهل العلم , وبه كان يقول سعيد بن المسيب , وإلى هذا الحديث ذهب احمد , وإسحاق , ورخص بعض اهل العلم في ذلك , فقالوا: لا باس ان ياخذ من شعره واظفاره , وهو قول الشافعي , واحتج بحديث عائشة , ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يبعث بالهدي من المدينة , فلا يجتنب شيئا مما يجتنب منه المحرم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , عَنْ عَمْرٍو أَوْ عُمَرَ بْنِ مُسْلِمٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ , وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ , فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ , وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالصَّحِيحُ هُوَ عَمْرُو بْنُ مُسْلِمٍ , قَدْ رَوَى عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ , وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ نَحْوَ هَذَا , وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَبِهِ كَانَ يَقُولُ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ , وَإِلَى هَذَا الْحَدِيثِ ذَهَبَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق , وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ , فَقَالُوا: لَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعَرِهِ وَأَظْفَارِهِ , وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ , وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ عَائِشَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَبْعَثُ بِالْهَدْيِ مِنْ الْمَدِينَةِ , فَلَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ مِنْهُ الْمُحْرِمُ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کرنا چاہتا ہو وہ (جب تک قربانی نہ کر لے) اپنا بال اور ناخن نہ کاٹے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- (عمرو اور عمر میں کے بارے میں) صحیح عمرو بن مسلم ہے، ان سے محمد بن عمرو بن علقمہ اور کئی لوگوں نے حدیث روایت کی ہے، دوسری سند سے اسی جیسی حدیث سعید بن مسیب سے آئی ہے، سعید بن مسیب ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،
۳- بعض اہل علم کا یہی قول ہے، سعید بن مسیب بھی اسی کے قائل ہیں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا مسلک بھی اسی حدیث کے موافق ہے،
۴- بعض اہل علم نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے، وہ لوگ کہتے ہیں: بال اور ناخن کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، شافعی کا یہی قول ہے، وہ عائشہ رضی الله عنہا کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا جانور مدینہ روانہ کرتے تھے اور محرم جن چیزوں سے اجتناب کرتا ہے، آپ ان میں سے کسی چیز سے بھی اجتناب نہیں کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأضاحي 7 (1977)، سنن ابی داود/ الضحایا 3 (2791)، سنن النسائی/الضحایا 1 (4367)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 11 (3149)، (تحفة الأشراف: 18152)، و مسند احمد (6/289، 301)، 311)، سنن الدارمی/الأضاحي 2 (1990) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: عائشہ رضی الله عنہا اور ام سلمہ کی حدیث میں تطبیق کی صورت علماء نے یہ نکالی ہے کہ ام سلمہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا۔ «واللہ اعلم»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3149)

Previous    1    2    3    4    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.