سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: دیت و قصاص کے احکام و مسائل
The Book on Blood Money
1. باب مَا جَاءَ فِي الدِّيَةِ كَمْ هِيَ مِنَ الإِبِلِ
1. باب: دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی تعداد کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Blood Money, How Many Camels Is It?
حدیث نمبر: 1386
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن سعيد الكندي الكوفي , اخبرنا ابن ابي زائدة , عن الحجاج , عن زيد بن جبير , وعن خشف بن مالك , قال: سمعت ابن مسعود , قال: " قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في دية الخطإ عشرين بنت مخاض , وعشرين بني مخاض ذكورا , وعشرين بنت لبون , وعشرين جذعة , وعشرين حقة ". قال: وفي الباب , عن عبد الله بن عمرو , اخبرنا ابو هشام الرفاعي , اخبرنا ابن ابي زائدة , وابو خالد الاحمر , عن الحجاج بن ارطاة نحوه. قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود لا نعرفه مرفوعا , إلا من هذا الوجه , وقد روي عن عبد الله موقوفا , وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا , وهو قول: احمد , وإسحاق , وقد اجمع اهل العلم على ان الدية تؤخذ في ثلاث سنين , في كل سنة ثلث الدية , وراوا ان دية الخطإ على العاقلة , وراى بعضهم ان العاقلة قرابة الرجل من قبل ابيه , وهو قول: مالك , والشافعي , وقال بعضهم: إنما الدية على الرجال دون النساء والصبيان من العصبة , يحمل كل رجل منهم ربع دينار , وقد قال بعضهم: إلى نصف دينار , فإن تمت الدية , وإلا نظر إلى اقرب القبائل منهم فالزموا ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ , أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ , عَنْ الْحَجَّاجِ , عَنْ زَيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ , وعَنْ خَشْفِ بْنِ مَالِكٍ , قَال: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ , قَالَ: " قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دِيَةِ الْخَطَإِ عِشْرِينَ بِنْتَ مَخَاضٍ , وَعِشْرِينَ بَنِي مَخَاضٍ ذُكُورًا , وَعِشْرِينَ بِنْتَ لَبُونٍ , وَعِشْرِينَ جَذَعَةً , وَعِشْرِينَ حِقَّةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , أَخْبَرَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ , أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ , وَأَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ , عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا , إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مَوْقُوفًا , وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الدِّيَةَ تُؤْخَذُ فِي ثَلَاثِ سِنِينَ , فِي كُلِّ سَنَةٍ ثُلُثُ الدِّيَةِ , وَرَأَوْا أَنَّ دِيَةَ الْخَطَإِ عَلَى الْعَاقِلَةِ , وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنَّ الْعَاقِلَةَ قَرَابَةُ الرَّجُلِ مِنْ قِبَلِ أَبِيهِ , وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّمَا الدِّيَةُ عَلَى الرِّجَالِ دُونَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ مِنَ الْعَصَبَةِ , يُحَمَّلُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ رُبُعَ دِينَارٍ , وَقَدْ قَالَ بَعْضُهُمْ: إِلَى نِصْفِ دِينَارٍ , فَإِنْ تَمَّتِ الدِّيَةُ , وَإِلَّا نُظِرَ إِلَى أَقْرَبِ الْقَبَائِلِ مِنْهُمْ فَأُلْزِمُوا ذَلِكَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: قتل خطا ۱؎ کی دیت ۲؎ بیس بنت مخاض ۳؎، بیس ابن مخاض، بیس بنت لبون ۴؎، بیس جذعہ ۵؎ اور بیس حقہ ۶؎ ہے۔ ہم کو ابوہشام رفاعی نے ابن ابی زائدہ اور ابوخالد احمر سے اور انہوں نے حجاج بن ارطاۃ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں اور عبداللہ بن مسعود سے یہ حدیث موقوف طریقہ سے بھی آئی ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،
۴- اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دیت تین سال میں لی جائے گی، ہر سال دیت کا تہائی حصہ لیا جائے گا،
۵- اور ان کا خیال ہے کہ دیت خطا عصبہ پر ہے،
۶- بعض لوگوں کے نزدیک عصبہ وہ ہیں جو باپ کی جانب سے آدمی کے قرابت دار ہوں، مالک اور شافعی کا یہی قول ہے،
۷- بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عصبہ میں سے جو مرد ہیں انہی پر دیت ہے، عورتوں اور بچوں پر نہیں، ان میں سے ہر آدمی کو چوتھائی دینار کا مکلف بنایا جائے گا،
۸- کچھ لوگ کہتے ہیں: آدھے دینار کا مکلف بنایا جائے گا،
۹- اگر دیت مکمل ہو جائے گی تو ٹھیک ہے ورنہ سب سے قریبی قبیلہ کو دیکھا جائے گا اور ان کو اس کا مکلف بنایا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 18 (4545)، سنن النسائی/القسامة 34 (4806)، سنن ابن ماجہ/الدیات 6 (2631)، (تحفة الأشراف: 198)، و مسند احمد (1/450) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاة مدلس اور کثیر الوہم ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز خشف بن مالک کی ثقاہت میں بھی بہت کلام ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم: 4020)»

وضاحت:
۱؎: قتل کی تین قسمیں ہیں: ۱- قتل عمد: یعنی جان بوجھ کر ایسے ہتھیار کا استعمال کرنا جن سے عام طور سے قتل واقع ہوتا ہے، اس میں قاتل سے قصاص لیا جاتا ہے، ۲- قتل خطا،: یعنی غلطی سے قتل کا ہو جانا، اوپر کی حدیث میں اسی قتل کی دیت بیان ہوئی ہے۔ ۳- قتل شبہ عمد: یہ وہ قتل ہے جس میں ایسی چیزوں کا استعمال ہوتا ہے جن سے عام طور سے قتل واقع نہیں ہوتا جیسے لاٹھی اور کوڑا وغیرہ، اس میں دیت مغلظہ لی جاتی ہے اور یہ سو اونٹ ہے ان میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی۔
۲؎: کسی نفس کے قتل یا جسم کے کسی عضو کے ضائع کرنے کے بدلے میں جو مال دیا جاتا ہے اسے دیت کہتے ہیں۔
۳؎: وہ اونٹنی جو ایک سال کی ہو چکی ہو ۴؎، وہ اونٹنی جو دو سال کی ہو چکی ہو۔ ۵؎؎ وہ اونٹ جو چار سال کی ہو چکا ہو ۶؎؎، وہ اونٹ جو تین سال کا ہو چکا ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2631)

قال الشيخ زبير على زئي: (1386) إسناده ضعيف / د 4545، ن 4806، جه 2631
حدیث نمبر: 1387
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن سعيد الدارمي , اخبرنا حبان وهو ابن هلال , حدثنا محمد بن راشد , اخبرنا سليمان بن موسى , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من قتل مؤمنا متعمدا دفع إلى اولياء المقتول , فإن شاءوا قتلوا , وإن شاءوا اخذوا الدية , وهي ثلاثون حقة , وثلاثون جذعة , واربعون خلفة , وما صالحوا عليه فهو لهم , وذلك لتشديد العقل ". قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن عمرو حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ , أَخْبَرَنَا حَبَّانُ وَهُوَ ابْنُ هِلَالٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ , أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ , فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوا , وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ , وَهِيَ ثَلَاثُونَ حِقَّةً , وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً , وَأَرْبَعُونَ خَلِفَةً , وَمَا صَالَحُوا عَلَيْهِ فَهُوَ لَهُمْ , وَذَلِكَ لِتَشْدِيدِ الْعَقْلِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا اسے مقتول کے وارثوں کے حوالے کیا جائے گا، اگر وہ چاہیں تو اسے قتل کر دیں اور چاہیں تو اس سے دیت لیں، دیت کی مقدار تیس حقہ، تیس جذعہ اور چالیس خلفہ ۱؎ ہے اور جس چیز پر وارث مصالحت کر لیں وہ ان کے لیے ہے اور یہ دیت کے سلسلہ میں سختی کی وجہ سے ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 4 (4506)، سنن ابن ماجہ/الدیات 21 (2659)، (تحفة الأشراف: 8708) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: حاملہ اونٹنی اس کی جمع خلفات و خلائف آتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2626)
2. باب مَا جَاءَ فِي الدِّيَةِ كَمْ هِيَ مِنَ الدَّرَاهِمِ
2. باب: دیت میں کتنے درہم دئیے جائیں؟
Chapter: What Has Been Related About Blood-Money, How Many Dirham Is It ?
حدیث نمبر: 1388
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا معاذ بن هانئ , حدثنا محمد بن مسلم الطائفي , عن عمرو بن دينار , عن عكرمة , عن ابن عباس , " عن النبي صلى الله عليه وسلم انه جعل الدية اثني عشر الفا ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هَانِئٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِيُّ , عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , " عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ جَعَلَ الدِّيَةَ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت بارہ ہزار درہم مقرر کی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 18 (4546)، سنن النسائی/القسامة 35 (4807، 4808)، سنن ابن ماجہ/الدیات 6 (2629)، (تحفة الأشراف: 6165) وسنن الدارمی/الدیات 11 (ضعیف) (اس روایت کا مرسل ہو نا ہی صحیح ہے، جیسا کہ امام ابوداود اور مولف نے صراحت کی ہے، اس کو ”عمروبن دینار“ سے سفیان بن عینیہ نے جو کہ محمد بن مسلم طائفی کے بالمقابل زیادہ ثقہ ہیں) نے بھی روایت کیا ہے لیکن انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہما کا تذکرہ نہیں کیا ہے دیکھئے: الإرواء رقم 2245)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2629)
حدیث نمبر: 1389
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي , حدثنا سفيان بن عيينة , عن عمرو بن دينار , عن عكرمة , عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه , ولم يذكر فيه عن ابن عباس , وفي حديث ابن عيينة كلام اكثر من هذا. قال ابو عيسى: ولا نعلم احدا يذكر في هذا الحديث عن ابن عباس غير محمد بن مسلم , والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم , وهو قول: احمد , وإسحاق , وراى بعض اهل العلم الدية عشرة آلاف , وهو قول: سفيان الثوري , واهل الكوفة , وقال الشافعي: لا اعرف الدية إلا من الإبل , وهي مائة من الإبل او قيمتها.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَفِي حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا يَذْكُرُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الدِّيَةَ عَشْرَةَ آلَافٍ , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَأَهْلِ الْكُوفَةِ , وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا أَعْرِفُ الدِّيَةَ إِلَّا مِنَ الْإِبِلِ , وَهِيَ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ أَوْ قِيمَتُهَا.
ہم سے سعید بن عبدالرحمٰن المخزومی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار کے واسطے سے بیان کیا، عمرو بن دینار نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اس روایت میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا، ابن عیینہ کی روایت میں محمد بن مسلم طائفی کی روایت کی بنسبت کچھ زیادہ باتیں ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہمارے علم میں محمد بن مسلم کے علاوہ کسی نے اس حدیث میں ابن عباس کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے،
۲- بعض اہل علم کے نزدیک اسی حدیث پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،
۳- اور بعض اہل اعلم کے نزدیک دیت دس ہزار (درہم) ہے، سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے،
۴- امام شافعی کہتے ہیں: ہم اصل دیت صرف اونٹ کو سمجھتے ہیں اور وہ سو اونٹ یا اس کی قیمت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 19120) (ضعیف) (یہ مرسل روایت ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2629)
3. باب مَا جَاءَ فِي الْمُوضِحَةِ
3. باب: موضحہ (ہڈی کھل جانے والے زخم) کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Mawadih [Wounds that expose a bone]
حدیث نمبر: 1390
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا حميد بن مسعدة , اخبرنا يزيد بن زريع , اخبرنا حسين المعلم , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " في المواضح , خمس خمس ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن , والعمل على هذا عند اهل العلم وهو قول: سفيان الثوري , والشافعي , واحمد , وإسحاق , ان في الموضحة خمسا من الإبل.(مرفوع) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ , أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فِي الْمَوَاضِحِ , خَمْسٌ خَمْسٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , أَنَّ فِي الْمُوضِحَةِ خَمْسًا مِنَ الْإِبِلِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «موضحہ» (ہڈی کھل جانے والے زخم) ۱؎ میں پانچ اونٹ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول یہی ہے کہ «موضحہ» (ہڈی کھل جانے والے زخم) میں پانچ اونٹ ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 20 (4562)، سنن النسائی/القسامة 44 (4854)، سنن ابن ماجہ/الدیات 18 (2653) (تحفة الأشراف: 8680)، و مسند احمد (2/207) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «موضحہ» وہ زخم ہے جس سے ہڈی کھل جائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (2655)
4. باب مَا جَاءَ فِي دِيَةِ الأَصَابِعِ
4. باب: انگلیوں کی دیت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Blood-Money For Fingers
حدیث نمبر: 1391
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو عمار، حدثنا الفضل بن موسى , عن الحسين بن واقد , عن يزيد بن عمرو النحوي , عن عكرمة , عن ابن عباس , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " في دية الاصابع , اليدين والرجلين سواء , عشر من الإبل لكل اصبع ". قال ابو عيسى: وفي الباب , عن ابي موسى , وعبد الله بن عمرو. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه , والعمل على هذا عند اهل العلم وبه يقول سفيان , والشافعي , واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى , عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو النَّحْوِيِّ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي دِيَةِ الْأَصَابِعِ , الْيَدَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ سَوَاءٌ , عَشْرٌ مِنَ الْإِبِلِ لِكُلِّ أُصْبُعٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب , عَنْ أَبِي مُوسَى , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں کی دیت کے بارے میں فرمایا: دونوں ہاتھ اور دونوں پیر برابر ہیں، (دیت میں) ہر انگلی کے بدلے دس اونٹ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس سند سے ابن عباس کی حدیث حسن صحیح اور غریب ہے،
۲- اہل علم کا عمل اسی پر ہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 20 (4561)، (تحفة الأشراف: 6249) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2271)
حدیث نمبر: 1392
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يحيى بن سعيد , ومحمد بن جعفر , قالا: حدثنا شعبة , عن قتادة , عن عكرمة , عن ابن عباس , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " هذه وهذه سواء " , يعني: الخنصر , والإبهام. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " هَذِهِ وَهَذِهِ سَوَاءٌ " , يَعْنِي: الْخِنْصَرَ , وَالْإِبْهَامَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیت میں یہ اور یہ برابر ہیں، یعنی چھنگلیا انگوٹھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الدیات 20 (6895)، سنن ابی داود/ الدیات 20 (4558)، سنن النسائی/القسامة 44 (4852)، سنن ابن ماجہ/الدیات 18 (2652)، (تحفة الأشراف: 6187)، و مسند احمد (1/339)، و سنن الدارمی/الدیات 15 (2415) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی دونوں کی دیت دس دس اونٹ ہے، اگرچہ انگوٹھا چھنگلی سے جوڑ میں کم ہے، اس طرح انگلی کے پوروں میں کوئی پور کاٹ دیا جائے تو اس کی دیت پوری انگلی کی دیت کی ایک تہائی ہو گی، انگوٹھے کا ایک پور کاٹ دی جائے تو اس کی دیت انگوٹھے کی آدھی دیت ہو گی کیونکہ انگوٹھے میں دو ہی پور ہوتی ہے برخلاف باقی انگلیوں کے ان میں تین پور ہوتی ہیں ہاتھ اور پیر کی انگلی دونوں کا حکم ایک ہے ان میں فرق نہیں کیا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2652)
5. باب مَا جَاءَ فِي الْعَفْوِ
5. باب: دیت معاف کر دینے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Pardoning
حدیث نمبر: 1393
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد , حدثنا عبد الله بن المبارك , حدثنا يونس بن ابي إسحاق , حدثنا ابو السفر، قال: دق رجل من قريش سن رجل من الانصار , فاستعدى عليه معاوية , فقال لمعاوية: يا امير المؤمنين , إن هذا دق سني , قال معاوية: إنا سنرضيك , والح الآخر على معاوية فابرمه , فلم يرضه , فقال له معاوية: شانك بصاحبك , وابو الدرداء جالس عنده , فقال ابو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ما من رجل يصاب بشيء في جسده , فيتصدق به , إلا رفعه الله به درجة , وحط عنه به خطيئة " , قال الانصاري: اانت سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: سمعته اذناي , ووعاه قلبي , قال: فإني اذرها له , قال معاوية: لا جرم لا اخيبك , فامر له بمال. قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه , ولا اعرف لابي السفر سماعا من ابي الدرداء , وابو السفر اسمه: سعيد بن احمد , ويقال: ابن يحمد الثوري.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق , حَدَّثَنَا أَبُو السَّفَرِ، قَالَ: دَقَّ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ سِنَّ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ , فَاسْتَعْدَى عَلَيْهِ مُعَاوِيَةَ , فَقَالَ لِمُعَاوِيَةَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , إِنَّ هَذَا دَقَّ سِنِّي , قَالَ مُعَاوِيَةُ: إِنَّا سَنُرْضِيكَ , وَأَلَحَّ الْآخَرُ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَأَبْرَمَهُ , فَلَمْ يُرْضِهِ , فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: شَأْنَكَ بِصَاحِبِكَ , وَأَبُو الدَّرْدَاءِ جَالِسٌ عِنْدَهُ , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يُصَابُ بِشَيْءٍ فِي جَسَدِهِ , فَيَتَصَدَّقُ بِهِ , إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهِ دَرَجَةً , وَحَطَّ عَنْهُ بِهِ خَطِيئَةً " , قَالَ الْأَنْصَارِيُّ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ , وَوَعَاهُ قَلْبِي , قَالَ: فَإِنِّي أَذَرُهَا لَهُ , قَالَ مُعَاوِيَةُ: لَا جَرَمَ لَا أُخَيِّبُكَ , فَأَمَرَ لَهُ بِمَالٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَلَا أَعْرِفُ لِأَبِي السَّفَرِ سَمَاعًا مِنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُهُ: سَعِيدُ بْنُ أَحْمَدَ , وَيُقَالُ: ابْنُ يُحْمِدَ الثَّوْرِيُّ.
ابوسفر سعید بن احمد کہتے ہیں کہ ایک قریشی نے ایک انصاری کا دانت توڑ دیا، انصاری نے معاویہ رضی الله عنہ سے فریاد کی، اور ان سے کہا: امیر المؤمنین! اس (قریشی) نے میرا دانت توڑ دیا ہے، معاویہ رضی الله عنہ نے کہا: ہم تمہیں ضرور راضی کریں گے، دوسرے (یعنی قریشی) نے معاویہ رضی الله عنہ سے بڑا اصرار کیا اور (یہاں تک منت سماجت کی کہ) انہیں تنگ کر دیا، معاویہ اس سے مطمئن نہ ہوئے، چنانچہ معاویہ نے اس سے کہا: تمہارا معاملہ تمہارے ساتھی کے ہاتھ میں ہے، ابو الدرداء رضی الله عنہ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ابو الدرداء رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے، میرے کانوں نے اسے سنا ہے اور دل نے اسے محفوظ رکھا ہے، آپ فرما رہے تھے: جس آدمی کے بھی جسم میں زخم لگے اور وہ اسے صدقہ کر دے (یعنی معاف کر دے) تو اللہ تعالیٰ اسے ایک درجہ بلندی عطا کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف فرما دیتا ہے، انصاری نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے سنا ہے؟ ابو الدرداء نے کہا: میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا ہے، اس نے کہا: تو میں اس کی دیت معاف کر دیتا ہوں، معاویہ رضی الله عنہ نے کہا: لیکن میں تمہیں محروم نہیں کروں گا، چنانچہ انہوں نے اسے کچھ مال دینے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہمیں یہ صرف اسی سند سے معلوم ہے، مجھے نہیں معلوم کہ ابوسفر نے ابو الدرداء سے سنا ہے،
۲- ابوسفر کا نام سعید بن احمد ہے، انہیں ابن یحمد ثوری بھی کہا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الدیات 35 (2693)، (تحفة الأشراف: 10971)، و مسند احمد (6/448) (ضعیف) (ابوالسفر کا سماع ابو الدرداء رضی الله عنہ سے نہیں ہے، اس لیے سند میں انقطاع ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2693) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (586)، ضعيف الجامع الصغير (5175) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1393) إسناده ضعيف / جه 2693
أبوالسفر ثقه، لكنه أرسل عن أبى الدرداء،كما فى تھذيب التھذيب (96/4)
6. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ رُضِخَ رَأْسُهُ بِصَخْرَةٍ
6. باب: جس کا سر پتھر سے کچل دیا گیا ہو اس کی دیت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About One Whose Head Was Fractured With A Rock
حدیث نمبر: 1394
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر , حدثنا يزيد بن هارون , حدثنا همام , عن قتادة , عن انس , قال: خرجت جارية عليها اوضاح , فاخذها يهودي فرضخ راسها بحجر , واخذ ما عليها من الحلي , قال: فادركت وبها رمق , فاتي بها النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " من قتلك , افلان؟ " قالت براسها: لا , قال: " ففلان , حتى سمي اليهودي " , فقالت براسها: اي نعم , قال: فاخذ فاعترف , فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم فرضخ راسه بين حجرين , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , وهو قول: احمد , وإسحاق , وقال بعض اهل العلم: لا قود إلا بالسيف.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: خَرَجَتْ جَارِيَةٌ عَلَيْهَا أَوْضَاحٌ , فَأَخَذَهَا يَهُودِيٌّ فَرَضَخَ رَأْسَهَا بِحَجَرٍ , وَأَخَذَ مَا عَلَيْهَا مِنَ الْحُلِيِّ , قَالَ: فَأُدْرِكَتْ وَبِهَا رَمَقٌ , فَأُتِيَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَنْ قَتَلَكِ , أَفُلَانٌ؟ " قَالَتْ بِرَأْسِهَا: لَا , قَالَ: " فَفُلَانٌ , حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ " , فَقَالَتْ بِرَأْسِهَا: أَيْ نَعَمْ , قَالَ: فَأُخِذَ فَاعْتَرَفَ , فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضِخَ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا قَوَدَ إِلَّا بِالسَّيْفِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک لڑکی زیور پہنے ہوئے کہیں جانے کے لیے نکلی، ایک یہودی نے اسے پکڑ کر پتھر سے اس کا سر کچل دیا اور اس کے پاس جو زیور تھے وہ اس سے چھین لیا، پھر وہ لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس میں کچھ جان باقی تھی، چنانچہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سے پوچھا: تمہیں کس نے مارا ہے، فلاں نے؟ اس نے سر سے اشارہ کیا: نہیں، آپ نے پوچھا: فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (جس نے اس کا سر کچلا تھا) تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! تو یہودی پکڑا گیا، اور اس نے اعتراف جرم کر لیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، اور اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں: قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 5 (2746)، والطلاق 24 (تعلیقاً) والدیات 4 (6876)، و 5 (6877)، و 12 (6884)، صحیح مسلم/القسامة 3 (1672)، سنن ابی داود/ الدیات 10 (4527)، سنن النسائی/المحاربة 9 (4055)، والقسامة 13 (4745)، سنن ابن ماجہ/الدیات 24 (2665)، (تحفة الأشراف: 1391)، و مسند احمد (3/163، 183، 203، 267)، سنن الدارمی/الدیات 4 (2400) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ اہل کوفہ کا مذہب ہے جن میں امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب شامل ہیں ان کی دلیل نعمان بن بشیر کی روایت ہے جو ابن ماجہ میں «لا قود إلا بالسيف» کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے، لیکن یہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے بلکہ بقول ابوحاتم: منکر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2665 - 2666)
7. باب مَا جَاءَ فِي تَشْدِيدِ قَتْلِ الْمُؤْمِنِ
7. باب: مومن کے قتل ناحق پر وارد وعید کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Gravity Of Killing A Believer
حدیث نمبر: 1395
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف , ومحمد بن عبد الله بن بزيع , حدثنا ابن ابي عدي , عن شعبة , عن يعلى بن عطاء , عن ابيه , عن عبد الله بن عمرو , ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لزوال الدنيا اهون على الله من قتل رجل مسلم ". حدثنا محمد بن بشار , حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن يعلى بن عطاء , عن ابيه , عن عبد الله بن عمرو , نحوه ولم يرفعه. قال ابو عيسى: وهذا اصح من حديث ابن ابي عدي , قال: وفي الباب , عن سعد , وابن عباس , وابي سعيد , وابي هريرة , وعقبة بن عامر , وابن مسعود , وبريدة. قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن عمرو , هكذا رواه ابن ابي عدي، عن شعبة , عن يعلى بن عطاء , عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم , وروى محمد بن جعفر , وغير واحد , عن شعبة , عن يعلى بن عطاء , فلم يرفعه , وهكذا روى سفيان الثوري , عن يعلى بن عطاء موقوفا , وهذا اصح من الحديث المرفوع.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ". حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ سَعْدٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , وَابْنِ مَسْعُودٍ , وَبُرَيْدَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , هَكَذَا رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ , عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ , فَلَمْ يَرْفَعْهُ , وَهَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ مَوْقُوفًا , وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ.
عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا کی بربادی اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل ہونے سے کہیں زیادہ کمتر و آسان ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہم سے محمد بن بشار نے بسند «محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن يعلى بن عطاء عن أبيه عن عبد الله بن عمرو» اسی طرح روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،
۲- یہ روایت ابن ابی عدی کی روایت کے بالمقابل زیادہ صحیح ہے (یعنی موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے)،
۳- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کو ابن ابی عدی نے شعبہ سے، بسند «يعلى بن عطاء عن أبيه عن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے، جب کہ محمد بن جعفر اور ان کے علاوہ دوسروں نے شعبہ سے بسند «يعلى بن عطاء» روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، اسی طرح سفیان ثوری نے یعلیٰ بن عطاء سے موقوفا روایت کی ہے اور یہ (موقوف روایت ابن ابی عدی کی) مرفوع حدیث سے زیادہ صحیح ہے،
۴- اس باب میں سعد، ابن عباس، ابوسعید، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر، ابن مسعود اور بریدہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/المحاربة 2 (3992)، (تحفة الأشراف: 8887) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (439)

1    2    3    4    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.