سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
The Chapters On Judgements From The Messenger of Allah
34. باب مَا جَاءَ أَنَّ الشَّرِيكَ شَفِيعٌ
34. باب: ساجھی دار کو حق شفعہ حاصل ہے۔
Chapter: (What Has Been Related About The Partner Is The Preemptor)
حدیث نمبر: 1371
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن عيسى , حدثنا الفضل بن موسى , عن ابي حمزة السكري، عن عبد العزيز بن رفيع , عن ابن ابي مليكة , عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الشريك شفيع , والشفعة في كل شيء ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه مثل هذا إلا من حديث ابي حمزة السكري , وقد روى غير واحد هذا الحديث , عن عبد العزيز بن رفيع , عن ابن ابي مليكة , عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا وهذا اصح. حدثنا هناد , حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عبد العزيز بن رفيع , وعن ابن ابي مليكة , عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه بمعناه , وليس فيه عن ابن عباس , وهكذا روى غير واحد عن عبد العزيز بن رفيع , مثل هذا ليس فيه عن ابن عباس , وهذا اصح من حديث ابي حمزة , وابو حمزة ثقة , يمكن ان يكون الخطا من غير ابي حمزة. حدثنا هناد , حدثنا ابو الاحوص، عن عبد العزيز بن رفيع , عن ابن ابي مليكة , عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث ابي بكر بن عياش , وقال اكثر اهل العلم: إنما تكون الشفعة في الدور والارضين , ولم يروا الشفعة في كل شيء , وقال بعض اهل العلم: الشفعة في كل شيء , والقول اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى , حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى , عَنْ أَبِي حَمْزَةَ السُّكَّرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الشَّرِيكُ شَفِيعٌ , وَالشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شَيْءٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي حَمْزَةَ السُّكَّرِيِّ , وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا وَهَذَا أَصَحُّ. حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ , وعَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ , وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ , مِثْلَ هَذَا لَيْسَ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي حَمْزَةَ , وَأَبُو حَمْزَةَ ثِقَةٌ , يُمْكِنُ أَنْ يَكُونَ الْخَطَأُ مِنْ غَيْرِ أَبِي حَمْزَةَ. حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ , وقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّمَا تَكُونُ الشُّفْعَةُ فِي الدُّورِ وَالْأَرَضِينَ , وَلَمْ يَرَوْا الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ شَيْءٍ , وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شَيْءٍ , وَالْقَوْلُ أَصَحُّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساجھی دار کو حق شفعہ حاصل ہے اور شفعہ ہر چیز میں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہم اس حدیث کو اس طرح (مرفوعاً) صرف ابوحمزہ سکری ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
۲- اس حدیث کو کئی لوگوں نے عبدالعزیز بن رفیع سے اور عبدالعزیز نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلا روایت کیا ہے۔ اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
اس سند میں ہناد نے ابوبکر بن عیاش سے ابوبکر بن عیاش نے عبدالعزیز بن رفیع سے اور عبدالعزیز نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے، اس میں ابن عباس کا واسطہ نہیں ہے،
۳- اور اسی طرح کئی اور لوگوں نے عبدالعزیز بن رفیع سے اسی کے مثل حدیث روایت کی ہے اور اس میں بھی ابن عباس کا واسطہ نہیں ہے،
۴ - ابوحمزہ (یہ مرفوع) کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ ابوحمزہ ثقہ ہیں۔ ممکن ہے یہ خطا ابوحمزہ کے علاوہ کسی اور سے ہوئی ہو۔ اس سند میں ھناد نے ابوالاحوص سے اور ابوالاحوص نے عبدالعزیز بن رفیع سے اور عبدالعزیز نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوبکر بن عیاش کی حدیث کی طرح روایت کی ہے،
۶ - اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ حق شفعہ کا نفاذ صرف گھر اور زمین میں ہو گا۔ ان لوگوں کی رائے میں شفعہ ہر چیز میں نہیں،
۷- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: شعفہ ہر چیز میں ہے۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5795) (منکر) (اس روایت میں ابو حمزہ سکری سے وہم ہوا ہے، دیگر تمام ثقات نے ”عن ابن أبي ملیکة، عن النبي ﷺ“ مرسلاً روایت کی ہے، نیز یہ ابن عباس رضی الله عنہما کی دوسری صحیح روایت کے خلاف بھی ہے، دیکھئے: الضعیفة رقم 1009)»

قال الشيخ الألباني: منكر، الضعيفة (1009 - 1010) // ضعيف الجامع الصغير (3435) //
35. باب مَا جَاءَ فِي اللُّقَطَةِ وَضَالَّةِ الإِبِلِ وَالْغَنَمِ
35. باب: گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Lost Items, The Stray Camel And Sheep
حدیث نمبر: 1372
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا إسماعيل بن جعفر , عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن , عن يزيد مولى المنبعث , عن زيد بن خالد الجهني , ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اللقطة، فقال: " عرفها سنة , ثم اعرف وكاءها , ووعاءها , وعفاصها , ثم استنفق بها فإن جاء ربها فادها إليه " , فقال له: يا رسول الله , فضالة الغنم؟ فقال: " خذها فإنما هي لك او لاخيك او للذئب " , فقال: يا رسول الله , فضالة الإبل؟ قال: فغضب النبي صلى الله عليه وسلم حتى احمرت وجنتاه , او احمر وجهه , فقال: " ما لك ولها معها حذاؤها , وسقاؤها , حتى تلقى ربها ". حديث زيد بن خالد حديث حسن صحيح , وقد روي عنه من غير وجه , وحديث يزيد مولى المنبعث , عن زيد بن خالد حديث حسن صحيح , وقد روي عنه من غير وجه , قال: وفي الباب , عن ابي بن كعب , وعبد الله بن عمرو , والجارود بن المعلى , وعياض بن حمار , وجرير بن عبد الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ , عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ , عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ , أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: " عَرِّفْهَا سَنَةً , ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا , وَوِعَاءَهَا , وَعِفَاصَهَا , ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ " , فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ فَقَالَ: " خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ " , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟ قَالَ: فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ , أَوِ احْمَرَّ وَجْهُهُ , فَقَالَ: " مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا حِذَاؤُهَا , وَسِقَاؤُهَا , حَتَّى تَلْقَى رَبَّهَا ". حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , وَحَدِيثُ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ , عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَالْجَارُودِ بْنِ الْمُعَلَّى , وَعِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ , وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ.
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ (گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: سال بھر تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کا سر بند، اس کا برتن اور اس کی تھیلی پہچان لو، پھر اسے خرچ کر لو اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اُسے ادا کر دو، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گمشدہ بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: اسے پکڑ کر باندھ لو، کیونکہ وہ تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑیئے کے لیے۔ اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے یہاں تک کہ آپ کے گال لال پیلا ہو گئے۔ یا آپ کا چہرہ لال پیلا ہو گیا اور آپ نے فرمایا: تم کو اس سے کیا سروکار؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا اور اس کی مشک ہے ۱؎ (وہ پانی پر جا سکتا ہے اور درخت سے کھا سکتا ہے) یہاں تک کہ اپنے مالک سے جا ملے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زید بن خالد کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ان سے اور بھی طرق سے یہ حدیث مروی ہے۔ منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث جسے انہوں نے زید بن خالد سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے،
۳- اور ان سے یہ اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 28 (91)، والشرب والمساقاة 12 (2372)، واللقطہ 2 (2427)، صحیح مسلم/اللقطة 1 (1722)، سنن ابی داود/ اللقطة 1 (1704-1708)، سنن ابن ماجہ/اللقطة 1 (2504)، (تحفة الأشراف: 3763)، وط/الأقضیة 38 (46)، و مسند احمد (4/115) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے اور مشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھر لیتا ہے اور باربار پانی پینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، اسے بکری کی طرح بھیڑیئے وغیرہ کا خوف نہیں وہ خود اپنا دفاع کر لیتا ہے اس لیے اسے پکڑ کر باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2504)
حدیث نمبر: 1373
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا ابو بكر الحنفي، اخبرنا الضحاك بن عثمان , حدثني سالم ابو النضر , عن بسر بن سعيد , عن زيد بن خالد الجهني , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن اللقطة , فقال: " عرفها سنة فإن اعترفت فادها , وإلا فاعرف وعاءها , وعفاصها , ووكاءها , وعددها , ثم كلها , فإذا جاء صاحبها فادها ". قال ابو عيسى: حديث زيد بن خالد حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه , اصح شيء في هذا الباب هذا الحديث , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , ورخصوا في اللقطة إذا عرفها سنة , فلم يجد من يعرفها ان ينتفع بها , وهو قول: الشافعي , واحمد , وإسحاق , وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: يعرفها سنة , فإن جاء صاحبها وإلا تصدق بها , وهو قول: سفيان الثوري , وعبد الله بن المبارك , وهو قول: اهل الكوفة , لم يروا لصاحب اللقطة ان ينتفع بها إذا كان غنيا , وقال الشافعي: ينتفع بها وإن كان غنيا , لان ابي بن كعب اصاب على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صرة فيها مائة دينار , فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يعرفها , ثم ينتفع بها , وكان ابي كثير المال , من مياسير اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم , فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يعرفها , فلم يجد من يعرفها , فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان ياكلها , فلو كانت اللقطة لم تحل إلا لمن تحل له الصدقة , لم تحل لعلي بن ابي طالب , لان علي بن ابي طالب اصاب دينارا على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فعرفه , فلم يجد من يعرفه , فامره النبي صلى الله عليه وسلم باكله , وكان لا يحل له الصدقة , وقد رخص بعض اهل العلم إذا كانت اللقطة يسيرة ان ينتفع بها , ولا يعرفها وقال بعضهم: إذا كان دون دينار يعرفها قدر جمعة , وهو قول: إسحاق بن إبراهيم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ , حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ , عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ , أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ , فَقَالَ: " عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنِ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا , وَإِلَّا فَاعْرِفْ وِعَاءَهَا , وَعِفَاصَهَا , وَوِكَاءَهَا , وَعَدَدَهَا , ثُمَّ كُلْهَا , فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ هَذَا الْحَدِيثُ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , وَرَخَّصُوا فِي اللُّقَطَةِ إِذَا عَرَّفَهَا سَنَةً , فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا , وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: يُعَرِّفُهَا سَنَةً , فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا تَصَدَّقَ بِهَا , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ , وَهُوَ قَوْلُ: أَهْلِ الْكُوفَةِ , لَمْ يَرَوْا لِصَاحِبِ اللُّقَطَةِ أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا إِذَا كَانَ غَنِيًّا , وقَالَ الشَّافِعِيُّ: يَنْتَفِعُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا , لِأَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَصَابَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ , فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعَرِّفَهَا , ثُمَّ يَنْتَفِعَ بِهَا , وَكَانَ أُبَيٌّ كَثِيرَ الْمَالِ , مِنْ مَيَاسِيرِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعَرِّفَهَا , فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا , فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْكُلَهَا , فَلَوْ كَانَتِ اللُّقَطَةُ لَمْ تَحِلَّ إِلَّا لِمَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ , لَمْ تَحِلَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , لِأَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصَابَ دِينَارًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَّفَهُ , فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهُ , فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَكْلِهِ , وَكَانَ لَا يَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ , وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَتِ اللُّقَطَةُ يَسِيرَةً أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا , وَلَا يُعَرِّفَهَا وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ دُونَ دِينَارٍ يُعَرِّفُهَا قَدْرَ جُمْعَةٍ , وَهُوَ قَوْلُ: إِسْحَاق بْنِ إِبْرَاهِيمَ.
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ (گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: سال بھر اس کی پہچان کراؤ ۱؎، اگر کوئی پہچان بتا دے تو اسے دے دو، ورنہ اس کے ڈاٹ اور سربند کو پہچان لو، پھر اسے کھا جاؤ۔ پھر جب اس کا مالک آئے تو اسے ادا کر دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زید بن خالد کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،
۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: اس باب میں سب سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے،
۳- یہ ان سے اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے،
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو جائز سمجھتے ہیں، جب ایک سال تک اس کا اعلان ہو جائے اور کوئی پہچاننے والا نہ ملے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۵- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ ایک سال تک لقطہٰ کا اعلان کرے اگر اس کا مالک آ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسے صدقہ کر دے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے۔ اور یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے،
۶- لقطہٰ اٹھانے والا جب مالدار ہو تو یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو اس کے لیے جائز نہیں سمجھتے ہیں،
۷- شافعی کہتے ہیں: وہ اس سے فائدہ اٹھائے اگرچہ وہ مالدار ہو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابی بن کعب کو ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان کریں پھر اس سے فائدہ اٹھائیں، اور ابی بن کعب صحابہ میں خوشحال لوگوں میں تھے اور بہت مالدار تھے، پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہچان کرانے کا حکم دیا اور جب کوئی پہچاننے والا نہیں ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا۔ (دوسری بات یہ کہ) اگر لقطہٰ صرف انہیں لوگوں کے لیے جائز ہوتا جن کے لیے صدقہ جائز ہے تو علی رضی الله عنہ کے لیے جائز نہ ہوتا، اس لیے کہ علی رضی الله عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دینار ملا، انہوں نے (سال بھر تک) اس کی پہچان کروائی لیکن کوئی نہیں ملا جو اسے پہچانتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا حالانکہ ان کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا،
۸- بعض اہل علم نے رخصت دی ہے کہ جب لقطہٰ معمولی ہو تو لقطہٰ اٹھانے والا اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس کا پہچان کروانا ضروری نہیں ۲؎،
۹- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ ایک دینار سے کم ہو تو وہ اس کی ایک ہفتہ تک پہچان کروائے۔ یہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا قول ہے،
۱۰- اس باب میں ابی بن کعب، عبداللہ بن عمرو، جارود بن معلی، عیاض بن حمار اور جریر بن عبداللہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 3748) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: باب کی ان دونوں روایتوں میں ایک سال پہچان کرانے کا ذکر ہے اور باب کی آخری حدیث میں تین سال کا ذکر ہے، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے، یا ایک سال بطور وجوب اور تین سال بطور استحباب وورع ہے ان روایتوں کا اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ قرار دیا جائے، پہچان کرانے کی صورت یہ ہو گی کہ بازار اور اجتماعات میں جہاں لوگوں کا ہجوم ہو اعلان کیا جائے کہ گمشدہ چیز کی نشانی بتا کر حاصل کی جا سکتی ہے، اگر کوئی اس کی نشانی بتا دے تو مزید شناخت اور گواہوں کی ضرورت نہیں بلا تأمل وہ چیز اس کے حوالے کر دی جائے۔
۲؎: اس کی دلیل ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إني لأنقلب إلى أهلي فأجد التمرة ساقطة على فراشي فأرفعها لآكلها ثم أخشى أن تكون صدقة فألقيها» یعنی میں کبھی گھر میں جاتا ہوں تو کھجور کا کوئی دانہ ملتا ہے، اس کو کھا لینا چاہتا ہوں، پھر خیال آتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ و زکاۃ کا نہ ہو، تو اسے پھینک دیتا ہوں، اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے اس کو پہچان کروانے کا کام کیے بغیر کھا لینے کا ارادہ کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2507)
حدیث نمبر: 1374
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا عبد الله بن نمير , ويزيد بن هارون , عن سفيان الثوري , عن سلمة بن كهيل , عن سويد بن غفلة , قال: خرجت مع زيد بن صوحان , وسلمان بن ربيعة , فوجدت سوطا , قال ابن نمير في حديثه: فالتقطت سوطا , فاخذته قالا: دعه , فقلت: لا ادعه تاكله السباع , لآخذنه فلاستمتعن به , فقدمت على ابي بن كعب فسالته عن ذلك وحدثته الحديث، فقال: احسنت وجدت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صرة فيها مائة دينار، قال: فاتيته بها , فقال لي: " عرفها حولا " , فعرفتها حولا , فما اجد من يعرفها , ثم اتيته بها , فقال: " عرفها حولا آخر " , فعرفتها , ثم اتيته بها , فقال: " عرفها حولا آخر " , وقال: " احص عدتها , ووعاءها , ووكاءها , فإن جاء طالبها فاخبرك بعدتها , ووعائها , ووكائها , فادفعها إليه , وإلا فاستمتع بها ". قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ , قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ , وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ , فَوَجَدْتُ سَوْطًا , قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ: فَالْتَقَطْتُ سَوْطًا , فَأَخَذْتُهُ قَالَا: دَعْهُ , فَقُلْتُ: لَا أَدَعُهُ تَأْكُلْهُ السِّبَاعُ , لَآخُذَنَّهُ فَلَأَسْتَمْتِعَنَّ بِهِ , فَقَدِمْتُ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ وَحَدَّثْتُهُ الْحَدِيثَ، فقال: أحسنت وجدت على عهد رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِهَا , فَقَالَ لِي: " عَرِّفْهَا حَوْلًا " , فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا , فَمَا أَجِدُ مَنْ يَعْرِفُهَا , ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهَا , فَقَالَ: " عَرِّفْهَا حَوْلًا آخَرَ " , فَعَرَّفْتُهَا , ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهَا , فَقَالَ: " عَرِّفْهَا حَوْلًا آخَرَ " , وَقَالَ: " أَحْصِ عِدَّتَهَا , وَوِعَاءَهَا , وَوِكَاءَهَا , فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا فَأَخْبَرَكَ بِعِدَّتِهَا , وَوِعَائِهَا , وَوِكَائِهَا , فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ , وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا تو مجھے (راستے میں) ایک کوڑا پڑا ملا - ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ میں نے پڑا ہوا ایک کوڑا پایا - تو میں نے اسے اٹھا لیا تو ان دونوں نے کہا: اسے رہنے دو، (نہ اٹھاؤ) میں نے کہا: میں اسے نہیں چھوڑ سکتا کہ اسے درندے کھا جائیں، میں اسے ضرور اٹھاؤں گا، اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا، اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان سے پوری بات بیان کی تو انہوں نے کہا: تم نے اچھا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، میں نے ایک تھیلی پائی جس میں سو دینار تھے، اسے لے کر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے مجھ سے فرمایا: ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ، میں نے ایک سال تک اس کی پہچان کرائی لیکن مجھے کوئی نہیں ملا جو اسے پہچانتا، پھر میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا: ایک سال تک اور اس کی پہچان کراؤ، میں نے اس کی پہچان کرائی، پھر اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔ تو آپ نے فرمایا: ایک سال تک اور اس کی پہچان کراؤ ۱؎، اور فرمایا: اس کی گنتی کر لو، اس کی تھیلی اور اس کے سربند کو خوب اچھی طرح پہچان لو اگر اسے تلاش کرنے والا آئے اور اس کی تعداد، اس کی تھیلی اور اس کے سربند کے بارے میں بتائے تو اسے دے دو ورنہ تم اسے اپنے کام میں لاؤ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللقطة 1 (2426)، صحیح مسلم/اللقطة 1 (1723)، سنن ابی داود/ اللقطة 1 (1701)، سنن ابن ماجہ/اللقطة 2 (2506)، و مسند احمد (5/126) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی تین سال تک پہچان کرانے کا حکم دیا، اس کی تاویل پچھلی حدیث کے حاشیہ میں دیکھئیے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2506)
36. باب فِي الْوَقْفِ
36. باب: وقف کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About A Waqf
حدیث نمبر: 1375
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر , انبانا إسماعيل بن إبراهيم , عن ابن عون , عن نافع , عن ابن عمر , قال: اصاب عمر ارضا بخيبر، فقال: يا رسول الله , اصبت مالا بخيبر لم اصب مالا قط , انفس عندي منه , فما تامرني , قال: " إن شئت حبست اصلها , وتصدقت بها " , فتصدق بها عمر , انها لا يباع اصلها , ولا يوهب , ولا يورث , تصدق بها في الفقراء , والقربى , والرقاب , وفي سبيل الله , وابن السبيل , والضيف , لا جناح على من وليها ان ياكل منها بالمعروف , او يطعم صديقا غير متمول فيه , قال: فذكرته لمحمد بن سيرين , فقال غير متاثل مالا , قال ابن عون: فحدثني به رجل آخر , انه قراها في قطعة اديم احمر غير متاثل مالا , قال إسماعيل , وانا قراتها عند ابن عبيد الله بن عمر , فكان فيه غير متاثل مالا , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , لا نعلم بين المتقدمين منهم في ذلك اختلافا في إجازة وقف الارضين وغير ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ ابْنِ عَوْنٍ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَصَبْتُ مَالًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ , أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ , فَمَا تَأْمُرُنِي , قَالَ: " إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا , وَتَصَدَّقْتَ بِهَا " , فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ , أَنَّهَا لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا , وَلَا يُوهَبُ , وَلَا يُورَثُ , تَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ , وَالْقُرْبَى , وَالرِّقَابِ , وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَابْنِ السَّبِيلِ , وَالضَّيْفِ , لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ , أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ , قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ , فَقَالَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا , قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَحَدَّثَنِي بِهِ رَجُلٌ آخَرُ , أَنَّهُ قَرَأَهَا فِي قِطْعَةِ أَدِيمٍ أَحْمَرَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا , قَالَ إِسْمَاعِيلُ , وَأَنَا قَرَأْتُهَا عِنْدَ ابْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , فَكَانَ فِيهِ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , لَا نَعْلَمُ بَيْنَ الْمُتَقَدِّمِينَ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا فِي إِجَازَةِ وَقْفِ الْأَرَضِينَ وَغَيْرِ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (اس کے بارے میں) آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اسے (پیداوار کو) صدقہ کر دو، تو عمر رضی الله عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎، اور اسے فقیروں میں، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کے راستے (جہاد) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خرچ کیا جائے۔ اور جو اس کا والی (نگراں) ہو اس کے لیے اس میں سے معروف طریقے سے کھانے اور دوست کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ وہ اس میں سے ذخیرہ اندوزی کرنے والا نہ ہو۔ ابن عون کہتے ہیں: میں نے اسے محمد بن سیرین سے بیان کیا تو انہوں نے «غير متمول فيه» کے بجائے «غير متأثل مالا» کہا۔ ابن عون کہتے ہیں: مجھ سے اسے ایک اور آدمی نے بیان کیا ہے کہ اس نے اس وقف نامے کو پڑھا تھا جو ایک لال چمڑے پر تحریر تھا اور اس میں بھی «غير متأثل مالا» کے الفاظ تھے۔ اسماعیل کہتے ہیں: میں نے اس وقف نامے کو عبیداللہ بن عمر کے بیٹے کے پاس پڑھا، اس میں بھی «غير متأثل مالا» کے الفاظ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ متقدمین میں سے ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے زمین وغیرہ کو وقف کرنے میں اختلاف کیا ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشروط 19 (2737)، والوصایا 22 (2764)، و 28 (2772)، و29 (2773)، و32 (2777)، صحیح مسلم/الوصایا 4 (1632)، سنن ابی داود/ الوصایا 13 (2878)، سنن النسائی/الإحباس 2 (3627)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 4 (2396)، (تحفة الأشراف: 7742)، و مسند احمد (2/55، 125) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز وقف کر دی گئی ہو وہ نہ بیچی جا سکتی ہے اور نہ اسے ہبہ اور وراثت میں دیا جا سکتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائز سمجھتے ہیں، ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگر یہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے (دیکھئیے: فتح الباری کتاب الوصایا، باب ۲۹ (۲۷۷۳)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2396)
حدیث نمبر: 1376
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر , اخبرنا إسماعيل بن جعفر , عن العلاء بن عبد الرحمن , عن ابيه , عن ابي هريرة رضي الله عنه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا مات الإنسان انقطع عمله إلا من ثلاث , صدقة جارية , وعلم ينتفع به , وولد صالح يدعو له ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ , عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ , صَدَقَةٌ جَارِيَةٌ , وَعِلْمٌ يُنْتَفَعُ بِهِ , وَوَلَدٌ صَالِحٌ يَدْعُو لَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ۱؎ ہے، دوسرا ایسا علم ہے ۲؎ جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے ۳؎ جو اس کے لیے دعا کرے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الوصایا 3 (1631)، سنن ابی داود/ الوصایا 14 (2880)، سنن النسائی/الوصایا 8 (3681)، (تحفة الأشراف: 13975)، و مسند احمد (2/316، 350، 372)، وسنن الدارمی/المقدمة 46 (578) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صدقہ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس کو عوام کی بھلائی کے لیے وقف کر دیا جائے، مثلاً سرائے کی تعمیر، کنواں کھدوانا، نل لگوانا، مساجد و مدارس اور یتیم خانوں کی تعمیر کروانا، اسپتال کی تعمیر، پل اور سڑک وغیرہ بنوانا، ان میں سے جو کام بھی وہ اپنی زندگی میں کر جائے یا اس کے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ سب صدقہ جاریہ میں شمار ہوں گے۔
۲؎: علم میں لوگوں کو تعلیم دینا، طلباء کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا، تصنیف و تالیف اور درس و تدریس دعوت و تبلیغ کا سلسلہ قائم کرنا، مدارس کی تعمیر کرنا، دینی کتب کی طباعت اور ان کی نشر و اشاعت کا بندوبست کرنا وغیرہ امور سبھی داخل ہیں۔
۳؎: نیک اولاد میں بیٹا، بیٹی پوتا، پوتی، نواسا نواسی وغیرہ کے علاوہ روحانی اولاد بھی شامل ہے جنہیں علم دین سکھایا ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
37. باب مَا جَاءَ فِي الْعَجْمَاءِ جُرْحُهَا جُبَارٌ
37. باب: چوپائے اگر کسی کو زخمی کر دیں تو اس کے زخم کے لغو ہونے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Injuries Caused By Domestic Animals
حدیث نمبر: 1377
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا سفيان , عن الزهري، عن سعيد بن المسيب , عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " العجماء جرحها جبار , والبئر جبار , والمعدن جبار, وفي الركاز الخمس ". حدثنا قتيبة , حدثنا الليث , عن ابن شهاب , عن سعيد بن المسيب , وابي سلمة , عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه. قال: وفي الباب , عن جابر , وعمرو بن عوف المزني , وعبادة بن الصامت. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح. حدثنا الانصاري، قد ثنا معن , قال: اخبرنا مالك بن انس، وتفسير حديث النبي صلى الله عليه وسلم: " العجماء جرحها جبار " , يقول هدر: لا دية فيه , قال ابو عيسى: ومعنى قوله العجماء: جرحها جبار, فسر ذلك بعض اهل العلم قالوا: العجماء: الدابة المنفلتة من صاحبها فما اصابت في انفلاتها فلا غرم على صاحبها , والمعدن جبار، يقول: إذا احتفر الرجل معدنا فوقع فيه إنسان فلا غرم عليه , وكذلك البئر: إذا احتفرها الرجل للسبيل فوقع فيها إنسان فلا غرم على صاحبها. وفي الركاز الخمس , والركاز: ما وجد في دفن اهل الجاهلية , فمن وجد ركازا , ادى منه الخمس إلى السلطان وما بقي فهو له.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْعَجْمَاءُ جَرْحُهَا جُبَارٌ , وَالْبِئْرُ جُبَارٌ , وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ, وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ ". حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , وَأَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ جَابِرٍ , وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ , وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، قَدَّ ثَنَا مَعْنٍ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَتَفْسِيرُ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْعَجْمَاءُ جَرْحُهَا جُبَارٌ " , يَقُولُ هَدَرٌ: لَا دِيَةَ فِيهِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَعْنَى قَوْلِهِ الْعَجْمَاءُ: جَرْحُهَا جُبَارٌ, فَسَّرَ ذَلِكَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: الْعَجْمَاءُ: الدَّابَّةُ الْمُنْفَلِتَةُ مِنْ صَاحِبِهَا فَمَا أَصَابَتْ فِي انْفِلَاتِهَا فَلَا غُرْمَ عَلَى صَاحِبِهَا , وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، يَقُولُ: إِذَا احْتَفَرَ الرَّجُلُ مَعْدِنًا فَوَقَعَ فِيهِ إِنْسَانٌ فَلَا غُرْمَ عَلَيْهِ , وَكَذَلِكَ الْبِئْرُ: إِذَا احْتَفَرَهَا الرَّجُلُ لِلسَّبِيلِ فَوَقَعَ فِيهَا إِنْسَانٌ فَلَا غُرْمَ عَلَى صَاحِبِهَا. وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ , وَالرِّكَازُ: مَا وُجِدَ فِي دَفْنِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ , فَمَنْ وَجَدَ رِكَازًا , أَدَّى مِنْهُ الْخُمُسَ إِلَى السُّلْطَانِ وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےزبان (جانور) کا زخم رائیگاں ہے، کنویں اور کان میں گر کر کوئی مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے ۱؎، اور جاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے۔ مؤلف نے اپنی سند سے بطریق «عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب وأبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں جابر عمرو بن عوف مزنی اور عبادہ بن صامت رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- مالک بن انس کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث «العجماء جرحها جبار» کی تفسیر یہ ہے کہ چوپایوں سے لگے ہوئے زخم رائیگاں ہیں اس میں کوئی دیت نہیں ہے،
۴- «العجماء جرحها جبار» کی بعض علماء نے یہی تفسیر کی ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بےزبان جانور وہ ہیں جو اپنے مالک کے پاس سے بدک کر بھاگ جائیں، اگر ان کے بدک کر بھاگنے کی حالت میں کسی کو ان سے زخم لگے یا چوٹ آ جائے تو جانور والے پر کوئی تاوان نہیں ہو گا،
۵- «والمعدن جبار» کی تفسیر میں مالک کہتے ہیں: جب کوئی شخص کان کھدوائے اور اس میں کوئی گر جائے تو کان کھودوانے والے پر کوئی تاوان نہیں ہے، اسی طرح کنواں ہے جب کوئی مسافروں وغیرہ کے لیے کنواں کھدوائے اور اس میں کوئی شخص گر جائے تو کھدوائے والے پر کوئی تاوان نہیں ہے،
۶- «وفي الركاز الخمس» کی تفسیر میں مالک کہتے ہیں: «رکاز» اہل جاہلیت کا دفینہ ہے اگر کسی کو جاہلیت کا دفینہ ملے تو وہ پانچواں حصہ سلطان کے پاس (سرکاری خزانہ میں) جمع کرے گا اور جو باقی بچے گا وہ اس کا ہو گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 66 (1499)، والمساقاة 3 (2355)، والدیات 28 (6912)، و 29 (6913)، صحیح مسلم/الحدود 11 (القسامة 22)، (1710)، سنن ابی داود/ الخراج 40 (3085)، والدیات 30 (4593)، سنن النسائی/الزکاة 28 (2497)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 4 (2673)، (تحفة الأشراف: 13128)، و موطا امام مالک/الزکاة 4 (9)، والعقول 18 (2)، و مسند احمد (2/228، 254، 319، 382، 386، 406، 411، 454، 456، 467، 475، 482، 495، 499، 501، 507)، وسنن الدارمی/الزکاة 30 (1710) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ان کے مالکوں سے دیت نہیں لی جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2509 - 2673)
38. باب مَا ذُكِرَ فِي إِحْيَاءِ أَرْضِ الْمَوَاتِ
38. باب: غیر آباد زمین آباد کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Mentioned About Reviving Barren Land
حدیث نمبر: 1378
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , اخبرنا عبد الوهاب الثقفي , اخبرنا ايوب , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن سعيد بن زيد , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من احيى ارضا ميتة فهي له , وليس لعرق ظالم حق ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب , وقد رواه بعضهم , عن هشام بن عروة، عن ابيه , عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا , والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , وهو قول: احمد , وإسحاق , قالوا له: ان يحيي الارض الموات بغير إذن السلطان , وقد قال بعضهم: ليس له ان يحييها إلا بإذن السلطان , والقول الاول اصح , قال: وفي الباب , عن جابر , وعمرو بن عوف المزني جد كثير , وسمرة , حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى , قال: سالت ابا الوليد الطيالسي عن قوله: وليس لعرق ظالم حق , فقال: العرق الظالم: الغاصب الذي ياخذ ما ليس قلت: هو الرجل الذي يغرس في ارض غيره. قال: هو ذاك.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ , أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَحْيَى أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ , وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , قَالُوا لَهُ: أَنْ يُحْيِيَ الْأَرْضَ الْمَوَاتَ بِغَيْرِ إِذْنِ السُّلْطَانِ , وَقَدْ قَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ لَهُ أَنْ يُحْيِيَهَا إِلَّا بِإِذْنِ السُّلْطَانِ , وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ جَابِرٍ , وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ جَدِّ كَثِيرٍ , وَسَمُرَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى , قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيَّ عَنْ قَوْلِهِ: وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ , فَقَالَ: الْعِرْقُ الظَّالِمُ: الْغَاصِبُ الَّذِي يَأْخُذُ مَا لَيْسَ قُلْتُ: هُوَ الرَّجُلُ الَّذِي يَغْرِسُ فِي أَرْضِ غَيْرِهِ. قَالَ: هُوَ ذَاكَ.
سعید بن زید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی بنجر زمین (جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو) آباد کی تو وہ اسی کی ہے کسی ظالم شخص کی رگ کا حق نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- بعض لوگوں نے اسے ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے والد عروہ سے اور عروہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے اور احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ حاکم کی اجازت کے بغیر غیر آباد زمین کو آباد کرنا جائز ہے،
۴- بعض علماء کہتے ہیں: حاکم کی اجازت کے بغیر غیر آباد زمین کو آباد کرنا جائز نہیں ہے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے،
۵- اس باب میں جابر، کثیر کے دادا عمرو بن عوف مزنی اور سمرہ سے بھی احادیث آئی ہیں،
۶- ہم سے ابوموسیٰ محمد بن مثنی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوولید طیالسی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «وليس لعرق ظالم حق» کا مطلب پوچھا، انہوں نے کہا: «العرق الظالم» سے مراد وہ غاصب ہے جو دوسروں کی چیز زبردستی لے۔ میں نے کہا: اس سے مراد وہ شخص ہے جو دوسرے کی زمین میں درخت لگائے؟ انہوں نے کہا: وہی شخص مراد ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الإمارة 37 (3073)، (تحفة الأشراف: 4463)، وط/الأقضیة 24 (26) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1520)، الضعيفة تحت الحديث (88)
حدیث نمبر: 1379
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا عبد الوهاب , حدثنا ايوب , عن هشام بن عروة , عن وهب بن كيسان , عن جابر بن عبد الله , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من احيى ارضا ميتة فهي له ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ , حَدَّثَنَا أَيُّوبُ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَحْيَى أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص غیر آباد زمین (جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو) آباد کرے تو وہ اسی کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وأخرجہ النسائي في الکبریٰ (تحفة الأشراف: 3129)، و مسند احمد (3/338، 381) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1550)
39. باب مَا جَاءَ فِي الْقَطَائِعِ
39. باب: جاگیر دینے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Land Reserves
حدیث نمبر: 1380
Save to word اعراب
(مرفوع) قال: قلت لقتيبة بن سعيد: حدثكم محمد بن يحيى بن قيس الماربي , حدثني ابي , عن ثمامة بن شراحيل , عن سمي بن قيس , عن سمير، عن ابيض بن حمال، انه وفد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستقطعه الملح , فقطع له , فلما ان ولى قال رجل من المجلس: اتدري ما قطعت له , إنما قطعت له الماء العد , قال: فانتزعه منه , قال: وساله عما يحمى من الاراك , قال: " ما لم تنله خفاف الإبل " , فاقر به قتيبة , وقال: نعم. حدثنا ابن ابي عمر.(مرفوع) قَالَ: قُلْتُ لِقُتَيْبَةَ بْنِ سَعِيدٍ: حَدَّثَكُمْ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيُّ , حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ شَرَاحِيلَ , عَنْ سُمَيِّ بْنِ قَيْسٍ , عَنْ سُمَيْرٍ، عَنْ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ، أَنَّهُ وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَقْطَعَهُ الْمِلْحَ , فَقَطَعَ لَهُ , فَلَمَّا أَنْ وَلَّى قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمَجْلِسِ: أَتَدْرِي مَا قَطَعْتَ لَهُ , إِنَّمَا قَطَعْتَ لَهُ الْمَاءَ الْعِدَّ , قَالَ: فَانْتَزَعَهُ مِنْهُ , قَالَ: وَسَأَلَهُ عَمَّا يُحْمَى مِنَ الْأَرَاكِ , قَالَ: " مَا لَمْ تَنَلْهُ خِفَافُ الْإِبِلِ " , فَأَقَرَّ بِهِ قُتَيْبَةُ , وَقَالَ: نَعَمْ. حَدَّثَنَا ابْنِ أَبِي عُمَرَ.
ابیض بن حمال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے جاگیر میں نمک کی کان مانگی تو آپ نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ پیٹھ پھیر کر واپس جانے لگے تو مجلس میں موجود ایک آدمی نے عرض کیا: جانتے ہیں کہ آپ نے جاگیر میں اسے کیا دیا ہے؟ آپ نے اسے جاگیر میں ایسا پانی دیا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا ہے۔ (اس سے برابر نمک نکلتا رہے گا) تو آپ نے اس سے اسے واپس لے لیا، اس نے آپ سے پوچھا: پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ (بطور رمنہ) گھیری جائے؟ آپ نے فرمایا: جس زمین تک اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچے (جو آبادی اور چراگاہ سے کافی دور ہوں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابیض کی حدیث غریب ہے،
۲- میں نے قتیبہ سے پوچھا کیا آپ سے محمد بن یحییٰ بن قیس ماربی نے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اقرار کیا اور کہا: ہاں -

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الخراج 36 (3064)، سنن ابن ماجہ/الرہون 17 (2485)، (تحفة الأشراف: 1) (حسن) (یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے: ”ثمامہ“ لین الحدیث، اور ”سمیر“ مجہول ہیں، لیکن ابوداود کی دوسری روایت (رقم 3065) سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، اس کی تصحیح ابن حبان اور تحسین البانی نے کی ہے (مالم تنلہ خفاف کے استثناء کے ساتھ) دیکھئے: صحیح ابی داود رقم 2694)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2475)

Previous    2    3    4    5    6    7    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.