علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نماز کو جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ کو جب آ جائے، اور بیوہ (کے نکاح) کو جب تم اس کا کفو (مناسب ہمسر) پا لو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- میں اس کی سند متصل نہیں جانتا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 18 (1486) (تحفة الأشراف: 10251) (ضعیف) (سند میں سعید بن عبداللہ جہنی لین الحدیث ہیں لیکن دیگر دلائل سے حدیث کا معنی صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1486) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (326)، المشكاة (605)، ضعيف الجامع الصغير (2563 و 6181)، وتقدم برقم (25 / 172) //
ابوبرزہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی ایسی عورت کی تعزیت (ماتم پرسی) کی جس کا لڑکا مر گیا ہو، تو اسے جنت میں اس کے بدلہ ایک عمدہ کپڑا پہنایا جائے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس کی سند قوی نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11609) (ضعیف) (اس کی راویہ ”منیہ“ مجہول الحال ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1738) // ضعيف الجامع الصغير (5695)، الإرواء (764) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1076) إسناده ضعيف منية،لا يعرف حالھا (تق:8687)
(مرفوع) حدثنا القاسم بن دينار الكوفي، حدثنا إسماعيل بن ابان الوراق، عن يحيى بن يعلى، عن ابي فروة يزيد بن سنان، عن زيد وهو: ابن ابي انيسة، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كبر على جنازة، فرفع يديه في اول تكبيرة ووضع اليمنى على اليسرى ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، واختلف اهل العلم في هذا، فراى اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان يرفع الرجل يديه في كل تكبيرة على الجنازة، وهو قول: ابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: لا يرفع يديه إلا في اول مرة، وهو قول: الثوري، واهل الكوفة، وذكر عن ابن المبارك انه قال في الصلاة على الجنازة: لا يقبض يمينه على شماله ". وراى بعض اهل العلم، ان يقبض بيمينه على شماله كما يفعل في الصلاة. قال ابو عيسى: يقبض احب إلي.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ الْوَرَّاقُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ زَيْدٍ وَهُوَ: ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ وَوَضَعَ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا، فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ عَلَى الْجَنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ: ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَذُكِرَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ: لَا يَقْبِضُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ ". وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنْ يَقْبِضَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ كَمَا يَفْعَلُ فِي الصَّلَاةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: يَقْبِضُ أَحَبُّ إِلَيَّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازے میں اللہ اکبر کہا تو پہلی تکبیر پر آپ نے رفع یدین کیا اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۳- اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ آدمی جنازے میں ہر تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے گا، یہ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: صرف پہلی بار اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے ۲؎، ۵- ابن مبارک کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو نہیں پکڑے گا، ۶- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: وہ اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو پکڑے گا جیسے وہ دوسری نماز میں کرتا ہے، ۷-
امام ترمذی کہتے ہیں: ہاتھ باندھنا مجھے زیادہ پسند ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13117) (حسن) (سند میں ابو فردہ یزید بن سناز ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، دیکھئے احکام الجنائز: 115، 116)»
وضاحت: ۱؎: ان لوگوں کا استدلال عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی حدیث سے ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز جنازہ پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھ ہر تکبیر میں اٹھاتے اس کی تخریج دارقطنی نے اپنی علل میں «عن عمر بن شبہ حدثنا یزید بن ہارون انبأنا یحییٰ بن سعید عن نافع عن ابن عمروقال ہکذا … رفعہ عمر بن شبة» کے طریق سے کی ہے لیکن ایک جماعت نے ان کی مخالفت کی ہے اور یزید بن ہارون سے اسے موقوفاً روایت کیا ہے اور یہی صحیح ہے اس باب میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔
۲؎: ان لوگوں کا استدلال باب کی اس حدیث سے ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے نیز ان کی دوسری دلیل ابن عباس کی روایت ہے اس کی تخریج دارقطنی نے کی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ میں اپنے دونوں ہاتھ پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے پھر ایسا نہیں کرتے تھے لیکن اس میں ایک راوی فضل بن سکن ہے جسے علماء نے ضعیف کہا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن الأحكام (115 - 116)
قال الشيخ زبير على زئي: (1077) إسناده ضعيف يحيي بن يعلي و يزيد بن سنان: ضعيفان (تق:7677،7727) وقال الھيثمي فى يزيد بن سنان: والأاكثر على تضعيفه (مجمع الزوائد 218/4) وللحديث شاھد ضعيف عند الدارقطني (75/2 ح 1824) فيه الفضل بن السكن: مجھول و حجاج بن نصير ضعيف (تقدم: 502)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو اسامة، عن زكريا بن ابي زائدة، عن سعد بن إبراهيم، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہو جائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف: 14959) وانظر: مسند احمد (2/440) (صحیح) وأخرجہ سنن ابن ماجہ/الصدقات 12 و مسند احمد (2/475) من غیر ہذا الوجہ، انظر الحدیث الآتي۔»
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا إبراهيم بن سعد عن ابيه، عن عمر بن ابي سلمة، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن وهو اصح من الاول.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهُوَ أَصَحُّ مِنَ الأَوَّلِ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ۱؎ ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہو جائے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 14981) (صحیح) (اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا معاملہ موقوف رہتا ہے اس کی نجات یا ہلاکت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے۔
۲؎: یہ خاص ہے اس شخص کے ساتھ جس کے پاس اتنا مال ہو جس سے وہ قرض ادا کر سکے رہا وہ شخص جس کے پاس مال نہ ہو اور وہ اس حال میں مرا ہوا کہ قرض کی ادائیگی کا اس کا پختہ ارادہ رہا ہو تو ایسے شخص کے بارے میں حدیث میں وارد ہے کہ اس کا قرض اللہ تعالیٰ ادا کر دے گا۔