(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر بن عبد الله، قال: " لما اراد النبي صلى الله عليه وسلم الحج اذن في الناس فاجتمعوا، فلما اتى البيداء احرم ". قال: وفي الباب عن ابن عمر، وانس، والمسور بن مخرمة. قال ابو عيسى: حديث جابر حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فَاجْتَمَعُوا، فَلَمَّا أَتَى الْبَيْدَاءَ أَحْرَمَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ کیا تو آپ نے لوگوں میں اعلان کرایا۔ (مدینہ میں) لوگ اکٹھا ہو گئے، چنانچہ جب آپ (وہاں سے چل کر) بیداء پہنچے تو احرام باندھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، انس، مسور بن مخرمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہیں (کہ وہاں سے احرام باندھا)۱؎ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد (ذی الحلیفہ) کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ بات ابن عمر نے ان لوگوں کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے کہی جو یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔
۲؎: ان روایات میں بظاہر تعارض ہے، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ آپ نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا تھا جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اس کا ذکر کیا اور جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے تلبیہ پکارا تو دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے اسی وقت احرام باندھا ہے، پھر جب آپ بیداء پر پہنچے اور آپ نے لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے یہاں احرام باندھا ہے، گویا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق خبر دی۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد السلام بن حرب، عن خصيف، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " اهل في دبر الصلاة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرف احدا رواه غير عبد السلام بن حرب، وهو الذي يستحبه اهل العلم ان يحرم الرجل في دبر الصلاة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَهَلَّ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ غَيْرَ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يُحْرِمَ الرَّجُلُ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد احرام باندھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم عبدالسلام بن حرب کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ حدیث روایت کی ہو، ۳- جس چیز کو اہل علم نے مستحب قرار دیا ہے وہ یہی ہے کہ آدمی نماز کے بعد احرام باندھے۔
(مرفوع) حدثنا ابو مصعب قراءة، عن مالك بن انس، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " افرد الحج ". قال: وفي الباب عن جابر، وابن عمر. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم. (حديث مرفوع) وروي عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم " افرد الحج ". وافرد ابو بكر، وعمر، وعثمان. حدثنا بذلك قتيبة، حدثنا عبد الله بن نافع الصائغ، عن عبد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر بهذا. قال ابو عيسى: وقال الثوري: إن افردت الحج فحسن وإن قرنت فحسن وإن تمتعت فحسن. وقال الشافعي مثله، وقال: احب إلينا الإفراد ثم التمتع ثم القران.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَاءَةً، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَفْرَدَ الْحَجَّ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. (حديث مرفوع) وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَفْرَدَ الْحَجَّ ". وَأَفْرَدَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ بِهَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وقَالَ الثَّوْرِيُّ: إِنْ أَفْرَدْتَ الْحَجَّ فَحَسَنٌ وَإِنْ قَرَنْتَ فَحَسَنٌ وَإِنْ تَمَتَّعْتَ فَحَسَنٌ. وقَالَ الشَّافِعِيُّ مِثْلَهُ، وَقَالَ: أَحَبُّ إِلَيْنَا الْإِفْرَادُ ثُمَّ التَّمَتُّعُ ثُمَّ الْقِرَانُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد ۱؎ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم نے بھی افراد کیا، ۵- ثوری کہتے ہیں کہ حج افراد کرو تو بھی بہتر ہے، حج قران کرو تو بھی بہتر ہے اور حج تمتع کرو تو بھی بہتر ہے۔ شافعی نے بھی اسی جیسی بات کہی، ۶- کہا: ہمیں سب سے زیادہ افراد پسند ہے پھر تمتع اور پھر قران۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 17 (1211)، سنن ابی داود/ المناسک 23 (1777)، سنن النسائی/الحج 48 (2716)، سنن ابن ماجہ/المناسک 37 (2964)، (تحفة الأشراف: 17517)، موطا امام مالک/الحج 11 (37)، سنن الدارمی/المناسک 16 (1853) (صحیح الإسناد شاذ) وأخرجہ مسند احمد (6/243) من غیر ہذا الطریق۔(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا حج، حج قران تھا، اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے)۔»
وضاحت: ۱؎ حج کی تین قسمیں ہیں: افراد، قِران اور تمتع، حج افراد یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھے، اور حج قِران یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے، اور قربانی کا جانور ساتھ، جب کہ حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھر مکہ میں جا کر عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دے اور پھر آٹھویں تاریخ کو مکہ مکرمہ ہی سے نئے سرے سے احرام باندھے۔ اب رہی یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا حج کیا تھا؟ تو صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قِران کیا تھا، تفصیل کے لیے حدیث رقم ۸۲۲ کا حاشیہ دیکھیں۔
قال الشيخ الألباني: (الحديث الأول) شاذ، (الحديث الثاني) حسن الإسناد، ولكنه شاذ، انظر ما بعده، وبخاصة الحديث (823) (الحديث الأول)، ابن ماجة (2964)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن حميد، عن انس، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " لبيك بعمرة وحجة ". قال: وفي الباب عن عمر، وعمران بن حصين. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا، واختاروه من اهل الكوفة وغيرهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَاخْتَارُوهُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر اور عمران بن حصین سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، اہل کوفہ وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 611) (صحیح) وقد أخرجہ کل من: صحیح البخاری/المغازی 61 (4354)، وصحیح مسلم/الحج 27 (1232)، من غیر ھذا الطریق۔»
وضاحت: ۱؎ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا۔ انس رضی الله عنہ کا بیان اس بنیاد پر ہے کہ جب آپ کو حکم دیا گیا کہ حج میں عمرہ بھی شامل کر لیں تو آپ سے کہا گیا «قل عمرۃ فی حجۃ» اس بناء کے انس نے یہ روایت بیان کی۔
(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا عبدالله بن إدريس، عن ليث،عن طاوس، عن ابن عباس قال: تمتع رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر وعمر وعثمان واول من نهى عنها معاوية. قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ لَيْثٍ،عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَهَى عَنْهَا مُعَاوِيَةُ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ۱؎ اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم نے بھی ۲؎ اور سب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ رضی الله عنہ ہیں ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف و34 (1251)، و سنن ابی داود/ المناسک 24 (1795)، وسنن ابن ماجہ/الحج 14 (2917)، و38 (2968)، (تحفة الأشراف: 5745)، و مسند احمد (3/99)، وسنن الدارمی/المناسک 78 (1964)، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق (ضعیف الإسناد) (سند میں لیث بن ابی سُلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)»
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا حج کیا تھا؟ اس بارے میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے حج افراد کیا اور بعض سے حج تمتع اور بعض سے حج قران، ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ہر ایک نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس چیز کی نسبت کر دی ہے جس کا آپ نے اسے حکم دیا تھا، اور یہ صحیح ہے کہ آپ نے حج افراد کا احرام باندھا تھا اور بعد میں آپ قارن ہو گئے تھے، جن لوگوں نے اس بات کی روایت کی ہے کہ آپ نے حج تمتع کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں اس کا حکم دیا کیونکہ آپ کا ارشاد ہے «لولا معي الهدى لأحللت»”اگر میرے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہوتا تو میں عمرہ کرنے کے بعد حلال ہو جاتا“، اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ آپ متمتع نہیں تھے، نیز صحابہ کی اصطلاح میں قِران کو بھی تمتع کہا جاتا تھا، کیونکہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ تو بہرحال حج قران میں بھی حاصل ہے، اسی طرح جن لوگوں نے قران کی روایت کی ہے انہوں نے آخری حال کی خبر دی ہے کیونکہ شروع میں آپ کے پیش نظر حج افراد تھا بعد میں آپ نے حج میں عمرہ کو بھی شامل کر لیا، اور آپ سے کہا گیا: «قل عمرة في حجة» اس طرح آپ نے حج افراد کو حج قِران سے بدل دیا۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ ان تینوں قسموں میں سے کون سی قسم افضل ہے؟ تو احناف حج قرِان کو افضل کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے اسی حج کو پسند کیا تھا اور اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے، امام احمد اور امام مالک نے حج تمتع کو افضل کہا ہے کیونکہ اس میں سہولت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرحلہ پر اس کی خواہش کا اظہار بھی فرمایا تھا اور بعض نے حج افراد کو افضل قرار دیا ہے۔ آخری اور حق بات یہی ہے کہ حج تمتع سب سے افضل ہے۔
۲؎: یہ حدیث مسلم کی اس روایت کے معارض ہے جس میں ہے: «قال عبدالله بن شقيق: كان عثمان ينهى عن المتعة وكان علي يأمربها» اور نیچے کی روایت سے عمر رضی الله عنہ کا منع کرنا بھی ثابت ہوتا ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ان دونوں کی ممانعت تنزیہی تھی، ان دونوں کی نہی اس وقت کی ہے جب انہیں اس کے جائز ہونے کا علم نہیں تھا، پھر جب انہیں اس کا جواز معلوم ہوا تو انہوں نے بھی تمتع کیا۔
۳؎: روایات سے معاویہ رضی الله عنہ سے پہلے عمر و عثمان رضی الله عنہما سے ممانعت ثابت ہے، ان کی یہ ممانعت تنزیہی تھی، اور معاویہ رضی الله عنہ کی نہی تحریمی، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ معاویہ رضی الله عنہ کی اوّلیت تحریم کے اعتبار سے تھی۔
قال الشيخ الألباني: albanistatus_desc
قال الشيخ زبير على زئي: (822) إسناده ضعيف ليث بن أبى سليم ضعيف (تقدم: 218)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن محمد بن عبد الله بن الحارث بن نوفل، انه سمع سعد بن ابي وقاص، والضحاك بن قيس وهما " يذكران التمتع بالعمرة إلى الحج، فقال الضحاك بن قيس: لا يصنع ذلك إلا من جهل امر الله، فقال سعد: بئس ما قلت يا ابن اخي، فقال الضحاك بن قيس: فإن عمر بن الخطاب قد نهى عن ذلك، فقال سعد: قد صنعها رسول الله صلى الله عليه وسلم وصنعناها معه ". قال: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، وَالضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ وَهُمَا " يَذْكُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: لَا يَصْنَعُ ذَلِكَ إِلَّا مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللَّهِ، فَقَالَ سَعْدٌ: بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أَخِي، فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ نَهَى عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس رضی الله عنہما سے سنا، دونوں عمرہ کو حج میں ملانے کا ذکر کر رہے تھے۔ ضحاک بن قیس نے کہا: ایسا وہی کرے گا جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو، اس پر سعد رضی الله عنہ نے کہا: بہت بری بات ہے جو تم نے کہی، میرے بھتیجے! تو ضحاک بن قیس نے کہا: عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے اس سے منع کیا ہے، اس پر سعد رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہے اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی اسے کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الحج 50 (2735)، (تحفة الأشراف: 3928)، موطا امام مالک/الحج 19 (60)، سنن الدارمی/الحج 18 (1855) (ضعیف الإسناد) (سند میں محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل لین الحدیث ہیں، لیکن اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)»
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرني يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا ابي، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، ان سالم بن عبد الله حدثه، انه سمع رجلا من اهل الشام وهو يسال عبد الله بن عمر، عن التمتع بالعمرة إلى الحج، فقال عبد الله بن عمر: هي حلال، فقال الشامي: إن اباك قد نهى عنها، فقال عبد الله بن عمر: ارايت إن كان ابي نهى عنها وصنعها رسول الله صلى الله عليه وسلم، اامر ابي نتبع ام امر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: الرجل بل امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: لقد صنعها رسول الله صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: هِيَ حَلَالٌ، فَقَالَ الشَّامِيُّ: إِنَّ أَبَاكَ قَدْ نَهَى عَنْهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَبِي نَهَى عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے اہل شام میں سے ایک شخص سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے کہا: یہ جائز ہے۔ اس پر شامی نے کہا: آپ کے والد نے تو اس سے روکا ہے؟ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے کہا: ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہو تو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی، تو اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث (۸۲۲) حسن ہے، ۲- اس باب میں علی، عثمان، جابر، سعد، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے ایک جماعت نے اسی کو پسند کیا ہے کہ حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنا درست ہے، ۴- اور حج تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کے ذریعہ داخل ہو، پھر عمرہ کر کے وہیں ٹھہرا رہے یہاں تک کہ حج کر لے تو وہ متمتع ہے، اس پر ہدی کی جو اسے میسر ہو قربانی لازم ہو گی، اگر اسے ہدی نہ مل سکے تو حج میں تین دن اور گھر لوٹ کر سات دن کے روزے رکھے، ۵- متمتع کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ حج میں تین روزے رکھے تو ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں میں رکھے اور اس کا آخری روزہ یوم عرفہ کو ہو، اور صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر اور عائشہ رضی الله عنہم بھی شامل ہیں کے قول کی رو سے اگر وہ دس دنوں میں یہ روزے نہ رکھ سکے تو ایام تشریق میں رکھ لے۔ یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۶- اور بعض کہتے ہیں: ایام تشریق میں روزہ نہیں رکھے گا۔ یہ اہل کوفہ کا قول ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اہل حدیث حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنے کو پسند کرتے ہیں، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، ان تلبية النبي صلى الله عليه وسلم كانت: " لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك ". قال: وفي الباب عن ابن مسعود، وجابر، وعائشة، وابن عباس، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول سفيان، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قال الشافعي: وإن زاد في التلبية شيئا من تعظيم الله فلا باس إن شاء الله، واحب إلي ان يقتصر على تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال الشافعي: وإنما قلنا: لا باس بزيادة تعظيم الله فيها، لما جاء عن ابن عمر وهو حفظ التلبية عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم زاد ابن عمر في تلبيته من قبله لبيك والرغباء إليك والعمل.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ تَلْبِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنْ زَادَ فِي التَّلْبِيَةِ شَيْئًا مِنْ تَعْظِيمِ اللَّهِ فَلَا بَأْسَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنَّمَا قُلْنَا: لَا بَأْسَ بِزِيَادَةِ تَعْظِيمِ اللَّهِ فِيهَا، لِمَا جَاءَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَهُوَ حَفِظَ التَّلْبِيَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ زَادَ ابْنُ عُمَرَ فِي تَلْبِيَتِهِ مِنْ قِبَلِهِ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك»”حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور سلطنت بھی، تیرا کوئی شریک نہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، جابر، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- شافعی کہتے ہیں: اگر وہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات کا اضافہ کر لے تو کوئی حرج نہیں ہو گا - ان شاء اللہ- لیکن میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ پر اکتفا کرے۔ شافعی کہتے ہیں: ہم نے جو یہ کہا کہ ”اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات بڑھا لینے میں کوئی حرج نہیں تو اس دلیل سے کہ ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلبیہ یاد کیا پھر اپنی طرف سے اس میں «لبيك والرغباء إليك والعمل»”حاضر ہوں، تیری ہی طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے“ کا اضافہ کیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جابر بن عبداللہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ میں اپنی طرف سے «ذا المعارج» اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنتے تھے لیکن کچھ نہ فرماتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اضافہ جائز ہے، اگر جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے، آپ کی خاموشی تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافے کے جواز کی دلیل ہے، ابن عمر رضی الله عنہما کا یہ اضافہ بھی اسی قبیل سے ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر، انه اهل فانطلق يهل، فيقول: " لبيك اللهم لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك " قال: وكان عبد الله بن عمر، يقول: هذه تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان يزيد من عنده في اثر تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم " لبيك لبيك وسعديك، والخير في يديك، لبيك والرغباء إليك، والعمل " قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ أَهَلَّ فَانْطَلَقَ يُهِلُّ، فَيَقُولُ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ " قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، يَقُولُ: هَذِهِ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يَزِيدُ مِنْ عِنْدِهِ فِي أَثَرِ تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ، وَالْعَمَلُ " قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نافع کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے تلبیہ پکارا اور تلبیہ پکارتے ہوئے چلے، وہ کہہ رہے تھے: «لبيك اللهم لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے تھے: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ ہے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ کے اخیر میں اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کرتے: «لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل»”حاضر ہوں تیری خدمت میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اور خوش ہوں تیری تابعداری پر اور ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے اور تیری طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے“۔