الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book on Hajj
109. باب
109. باب: حج سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: (For A Man To Begin The Talbiyah As The Prophet Did)
حدیث نمبر: 956
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الوارث بن عبد الصمد بن عبد الوارث، قال: حدثنا ابي، حدثنا سليم بن حيان، قال: سمعت مروان الاصفر، عن انس بن مالك، ان " عليا قدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليمن، فقال: " بم اهللت؟ " قال: اهللت بما اهل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لولا ان معي هديا لاحللت ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ حَيَّانَ، قَال: سَمِعْتُ مَرْوَانَ الْأَصْفَرَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ " عَلِيًّا قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْيَمَنِ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ " قَالَ: أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْلَا أَنَّ مَعِي هَدْيًا لَأَحْلَلْتُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے آئے تو آپ نے پوچھا: تم نے کیا تلبیہ پکارا، اور کون سا احرام باندھا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے وہی تلبیہ پکارا، اور اسی کا احرام باندھا ہے جس کا تلبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا، اور جو احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: اگر میرے ساتھ ہدی کے جانور نہ ہوتے تو میں احرام کھول دیتا ۲؎،
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 32 (1558)، صحیح مسلم/الحج 34 (1250)، (تحفة الأشراف: 1585)، مسند احمد (3/185) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے احرام کو دوسرے کے احرام پر معلق کرنا جائز ہے۔
۲؎: یعنی: عمرہ کے بعد احرام کھول دیتا، پھر ۸ ذی الحجہ کو حج کے لیے دوبارہ احرام باندھنا، جیسا کہ حج تمتع میں کیا جاتا ہے، مذکورہ مجبوری کی وجہ سے آپ نے قران ہی کیا، ورنہ تمتع کرتے، اس لیے تمتع افضل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1006)، الحج الكبير
110. باب مَا جَاءَ فِي يَوْمِ الْحَجِّ الأَكْبَرِ
110. باب: حج اکبر کے دن کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Day Of Al-Hajj Al-Akbar
حدیث نمبر: 957
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الوارث بن عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا ابي، عن ابيه، عن محمد بن إسحاق، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن يوم الحج الاكبر، فقال: " يوم النحر ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ يَوْمِ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ، فَقَالَ: " يَوْمُ النَّحْرِ ".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: حج اکبر (بڑے حج) کا دن کون سا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: «یوم النحر» قربانی کا دن۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وأخرجہ في تفسیر التوبة أیضا (3088) (تحفة الأشراف: 10049) (صحیح) (سند میں حارث اعور سخت ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1101)، صحيح أبي داود (1700 و 1701)
حدیث نمبر: 958
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: " يوم الحج الاكبر يوم النحر ". قال ابو عيسى: ولم يرفعه، وهذا اصح من الحديث الاول، ورواية ابن عيينة موقوفا، اصح من رواية محمد بن إسحاق مرفوعا، هكذا روى غير واحد من الحفاظ عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي موقوفا، وقد روى شعبة، عن ابي إسحاق، قال: عن عبد الله بن مرة، عن الحارث، عن علي موقوفا.(موقوف) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ يَوْمُ النَّحْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَرِوَايَةُ ابْنِ عُيَيْنَةَ مَوْقُوفًا، أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق مَرْفُوعًا، هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حج اکبر (بڑے حج) کا دن دسویں ذی الحجہ کا دن ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابن ابی عمر نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اور یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اور ابن عیینہ کی موقوف روایت محمد بن اسحاق کی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح بہت سے حفاظ حدیث نے اسے بسند «أبي إسحق عن الحارث عن علي» موقوفاً روایت کیا ہے، شعبہ نے بھی ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے انہوں نے یوں کہا ہے «عن عبد الله بن مرة عن الحارث عن علي موقوفا» ۲؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: دسویں تاریخ کو حج اکبر (بڑا حج) اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسی دن حج کے اکثر افعال انجام دیئے جاتے ہیں، مثلاً جمرہ عقبہ کی رمی (کنکری مارنا)، حلق (سر منڈوانا)، ذبح، طواف زیارت وغیرہ اعمال حج، اور عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ حج اکبر اس حج کو کہتے ہیں جس میں دسویں تاریخ جمعہ کو آ پڑی ہو، تو اس کی کوئی اصل نہیں، رہی طلحہ بن عبیداللہ بن کرز کی روایت «أفضل الأيام يوم عرفه وإذا وافق يوم جمعة فهو أفضل من سبعين حجة في غير يوم جمعة» تو یہ مرسل ہے، اور اس کی سند بھی معلوم نہیں، اور حج اصغر سے جمہور عمرہ مراد لیتے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حج اصغر یوم عرفہ ہے اور حج اکبر یوم النحر۔
۲؎: یعنی شعبہ والی روایت میں ابواسحاق سبیعی اور حارث کے درمیان عبداللہ بن مرہ کے واسطے کا اضافہ ہے جب کہ دیگر حفاظ کی روایت میں ایسا نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (957)
111. باب مَا جَاءَ فِي اسْتِلاَمِ الرُّكْنَيْنِ
111. باب: حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Touching The Two Corners
حدیث نمبر: 959
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن عطاء بن السائب، عن ابن عبيد بن عمير، عن ابيه، ان ابن عمر كان يزاحم على الركنين زحاما ما رايت احدا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يفعله. فقلت: يا ابا عبد الرحمن إنك تزاحم على الركنين زحاما ما رايت احدا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يزاحم عليه، فقال: إن افعل، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن مسحهما كفارة للخطايا "، وسمعته يقول: " من طاف بهذا البيت اسبوعا فاحصاه، كان كعتق رقبة "، وسمعته يقول: " لا يضع قدما ولا يرفع اخرى إلا حط الله عنه خطيئة، وكتب له بها حسنة ". قال ابو عيسى: وروى حماد بن زيد، عن عطاء بن السائب، عن ابن عبيد بن عمير، عن ابن عمر نحوه، ولم يذكر فيه عن ابيه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُزَاحِمُ عَلَى الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ. فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّكَ تُزَاحِمُ عَلَى الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُزَاحِمُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: إِنْ أَفْعَلْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ مَسْحَهُمَا كَفَّارَةٌ لِلْخَطَايَا "، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " مَنْ طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ أُسْبُوعًا فَأَحْصَاهُ، كَانَ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ "، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " لَا يَضَعُ قَدَمًا وَلَا يَرْفَعُ أُخْرَى إِلَّا حَطَّ اللَّهُ عَنْهُ خَطِيئَةً، وَكَتَبَ لَهُ بِهَا حَسَنَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما حجر اسود اور رکن یمانی پر ایسی بھیڑ لگاتے تھے جو میں نے صحابہ میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ تو میں نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! آپ دونوں رکن پر ایسی بھیڑ لگاتے ہیں کہ میں نے صحابہ میں سے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ تو انہوں نے کہا: اگر میں ایسا کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ان پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کا کفارہ ہے۔ اور میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: جس نے اس گھر کا طواف سات مرتبہ (سات چکر) کیا اور اسے گنا، تو یہ ایسے ہی ہے گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔ اور میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: وہ جتنے بھی قدم رکھے اور اٹھائے گا اللہ ہر ایک کے بدلے اس کی ایک غلطی معاف کرے گا اور ایک نیکی لکھے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- حماد بن زید نے بطریق: «عطا بن السائب، عن ابن عبید بن عمير، عن ابن عمر» روایت کی ہے اور اس میں انہوں نے ابن عبید کے باپ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7317) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: (قوله:
112. باب مَا جَاءَ فِي الْكَلاَمِ فِي الطَّوَافِ
112. باب: طواف کرتے وقت بات چیت کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Talking During Tawaf
حدیث نمبر: 960
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن عطاء بن السائب، عن طاوس، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الطواف حول البيت مثل الصلاة إلا انكم تتكلمون فيه، فمن تكلم فيه، فلا يتكلمن إلا بخير ". قال ابو عيسى: وقد روي هذا الحديث، عن ابن طاوس، وغيره، عن طاوس، عن ابن عباس موقوفا، ولا نعرفه مرفوعا، إلا من حديث عطاء بن السائب، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم يستحبون، ان لا يتكلم الرجل في الطواف إلا لحاجة، او يذكر الله تعالى، او من العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الطَّوَافُ حَوْلَ الْبَيْتِ مِثْلُ الصَّلَاةِ إِلَّا أَنَّكُمْ تَتَكَلَّمُونَ فِيهِ، فَمَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ، فَلَا يَتَكَلَّمَنَّ إِلَّا بِخَيْرٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا، وَلَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ، أَنْ لَا يَتَكَلَّمَ الرَّجُلُ فِي الطَّوَافِ إِلَّا لِحَاجَةٍ، أَوْ يَذْكُرُ اللَّهَ تَعَالَى، أَوْ مِنَ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ کے گرد طواف نماز کے مثل ہے۔ البتہ اس میں تم بول سکتے ہو (جب کہ نماز میں تم بول نہیں سکتے) تو جو اس میں بولے وہ زبان سے بھلی بات ہی نکالے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث ابن طاؤس وغیرہ نے ابن عباس سے موقوفاً روایت کی ہے۔ ہم اسے صرف عطاء بن سائب کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں،
۲- اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، یہ لوگ اس بات کو مستحب قرار دیتے ہیں کہ آدمی طواف میں بلا ضرورت نہ بولے (اور اگر بولے) تو اللہ کا ذکر کرے یا پھر علم کی کوئی بات کہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5733) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (121)، المشكاة (2576)، التعليق الرغيب (2 / 121)، التعليق على ابن خزيمة (2739)
113. باب مَا جَاءَ فِي الْحَجَرِ الأَسْوَدِ
113. باب: حجر اسود کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Black Stone
حدیث نمبر: 961
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن جرير، عن ابن خثيم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في الحجر: " والله ليبعثنه الله يوم القيامة له عينان يبصر بهما، ولسان ينطق به يشهد على من استلمه بحق ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجَرِ: " وَاللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا، وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ اسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی، جس سے یہ دیکھے گا، ایک زبان ہو گی جس سے یہ بولے گا۔ اور یہ اس شخص کے ایمان کی گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ (یعنی ایمان اور اجر کی نیت سے) اس کا استلام کیا ہو گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک 27 (2735)، (تحفة الأشراف: 5536)، سنن الدارمی/المناسک 26 (1881) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس کو چوما یا چھوا ہو گا یہ حدیث اپنے ظاہر ہی پر محمول ہو گی اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ حجر اسود کو آنکھیں اور زبان دیدے اور دیکھنے اور بولنے کی طاقت بخش دے بعض لوگوں نے اس حدیث کی تاویل کی ہے کہ یہ کنایہ ہے حجر اسود کا استلام کرنے والے کو ثواب دینے اور اور اس کی کوشش کو ضائع نہ کرنے سے لیکن یہ محض فلسفیانہ موشگافی ہے، صحیح یہی ہے کہ حدیث کو ظاہر ہی پر محمول کیا جائے۔ اور ایسا ہونے پر ایمان لایا جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2578)، التعليق الرغيب (2 / 122)، التعليق على ابن خزيمة (2735)
114. باب
114. باب: حج سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: The Muhrim Who Had Some Oil Applied
حدیث نمبر: 962
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن حماد بن سلمة، عن فرقد السبخي، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر، " ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يدهن بالزيت وهو محرم غير المقتت ". قال ابو عيسى: المقتت المطيب،. قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث فرقد السبخي، عن سعيد بن جبير، وقد تكلم يحيى بن سعيد، في فرقد السبخي، وروى عنه الناس.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدَّهِنُ بِالزَّيْتِ وَهُوَ مُحْرِمٌ غَيْرِ الْمُقَتَّتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: الْمُقَتَّتُ الْمُطَيَّبُ،. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، فِي فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، وَرَوَى عَنْهُ النَّاسُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں زیتون کا تیل لگاتے تھے اور یہ (تیل) بغیر خوشبو کے ہوتا تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف فرقد سبخی کی روایت سے جانتے ہیں، اور فرقد نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے۔ یحییٰ بن سعید نے فرقد سبخی کے سلسلے میں کلام کیا ہے، اور فرقد سے لوگوں نے روایت کی ہے،
۲- مقتت کے معنی خوشبودار کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک 88 (3083)، (تحفة الأشراف: 7060) (ضعیف الإسناد) (سند میں فرقد سبخی لین الحدیث اور کثیر الخطاء راوی ہںذ) (وأخرجہ صحیح البخاری/الحج18 (1537) موقوفا علی ابن عمر وہو أصح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم کے لیے زیتون کا تیل جس میں خوشبو کی ملاوٹ نہ ہو لگانا جائز ہے، لیکن حدیث ضعیف ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
115. باب
115. باب: حج سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: What Has Been Related About Carrying Zamzam Water
حدیث نمبر: 963
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا خلاد بن يزيد الجعفي، حدثنا زهير بن معاوية، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، " انها كانت تحمل من ماء زمزم، وتخبر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحمله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، " أَنَّهَا كَانَتْ تَحْمِلُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، وَتُخْبِرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْمِلُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ وہ زمزم کا پانی ساتھ مدینہ لے جاتی تھیں، اور بیان کرتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زمزم ساتھ لے جاتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16905) (صحیح) (سند میں خلاد بن یزید جعفی کے حفظ میں کچھ کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ حاجیوں کے لیے زمزم کا پانی مکہ سے اپنے وطن لے جانا مستحب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (883)
116. باب
116. باب: حج سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: Where To Perform The Zuhr Prayer On The Day Of Tarwiyah
حدیث نمبر: 964
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، ومحمد بن الوزير الواسطي المعنى واحد، قالا: حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، عن سفيان، عن عبد العزيز بن رفيع، قال: قلت لانس بن مالك حدثني بشيء عقلته عن رسول الله صلى الله عليه وسلم اين صلى الظهر يوم التروية؟ قال: " بمنى ". قال: قلت: فاين صلى العصر يوم النفر؟ قال: " بالابطح "، ثم قال: " افعل كما يفعل امراؤك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، يستغرب من حديث إسحاق بن يوسف الازرق، عن الثوري.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ الْوَاسِطِيُّ المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدِّثْنِي بِشَيْءٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ صَلَّى الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ؟ قَالَ: " بِمِنًى ". قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ؟ قَالَ: " بِالْأَبْطَحِ "، ثُمَّ قَالَ: " افْعَلْ كَمَا يَفْعَلُ أُمَرَاؤُكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ إِسْحَاق بْنِ يُوسُفَ الْأَزْرَقِ، عَنْ الثَّوْرِيِّ.
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے کہا: مجھ سے آپ کوئی ایسی بات بیان کیجئیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کر رکھی ہو۔ بتائیے آپ نے آٹھویں ذی الحجہ کو ظہر کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا: منیٰ میں، (پھر) میں نے پوچھا: اور کوچ کے دن عصر کہاں پڑھی؟ کہا: ابطح میں لیکن تم ویسے ہی کرو جیسے تمہارے امراء و حکام کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اسحاق بن یوسف الازرق کی روایت سے غریب جانی جاتی ہے جسے انہوں نے ثوری سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 83 (1653)، و146 (1783)، صحیح مسلم/الحج 58 (1309)، سنن ابی داود/ المناسک 59 (1912)، سنن النسائی/الحج 190 (3000)، (تحفة الأشراف: 988)، سنن الدارمی/المناسک 46 (1914) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1670)

Previous    12    13    14    15    16    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.