(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل الواسطي، قال: سمعت ابن نمير، عن اشعث بن سوار، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: " كنا إذا حججنا مع النبي صلى الله عليه وسلم فكنا نلبي عن النساء ونرمي عن الصبيان ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد اجمع اهل العلم على ان المراة لا يلبي عنها غيرها بل هي تلبي عن نفسها، ويكره لها رفع الصوت بالتلبية.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل الْوَاسِطِيُّ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ نُمَيْرٍ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " كُنَّا إِذَا حَجَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنَّا نُلَبِّي عَنِ النِّسَاءِ وَنَرْمِي عَنِ الصِّبْيَانِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ لَا يُلَبِّي عَنْهَا غَيْرُهَا بَلْ هِيَ تُلَبِّي عَنْ نَفْسِهَا، وَيُكْرَهُ لَهَا رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تو ہم عورتوں کی طرف سے تلبیہ کہتے اور بچوں کی طرف سے رمی کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۲- اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کی طرف سے کوئی دوسرا تلبیہ نہیں کہے گا، بلکہ وہ خود ہی تلبیہ کہے گی البتہ اس کے لیے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک 68 (3038) (تحفة الأشراف: 2662) (ضعیف) (سند میں اشعث بن سوار ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3038) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (652)، وانظر حجة النبي صلى الله عليه وسلم الصفحة (50) //
قال الشيخ زبير على زئي: (927) إسناده ضعيف /جه 3038 أشعث بن سوار: ضعيف (تقدم:649) وأبو الزبير عنعن إن صح السند إليه (تقدم: 10)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا روح بن عبادة، حدثنا ابن جريج، اخبرني ابن شهاب، قال: حدثني سليمان بن يسار، عن عبد الله بن عباس، عن الفضل بن عباس، ان امراة من خثعم، قالت: يا رسول الله إن ابي ادركته فريضة الله في الحج، وهو شيخ كبير لا يستطيع ان يستوي على ظهر البعير. قال: " حجي عنه ". قال: وفي الباب عن علي، وبريدة، وحصين بن عوف، وابي رزين العقيلي، وسودة بنت زمعة، وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث الفضل بن عباس حديث حسن صحيح، وروي عن ابن عباس، عن حصين بن عوف المزني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وروي عن ابن عباس ايضا، عن سنان بن عبد الله الجهني، عن عمته، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وروي عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: وسالت محمدا عن هذه الروايات، فقال: اصح شيء في هذا الباب ما روى ابن عباس، عن الفضل بن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال محمد: ويحتمل ان يكون ابن عباس سمعه من الفضل وغيره، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ثم روى هذا عن النبي صلى الله عليه وسلم، وارسله ولم يذكر الذي سمعه منه. قال ابو عيسى: وقد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا الباب غير حديث، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وبه يقول: الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق: يرون ان يحج عن الميت، وقال مالك: إذا اوصى ان يحج عنه حج عنه، وقد رخص بعضهم ان يحج عن الحي إذا كان كبيرا، او بحال لا يقدر ان يحج، وهو قول ابن المبارك، والشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى ظَهْرِ الْبَعِيرِ. قَالَ: " حُجِّي عَنْهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَبُرَيْدَةَ، وَحُصَيْنِ بْنِ عَوْفٍ، وَأَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ، وَسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا، عَن سِنَانِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ، عَنْ عَمَّتِه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذِهِ الرِّوَايَاتِ، فَقَالَ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَاب مَا رَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَمِعَهُ مِنْ الْفَضْلِ وَغَيْرِهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَوَى هَذَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَرْسَلَهُ وَلَمْ يَذْكُرِ الَّذِي سَمِعَهُ مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَاب غَيْرُ حَدِيثٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَبِهِ يَقُولُ: الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: يَرَوْنَ أَنْ يُحَجَّ عَنِ الْمَيِّتِ، وقَالَ مَالِكٌ: إِذَا أَوْصَى أَنْ يُحَجَّ عَنْهُ حُجَّ عَنْهُ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُحَجَّ عَنِ الْحَيِّ إِذَا كَانَ كَبِيرًا، أَوْ بِحَالٍ لَا يَقْدِرُ أَنْ يَحُجَّ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ.
فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد کو اللہ کے فریضہ حج نے پا لیا ہے لیکن وہ اتنے بوڑھے ہیں کہ اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ نہیں سکتے (تو کیا کیا جائے؟)۔ آپ نے فرمایا: ”تو ان کی طرف سے حج کر لے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- فضل بن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن عباس رضی الله عنہما سے حصین بن عوف مزنی رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۳- ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ سنان بن عبداللہ جہنی رضی الله عنہ نے اپنی پھوپھی سے اور ان کی پھوپھی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۴- ابن عباس رضی الله عنہما نے براہ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت کی ہے، ۵-
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے ان روایات کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: اس باب میں سب سے صحیح روایت وہ ہے جسے ابن عباس نے فضل بن عباس سے اور فضل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۶- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس کا بھی احتمال ہے کہ ابن عباس نے اسے (اپنے بھائی) فضل سے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بھی سنا ہو اور ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو، اور پھر ابن عباس رضی الله عنہما نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہو اور جس سے انہوں نے اسے سنا ہو اس کا نام ذکر نہ کیا ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کئی اور بھی احادیث ہیں، ۷- اس باب میں علی، بریدہ، حصین بن عوف، ابورزین عقیلی، سودہ بنت زمعہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۸- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے، ۹- مالک کہتے ہیں: میت کی طرف سے حج اس وقت کیا جائے گا جب وہ حج کرنے کی وصیت کر گیا ہو، ۱۰- بعض لوگوں نے زندہ شخص کی طرف سے جب وہ بہت زیادہ بوڑھا ہو گیا ہو یا ایسی حالت میں ہو کہ وہ حج پر قدرت نہ رکھتا ہو حج کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہی ابن مبارک اور شافعی کا بھی قول ہے۔
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میری ماں مر گئی ہے، وہ حج نہیں کر سکی تھی، کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، تو اس کی طرف سے حج کر لے“۔
(مرفوع) حدثنا يوسف بن عيسى، حدثنا وكيع، عن شعبة، عن النعمان بن سالم، عن عمرو بن اوس، عن ابي رزين العقيلي، انه اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إن ابي شيخ كبير لا يستطيع الحج ولا العمرة ولا الظعن، قال: " حج عن ابيك واعتمر ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وإنما ذكرت العمرة عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا الحديث، ان يعتمر الرجل عن غيره. وابو رزين العقيلي اسمه لقيط بن عامر.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَلَا الْعُمْرَةَ وَلَا الظَّعْنَ، قَالَ: " حُجَّ عَنْ أَبِيكَ وَاعْتَمِرْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا ذُكِرَتِ الْعُمْرَةُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، أَنْ يَعْتَمِرَ الرَّجُلُ عَنْ غَيْرِهِ. وَأَبُو رَزِينٍ الْعُقَيْلِيُّ اسْمُهُ لَقِيطُ بْنُ عَامِرٍ.
ابورزین عقیلی لقیط بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ حج و عمرہ کرنے اور سوار ہو کر سفر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: ”تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کر لو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عمرے کا ذکر صرف اسی حدیث میں مذکور ہوا ہے کہ آدمی غیر کی طرف سے عمرہ کر سکتا ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني، حدثنا عمر بن علي، عن الحجاج، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن العمرة اواجبة هي؟ قال: " لا، وان تعتمروا هو افضل ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وهو قول بعض اهل العلم، قالوا: العمرة ليست بواجبة. وكان يقال: هما حجان: الحج الاكبر يوم النحر، والحج الاصغر العمرة، وقال الشافعي: العمرة سنة، لا نعلم احدا رخص في تركها، وليس فيها شيء ثابت بانها تطوع، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم بإسناد، وهو ضعيف لا تقوم بمثله الحجة، وقد بلغنا عن ابن عباس، انه كان يوجبها. قال ابو عيسى: كله كلام الشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْعُمْرَةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ؟ قَالَ: " لَا، وَأَنْ تَعْتَمِرُوا هُوَ أَفْضَلُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: الْعُمْرَةُ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ. وَكَانَ يُقَالُ: هُمَا حَجَّانِ: الْحَجُّ الْأَكْبَرُ يَوْمُ النَّحْرِ، وَالْحَجُّ الْأَصْغَرُ الْعُمْرَةُ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: الْعُمْرَةُ سُنَّةٌ، لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَخَّصَ فِي تَرْكِهَا، وَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ ثَابِتٌ بِأَنَّهَا تَطَوُّعٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْنَادٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ لَا تَقُومُ بِمِثْلِهِ الْحُجَّةُ، وَقَدْ بَلَغَنَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ يُوجِبُهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: كُلُّهُ كَلَامُ الشَّافِعِيِّ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرے کے بارے میں پوچھا گیا: کیا یہ واجب ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، لیکن عمرہ کرنا بہتر ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور یہی بعض اہل علم کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمرہ واجب نہیں ہے، ۳- اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حج دو ہیں: ایک حج اکبر ہے جو یوم نحر (دسویں ذی الحجہ کو) ہوتا ہے اور دوسرا حج اصغر ہے جسے عمرہ کہتے ہیں، ۴- شافعی کہتے ہیں: عمرہ (کا وجوب) سنت سے ثابت ہے، ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے چھوڑنے کی اجازت دی ہو۔ اور اس کے نفل ہونے کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس سند سے (نفل ہونا) مروی ہے وہ ضعیف ہے۔ اس جیسی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی، اور ہم تک یہ بات بھی پہنچی ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما اسے واجب قرار دیتے تھے۔ یہ سب شافعی کا کلام ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا زياد بن عبد الله، عن يزيد بن ابي زياد، عن مجاهد، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة ". قال: وفي الباب عن سراقة بن جعشم، وجابر بن عبد الله. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن، ومعنى هذا الحديث: ان لا باس بالعمرة في اشهر الحج، وهكذا قال الشافعي، واحمد، وإسحاق، ومعنى هذا الحديث: ان اهل الجاهلية كانوا لا يعتمرون في اشهر الحج، فلما جاء الإسلام رخص النبي صلى الله عليه وسلم في ذلك، فقال: " دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة ". يعني: لا باس بالعمرة في اشهر الحج، واشهر الحج شوال وذو القعدة وعشر من ذي الحجة، لا ينبغي للرجل ان يهل بالحج إلا في اشهر الحج واشهر الحرم رجب وذو القعدة وذو الحجة والمحرم، هكذا قال غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: أَنْ لَا بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، وَهَكَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا لَا يَعْتَمِرُونَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ رَخَّصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: " دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ". يَعْنِي: لَا بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، وَأَشْهُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، لَا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُهِلَّ بِالْحَجِّ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَأَشْهُرُ الْحُرُمِ رَجَبٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ، هَكَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں سراقہ بن جعشم اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی تشریح شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کی ہے کہ جاہلیت کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کرتے تھے، جب اسلام آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا: ”عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے“، یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اشہر حج شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں“، کسی شخص کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ حج کے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں حج کا احرام باندھے، اور حرمت والے مہینے یہ ہیں: رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 64301) (صحیح) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں، لیکن متابعات وشواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الحج 31 (1241)، سنن ابی داود/ المناسک 23 (1790)، سنن النسائی/الحج 77 (1817)، مسند احمد (1/236، 253، 259، 341)، سنن الدارمی/المناسک 18 (1898)، من غیر ہذا الطریق، وأصلہ عند: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 3 (1085)، والحج 23 (1545)، و34 (1564)، والشرکة 15 (2505)، ومناقب الأنصار 26 (3832)»
وضاحت: ۱؎: مگر حرمت والے مہینوں کا حج کے لیے احرام باندھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے، امام رحمہ اللہ نے ان کا ذکر صرف وضاحت کے لیے کیا ہے تاکہ دونوں خلط ملط نہ جائیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " العمرة إلى العمرة تكفر ما بينهما، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ تُكَفِّرُ مَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے تمام گناہ مٹا دیتا ہے ۱؎ اور حج مقبول ۲؎ کا بدلہ جنت ہی ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 79 (1349)، (تحفة الأشراف: 12556)، مسند احمد (2/246، 461) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/العمرة (1773)، صحیح مسلم/الحج (المصدرالمذکور) سنن النسائی/الحج 3 (2623)، و5 (2630)، سنن ابن ماجہ/المناسک 3 (2888)، موطا امام مالک/الحج 21 (65)، مسند احمد (2/262)، سنن الدارمی/المناسک 7 (1802)، من غیر ہذا الطریق۔»
وضاحت: ۱؎: مراد صغائر (چھوٹے گناہ) ہیں نہ کہ کبائر (بڑے گناہ) کیونکہ کبائر بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔
۲؎: حج مقبول وہ حج ہے جس میں کسی گناہ کی ملاوٹ نہ ہو۔
وضاحت: ۱؎: تنعیم مکہ سے باہر ایک معروف جگہ کا نام ہے جو مدینہ کی جہت میں مکہ سے چار میل کی دوری پر ہے، عمرہ کے لیے اہل مکہ کی میقات حل (حرم مکہ سے باہر کی جگہ) ہے، اور تنعیم چونکہ سب سے قریبی حِل ہے اس لیے آپ نے عائشہ رضی الله عنہا کو تنعیم سے احرام باندھنے کا حکم دیا۔ اور یہ عمرہ ان کے لیے اس عمرے کے بدلے میں تھا جو وہ حج سے قبل حیض آ جانے کی وجہ سے نہیں کر سکی تھیں، اس سے حج کے بعد عمرہ پر عمرہ کرنے کی موجودہ چلن پر دلیل نہیں پکڑی جا سکتی۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن ابن جريج، عن مزاحم بن ابي مزاحم، عن عبد العزيز بن عبد الله، عن محرش الكعبي، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من الجعرانة ليلا معتمرا، فدخل مكة ليلا فقضى عمرته، ثم خرج من ليلته فاصبح بالجعرانة كبائت، فلما زالت الشمس من الغد خرج من بطن سرف حتى جاء مع الطريق، طريق جمع ببطن سرف، فمن اجل ذلك خفيت عمرته على الناس ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ولا نعرف لمحرش الكعبي، عن النبي صلى الله عليه وسلم غير هذا الحديث، ويقال: جاء مع الطريق موصول.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ أَبِي مُزَاحِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ الْجِعِرَّانَةِ لَيْلًا مُعْتَمِرًا، فَدَخَلَ مَكَّةَ لَيْلًا فَقَضَى عُمْرَتَهُ، ثُمَّ خَرَجَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَأَصْبَحَ بِالْجِعِرَّانَةِ كَبَائِتٍ، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ مِنَ الْغَدِ خَرَجَ مِنْ بَطْنِ سَرِفَ حَتَّى جَاءَ مَعَ الطَّرِيقِ، طَرِيقِ جَمْعٍ بِبَطْنِ سَرِفَ، فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ خَفِيَتْ عُمْرَتُهُ عَلَى النَّاسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا نَعْرِفُ لِمُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَيُقَالُ: جَاءَ مَعَ الطَّرِيقِ مَوْصُولٌ.
محرش کعبی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ سے رات کو عمرے کی نیت سے نکلے اور رات ہی میں مکے میں داخل ہوئے، آپ نے اپنا عمرہ پورا کیا، پھر اسی رات (مکہ سے) نکل پڑے اور آپ نے واپس جعرانہ ۱؎ میں صبح کی، گویا آپ نے وہیں رات گزاری ہو، اور جب دوسرے دن سورج ڈھل گیا تو آپ وادی سرف ۲؎ سے نکلے یہاں تک کہ اس راستے پر آئے جس سے وادی سرف والا راستہ آ کر مل جاتا ہے۔ اسی وجہ سے (بہت سے) لوگوں سے آپ کا عمرہ پوشیدہ رہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اس حدیث کے علاوہ محرش کعبی کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو اور کہا جاتا ہے: «جاء مع الطريق» والا ٹکڑا موصول ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا يحيى بن آدم، عن ابي بكر بن عياش، عن الاعمش، عن حبيب بن ابي ثابت، عن عروة، قال: سئل ابن عمر في اي شهر اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: " في رجب "، فقالت عائشة: " ما اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا وهو معه تعني ابن عمر، وما اعتمر في شهر رجب قط ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، سمعت محمدا، يقول: حبيب بن ابي ثابت لم يسمع من عروة بن الزبير.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ فِي أَيِّ شَهْرٍ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: " فِي رَجَبٍ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: " مَا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا وَهُوَ مَعَهُ تَعْنِي ابْنَ عُمَرَ، وَمَا اعْتَمَرَ فِي شَهْرِ رَجَبٍ قَطُّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ.
عروہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما سے پوچھا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس مہینے میں عمرہ کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا: رجب میں، اس پر عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی عمرہ کیا، اس میں وہ یعنی ابن عمر آپ کے ساتھ تھے، آپ نے رجب کے مہینے میں کبھی بھی عمرہ نہیں کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جبیب بن ابی ثابت نے عروہ بن زبیر سے نہیں سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک 37 (2998)، (تحفة الأشراف: 17373)، وراجع ما عند صحیح البخاری/العمرة 3 (1776)، صحیح مسلم/الحج 35 (1255، 129) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابن عمر عائشہ رضی الله عنہا کی یہ بات سن کر خاموش رہے، کچھ نہیں بولے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ان پر مشتبہ تھا، یا تو وہ بھول گئے تھے، یا انہیں شک ہو گیا تھا، اسی وجہ سے ام المؤمنین کی بات کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، اس سلسلہ میں صحیح بات ام المؤمنین کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔