(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا المغيرة بن عبد الرحمن، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه ادخل الجنة، وفيه اخرج منها، ولا تقوم الساعة إلا في يوم الجمعة " قال: وفي الباب عن ابي لبابة , وسلمان , وابي ذر , وسعد بن عبادة , واوس بن اوس، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي لُبَابَةَ , وَسَلْمَانَ , وَأَبِي ذَرٍّ , وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ , وَأَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بہتر دن جس میں سورج نکلا، جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم کو پیدا کیا گیا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا، اور قیامت بھی اسی دن قائم ہو گی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابولبابہ، سلمان، ابوذر، سعد بن عبادہ اور اوس بن اوس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن الصباح الهاشمي البصري العطار، حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي، حدثنا محمد بن ابي حميد، حدثنا موسى بن وردان، عن انس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " التمسوا الساعة التي ترجى في يوم الجمعة بعد العصر إلى غيبوبة الشمس ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه، وقد روي هذا الحديث عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه، ومحمد بن ابي حميد يضعف ضعفه بعض اهل العلم من قبل حفظه، ويقال له: حماد بن ابي حميد، ويقال: هو ابو إبراهيم الانصاري وهو منكر الحديث، وراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان الساعة التي ترجى فيها بعد العصر إلى ان تغرب الشمس، وبه يقول: احمد , وإسحاق، وقال احمد: اكثر الاحاديث في الساعة التي ترجى فيها إجابة الدعوة انها بعد صلاة العصر وترجى بعد زوال الشمس.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ الْبَصْرِيُّ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " الْتَمِسُوا السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَى فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ يُضَعَّفُ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَيُقَالُ لَهُ: حَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، وَيُقَالُ: هُوَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيُّ وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَى فِيهَا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وقَالَ أَحْمَدُ: أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ فِي السَّاعَةِ الَّتِي تُرْجَى فِيهَا إِجَابَةُ الدَّعْوَةِ أَنَّهَا بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَتُرْجَى بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کے روز اس گھڑی کو جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے عصر سے لے کر سورج ڈوبنے تک کے درمیان تلاش کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- یہ حدیث انس رضی الله عنہ سے بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۳- محمد بن ابی حمید ضعیف گردانے جاتے ہیں، بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان کی تضعیف کی ہے، انہیں حماد بن ابی حمید بھی کہا جاتا ہے، نیز کہا جاتا ہے کہ یہی ابوابراہیم انصاری ہیں اور یہ منکرالحدیث ہیں، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ گھڑی جس میں قبولیت دعا کی امید کی جاتی ہے عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ احمد کہتے ہیں: اس گھڑی کے سلسلے میں جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے زیادہ تر حدیثیں یہی آئی ہیں کہ یہ عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، نیز سورج ڈھلنے کے بعد بھی اس کے ہونے کی امید کی جاتی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1619) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی محمد بن ابی حمید ضعیف ہیں جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا)»
وضاحت: ۱؎: اس بابت متعدد روایات ہیں، دیکھئیے اگلی حدیثیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (1360)، التعليق الرغيب (1 / 251)
(مرفوع) حدثنا زياد بن ايوب البغدادي، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني، عن ابيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن في الجمعة ساعة لا يسال الله العبد فيها شيئا إلا آتاه الله إياه " قالوا: يا رسول الله اية ساعة هي؟ قال: " حين تقام الصلاة إلى الانصراف منها " قال: وفي الباب عن ابي موسى , وابي ذر , وسلمان , وعبد الله بن سلام , وابي لبابة , وسعد بن عبادة , وابي امامة، قال ابو عيسى: حديث عمرو بن عوف حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يَسْأَلُ اللَّهَ الْعَبْدُ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَّةُ سَاعَةٍ هِيَ؟ قَالَ: " حِينَ تُقَامُ الصَّلَاةُ إِلَى الِانْصِرَافِ مِنْهَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى , وَأَبِي ذَرٍّ , وَسَلْمَانَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ , وَأَبِي لُبَابَةَ , وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ , وَأَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عمرو بن عوف مزنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ جو کچھ بھی اس میں مانگتا ہے اللہ اسے عطا کرتا ہے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی گھڑی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نماز (جمعہ) کھڑی ہونے کے وقت سے لے کر اس سے پلٹنے یعنی نماز ختم ہونے تک ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمرو بن عوف کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوموسیٰ، ابوذر، سلمان، عبداللہ بن سلام، ابولبابہ، سعد بن عبادہ اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 99 (1138) (تحفة الأشراف: 10773) (ضعیف جداً) (یہ سند معروف ترین ضعیف سندوں میں سے ہے، کثیر ضعیف راوی ہیں، اور ان کے والد عبداللہ عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی مقبول یعنی متابعت کے وقت ورنہ ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: قبولیت دعا کی اس گھڑی کے وقت کے بارے میں یہی ٹکڑا اس حدیث میں ضعیف ہے، نہ کہ مطلق حدیث ضعیف ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، ابن ماجة (1138) // ضعيف سنن ابن ماجة (235)، ضعيف الجامع الصغير (1890) //
قال الشيخ زبير على زئي: (490) إسناده ضعيف جدًا /جه 1138 كثير بن عبدالله العوفي: ضعيف أفرط من نسبه إلى الكذب (تق: 5617) وھو متروك (انظر التحرير 193/3) وقال الھيشمي: وقد ضعفه الجمھور (مجمع الزوئد 130/6) وقال الحافظ ابن الحجر: ضعيف عند الاكثر (فتع الباري 451/4،19/5،280/7) قلت:وحديث مسلم (853)يغني عنه
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن يزيد بن عبد الله بن الهاد، عن محمد بن إبراهيم، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه ادخل الجنة، وفيه اهبط منها، وفيه ساعة لا يوافقها عبد مسلم يصلي، فيسال الله فيها شيئا إلا اعطاه إياه " قال ابو هريرة: فلقيت عبد الله بن سلام فذكرت له هذا الحديث، فقال: انا اعلم بتلك الساعة فقلت اخبرني بها ولا تضنن بها علي، قال: هي بعد العصر إلى ان تغرب الشمس، فقلت كيف تكون بعد العصر، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يوافقها عبد مسلم وهو يصلي " وتلك الساعة لا يصلى فيها، فقال عبد الله بن سلام: اليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من جلس مجلسا ينتظر الصلاة فهو في صلاة " قلت: بلى، قال: فهو ذاك. قال ابو عيسى: وفي الحديث قصة طويلة، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح، قال: ومعنى قوله اخبرني بها ولا تضنن بها علي لا تبخل بها علي، والضن البخل، والظنين المتهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُهْبِطَ مِنْهَا، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يُصَلِّي، فَيَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ " قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ فَذَكَرْتُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِتِلْكَ السَّاعَةِ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي بِهَا وَلَا تَضْنَنْ بِهَا عَلَيَّ، قَالَ: هِيَ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقُلْتُ كَيْفَ تَكُونُ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي " وَتِلْكَ السَّاعَةُ لَا يُصَلَّى فِيهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ فَهُوَ فِي صَلَاةٍ " قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَهُوَ ذَاكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ أَخْبِرْنِي بِهَا وَلَا تَضْنَنْ بِهَا عَلَيَّ لَا تَبْخَلْ بِهَا عَلَيَّ، وَالضَّنُّ الْبُخْلُ، وَالظَّنِينُ الْمُتَّهَمُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بہتر دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کیے گئے، اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے، اسی دن وہ جنت سے (زمین پر اتارے گئے) اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جسے مسلم بندہ نماز کی حالت میں پائے اور اللہ سے اس میں کچھ طلب کرے تو اللہ اسے ضرور عطا فرمائے گا، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر میں عبداللہ بن سلام سے ملا اور ان سے اس حدیث کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میں یہ گھڑی اچھی طرح جانتا ہوں، میں نے کہا: مجھے بھی اس کے بارے میں بتائیے اور اس سلسلہ میں مجھ سے بخل نہ کیجئے، انہوں نے کہا: یہ عصر کے بعد سے لے کر سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، اس پر میں نے کہا: یہ عصر کے بعد کیسے ہو سکتی ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اسے مسلمان بندہ حالت نماز میں پائے اور یہ وقت ایسا ہے جس میں نماز نہیں پڑھی جاتی؟ تو عبداللہ بن سلام نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ جو شخص نماز کے انتظار میں کسی جگہ بیٹھا رہے تو وہ بھی نماز ہی میں ہوتا ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور فرمایا ہے تو انہوں نے کہا: تو یہی مراد ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے، ۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- اور آپ کے اس قول «أخبرني بها ولا تضنن بها علي» کے معنی ہیں اسے مجھے بتانے میں بخل نہ کیجئے، «ضنّ» کے معنی بخل کے ہیں اور «ظنين» کے معنی، متہم کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 207 (1046)، سنن النسائی/الجمعة 45 (143)، (تحفة الأشراف: 15000)، موطا امام مالک/الجمعة 7 (16) (صحیح) وقد رواہ بدون ذکر القصة مقتصرا علی الحدیث المرفوع کل من: صحیح البخاری/الجمعة 37 (935)، والطلاق 24 (5294)، والدعوات 61 (6400)، و صحیح مسلم/الجمعة 4 (852)، و سنن النسائی/الجمعة 45 (1432، 1433)، و سنن ابن ماجہ/الإقامة 99 (1137)، وط/الجمعة 7 (15) و مسند احمد (2/230، 255، 272، 208، 284، 403، 457، 469، 481، 489)، وسنن الدارمی/الصلاة 204 (1610)»
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم میں ابوموسیٰ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر خطبہ سے فراغت کے درمیان ہے“ یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اس لیے بقول امام احمد اور ابن عبدالبر دونوں وقتوں میں دعا میں کوشش کرنی چاہیئے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " من اتى الجمعة فليغتسل " قال: وفي الباب عن عمر , وابي سعيد , وجابر , والبراء، وعائشة وابي الدرداء، قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح،(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَجَابِرٍ , وَالْبَرَاءِ، وَعَائِشَةَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے اسے چاہیئے کہ (پہلے) غسل کر لے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس بات میں عمر، ابو سعید خدری، جابر، براء، عائشہ اور ابو الدرداء سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے جمعہ کے دن کے غسل کو واجب قرار دیا ہے، اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں امر تاکید کے لیے ہے اس سے مراد وجوب اختیاری (استحباب) ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے ”تیرا حق مجھ پر واجب ہے“ یعنی مؤکد ہے، نہ کہ ایسا وجوب جس کے ترک پر سزا اور عقوبت ہو۔ (اس تاویل کی وجہ حدیث رقم ۴۹۷ ہے)۔
(مرفوع) وروي عن الزهري عن عبد الله بن عبد الله بن عمر، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث ايضا، حدثنا بذلك قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن ابن شهاب، عن عبد الله بن عبد الله بن عمر، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم مثله، وقال محمد: وحديث الزهري، عن سالم، عن ابيه، وحديث عبد الله بن عبد الله، عن ابيه كلا الحديثين صحيح، وقال بعض اصحاب الزهري، عن الزهري، قال: حدثني آل عبد الله بن عمر، عن عبد الله بن عمر، قال ابو عيسى: وقد روي عن ابن عمر، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الغسل يوم الجمعة ايضا، وهو حديث حسن صحيح.(مرفوع) وَرُوِي عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، وقَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ، وقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي آلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَيْضًا، وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نیز ابن شہاب زہری سے یہ حدیث بطریق: «الزهري عن عبد الله بن عبد الله بن عمر عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» بھی مروی ہے، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: «سالم عن أبيه عبدالله بن عمر» روایت کی ہے اور جو حدیث انہوں نے بطریق: «عبدالله بن عبدالله بن عمر عن أبيه عبدالله بن عمر» روایت کی ہے دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اور زہری کے بعض تلامذہ نے اسے بطریق: «الزهري عن آل عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر» روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: جمعہ کے دن کے غسل کے سلسلہ میں بطریق: «ابن عمر عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرفوعاً مروی ہے، (جو آگے آ رہی ہے) اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 727) (صحیح)»
(مرفوع) ورواه يونس، ومعمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، بينما عمر بن الخطاب يخطب يوم الجمعة، إذ دخل رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فقال: اية ساعة هذه؟ فقال: ما هو إلا ان سمعت النداء وما زدت على ان توضات، قال:" والوضوء ايضا، وقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امر بالغسل ". حدثنا بذلك ابو بكر محمد بن ابان، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري،(مرفوع) وَرَوَاهُ يُونُسُ، وَمَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ؟ فَقَالَ: مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ وَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ، قَالَ:" وَالْوُضُوءُ أَيْضًا، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِالْغُسْلِ ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ،
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران صحابہ میں سے ایک شخص ۱؎(مسجد میں) داخل ہوئے، تو عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: یہ کون سا وقت (آنے کا) ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے صرف اتنی دیر کی کہ اذان سنی اور بس وضو کر کے آ گیا ہوں، اس پر عمر رضی الله عنہ نے کہا: تم نے صرف (وضو ہی پر اکتفا کیا) حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا حکم دیا ہے؟
(مرفوع) قال: وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا ابو صالح عبد الله بن صالح، حدثنا الليث، عن يونس، عن الزهري بهذا الحديث، وروى مالك هذا الحديث عن الزهري، عن سالم، قال: بينما عمر بن الخطاب يخطب يوم الجمعة فذكر هذا الحديث. قال ابو عيسى: وسالت محمدا عن هذا، فقال: الصحيح حديث الزهري، عن سالم، عن ابيه، قال محمد: وقد روي عن مالك ايضا، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه نحو هذا الحديث.(مرفوع) قَالَ: وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى مَالِكٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، قَالَ: بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا، فَقَالَ: الصَّحِيحُ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ أَيْضًا، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ نَحْوُ هَذَا الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی زہری سے یہی حدیث مروی ہے۔ اور مالک نے بھی یہ حدیث بطریق: «عن الزہری عن سالم» روایت کی ہے، وہ سالم بن عمر کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس سلسلے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے بطریق: «سالم عن أبیہ» روایت کی ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مالک سے بھی اسی حدیث کی طرح مروی ہے، انہوں نے بطریق: «الزهري عن سالم عن أبيه» بھی روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، وابو جناب يحيى بن ابي حية، عن عبد الله بن عيسى، عن يحيى بن الحارث، عن ابي الاشعث الصنعاني، عن اوس بن اوس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اغتسل يوم الجمعة وغسل وبكر وابتكر ودنا واستمع وانصت كان له بكل خطوة يخطوها اجر سنة صيامها وقيامها ". قال محمود: قال وكيع: اغتسل هو وغسل امراته. قال: ويروى عن عبد الله بن المبارك، انه قال في هذا الحديث: من غسل واغتسل، يعني غسل راسه واغتسل. قال: وفي الباب عن ابي بكر، وعمران بن حصين، وسلمان، وابي ذر، وابي سعيد، وابن عمر، وابي ايوب. قال ابو عيسى: حديث اوس بن اوس حديث حسن، وابو الاشعث الصنعاني اسمه شراحيل بن آدة. وابو جناب يحيى بن حبيب القصاب الكوفي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَأَبُو جَنَابٍ يَحْيَى بْنُ أَبِي حَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَغَسَّلَ وَبَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا أَجْرُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا ". قَالَ مَحْمُودٌ: قَالَ وَكِيعٌ: اغْتَسَلَ هُوَ وَغَسَّلَ امْرَأَتَهُ. قَالَ: وَيُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ، يَعْنِي غَسَلَ رَأْسَهُ وَاغْتَسَلَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَسَلْمَانَ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيُّ اسْمُهُ شَرَاحِيلُ بْنُ آدَةَ. وَأَبُو جَنَابٍ يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْقَصَّابُ الْكُوفِيُّ.
اوس بن اوس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور غسل کرایا، اور سویرے پہنچا، شروع سے خطبہ میں شریک رہا، امام کے قریب بیٹھا اور غور سے خطبہ سنا اور خاموش رہا تو اسے اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور رات کے قیام کا ثواب ملے گا“۔ وکیع کہتے ہیں: اس کا معنی ہے کہ اس نے خود غسل کیا اور اپنی عورت کو بھی غسل کرایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اوس بن اوس کی حدیث حسن ہے، ۲- عبداللہ بن مبارک نے اس حدیث کے سلسلہ میں کہا ہے کہ «من غسل واغتسل» کے معنی ہیں: جس نے اپنا سر دھویا اور غسل کیا، ۳- اس باب میں ابوبکر، عمران بن حصین، سلمان، ابوذر، ابوسعید، ابن عمر، اور ابوایوب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا سعيد بن سفيان الجحدري، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من توضا يوم الجمعة فبها ونعمت، ومن اغتسل فالغسل افضل ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وعائشة، وانس. قال ابو عيسى: حديث سمرة حديث حسن. وقد رواه بعض اصحاب قتادة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب. ورواه بعضهم عن قتادة، عن الحسن، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسل. والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، اختاروا الغسل يوم الجمعة وراوا ان يجزئ الوضوء من الغسل يوم الجمعة. قال الشافعي: ومما يدل على ان امر النبي صلى الله عليه وسلم بالغسل يوم الجمعة انه على الاختيار لا على الوجوب: حديث عمر حيث قال لعثمان: والوضوء ايضا. وقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امر بالغسل يوم الجمعة فلو علما ان امره على الوجوب لا على الاختيار لم يترك عمر، عثمان حتى يرده، ويقول له: ارجع فاغتسل. ولما خفي على عثمان ذلك مع علمه، ولكن دل في هذا الحديث ان الغسل يوم الجمعة فيه فضل من غير وجوب يجب على المرء في ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُفْيَانَ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ، وَمَنِ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُ أَصْحَابِ قَتَادَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ. وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، اخْتَارُوا الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَأَوْا أَنْ يُجْزِئَ الْوُضُوءُ مِنَ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ أَمْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنَّهُ عَلَى الِاخْتِيَارِ لَا عَلَى الْوُجُوبِ: حَدِيثُ عُمَرَ حَيْثُ قَالَ لِعُثْمَانَ: وَالْوُضُوءُ أَيْضًا. وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِالْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَلَوْ عَلِمَا أَنَّ أَمْرَهُ عَلَى الْوُجُوبِ لَا عَلَى الِاخْتِيَارِ لَمْ يَتْرُكْ عُمَرُ، عُثْمَانَ حَتَّى يَرُدَّهُ، وَيَقُولَ لَهُ: ارْجِعْ فَاغْتَسِلْ. وَلَمَا خَفِيَ عَلَى عُثْمَانَ ذَلِكَ مَعَ عِلْمِهِ، وَلَكِنْ دَلَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ فَضْلٌ مِنْ غَيْرِ وُجُوبٍ يَجِبُ عَلَى الْمَرْءِ فِي ذَلِكَ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو اس نے رخصت کو اختیار کیا اور خوب ہے یہ رخصت، اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- قتادہ کے بعض تلامذہ نے تو یہ حدیث قتادہ سے اور قتادہ نے حسن بصری سے اور حسن بصری نے سمرہ بن جندب سے (مرفوعاً) روایت کی ہے۔ اور بعض نے قتادہ سے اور قتادہ نے حسن سے اور حسن نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، انہوں نے جمعہ کے دن کے غسل کو پسند کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ غسل کے بدلے وضو بھی کافی ہو جائے گا، ۵- شافعی کہتے ہیں: جمعہ کے روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے حکم کے وجوبی ہونے کے بجائے اختیاری ہونے پر جو چیزیں دلالت کرتی ہیں ان میں سے عمر رضی الله عنہ کی حدیث بھی ہے جس میں انہوں نے عثمان رضی الله عنہ سے کہا ہے کہ تم نے صرف وضو پر اکتفا کیا ہے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا ہے، اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ یہ حکم واجبی ہے، اختیاری نہیں تو عمر رضی الله عنہ عثمان رضی الله عنہ کو لوٹائے بغیر نہ چھوڑتے اور ان سے کہتے: جاؤ غسل کرو، اور نہ ہی عثمان رضی الله عنہ سے اس بات کے جاننے کے باوجود کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو غسل کرنے کا حکم دیا ہے اس کے وجوب کی حقیقت مخفی رہتی، بلکہ اس حدیث میں صاف دلالت ہے کہ جمعہ کے دن غسل افضل ہے نہ کہ واجب۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 130 (354)، سنن النسائی/الجمعة 9 (1381)، (تحفة الأشراف: 4587)، مسند احمد (5/15، 16، 22) (صحیح) (یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے، اور سب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری کا سماع سمرہ رضی الله عنہ سے حدیث عقیقہ کے سوا ثابت نہیں ہے، ہاں تمام طرق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جمعہ کا غسل واجب نہیں کیونکہ ایک تو اس میں وضو کی رخصت دی گئی ہے بلکہ اسے اچھا قرار دیا گیا ہے اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔