(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن يزيد بن ابي حبيب، عن عبد الله بن راشد الزوفي، عن عبد الله بن ابي مرة الزوفي، عن خارجة بن حذافة، انه قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " إن الله امدكم بصلاة هي خير لكم من حمر النعم الوتر، جعله الله لكم فيما بين صلاة العشاء إلى ان يطلع الفجر " قال: وفي الباب عن ابي هريرة , وعبد الله بن عمر، وبريدة وابي بصرة الغفاري صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو عيسى: حديث خارجة بن حذافة حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث يزيد بن ابي حبيب، وقد وهم بعض المحدثين في هذا الحديث، فقال: عن عبد الله بن راشد الزرقي وهو وهم في هذا، وابو بصرة الغفاري اسمه حميل بن بصرة، وقال بعضهم: جميل بن بصرة ولا يصح، وابو بصرة الغفاري رجل آخر يروي عن ابي ذر وهو: ابن اخي ابي ذر.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ أَمَدَّكُمْ بِصَلَاةٍ هِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ الْوِتْرُ، جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ، وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، وَقَدْ وَهِمَ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزُّرَقِيِّ وَهُوَ وَهَمٌ فِي هَذَا، وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ اسْمُهُ حُمَيْلُ بْنُ بَصْرَةَ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: جَمِيلُ بْنُ بَصْرَةَ وَلَا يَصِحُّ، وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ رَجُلٌ آخَرُ يَرْوِي عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَهُوَ: ابْنُ أَخِي أَبِي ذَرٍّ.
خارجہ بن حذافہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حجرے سے نکل کر) ہمارے پاس آئے اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک ایسی نماز کا اضافہ کیا ہے ۱؎، جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، وہ وتر ہے، اللہ نے اس کا وقت تمہارے لیے نماز عشاء سے لے کر فجر کے طلوع ہونے تک رکھا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- خارجہ بن حذافہ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف یزید بن ابی حبیب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- بعض محدثین کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے، انہوں نے عبداللہ بن راشد زرقی کہا ہے، یہ وہم ہے (صحیح «زوفی» ہے) ۳- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، بریدہ، اور ابو بصرہ غفاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- ابو بصرہ غفاری کا نام حمیل بن بصرہ ہے، اور بعض لوگوں نے جمیل بن بصرہ کہا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، اور ابو بصرہ غفاری ایک دوسرے شخص ہیں جو ابوذر رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابوذر کے بھتیجے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 336 (1418)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 114 (1168)، (تحفة الأشراف: 3450)، سنن الدارمی/الصلاة 208 (1617) (صحیح) ”ہی خیر من حمر النعم“) کا فقرہ ثابت نہیں ہے (اس کے راوی ”عبداللہ بن راشد“ مجہول ہیں، لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح متابعات وشواہد موجود ہیں، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی466)»
وضاحت: ۱؎: ایک روایت میں «زادكم» کا لفظ بھی آیا ہے، حنفیہ نے اس لفظ سے وتر کے واجب ہونے پر دلیل پکڑی ہے، کیونکہ زیادہ کی ہوئی چیز بھی اصل چیز کی جنس ہی سے ہوتی ہے، تو جب پانچ وقتوں کی نماز واجب ہے تو وتر بھی واجب ہوئی، علماء نے اس کا رد کئی طریقے سے کیا ہے، ان میں سے ایک یہ کہ فجر کی سنت کے بارے میں بھی یہ لفظ وارد ہوا ہے جب کہ کوئی بھی اس کو واجب نہیں مانتا، اسی طرح بدوی کی وہ حدیث جس میں وارد ہے کہ ”ان پانچ کے علاوہ بھی اللہ نے مجھ پر کوئی نماز فرض کی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہیں، نیز ”مزید“ کا مزید فیہ کے جنس سے ہونا ضروری نہیں ہے، (مزید تفصیل کے لیے دیکھئیے: تحفۃ الأحوذی)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله: " هى خير لكم من حمر النعم "، ابن ماجة (1168)
قال الشيخ زبير على زئي: (452) إسناده ضعيف /د 1418، جه 1168
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو بكر بن عياش، حدثنا ابو إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، عن علي، قال: الوتر ليس بحتم كصلاتكم المكتوبة، ولكن سن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: " إن الله وتر يحب الوتر فاوتروا يا اهل القرآن " قال: وفي الباب عن ابن عمر , وابن مسعود , وابن عباس، قال ابو عيسى: حديث علي حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَصَلَاتِكُمُ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ مَسْعُودٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر (طاق)۲؎ ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن! ۳؎ تم وتر پڑھا کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، ابن مسعود اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 336 (1416)، (الشطر الأخیر فحسب)، سنن النسائی/قیام اللیل 27 (1677)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 114 (1169)، (تحفة الأشراف: 10135)، مسند احمد (1/86، 98، 100، 107، 115، 144، 145، 148)، سنن الدارمی/الصلاة 208 (1621) (صحیح) (سند میں ”ابواسحاق سبیعی مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔
۲؎: اللہ وتر (طاق) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں، صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔
۳؎: صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قرآن کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے، نہ کہ صرف قرآن کا، جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے، حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1169)
قال الشيخ زبير على زئي: (453۔454) إسناد ضعيف /د 1416، ن 1676، جه 1169 أبو إسحاق عنعن (تقديم:107) وروى أحمد (107/1 ح 842) بسند حسن عن على رضى الله عنه قال: ”ليس الوتر بحتم كالصلاة ولكنه سنة فلا تدعوه۔۔۔۔ وقد أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم“ وھو يغني عنه
(مرفوع) وروى سفيان الثوري وغيره، عن ابي إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، عن علي، قال: " الوتر ليس بحتم كهيئة الصلاة المكتوبة ولكن سنة سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم ". حدثنا بذلك محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن ابي إسحاق، وهذا اصح من حديث ابي بكر بن عياش، وقد رواه منصور بن المعتمر، عن ابي إسحاق نحو رواية ابي بكر بن عياش.(مرفوع) وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ َ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، وَقَدْ رَوَاهُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: وتر لازم نہیں ہے جیسا کہ فرض صلاۃ کا معاملہ ہے، بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اسے سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق «أبی اسحاق عن عاصم بن حمزة عن علی» روایت کیا ہے ۱؎ اور یہ روایت ابوبکر بن عیاش کی روایت سے زیادہ صحیح ہے اور اسے منصور بن معتمر نے بھی ابواسحاق سے ابوبکر بن عیاش ہی کی طرح روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ زبير على زئي: (453۔454) إسناد ضعيف /د 1416، ن 1676، جه 1169 أبو إسحاق عنعن (تقديم:107) وروى أحمد (107/1 ح 842) بسند حسن عن على رضى الله عنه قال: ”ليس الوتر بحتم كالصلاة ولكنه سنة فلا تدعوه۔۔۔۔ وقد أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم“ وھو يغني عنه
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة، عن إسرائيل، عن عيسى بن ابي عزة، عن الشعبي، عن ابي ثور الازدي، عن ابي هريرة، قال: " امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اوتر قبل ان انام ". قال عيسى بن ابي عزة: وكان الشعبي يوتر اول الليل ثم ينام. قال: وفي الباب عن ابي ذر، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن غريب من هذا الوجه، وابو ثور الازدي اسمه: حبيب بن ابي مليكة، وقد اختار قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم ان لا ينام الرجل حتى يوتر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عِيسَى بْنِ أَبِي عَزَّةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي ثَوْرٍ الْأَزْدِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ ". قَالَ عِيسَى بْنُ أَبِي عَزَّةَ: وَكَانَ الشَّعْبِيُّ يُوتِرُ أَوَّلَ اللَّيْلِ ثُمَّ يَنَامُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو ثَوْرٍ الْأَزْدِيُّ اسْمُهُ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، وَقَدِ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنْ لَا يَنَامَ الرَّجُلُ حَتَّى يُوتِرَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں وتر سونے سے پہلے پڑھ لیا کروں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوذر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ آدمی جب تک وتر نہ پڑھ لے نہ سوئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14871) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ ابو ثور ازدی لین الحدیث ہیں، ملاحظہ ہو صحیح سنن ابی داود: 1187)»
قال الشيخ الألباني: (حديث أبو هريرة) صحيح، (حديث جابر) صحيح (حديث أبو هريرة)، صحيح أبي داود (1187)، (حديث جابر)، ابن ماجة (1187)
(مرفوع) وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " من خشي منكم ان لا يستيقظ من آخر الليل فليوتر من اوله، ومن طمع منكم ان يقوم من آخر الليل فليوتر من آخر الليل، فإن قراءة القرآن في آخر الليل محضورة وهي افضل ". حدثنا بذلك هناد حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم بذلك.(مرفوع) وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ خَشِيَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَسْتَيْقِظَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ مِنْ أَوَّلِهِ، وَمَنْ طَمِعَ مِنْكُمْ أَنْ يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْقُرْآنِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ مَحْضُورَةٌ وَهِيَ أَفْضَلُ ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری پہر میں نہیں اٹھ سکے گا، تو وہ رات کے شروع میں ہی وتر پڑھ لے۔ اور جو رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کی امید رکھتا ہو تو وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے، کیونکہ رات کے آخری حصے میں قرآن پڑھنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہ افضل وقت ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 21 (755)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 120 (1187)، (تحفة الأشراف: 2297)، مسند احمد (3/315، 337) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: (حديث أبو هريرة) صحيح، (حديث جابر) صحيح (حديث أبو هريرة)، صحيح أبي داود (1187)، (حديث جابر)، ابن ماجة (1187)
4. باب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ وَآخِرِهِ
4. باب: رات کے ابتدائی اور آخری دونوں حصوں میں وتر پڑھا جا سکتا ہے۔
Chapter: What Has Been Related About Al-Witr During The Beginning Of The Night And Its End
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو بكر بن عياش، حدثنا ابو حصين، عن يحيى بن وثاب، عن مسروق، انه سال عائشة عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: " من كل الليل قد اوتر اوله واوسطه وآخره فانتهى وتره حين مات إلى السحر ". قال ابو عيسى: ابو حصين اسمه: عثمان بن عاصم الاسدي، قال: وفي الباب عن علي , وجابر , وابي مسعود الانصاري , وابي قتادة،. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، وهو الذي اختاره بعض اهل العلم الوتر من آخر الليل.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ أَوَّلَهُ وَأَوْسَطَهُ وَآخِرَهُ فَانْتَهَى وِتْرُهُ حِينَ مَاتَ إِلَى السَّحَرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: أَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ: عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وجَابِرٍ , وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ , وَأَبِي قَتَادَةَ،. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوِتْرُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ.
مسروق سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا ہے۔ شروع رات میں بھی درمیان میں بھی اور آخری حصے میں بھی۔ اور جس وقت آپ کی وفات ہوئی تو آپ کا وتر سحر تک پہنچ گیا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، جابر، ابومسعود انصاری اور ابوقتادہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم کے نزدیک یہی پسندیدہ ہے کہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھی جائے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ان دونوں حدیثوں اور اس باب میں مروی دیگر حدیثوں کا ماحصل یہ ہے کہ یہ آدمی پر منحصر ہے، وہ جب آخری پہر رات میں اٹھنے کا یقین کامل رکھتا ہو تو عشاء کے بعد یا سونے سے پہلے ہی وتر نہ پڑھے بلکہ آخری رات میں پڑھے، اور اگر اس طرح کا یقین نہ ہو تو عشاء کے بعد سونے سے پہلے ہی پڑھ لے، اس مسئلہ میں ہر طرح کی گنجائش ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن يحيى بن الجزار، عن ام سلمة، قالت: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث عشرة ركعة فلما كبر وضعف اوتر بسبع ". قال: وفي الباب عن عائشة، قال ابو عيسى: حديث ام سلمة حديث حسن، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم " الوتر بثلاث عشرة وإحدى عشرة وتسع وسبع وخمس وثلاث وواحدة " قال: إسحاق بن إبراهيم معنى ما روي، ان النبي صلى الله عليه وسلم " كان يوتر بثلاث عشرة " قال: إنما معناه انه كان يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة مع الوتر فنسبت صلاة الليل إلى الوتر، وروى في ذلك حديثا عن عائشة، واحتج بما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " اوتروا يا اهل القرآن " قال: إنما عنى به قيام الليل، يقول: " إنما قيام الليل على اصحاب القرآن ".(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً فَلَمَّا كَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " الْوَتْرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ وَإِحْدَى عَشْرَةَ وَتِسْعٍ وَسَبْعٍ وَخَمْسٍ وَثَلَاثٍ وَوَاحِدَةٍ " قَالَ: إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ مَعْنَى مَا رُوِيَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ " قَالَ: إِنَّمَا مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ فَنُسِبَتْ صَلَاةُ اللَّيْلِ إِلَى الْوِتْرِ، وَرَوَى فِي ذَلِكَ حَدِيثًا عَنْ عَائِشَةَ، وَاحْتَجَّ بِمَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " أَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ " قَالَ: إِنَّمَا عَنَى بِهِ قِيَامَ اللَّيْلِ، يَقُولُ: " إِنَّمَا قِيَامُ اللَّيْلِ عَلَى أَصْحَابِ الْقُرْآنِ ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے لیکن جب آپ عمر رسیدہ اور کمزور ہو گئے تو سات رکعت پڑھنے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔ ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر تیرہ، گیارہ، نو، سات، پانچ، تین اور ایک سب مروی ہیں، ۴- اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) کہتے ہیں: یہ جو روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تہجد (قیام اللیل) وتر کے ساتھ تیرہ رکعت پڑھتے تھے، تو اس میں قیام اللیل (تہجد) کو بھی وتر کا نام دے دیا گیا ہے، انہوں نے اس سلسلے میں عائشہ رضی الله عنہا سے ایک حدیث بھی روایت کی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو“ سے بھی دلیل لی ہے۔ ابن راہویہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قیام اللیل مراد لی ہے، اور قیام اللیل صرف قرآن کے ماننے والوں پر ہے (نہ کہ دوسرے مذاہب والوں پر)۔
وضاحت: ۱؎: ہمارے اس نسخے اور ایسے ہی سنن ترمذی مطبوعہ مکتبۃ المعارف میں علامہ احمد شاکر کے سنن ترمذی کے نمبرات کا لحاظ کیا گیا ہے، احمد شاکر کے نسخے میں غلطی سے (۴۵۸) نمبر نہیں ہے، اس لیے ہم نے بھی اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے، لیکن اوپر (۴۵۵) مکرر آیا ہے اس لیے آگے نمبرات کا تسلسل صحیح ہے)۔
(1) قال إسحاق بن إبراهيم: معنى ما روي ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يوتر بثلاث عشرة. قال: إنما معناه انه كان يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة مع الوتر، فنسبت صلاة الليل إلى الوتر، وروى في ذلك حديثا عن عائشة. واحتج بما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: اوتروا يا اهل القرآن. قال: إنما عنى به قيام الليل يقول: إنما قيام الليل على اصحاب القرآن.(1) قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: مَعْنَى مَا رُوِيَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ بِثَلاَثَ عَشْرَةَ. قَالَ: إِنَّمَا مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ، فَنُسِبَتْ صَلاَةُ اللَّيْلِ إِلَى الْوِتْرِ، وَرَوَى فِي ذَلِكَ حَدِيثًا عَنْ عَائِشَةَ. وَاحْتَجَّ بِمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: أَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ. قَالَ: إِنَّمَا عَنَى بِهِ قِيَامَ اللَّيْلِ يَقُولُ: إِنَّمَا قِيَامُ اللَّيْلِ عَلَى أَصْحَابِ الْقُرْآنِ.
اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) کہتے ہیں: یہ جو روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تہجد (قیام اللیل) وتر کے ساتھ تیرہ رکعت پڑھتے تھے، تو اس میں قیام اللیل (تہجد) کو بھی وتر کا نام دے دیا گیا ہے، انہوں نے اس سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث بھی روایت کی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ”اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو“ سے بھی دلیل لی ہے۔ ابن راہویہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قیام اللیل مراد لی ہے، اور قیام اللیل صرف قرآن کے ماننے والوں پر ہے (نہ کہ دوسرے مذاہب والوں پر)۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور الكوسج، حدثنا عبد الله بن نمير، حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " كانت صلاة النبي صلى الله عليه وسلم من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر من ذلك بخمس لا يجلس في شيء منهن إلا في آخرهن، فإذا اذن المؤذن قام فصلى ركعتين خفيفتين " قال: وفي الباب عن ابي ايوب، قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، وقد راى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم الوتر بخمس، وقالوا: لا يجلس في شيء منهن إلا في آخرهن، قال ابو عيسى: وسالت ابا مصعب المديني عن هذا الحديث، كان النبي صلى الله عليه وسلم " يوتر بالتسع والسبع " قلت: كيف يوتر بالتسع والسبع، قال: " يصلي مثنى مثنى ويسلم ويوتر بواحدة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَتْ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْوِتْرَ بِخَمْسٍ، وَقَالُوا: لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَأَلْتُ أَبَا مُصْعَبٍ الْمَدِينِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ " قُلْتُ: كَيْفَ يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ، قَالَ: " يُصَلِّي مَثْنَى مَثْنَى وَيُسَلِّمُ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل (تہجد) تیرہ رکعت ہوتی تھی۔ ان میں پانچ رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں، ان (پانچ) میں آپ صرف آخری رکعت ہی میں قعدہ کرتے تھے، پھر جب مؤذن اذان دیتا تو آپ کھڑے ہو جاتے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوایوب رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ (جس) وتر کی پانچ رکعتیں ہیں، ان میں وہ صرف آخری رکعت میں قعدہ کرے گا، ۴- میں نے اس حدیث کے بارے میں کہ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نو اور سات رکعت وتر پڑھتے تھے“ ابومصعب مدینی سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نو اور سات رکعتیں کیسے پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو دو رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے جاتے، پھر ایک رکعت وتر پڑھ لیتے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث يقرا فيهن بتسع سور من المفصل يقرا في كل ركعة بثلاث سور آخرهن قل هو الله احد " قال: وفي الباب عن عمران بن حصين وعائشة، وابن عباس , وابي ايوب , وعبد الرحمن بن ابزى، عن ابي بن كعب، ويروى ايضا عن عبد الرحمن بن ابزى، عن النبي صلى الله عليه وسلم، هكذا روى بعضهم فلم يذكروا فيه، عن ابي، وذكر بعضهم عن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابي، قال ابو عيسى: وقد ذهب قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا، وراوا ان يوتر الرجل بثلاث، قال سفيان: إن شئت اوترت بخمس، وإن شئت اوترت بثلاث، وإن شئت اوترت بركعة. قال سفيان: والذي استحب ان اوتر بثلاث ركعات، وهو قول: ابن المبارك واهل الكوفة، حدثنا سعيد بن يعقوب الطالقاني، حدثنا حماد بن زيد، عن هشام، عن محمد بن سيرين قال: كانوا يوترون بخمس وبثلاث وبركعة ويرون كل ذلك حسنا.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ يَقْرَأُ فِيهِنَّ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنَ الْمُفَصَّلِ يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِثَلَاثِ سُوَرٍ آخِرُهُنَّ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَأَبِي أَيُّوبَ , وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَيُرْوَى أَيْضًا عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ، عَنْ أُبَيٍّ، وَذَكَرَ بَعْضُهُمْ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أُبَيٍّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ بِثَلَاثٍ، قَالَ سُفْيَانُ: إِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِخَمْسٍ، وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِثَلَاثٍ، وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِرَكْعَةٍ. قَالَ سُفْيَان: وَالَّذِي أَسْتَحِبُّ أَنْ أُوتِرَ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ، وَهُوَ قَوْلُ: ابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ: كَانُوا يُوتِرُونَ بِخَمْسٍ وَبِثَلَاثٍ وَبِرَكْعَةٍ وَيَرَوْنَ كُلَّ ذَلِكَ حَسَنًا.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے، ان میں مفصل میں سے نو سورتیں پڑھتے ہر رکعت میں تین تین سورتیں پڑھتے، اور سب سے آخر میں «قل هو الله أحد» پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عمران بن حصین، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا، ابن عباس، ابوایوب انصاری اور عبدالرحمٰن بن ابزی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے اسے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔ نیز یہ بھی مروی ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (براہ راست) روایت کی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے «ابی» کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور بعض نے «ابی» کے واسطے کا ذکر کیا ہے۔ ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہی ہے کہ آدمی وتر تین رکعت پڑھے، ۳- سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو پانچ رکعت وتر پڑھو، اور چاہو تو تین رکعت پڑھو، اور چاہو تو صرف ایک رکعت پڑھو۔ اور میں تین رکعت ہی پڑھنے کو مستحب سمجھتا ہوں۔ ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے، ۴- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ لوگ وتر کبھی پانچ رکعت پڑھتے تھے، کبھی تین اور کبھی ایک، وہ ہر ایک کو مستحسن سمجھتے تھے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث حارث اعور کی وجہ سے ضعیف ہے، مگر اس کیفیت کے ساتھ ضعیف ہے، نہ کہ تین رکعت وتر پڑھنے کی بات ضعیف ہے، کئی ایک صحیح حدیثیں مروی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑتے تھے، پہلی میں «سبح اسم ربك الاعلى» دوسری میں «قل يا ايها الكافرون» اور تیسری میں «قل هو الله أحد» پڑھتے تھے۔
۲؎: سارے ائمہ کرام و علماء امت اس بات کے قائل ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے کہ چاہے پانچ رکعت پڑھے، چاہے تین، یا ایک، سب کے سلسلے میں صحیح احادیث وارد ہیں، اور یہ بات کہ نہ تین سے زیادہ وتر جائز ہے نہ تین سے کم (ایک) تو اس بات کے قائل صرف ائمہ احناف ہیں، وہ بھی دو رکعت کے بعد قعدہ کے ساتھ جس سے وتر کی مغرب سے مشابہت ہو جاتی ہے، جبکہ اس بات سے منع کیا گیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، المشكاة (1281)
قال الشيخ زبير على زئي: (460) إسناده ضعيف ھشام بن حسان مدلس و عنعن (د 443)