(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا بدل بن المحبر، حدثنا عبد الملك بن معدان، عن عاصم بن بهدلة، عن ابي وائل، عن عبد الله بن مسعود، انه قال: " ما احصي ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا في الركعتين بعد المغرب وفي الركعتين قبل صلاة الفجر ب: قل يا ايها الكافرون و قل هو الله احد " قال: وفي الباب عن ابن عمر، قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود حديث غريب، من حديث ابن مسعود، لا نعرفه إلا من حديث عبد الملك بن معدان، عن عاصم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَعْدَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ: " مَا أُحْصِي مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَفِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ بِ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَاصِمٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں نے کتنی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کے بعد کی دونوں رکعتوں میں اور فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں میں «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو الله أحد» پڑھتے سنا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۲- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف «عبدالله بن معدان عن عاصم» ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ركعتين بعد المغرب في بيته ". قال: وفي الباب عن رافع بن خديج , وكعب بن عجرة، قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فِي بَيْتِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے مغرب کے بعد دونوں رکعتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے گھر میں پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں رافع بن خدیج اور کعب بن عجرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الحلواني الخلال، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: " حفظت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم عشر ركعات كان يصليها بالليل والنهار ركعتين قبل الظهر وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب وركعتين بعد العشاء الآخرة ". قال: وحدثتني حفصة انه كان يصلي قبل الفجر ركعتين. هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " حَفِظْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ رَكَعَاتٍ كَانَ يُصَلِّيهَا بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ ". قَالَ: وَحَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الْفَجْرِ رَكْعَتَيْنِ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس رکعتیں یاد ہیں جنہیں آپ رات اور دن میں پڑھا کرتے تھے: دو رکعتیں ظہر سے پہلے ۱؎، دو اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، اور دو رکعتیں عشاء کے بعد، اور مجھ سے حفصہ رضی الله عنہا نے بیان کیا ہے کہ آپ فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظہر کے فرضوں سے پہلے چار رکعت پڑھنا ثابت ہے، مگر یہاں دو کا ذکر ہے، حافظ ابن حجر نے دونوں میں تطبیق یوں دی ہے کہ آپ کبھی ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے اور کبھی چار۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب يعني محمد بن العلاء الهمداني، حدثنا زيد بن الحباب، حدثنا عمر بن ابي خثعم، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنة ". قال ابو عيسى: وقد روي عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من صلى بعد المغرب عشرين ركعة بنى الله له بيتا في الجنة " قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث زيد بن الحباب، عن عمر بن ابي خثعم، قال: وسمعت محمد بن إسماعيل، يقول: عمر بن عبد الله بن ابي خثعم منكر الحديث وضعفه جدا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيَّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي خَثْعَمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَكَعَاتٍ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيمَا بَيْنَهُنَّ بِسُوءٍ عُدِلْنَ لَهُ بِعِبَادَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْمَغْرِبِ عِشْرِينَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ الْحُبَابِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَضَعَّفَهُ جِدًّا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کی، تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے مغرب کے بعد بیس رکعتیں پڑھیں اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا“، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف «زيد بن حباب عن عمر بن أبي خثعم» کی سند سے جانتے ہیں، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم منکرالحدیث ہیں۔ اور انہوں نے انہیں سخت ضعیف کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 113 (1167) (تحفة الأشراف: 15412) (ضعیف جداً) (سند میں عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم نہایت ضعیف راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، ابن ماجة (1167) // ضعيف سنن ابن ماجة (244)، الضعيفة (469)، الروض النضير (719)، التعليق الرغيب (1 / 204)، ضعيف الجامع الصغير (5661) //
قال الشيخ زبير على زئي: (435) إسناده ضعيف جدًا /جه 1167، 1374 عمر بن أبى خثعم ضعيف (تق:4928) منكر الحديث، كما قال البخاري وغيره وحديث: ”من صلى بعد المغرب عشرين ركعة“ موضوع أخرجه ابن ماجه (1373)
(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف، حدثنا بشر بن المفضل، عن خالد الحذاء، عن عبد الله بن شقيق، قال: سالت عائشة، عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: " كان يصلي قبل الظهر ركعتين وبعدها ركعتين وبعد المغرب ثنتين وبعد العشاء ركعتين وقبل الفجر ثنتين " قال: وفي الباب عن علي , وابن عمر، قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن شقيق، عن عائشة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ ثِنْتَيْنِ وَبَعْدَ الْعِشَاءِ رَكْعَتَيْنِ وَقَبْلَ الْفَجْرِ ثِنْتَيْنِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے، اور اس کے بعد دو رکعتیں، مغرب کے بعد دو رکعتیں، عشاء کے بعد دو رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- عبداللہ بن شقیق کی حدیث جسے وہ عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتے ہیں، حسن صحیح ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " صلاة الليل مثنى مثنى فإذا خفت الصبح فاوتر بواحدة واجعل آخر صلاتك وترا ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن عمرو بن عبسة، قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم ان صلاة الليل مثنى مثنى، وهو قول: سفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ وَاجْعَلْ آخِرَ صَلَاتِكَ وِتْرًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ صَلَاةَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، وَهُوَ قَوْلُ: سفيان الثوري , وَابْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاقَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نفلی نماز دو دو رکعت ہے، جب تمہیں نماز فجر کا وقت ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر بنا لو، اور اپنی آخری نماز وتر رکھو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: رات کی نماز کا دو رکعت ہونا اس کے منافی نہیں کہ دن کی نفل نماز بھی دو دو رکعت ہو، جبکہ ایک حدیث میں ”رات اور دن کی نماز دو دو رکعت“ بھی آیا ہے، دراصل سوال کے جواب میں کہ ”رات کی نماز کتنی کتنی پڑھی جائے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے“ نیز یہ بھی مروی ہے کہ آپ خود رات میں کبھی پانچ رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے، اصل بات یہ ہے کہ نفل نماز عام طور سے دو دو رکعت پڑھنی افضل ہے خاص طور پر رات کی۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " افضل الصيام بعد شهر رمضان شهر الله المحرم وافضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل " قال: وفي الباب عن جابر , وبلال , وابي امامة، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح. قال ابو عيسى: وابو بشر اسمه: جعفر بن ابي وحشية واسم ابي وحشية: إياس.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ , وَبِلَالٍ , وَأَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو بِشْرٍ اسْمُهُ: جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ وَاسْمُ أَبِي وَحْشِيَّةَ: إِيَاسٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز (تہجد) ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 38 (1163)، سنن ابی داود/ الصوم 55 (2429)، سنن النسائی/قیام اللیل 6 (1614)، سنن ابن ماجہ/الصوم 43 (1742)، (تحفة الأشراف: 12292)، مسند احمد (342، 344، 535)، (ویأتي عند المؤلف في الصوم40 برقم740) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي سلمة انه اخبره، انه سال عائشة: كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل في رمضان؟ فقالت: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي اربعا فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي اربعا فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا " فقالت عائشة: فقلت: يا رسول الله اتنام قبل ان توتر؟ فقال: " يا عائشة إن عيني تنامان ولا ينام قلبي ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ: كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا " فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوسلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کیسی ہوتی تھی؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد رمضان میں اور غیر رمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۱؎، آپ (دو دو کر کے) چار رکعتیں اس حسن خوبی سے ادا فرماتے کہ ان کے حسن اور طوالت کو نہ پوچھو، پھر مزید چار رکعتیں (دو، دو کر کے) پڑھتے، ان کے حسن اور طوالت کو بھی نہ پوچھو ۲؎، پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ فرمایا: ”عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، دل نہیں سوتا“۔
وضاحت: ۱؎: اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت ہے، اور تہجد اور تراویح دونوں ایک ہی چیز ہے۔
۲؎: یہاں «نہی»”ممانعت“ مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود نماز کی تعریف کرنا ہے۔
۳؎: ”دل نہیں سوتا“ کا مطلب ہے کہ آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا، کیونکہ دل بیدار رہتا تھا، یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو رات کے آخری حصہ میں اپنے اٹھ جانے کا یقین ہو اسے چاہیئے کہ وتر عشاء کے ساتھ نہ پڑھے، تہجد کے آخر میں پڑھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح صلاة التراويح، صحيح أبي داود (1212)
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن بن عيسى، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " يصلي من الليل إحدى عشرة ركعة، يوتر منها بواحدة، فإذا فرغ منها اضطجع على شقه الايمن "(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُوتِرُ مِنْهَا بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْهَا اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ "
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں سے ایک رکعت وتر ہوتی۔ تو جب آپ اس سے فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں کروٹ لیٹتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 17 (736)، سنن ابی داود/ الصلاة 316 (1335)، سنن النسائی/قیام اللیل 35 (1697)، و44 (1727)، (تحفة الأشراف: 16593)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل 2 (8)، مسند احمد (6/35، 82) (صحیح) (اضطجاع کا ذکر صحیح نہیں ہے، صحیحین میں آیا ہے کہ اضطجاع فجر کی سنت کے بعد ہے)»
وضاحت: ۱؎: ”اضطجاع“ کے ثبوت کی صورت میں تہجد سے فراغت کے بعد داہنے کروٹ لیٹنے کی جو بات اس روایت میں ہے یہ کبھی کبھار کی بات ہے، ورنہ آپ کی زیادہ تر عادت مبارکہ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کی تھی، اسی معنی میں ایک قولی روایت بھی ہے جو اس کی تائید کرتی ہے (دیکھئیے حدیث رقم ۴۲۰)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح إلا الاضطجاع فإنه شاذ، والمحفوظ أنه بعد سنة الفجر، صحيح أبي داود (1206)
قال الشيخ زبير على زئي: 0(440) إسناده ضعيف ابن شھاب الزھري مدلس و عنعن (د 145) وأخرجه مسلم (736/121) بلفظ آخر وھو صحيح وانظر الحديث الآتي (الآصل:441) وعنده الإضطجاع بعد الركعتين وھو الصواب