(مرفوع) حدثنا ابو عمار، حدثنا الوليد، قال: وحدثنا ابو محمد رجاء، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، عن الاوزاعي، قال: حدثني الوليد بن هشام المعيطي، قال: حدثني معدان بن طلحة اليعمري، قال: لقيت ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت له: دلني على عمل ينفعني الله به ويدخلني الجنة، فسكت عني مليا ثم التفت إلي، فقال: عليك بالسجود فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من عبد يسجد لله سجدة إلا رفعه الله بها درجة وحط عنه بها خطيئة "(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: وحَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ رَجَاءٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ هِشَامٍ الْمُعَيْطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيُّ، قَالَ: لَقِيتُ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهِ وَيُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، فَسَكَتَ عَنِّي مَلِيًّا ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ، فَقَالَ: عَلَيْكَ بِالسُّجُودِ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً "
معدان بن طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی الله عنہ سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے اور مجھے جنت میں داخل کرے، تو وہ کافی دیر تک خاموش رہے پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ تم کثرت سے سجدے کیا کرو ۱؎ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو بھی بندہ اللہ کے واسطے کوئی سجدہ کرے گا اللہ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کر دے گا اور اس کا ایک گناہ مٹا دے گا“۔
(مرفوع) قال معدان بن طلحة: فلقيت ابا الدرداء، فسالته عما سالت عنه ثوبان، فقال: عليك بالسجود فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من عبد يسجد لله سجدة إلا رفعه الله بها درجة وحط عنه بها خطيئة " قال معدان بن طلحة اليعمري، ويقال ابن ابي طلحة، قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وابي امامة، وابي فاطمة، قال ابو عيسى: حديث ثوبان , وابي الدرداء في كثرة الركوع والسجود حديث حسن صحيح، وقد اختلف اهل العلم في هذا الباب، فقال بعضهم: طول القيام في الصلاة افضل من كثرة الركوع والسجود، وقال بعضهم: كثرة الركوع والسجود افضل من طول القيام، وقال احمد بن حنبل: قد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا حديثان ولم يقض فيه بشيء، وقال إسحاق: اما في النهار فكثرة الركوع والسجود واما بالليل فطول القيام إلا ان يكون رجل له جزء بالليل ياتي عليه، فكثرة الركوع والسجود في هذا احب إلي لانه ياتي على جزئه، وقد ربح كثرة الركوع والسجود، قال ابو عيسى: وإنما قال إسحاق: هذا لانه كذا وصف صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل ووصف طول القيام، واما بالنهار فلم يوصف من صلاته من طول القيام ما وصف بالليل.(مرفوع) قَالَ مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ: فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَسَأَلْتُهُ عَمَّا سَأَلْتُ عَنْهُ ثَوْبَانَ، فَقَالَ: عَلَيْكَ بِالسُّجُودِ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً " قَالَ مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيُّ، وَيُقَالُ ابْنُ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي فَاطِمَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ثَوْبَانَ , وَأَبِي الدَّرْدَاءِ فِي كَثْرَةِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْبَابِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: طُولُ الْقِيَامِ فِي الصَّلَاةِ أَفْضَلُ مِنْ كَثْرَةِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: كَثْرَةُ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ أَفْضَلُ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: قَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا حَدِيثَانِ وَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْءٍ، وقَالَ إِسْحَاق: أَمَّا فِي النَّهَارِ فَكَثْرَةُ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَأَمَّا بِاللَّيْلِ فَطُولُ الْقِيَامِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ لَهُ جُزْءٌ بِاللَّيْلِ يَأْتِي عَلَيْهِ، فَكَثْرَةُ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ فِي هَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ لِأَنَّهُ يَأْتِي عَلَى جُزْئِهِ، وَقَدْ رَبِحَ كَثْرَةَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا قَالَ إِسْحَاق: هَذَا لِأَنَّهُ كَذَا وُصِفَ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ وَوُصِفَ طُولُ الْقِيَامِ، وَأَمَّا بِالنَّهَارِ فَلَمْ يُوصَفْ مِنْ صَلَاتِهِ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ مَا وُصِفَ بِاللَّيْلِ.
معدان کہتے ہیں کہ پھر میری ملاقات ابو الدرداء رضی الله عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے بھی اسی چیز کا سوال کیا جو میں نے ثوبان رضی الله عنہ سے کیا تھا تو انہوں نے بھی کہا کہ تم سجدے کو لازم پکڑو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”جو بندہ اللہ کے واسطے کوئی سجدہ کرے گا تو اللہ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا اور ایک گناہ مٹا دے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رکوع اور سجدے کثرت سے کرنے کے سلسلے کی ثوبان اور ابوالدرداء رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابوامامہ اور ابوفاطمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس باب میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نماز میں دیر تک قیام کرنا کثرت سے رکوع اور سجدہ کرنے سے افضل ہے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ کثرت سے رکوع اور سجدے کرنا دیر تک قیام کرنے سے افضل ہے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں دونوں طرح کی حدیثیں مروی ہیں، لیکن اس میں (کون راجح ہے اس سلسلہ میں) انہوں نے کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی ہے۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ دن میں کثرت سے رکوع اور سجدے کرنا افضل ہے اور رات میں دیر تک قیام کرنا، الا یہ کہ کوئی شخص ایسا ہو جس کا رات کے حصہ میں قرآن پڑھنے کا کوئی حصہ متعین ہو تو اس کے حق میں رات میں بھی رکوع اور سجدے کثرت سے کرنا بہتر ہے۔ کیونکہ وہ قرآن کا اتنا حصہ تو پڑھے گا ہی جسے اس نے خاص کر رکھا ہے اور کثرت سے رکوع اور سجدے کا نفع اسے الگ سے حاصل ہو گا، ۴- اسحاق بن راہویہ نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل (تہجد) کا حال بیان کیا گیا ہے کہ آپ اس میں دیر تک قیام کیا کرتے تھے، رہی دن کی نماز تو اس کے سلسلہ میں یہ بیان نہیں کیا گیا ہے کہ آپ ان میں رات کی نمازوں کی طرح دیر تک قیام کرتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل ابن علية وهو: ابن إبراهيم، عن علي بن المبارك، عن يحيى بن ابي كثير، عن ضمضم بن جوس، عن ابي هريرة، قال: " امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل الاسودين في الصلاة الحية والعقرب "قال: وفي الباب عن ابن عباس , وابي رافع، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وبه يقول: احمد , وإسحاق، وكره بعض اهل العلم قتل الحية والعقرب في الصلاة، وقال إبراهيم: إن في الصلاة لشغلا، والقول الاول اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ وَهُوَ: ابْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ جَوْسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ الْحَيَّةُ وَالْعَقْرَبُ "قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَأَبِي رَافِعٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ قَتْلَ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ فِي الصَّلَاةِ، وقَالَ إِبْرَاهِيمُ: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کالوں کو یعنی سانپ اور بچھو کو نماز میں مارنے کا حکم دیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس اور ابورافع رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- اور بعض اہل علم نے نماز میں سانپ اور بچھو کے مارنے کو مکروہ کہا ہے، ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ نماز خود ایک شغل ہے (اور یہ چیز اس میں مخل ہو گی) پہلا قول (ہی) راجح ہے۔