(مرفوع) اخبرنا الحسين بن منصور يعني ابن جعفر النيسابوري , قال: حدثنا يزيد بن هارون , قال: انبانا محمد بن عمرو , عن ابي سلمة , عن ابن عمر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كل مسكر حرام , وكل مسكر خمر". قال ابو عبد الرحمن: وهؤلاء اهل الثبت والعدالة مشهورون بصحة النقل , وعبد الملك لا يقوم مقام واحد منهم ولو عاضده من اشكاله جماعة , وبالله التوفيق. (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ النَّيْسَابُورِيَّ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ , وَكُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَهَؤُلَاءِ أَهْلُ الثَّبْتِ وَالْعَدَالَةِ مَشْهُورُونَ بِصِحَّةِ النَّقْلِ , وَعَبْدُ الْمَلِكِ لَا يَقُومُ مَقَامَ وَاحِدٍ مِنْهُمْ وَلَوْ عَاضَدَهُ مِنْ أَشْكَالِهِ جَمَاعَةٌ , وَبِاللَّهِ التَّوْفِيقُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے، اور ہر نشہ آور چیز خمر (شراب) ہے“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ لوگ ثقہ اور عادل ہیں اور روایت کی صحت میں مشہور ہیں۔ اور عبدالملک ان میں سے کسی ایک کے بھی برابر نہیں، گرچہ عبدالملک کی تائید اسی جیسے کچھ اور لوگ بھی کریں۔
(موقوف) اخبرنا سويد , قال: انبانا عبد الله , عن عبيد الله بن عمر السعيدي , قال: حدثتني رقية بنت عمرو بن سعيد , قالت:" كنت في حجر ابن عمر , فكان" ينقع له الزبيب , فيشربه من الغد , ثم يجفف الزبيب , ويلقى عليه زبيب آخر , ويجعل فيه ماء فيشربه من الغد , حتى إذا كان بعد الغد طرحه" , واحتجوا بحديث ابي مسعود عقبة بن عمرو. (موقوف) أَخْبَرَنَا سُوَيْدٌ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ السَّعِيدِيِّ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي رُقَيَّةُ بِنْتُ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ , قَالَتْ:" كُنْتُ فِي حَجْرِ ابْنِ عُمَرَ , فَكَانَ" يُنْقَعُ لَهُ الزَّبِيبُ , فَيَشْرَبُهُ مِنَ الْغَدِ , ثُمَّ يُجَفَّفُ الزَّبِيبُ , وَيُلْقَى عَلَيْهِ زَبِيبٌ آخَرُ , وَيُجْعَلُ فِيهِ مَاءٌ فَيَشْرَبُهُ مِنَ الْغَدِ , حَتَّى إِذَا كَانَ بَعْدَ الْغَدِ طَرَحَهُ" , وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ أَبِي مَسْعُودٍ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو.
رقیہ بنت عمرو بن سعید کہتی ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی پرورش میں تھی، ان کے لیے کشمش بھگوئی جاتی تھی، پھر وہ اسے صبح کو پیتے تھے، پھر کشمش لی جاتی اور اس میں کچھ اور کشمش ڈال دی جاتی اور اس میں پانی ملا دیا جاتا، پھر وہ اسے دوسرے دن پیتے اور تیسرے دن وہ اسے پھینک دیتے۔ «واحتجوا بحديث أبي مسعود عقبة بن عمرو» ان لوگوں نے ابومسعود عقبہ بن عمرو کی حدیث سے بھی دلیل پکڑی ہے۔
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، رقية بنت عمرو بن سعيد: مجهولة (التحرير: 8587) وعبيد اﷲ بن عمر السعيدي البصري مقبول (تقريب: 4326) أى مجهول الحال. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 367
(مرفوع) اخبرنا الحسن بن إسماعيل بن سليمان , قال: انبانا يحيى بن يمان , عن سفيان , عن منصور , عن خالد بن سعد , عن ابي مسعود , قال: عطش النبي صلى الله عليه وسلم حول الكعبة , فاستسقى , فاتي بنبيذ من السقاية , فشمه فقطب , فقال:" علي بذنوب من زمزم" فصب عليه ثم شرب , فقال رجل: احرام هو يا رسول الله؟ , قال:" لا". وهذا خبر ضعيف , لان يحيى بن يمان انفرد به دون اصحاب سفيان , ويحيى بن يمان لا يحتج بحديثه لسوء حفظه وكثرة خطئه. (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ سُلَيْمَانَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ , قَالَ: عَطِشَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَوْلَ الْكَعْبَةِ , فَاسْتَسْقَى , فَأُتِيَ بِنَبِيذٍ مِنَ السِّقَايَةِ , فَشَمَّهُ فَقَطَّبَ , فَقَالَ:" عَلَيَّ بِذَنُوبٍ مِنْ زَمْزَمَ" فَصَبَّ عَلَيْهِ ثُمَّ شَرِبَ , فَقَالَ رَجُلٌ: أَحَرَامٌ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ , قَالَ:" لَا". وَهَذَا خَبَرٌ ضَعِيفٌ , لِأَنَّ يَحْيَى بْنَ يَمَانٍ انْفَرَدَ بِهِ دُونَ أَصْحَابِ سُفْيَانَ , وَيَحْيَى بْنُ يَمَانٍ لَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ لِسُوءِ حِفْظِهِ وَكَثْرَةِ خَطَئِهِ.
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کے پاس پیاسے ہو گئے، تو آپ نے پانی طلب کیا۔ آپ کے پاس مشکیزہ میں بنی ہوئی نبیذ لائی گئی۔ آپ نے اسے سونگھا اور منہ ٹیڑھا کیا (ناپسندیدگی کا اظہار کیا) فرمایا: ”میرے پاس زمزم کا ایک ڈول لاؤ“، آپ نے اس میں تھوڑا پانی ملایا پھر پیا، ایک شخص بولا: اللہ کے رسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) یہ ضعیف ہے، اس لیے کہ یحییٰ بن یمان اس کی روایت میں اکیلے ہیں، سفیان کے دوسرے تلامذہ نے اسے روایت نہیں کیا۔ اور یحییٰ بن یمان کی حدیث سے دلیل نہیں لی جا سکتی اس لیے کہ ان کا حافظہ ٹھیک نہیں اور وہ غلطیاں بہت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9980) (ضعیف الإسناد) (مولف نے وجہ بیان کر دی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، سفيان الثوري عنعن. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 367
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر , قال: حدثنا عثمان بن حصن , قال: حدثنا زيد بن واقد , عن خالد بن حسين , قال: سمعت ابا هريرة , يقول: علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصوم في بعض الايام التي كان يصومها , فتحينت فطره بنبيذ صنعته في دباء , فلما كان المساء جئته احملها إليه , فقلت: يا رسول الله , إني قد علمت انك تصوم في هذا اليوم , فتحينت فطرك بهذا النبيذ , فقال:" ادنه مني يا ابا هريرة" , فرفعته إليه , فإذا هو ينش , فقال:" خذ هذه فاضرب بها الحائط , فإن هذا شراب من لا يؤمن بالله ولا باليوم الآخر". ومما احتجوا به فعل عمر بن الخطاب رضي الله عنه. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حِصْنٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ , عَنْ خَالِدِ بْنِ حُسَيْنٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ , يَقُولُ: عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ فِي بَعْضِ الْأَيَّامِ الَّتِي كَانَ يَصُومُهَا , فَتَحَيَّنْتُ فِطْرَهُ بِنَبِيذٍ صَنَعْتُهُ فِي دُبَّاءٍ , فَلَمَّا كَانَ الْمَسَاءُ جِئْتُهُ أَحْمِلُهَا إِلَيْهِ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكَ تَصُومُ فِي هَذَا الْيَوْمِ , فَتَحَيَّنْتُ فِطْرَكَ بِهَذَا النَّبِيذِ , فَقَالَ:" أَدْنِهِ مِنِّي يَا أَبَا هُرَيْرَةَ" , فَرَفَعْتُهُ إِلَيْهِ , فَإِذَا هُوَ يَنِشُّ , فَقَالَ:" خُذْ هَذِهِ فَاضْرِبْ بِهَا الْحَائِطَ , فَإِنَّ هَذَا شَرَابُ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ". وَمِمَّا احْتَجُّوا بِهِ فِعْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
خالد بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھے ہوئے ہیں ان دنوں میں جن میں رکھا کرتے تھے۔ تو میں نے ایک بار آپ کے روزہ افطار کرنے کے لیے کدو کی تونبی میں نبیذ بنائی، جب شام ہوئی تو میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ اس دن روزہ رکھتے ہیں تو میں آپ کے افطار کے لیے نبیذ لایا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”میرے قریب لاؤ“، چنانچہ اسے میں نے آپ کی طرف بڑھائی تو وہ جوش مار رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور دیوار سے مار دو اس لیے کہ یہ ان لوگوں کا مشروب ہے جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یوم آخرت پر“۔ «ومما احتجوا به فعل عمر بن الخطاب رضى اللہ عنه» ان کی ایک اور دلیل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عمل بھی ہے۔
(موقوف) اخبرنا سويد , قال: انبانا عبد الله , عن السري بن يحيى , قال: حدثنا ابو حفص إمام لنا وكان من اسنان الحسن , عن ابي رافع , ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه , قال:" إذا خشيتم من نبيذ شدته , فاكسروه بالماء" , قال عبد الله:" من قبل ان يشتد". (موقوف) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ السَّرِيِّ بْنِ يَحْيَى , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ إِمَامٌ لَنَا وَكَانَ مِنْ أَسْنَانِ الْحَسَنِ , عَنْ أَبِي رَافِعٍ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" إِذَا خَشِيتُمْ مِنْ نَبِيذٍ شِدَّتَهُ , فَاكْسِرُوهُ بِالْمَاءِ" , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" مِنْ قَبْلِ أَنْ يَشْتَدَّ".
ابورافع سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: جب تمہیں نبیذ میں تیزی آ جانے کا اندیشہ ہو، تو اسے پانی ملا کر ختم کر دو، عبداللہ (راوی) کہتے ہیں: اس سے پہلے کہ اس میں تیزی آ جائے۔
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، أبو حفص: مجهول (تقريب: 8056) ومع ذلك حسنه ابن كثير فى مسند الفاروق (2/ 515،516)! انوار الصحيفه، صفحه نمبر 367
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ ثقیف کے لوگوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مشروب رکھا، انہوں نے منگایا اور جب اسے اپنے منہ سے قریب کیا تو اسے ناپسند کیا اور اسے منگا کر پانی سے اس کی تیزی ختم کی، اور کہا اسی طرح تم بھی کیا کرو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10452) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی سعید بن المسیب نے عمر رضی الله عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، سفيان الثوري عنعن. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 367
وضاحت: ۱؎: یعنی: پچھلی روایات میں عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو یہ آیا ہے کہ آپ نے اس مشروب کے پینے پر منہ بنایا تھا، پھر پانی کے ذریعہ اس کے نشہ کو ختم کر کے پی گئے، کیونکہ آپ نے تو نشہ نہ آنے پر بھی اپنے بیٹے عبیداللہ پر شراب پینے کی حد لگائی تو خود کیسے نشہ آور مشروب کا نشہ پانی سے ختم کر کے اس کو پی لیا؟
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، إسماعيل بن أبى خالد عنعن. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 367
(موقوف) قال الحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع , عن ابن القاسم , قال: حدثني مالك , عن ابن شهاب , عن السائب بن يزيد انه اخبره , ان عمر بن الخطاب خرج عليهم , فقال:" إني وجدت من فلان ريح شراب فزعم انه شراب الطلاء , وانا سائل عما شرب , فإن كان مسكرا جلدته" , فجلده عمر بن الخطاب رضي الله عنه الحد تاما. (موقوف) قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ , عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ عَلَيْهِمْ , فَقَالَ:" إِنِّي وَجَدْتُ مِنْ فُلَانٍ رِيحَ شَرَابٍ فَزَعَمَ أَنَّهُ شَرَابُ الطِّلَاءِ , وَأَنَا سَائِلٌ عَمَّا شَرِبَ , فَإِنْ كَانَ مُسْكِرًا جَلَدْتُهُ" , فَجَلَدَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْحَدَّ تَامًّا.
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کی طرف نکلے اور بولے: مجھے فلاں سے کسی شراب کی بو آ رہی ہے، اور وہ یہ کہتا ہے کہ یہ طلاء کا شراب ہے اور میں پوچھ رہا ہوں کہ اس نے کیا پیا ہے۔ اگر وہ کوئی نشہ لانے والی چیز ہے تو اسے کوڑے لگاؤں گا، چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے پوری پوری حد لگائی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ اگرچہ عبیداللہ کو نشہ نہیں آیا ہے، لیکن اگر اس نے کوئی نشہ لانے والی چیز پی ہو گی تو میں اس پر بھی اس کو حد کے کوڑے لگواؤں گا، اس لیے طحاوی وغیرہ کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ نشہ لانے والی مشروب کی وہ حد حرام ہے جو نشہ لائے۔