صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
حدیث نمبر: 87
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا غندر، قال: حدثنا شعبة، عن ابي جمرة، قال: كنت اترجم بين ابن عباس وبين الناس، فقال: إن وفد عبد القيس اتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: من الوفد او من القوم، قالوا: ربيعة، فقال: مرحبا بالقوم او بالوفد غير خزايا ولا ندامى، قالوا: إنا ناتيك من شقة بعيدة وبيننا وبينك هذا الحي من كفار مضر، ولا نستطيع ان ناتيك إلا في شهر حرام، فمرنا بامر نخبر به من وراءنا ندخل به الجنة،" فامرهم باربع ونهاهم عن اربع، امرهم بالإيمان بالله عز وجل وحده، قال: هل تدرون ما الإيمان بالله وحده؟ قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: شهادة ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وتعطوا الخمس من المغنم، ونهاهم عن الدباء والحنتم والمزفت. قال شعبة: ربما قال النقير، وربما قال المقير، قال: احفظوه واخبروه من وراءكم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ: كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَبَيْنَ النَّاسِ، فَقَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنِ الْوَفْدُ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ، قَالُوا: رَبِيعَةُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى، قَالُوا: إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، وَلَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نُخْبِرُ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ،" فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ، قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَتُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ، وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ. قَالَ شُعْبَةُ: رُبَّمَا قَالَ النَّقِيرِ، وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ، قَالَ: احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے ابوجمرہ کے واسطے سے بیان کیا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا (ایک مرتبہ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان (کے لوگ ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو (آنا) یا مبارک ہو اس وفد کو (جو کبھی) نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو (اس کے بعد) انہوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ (پڑتا) ہے (اس کے خوف کی وجہ سے) ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام میں نہیں آ سکتے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسی (قطعی) بات بتلا دیجیئے کہ جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو خبر دے دیں۔ (اور) اس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے روک دیا۔ اول انہیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں۔ (پھر) فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ) اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور چار چیزوں سے منع فرمایا، دباء، حنتم، اور مزفت کے استعمال سے۔ اور (چوتھی چیز کے بارے میں) شعبہ کہتے ہیں کہ ابوجمرہ بسا اوقات «نقير» کہتے تھے اور بسا اوقات «مقير‏» ۔ (اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Jamra: I was an interpreter between the people and Ibn `Abbas. Once Ibn `Abbas said that a delegation of the tribe of `Abdul Qais came to the Prophet who asked them, "Who are the people (i.e. you)? (Or) who are the delegates?" They replied, "We are from the tribe of Rabi`a." Then the Prophet said to them, "Welcome, O people (or said, "O delegation (of `Abdul Qais).") Neither will you have disgrace nor will you regret." They said, "We have come to you from a distant place and there is the tribe of the infidels of Mudar intervening between you and us and we cannot come to you except in the sacred month. So please order us to do something good (religious deeds) and that we may also inform our people whom we have left behind (at home) and that we may enter Paradise (by acting on them.)" The Prophet ordered them to do four things, and forbade them from four things. He ordered them to believe in Allah Alone, the Honorable the Majestic and said to them, "Do you know what is meant by believing in Allah Alone?" They replied, "Allah and His Apostle know better." Thereupon the Prophet said, "(That means to testify that none has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is His Apostle, to offer prayers perfectly, to pay Zakat, to observe fasts during the month of Ramadan, (and) to pay Al-Khumus (one fifth of the booty to be given in Allah's cause)." Then he forbade them four things, namely Ad-Dubba.' Hantam, Muzaffat (and) An-Naqir or Muqaiyar (These were the names of pots in which alcoholic drinks used to be prepared). The Prophet further said, "Memorize them (these instructions) and tell them to the people whom you have left behind."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 87


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
26. بَابُ الرِّحْلَةِ فِي الْمَسْأَلَةِ النَّازِلَةِ وَتَعْلِيمِ أَهْلِهِ:
26. باب: جب کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کے لیے سفر کرنا (کیسا ہے؟)۔
(26) Chapter. To travel seeking an answer to a problematic matter, and to teach it to one’s family.
حدیث نمبر: 88
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن مقاتل ابو الحسن، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا عمر بن سعيد بن ابي حسين، قال: حدثني عبد الله بن ابي مليكة، عن عقبة بن الحارث،" انه تزوج ابنة لابي إهاب بن عزيز، فاتته امراة، فقالت: إني قد ارضعت عقبة والتي تزوج، فقال لها عقبة: ما اعلم انك ارضعتني ولا اخبرتني، فركب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة، فساله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف وقد قيل، ففارقها عقبة، ونكحت زوجا غيره".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ،" أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ، فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ: مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي، فَرَكِبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ، فَفَارَقَهَا عُقْبَةُ، وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ".
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہیں عبداللہ نے خبر دی، انہیں عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے عقبہ ابن الحارث کے واسطے سے نقل کیا کہ عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ (یہ سن کر) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس طرح (تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے) حالانکہ (اس کے متعلق یہ) کہا گیا تب عقبہ بن حارث نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا خاوند کر لیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin Abi Mulaika: `Uqba bin Al-Harith said that he had married the daughter of Abi Ihab bin `Aziz. Later on a woman came to him and said, "I have suckled (nursed) `Uqba and the woman whom he married (his wife) at my breast." `Uqba said to her, "Neither I knew that you have suckled (nursed) me nor did you tell me." Then he rode over to see Allah's Apostle at Medina, and asked him about it. Allah's Apostle said, "How can you keep her as a wife when it has been said (that she is your foster-sister)?" Then `Uqba divorced her, and she married another man.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 88


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
27. بَابُ التَّنَاوُبِ فِي الْعِلْمِ:
27. باب: اس بارے میں کہ (طلباء کا حصول) علم کے لیے (استاد کی خدمت میں) اپنی اپنی باری مقرر کرنا درست ہے۔
(27) Chapter. To fix the duties in rotation for learning (religious) knowledge.
حدیث نمبر: 89
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري. ح قال ابو عبد الله، وقال ابن وهب: اخبرنا يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن ابي ثور، عن عبد الله بن عباس، عن عمر، قال:" كنت انا وجار لي من الانصار في بني امية بن زيد وهي من عوالي المدينة، وكنا نتناوب النزول على رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل يوما وانزل يوما، فإذا نزلت جئته بخبر ذلك اليوم من الوحي وغيره، وإذا نزل فعل مثل ذلك، فنزل صاحبي الانصاري يوم نوبته فضرب بابي ضربا شديدا، فقال: اثم هو، ففزعت فخرجت إليه، فقال: قد حدث امر عظيم، قال: فدخلت على حفصة فإذا هي تبكي، فقلت: طلقكن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: لا ادري، ثم دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت وانا قائم: اطلقت نساءك، قال: لا، فقلت: الله اكبر".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ. ح قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ، وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ:" كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ وَهِيَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ، وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، فَنَزَلَ صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَوْمَ نَوْبَتِهِ فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا، فَقَالَ: أَثَمَّ هُوَ، فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: طَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَا أَدْرِي، ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ: أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ، قَالَ: لَا، فَقُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہیں شعیب نے زہری سے خبر دی (ایک دوسری سند سے) امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن وہب کو یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ ابن ابی ثور سے نقل کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، وہ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی دونوں اطراف مدینہ کے ایک گاؤں بنی امیہ بن زید میں رہتے تھے جو مدینہ کے (پورب کی طرف) بلند گاؤں میں سے ہے۔ ہم دونوں باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔ تو ایک دن وہ میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے روز حاضر خدمت ہوا (جب واپس آیا) تو اس نے میرا دروازہ بہت زور سے کھٹکھٹایا اور (میرے بارے میں پوچھا کہ) کیا عمر یہاں ہیں؟ میں گھبرا کر اس کے پاس آیا۔ وہ کہنے لگا کہ ایک بڑا معاملہ پیش آ گیا ہے۔ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے) پھر میں (اپنی بیٹی) حفصہ کے پاس گیا، وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ہے؟ وہ کہنے لگی میں نہیں جانتی۔ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کھڑے کھڑے کہا کہ کیا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ (یہ افواہ غلط ہے) تب میں نے (تعجب سے) کہا «الله اكبر» اللہ بہت بڑا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Umar: My Ansari neighbor from Bani Umaiya bin Zaid who used to live at `Awali Al-Medina and used to visit the Prophet by turns. He used to go one day and I another day. When I went I used to bring the news of that day regarding the Divine Inspiration and other things, and when he went, he used to do the same for me. Once my Ansari friend, in his turn (on returning from the Prophet), knocked violently at my door and asked if I was there." I became horrified and came out to him. He said, "Today a great thing has happened." I then went to Hafsa and saw her weeping. I asked her, "Did Allah's Apostle divorce you all?" She replied, "I do not know." Then, I entered upon the Prophet and said while standing, "Have you divorced your wives?" The Prophet replied in the negative. On what I said, "Allahu-Akbar (Allah is Greater)." (See Hadith No. 119, Vol. 3 for details)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 89


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
28. بَابُ الْغَضَبِ فِي الْمَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ:
28. باب: استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے۔
(28) Chapter. To be furious while preaching or teaching if one sees what one hates.
حدیث نمبر: 90
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، قال: اخبرنا سفيان، عن ابن ابي خالد، عن قيس بن ابي حازم، عن ابي مسعود الانصاري، قال: قال رجل: يا رسول الله، لا اكاد ادرك الصلاة مما يطول بنا فلان، فما رايت النبي صلى الله عليه وسلم في موعظة اشد غضبا من يومئذ، فقال:" ايها الناس، إنكم منفرون، فمن صلى بالناس فليخفف، فإن فيهم المريض والضعيف وذا الحاجة".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلَاةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلَانٌ، فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ، فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا انہیں سفیان نے ابوخالد سے خبر دی، وہ قیس بن ابی حازم سے بیان کرتے ہیں، وہ ابومسعود انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (حزم بن ابی کعب) نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص (معاذ بن جبل) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں (جماعت کی) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا (کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا) (ابومسعود راوی کہتے ہیں) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم (ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے) نفرت دلانے لگے ہو۔ (سن لو) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے (سب ہی قسم کے لوگ) ہوتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Mas`ud Al-Ansari: Once a man said to Allah's Apostle "O Allah's Apostle! I may not attend the (compulsory congregational) prayer because so and so (the Imam) prolongs the prayer when he leads us for it. The narrator added: "I never saw the Prophet more furious in giving advice than he was on that day. The Prophet said, "O people! Some of you make others dislike good deeds (the prayers). So whoever leads the people in prayer should shorten it because among them there are the sick the weak and the needy (having some jobs to do).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 90


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 91
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا ابو عامر، قال: حدثنا سليمان بن بلال المديني، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن، عن يزيد مولى المنبعث، عن زيد بن خالد الجهني،" ان النبي صلى الله عليه وسلم ساله رجل عن اللقطة؟ فقال: اعرف وكاءها، او قال: وعاءها وعفاصها، ثم عرفها سنة، ثم استمتع بها، فإن جاء ربها فادها إليه، قال: فضالة الإبل؟ فغضب حتى احمرت وجنتاه، او قال: احمر وجهه، فقال: وما لك ولها، معها سقاؤها وحذاؤها، ترد الماء وترعى الشجر، فذرها حتى يلقاها ربها، قال: فضالة الغنم؟ قال: لك او لاخيك او للذئب".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ الْمَدِينِيُّ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ اللُّقَطَةِ؟ فَقَالَ: اعْرِفْ وِكَاءَهَا، أَوْ قَالَ: وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ اسْتَمْتِعْ بِهَا، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، قَالَ: فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، أَوْ قَالَ: احْمَرَّ وَجْهُهُ، فَقَالَ: وَمَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا، تَرِدُ الْمَاءَ وَتَرْعَى الشَّجَرَ، فَذَرْهَا حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا، قَالَ: فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ قَالَ: لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابوعامر العقدی نے، وہ سلیمان بن بلال المدینی سے، وہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے، وہ یزید سے جو منبعث کے آزاد کردہ تھے، وہ زید بن خالد الجہنی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (عمیر یا بلال) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑی ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کی بندھن پہچان لے یا فرمایا کہ اس کا برتن اور تھیلی (پہچان لے) پھر ایک سال تک اس کی شناخت (کا اعلان) کراؤ پھر (اس کا مالک نہ ملے تو) اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے سونپ دو۔ اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ (کے بارے میں) کیا حکم ہے؟ آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے۔ یا راوی نے یہ کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تجھے اونٹ سے کیا واسطہ؟ اس کے ساتھ خود اس کی مشک ہے اور اس کے (پاؤں کے) سم ہیں۔ وہ خود پانی پر پہنچے گا اور خود پی لے گا اور خود درخت پر چرے گا۔ لہٰذا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔ اس نے کہا کہ اچھا گم شدہ بکری کے (بارے میں) کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی، ورنہ بھیڑئیے کی (غذا) ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani: A man asked the Prophet about the picking up of a "Luqata" (fallen lost thing). The Prophet replied, "Recognize and remember its tying material and its container, and make public announcement (about it) for one year, then utilize it but give it to its owner if he comes." Then the person asked about the lost camel. On that, the Prophet got angry and his cheeks or his Face became red and he said, "You have no concern with it as it has its water container, and its feet and it will reach water, and eat (the leaves) of trees till its owner finds it." The man then asked about the lost sheep. The Prophet replied, "It is either for you, for your brother (another person) or for the wolf."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 91


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 92
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا ابو اسامة، عن بريد، عن ابي بردة، عن ابي موسى، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن اشياء كرهها، فلما اكثر عليه غضب، ثم قال للناس:" سلوني عما شئتم، قال رجل: من ابي؟ قال: ابوك حذافة، فقام آخر، فقال: من ابي يا رسول الله؟ فقال: ابوك سالم مولى شيبة، فلما راى عمر ما في وجهه، قال: يا رسول الله، إنا نتوب إلى الله عز وجل".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ، قَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے اور وہ ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا (اچھا اب) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شیبہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ! ہم (ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں) اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Musa: The Prophet was asked about things which he did not like, but when the questioners insisted, the Prophet got angry. He then said to the people, "Ask me anything you like." A man asked, "Who is my father?" The Prophet replied, "Your father is Hudhafa." Then another man got up and said, "Who is my father, O Allah's Apostle ?" He replied, "Your father is Salim, Maula (the freed slave) of Shaiba." So when `Umar saw that (the anger) on the face of the Prophet he said, "O Allah's Apostle! We repent to Allah (Our offending you).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 92


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
29. بَابُ مَنْ بَرَكَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ الإِمَامِ أَوِ الْمُحَدِّثِ:
29. باب: اس شخص کے بارے میں جو امام یا محدث کے سامنے دو زانو (ہو کر ادب کے ساتھ) بیٹھے۔
(29) Chapter. Whoever knelt down before the Imam or a (religious) preacher.
حدیث نمبر: 93
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني انس بن مالك،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج، فقام عبد الله بن حذافة، فقال: من ابي؟ فقال: ابوك حذافة، ثم اكثر ان يقول سلوني، فبرك عمر على ركبتيه، فقال: رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد صلى الله عليه وسلم نبيا"، فسكت.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ فَقَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا"، فَسَكَتَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہیں انس بن مالک نے بتلایا کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں (اور یہ جملہ) تین مرتبہ (دہرایا) پھر (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik: One day Allah's Apostle came out (before the people) and `Abdullah bin Hudhafa stood up and asked (him) "Who is my father?" The Prophet replied, "Your father is Hudhafa." The Prophet told them repeatedly (in anger) to ask him anything they liked. `Umar knelt down before the Prophet and said thrice, "We accept Allah as (our) Lord and Islam as (our) religion and Muhammad as (our) Prophet." After that the Prophet became silent.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 93


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
30. بَابُ مَنْ أَعَادَ الْحَدِيثَ ثَلاَثًا لِيُفْهَمَ عَنْهُ:
30. باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص سمجھانے کے لیے (ایک) بات کو تین مرتبہ دہرائے تو یہ ٹھیک ہے۔
(30) Chapter. Repeating one’s talk thrice in order to make others understand.
حدیث نمبر: Q94
Save to word اعراب English
فقال: «الا وقول الزور» . فما زال يكررها. وقال ابن عمر قال النبي صلى الله عليه وسلم: «هل بلغت» . ثلاثا.فَقَالَ: «أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ» . فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا. وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ بَلَّغْتُ» . ثَلاَثًا.
‏‏‏‏ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے «ألا وقول الزور» اس کو تین بار دہراتے رہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تم کو پہنچا دیا (یہ جملہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دہرایا۔
حدیث نمبر: 94
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبدة، قال: حدثنا عبد الصمد، قال: حدثنا عبد الله بن المثنى، قال: حدثنا ثمامة بن عبد الله، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم،" انه كان إذا سلم سلم ثلاثا، وإذا تكلم بكلمة اعادها ثلاثا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَلَّمَ سَلَّمَ ثَلَاثًا، وَإِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا".
ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے عبدالصمد نے، ان سے عبداللہ بن مثنی نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار دہراتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: Whenever the Prophet asked permission to enter, he knocked the door thrice with greeting and whenever he spoke a sentence (said a thing) he used to repeat it thrice. (See Hadith No. 261, Vol. 8).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 94


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 95
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبدة بن عبد الله الصفار، حدثنا عبد الصمد، قال: حدثنا عبد الله بن المثنى، قال: حدثنا ثمامة بن عبد الله، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم،" انه كان إذا تكلم بكلمة اعادها ثلاثا حتى تفهم عنه، وإذا اتى على قوم فسلم عليهم سلم عليهم ثلاثا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَارُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّهُ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ، وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثًا".
ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے عبدالصمد نے، ان سے عبداللہ بن مثنی نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار لوٹاتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔ اور جب کچھ لوگوں کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور انہیں سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: Whenever the Prophet spoke a sentence (said a thing), he used to repeat it thrice so that the people could understand it properly from him and whenever he asked permission to enter, (he knocked the door) thrice with greeting.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 95


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.