رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کی تقسیم کے وقت دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں: مجھے غالب یقین یہی ہے کہ میں نے اسے سعید بن مسروق (سفیان ثوری کے والد) سے سنا ہے اور اسے مجھ سے سفیان نے ان سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا، واللہ اعلم۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ قربانی کا دن آ گیا، ہم ایک اونٹ میں دس دس لوگ اور ایک گائے میں سات سات لوگ شریک ہوئے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج66(905)، والأضاحی8(1501)، سنن ابن ماجہ/الأضاحی5(3131)، مسند احمد 1/275 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کچھ علماء قربانی میں اونٹ میں دس آدمیوں کی شرکت کو جائز قرار دیتے ہیں، جب کہ جمہور علماء صحیح مسلم میں مروی جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث (حج ۶۱، ۶۲) کی بنیاد پر اونٹ میں بھی صرف سات آدمیوں کی شرکت کے قائل ہیں، حالانکہ دونوں (جابر و ابن عباس رضی اللہ عنہم کی) حدیثوں کا محمل اور مصداق الگ الگ ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث قربانی میں شرکت کے سلسلے میں ہے جب کہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہدی (حج کی قربانی) سے متعلق ہے، دونوں (قربانی و ہدی) کو ایک دوسرے پر قیاس کرنے کی وجہ سے علماء میں مذکورہ اختلاف واقع ہوا ہے، دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے کہ دونوں کا محل الگ الگ ہے، (یعنی قربانی میں اونٹ دس کی طرف سے کافی ہے اور ہدی میں صرف سات کی طرف سے) علامہ شوکانی نے یہی بات لکھی ہے (کمافی نیل الا ٔوطار)۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، عن يحيى، عن عبد الملك، عن عطاء، عن جابر، قال:" كنا نتمتع مع النبي صلى الله عليه وسلم، فنذبح البقرة عن سبعة، ونشترك فيها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:" كُنَّا نَتَمَتَّعُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَذْبَحُ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَنَشْتَرِكُ فِيهَا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج) تمتع کر رہے تھے تو ہم سات لوگوں کی طرف سے ایک گائے ذبح کرتے اور اس میں شریک ہوتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 62(1318)، سنن ابی داود/الأضاحی7(2807)، (تحفة الأشراف: 2435)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 66 (904)، موطا امام مالک/الضحایا 5 (9)، مسند احمد (3/318)، سنن الدارمی/الأضاحی 5 1998) (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن ابن ابي زائدة، قال: انبانا ابي، عن فراس، عن عامر، عن البراء بن عازب. ح وانبانا داود بن ابي هند، عن الشعبي، عن البراء، فذكر احدهما ما لم يذكر الآخر، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاضحى، فقال:" من وجه قبلتنا، وصلى صلاتنا، ونسك نسكنا، فلا يذبح حتى يصلي"، فقام خالي، فقال: يا رسول الله , إني عجلت نسكي لاطعم اهلي، واهل داري، او اهلي، وجيراني. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اعد ذبحا آخر"، قال: فإن عندي عناق لبن هي احب إلي من شاتي لحم، قال:" اذبحها فإنها خير نسيكتيك، ولا تقضي جذعة عن احد بعدك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبِي، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ. ح وَأَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ، فَذَكَرَ أَحَدُهُمَا مَا لَمْ يَذْكُرِ الْآخَرُ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَضْحَى، فَقَالَ:" مَنْ وَجَّهَ قِبْلَتَنَا، وَصَلَّى صَلَاتَنَا، وَنَسَكَ نُسُكَنَا، فَلَا يَذْبَحْ حَتَّى يُصَلِّيَ"، فَقَامَ خَالِي، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي عَجَّلْتُ نُسُكِي لِأُطْعِمَ أَهْلِي، وَأَهْلَ دَارِي، أَوْ أَهْلِي، وَجِيرَانِي. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعِدْ ذِبْحًا آخَرَ"، قَالَ: فَإِنَّ عِنْدِي عَنَاقَ لَبَنٍ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، قَالَ:" اذْبَحْهَا فَإِنَّهَا خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ، وَلَا تَقْضِي جَذَعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی کے دن کھڑے ہو کر فرمایا: ”جس نے ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا، ہماری جیسی نماز پڑھی اور قربانی کی تو وہ جب تک نماز نہ پڑھ لے ذبح نہ کرے۔ یہ سن کر میرے ماموں کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے قربانی میں جلدی کر دی تاکہ میں اپنے بال بچوں اور گھر والوں - یا اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں - کو کھلا سکوں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوبارہ قربانی کرو“، انہوں نے عرض کیا: میرے پاس بکری کا ایک چھوٹا بچہ ۲؎ ہے جو مجھے گوشت والی دو بکریوں سے زیادہ عزیز ہے، آپ نے فرمایا: ”تم اسی کو ذبح کرو، یہ ان دو کی قربانی سے بہتر ہے، لیکن تمہارے بعد جذعے کی قربانی کسی کی طرف سے کافی نہیں ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1564 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: امام سے پہلے یعنی عید الاضحی کی نماز سے پہلے قربانی کا کیا حکم ہے؟ ۲؎: «عناق لبن» سے مراد وہ بکری جو ابھی ایک سال کی نہیں ہوئی ہو، اور حدیث نمبر ۴۳۸۴ میں اسی تناظر میں «عتود» کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی ہیں بکری کا وہ بچہ جو ایک سال ہو چکا ہو مگر دانتا ہوا نہ ہو، اور دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ دونوں قسم کے جانوروں کی قربانی کی اجازت صرف مذکورہ دونوں صحابہ کے لیے دی گئی، اور عام حالات میں عام مسلمانوں کے لیے صرف دانتا جانور ہی جائز ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا ابو الاحوص، عن منصور، عن الشعبي، عن البراء بن عازب، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم النحر بعد الصلاة، ثم قال:" من صلى صلاتنا، ونسك نسكنا فقد اصاب النسك، ومن نسك قبل الصلاة، فتلك شاة لحم"، فقال ابو بردة: يا رسول الله، والله لقد نسكت قبل ان اخرج إلى الصلاة، وعرفت ان اليوم يوم اكل وشرب فتعجلت فاكلت، واطعمت اهلي، وجيراني. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تلك شاة لحم"، قال: فإن عندي عناقا جذعة، خير من شاتي لحم، فهل تجزئ عني؟، قال:" نعم، ولن تجزي عن احد بعدك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، ثُمَّ قَالَ:" مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا، وَنَسَكَ نُسُكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَتِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ"، فَقَالَ أَبُو بُرْدَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ نَسَكْتُ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ إِلَى الصَّلَاةِ، وَعَرَفْتُ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ فَتَعَجَّلْتُ فَأَكَلْتُ، وَأَطْعَمْتُ أَهْلِي، وَجِيرَانِي. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ"، قَالَ: فَإِنَّ عِنْدِي عَنَاقًا جَذَعَةً، خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، فَهَلْ تُجْزِئُ عَنِّي؟، قَالَ:" نَعَمْ، وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قربانی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کے بعد ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: ”جس نے ہماری جیسی نماز پڑھی اور ہماری جیسی قربانی کی تو اس نے قربانی کی اور جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کی تو وہ گوشت کی بکری ہے ۱؎ یہ سن کر ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ہی قربانی کر چکا ہوں، دراصل میں نے سمجھا کہ آج کا دن کھانے پینے کا دن ہے، تو میں نے جلدی کی اور کھایا اور اپنے بال بچوں نیز پڑوسیوں کو کھلایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو گوشت کی بکری ہے“۔ وہ بولے: میرے پاس بکری کا ایک چھوٹا بچہ ہے جو گوشت کی ان دو بکریوں سے بہتر ہے، کیا وہ میرے لیے کافی ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، لیکن تمہارے بعد یہ کسی کے لیے کافی نہیں ہو گا“۔
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا ابن علية، قال: حدثنا ايوب، عن محمد، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم النحر:" من كان ذبح قبل الصلاة فليعد"، فقام رجل، فقال: يا رسول الله هذا يوم يشتهى فيه اللحم، فذكر هنة من جيرانه، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم صدقه، قال: عندي جذعة هي احب إلي من شاتي لحم، فرخص له، فلا ادري ابلغت رخصته من سواه، ام لا، ثم انكفا إلى كبشين فذبحهما. (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ:" مَنْ كَانَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيُعِدْ"، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا يَوْمٌ يُشْتَهَى فِيهِ اللَّحْمُ، فَذَكَرَ هَنَةً مِنْ جِيرَانِهِ، كَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَّقَهُ، قَالَ: عِنْدِي جَذَعَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، فَرَخَّصَ لَهُ، فَلَا أَدْرِي أَبَلَغَتْ رُخْصَتُهُ مَنْ سِوَاهُ، أَمْ لَا، ثُمَّ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ فَذَبَحَهُمَا.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن فرمایا: ”جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہے، اسے چاہیئے کہ پھر سے قربانی کرے“، ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے کہ جس میں ہر ایک کی گوشت کی خواہش ہوتی ہے، اور پھر انہوں نے پڑوسیوں کا حال بیان کیا، گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمائی۔ انہوں نے کہا: میرے پاس بکری کا ایک چھوٹا بچہ ہے جو مجھے گوشت والی دو بکریوں سے زیادہ ہے، تو انہیں اس کی رخصت دی گئی، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ یہ رخصت دوسروں کے لیے ہے یا نہیں؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی طرف گئے اور انہیں ذبح کیا۔
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا يحيى، عن يحيى. ح وانبانا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار، عن ابي بردة بن نيار: انه ذبح قبل النبي صلى الله عليه وسلم ," فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يعيد"، قال: عندي عناق جذعة , هي احب إلي من مسنتين، قال:" اذبحها". في حديث عبيد الله، فقال: إني لا اجد إلا جذعة؟ فامره ان يذبح. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ يَحْيَى. ح وَأَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ: أَنَّهُ ذَبَحَ قَبْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ," فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ"، قَالَ: عِنْدِي عَنَاقُ جَذَعَةٍ , هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُسِنَّتَيْنِ، قَالَ:" اذْبَحْهَا". فِي حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنِّي لَا أَجِدُ إِلَّا جَذَعَةً؟ فَأَمَرَهُ أَنْ يَذْبَحَ.
ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ذبح کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ ذبح کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے عرض کیا: میرے پاس ایک سالہ بکری کا بچہ ہے جو مجھے دو مسنہ سے زیادہ پسند ہے، آپ نے فرمایا: ”اسی کو ذبح کر دو“۔ عبیداللہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے کہا: میرے پاس ایک جذعہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے تو آپ نے انہیں اسی کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 11722)، موطا امام مالک/الضحایا 3 (4)، مسند احمد (3/466 و4/45)، سنن الدارمی/الأضاحی7 (2006) (صحیح الإسناد) (یہ حدیث براء رضی الله عنہ سے متفق علیہ ثابت ہے، خود مؤلف کے یہاں 1564 اور 4400 پر گزری ہے)»
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا ابو عوانة، عن الاسود بن قيس، عن جندب بن سفيان، قال: ضحينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم اضحى ذات يوم، فإذا الناس قد ذبحوا ضحاياهم قبل الصلاة، فلما انصرف رآهم النبي صلى الله عليه وسلم انهم ذبحوا قبل الصلاة، فقال:" من ذبح قبل الصلاة، فليذبح مكانها اخرى، ومن كان لم يذبح حتى صلينا، فليذبح على اسم الله عز وجل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ، قَالَ: ضَحَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَضْحًى ذَاتَ يَوْمٍ، فَإِذَا النَّاسُ قَدْ ذَبَحُوا ضَحَايَاهُمْ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَآهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ ذَبَحُوا قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ:" مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى، وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا، فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دن کچھ قربانیاں کیں، تو ہم نے دیکھا کہ لوگ نماز عید سے پہلے ہی اپنے جانور ذبح کر چکے ہیں، جب آپ فارغ ہو کر لوٹے تو انہیں دیکھا کہ وہ نماز عید سے پہلے ہی ذبح کر چکے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز عید سے پہلے ذبح کیا تو اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا یہاں تک کہ ہم نے نماز عید پڑھ لی تو وہ اللہ کے نام پر ذبح کرے“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا يزيد بن هارون، قال: حدثنا داود، عن عامر، عن محمد بن صفوان: انه اصاب ارنبين، ولم يجد حديدة يذبحهما به، فذكاهما بمروة، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني اصطدت ارنبين , فلم اجد حديدة اذكيهما به فذكيتهما بمروة , افآكل؟، قال:" كل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ: أَنَّهُ أَصَابَ أَرْنَبَيْنِ، وَلَمْ يَجِدْ حَدِيدَةً يَذْبَحُهُمَا بِهِ، فَذَكَّاهُمَا بِمَرْوَةٍ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي اصْطَدْتُ أَرْنَبَيْنِ , فَلَمْ أَجِدْ حَدِيدَةً أُذَكِّيهِمَا بِهِ فَذَكَّيْتُهُمَا بِمَرْوَةٍ , أَفَآكُلُ؟، قَالَ:" كُلْ".
محمد بن صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں دو خرگوش ملے انہیں کوئی لوہا نہ ملا جس سے وہ انہیں ذبح کرتے تو انہیں پتھر سے ذبح کر دیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے دو خرگوش شکار کئے مجھے کوئی لوہا نہ مل سکا جس سے میں انہیں ذبح کرتا تو میں نے ان کو ایک تیز دھار والے پتھر سے ذبح کر دیا، کیا میں انہیں کھاؤں؟ آپ نے فرمایا: ”کھاؤ“۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بھیڑیئے نے ایک بکری کے جسم میں دانت گاڑ دیے لوگوں نے اسے پتھر سے ذبح کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کی اجازت دے دی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الذبائح 5 (3176)، (تحفة الأشراف: 3718)، مسند احمد (5/183) ویأتی عند المؤلف برقم 4412(صحیح) (اس کے راوی ’’حاضر‘‘ لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے)»