(مرفوع) اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا يعلى، قال: حدثنا ابو حيان، عن الشعبي، عن النعمان، قال: سالت امي ابي بعض الموهبة فوهبها لي، فقالت: لا ارضى حتى اشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاخذ ابي بيدي وانا غلام فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إن ام هذا ابنة رواحة طلبت مني بعض الموهبة وقد اعجبها ان اشهدك على ذلك، قال: يا بشير الك ابن غير هذا، قال: نعم، قال: فوهبت له مثل ما وهبت لهذا، قال: لا، قال: فلا تشهدني إذا فإني لا اشهد على جور". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ، قَالَ: سَأَلَتْ أُمِّي أَبِي بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ فَوَهَبَهَا لِي، فَقَالَتْ: لَا أَرْضَى حَتَّى أُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَخَذَ أَبِي بِيَدِي وَأَنَا غُلَامٌ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمَّ هَذَا ابْنَةَ رَوَاحَةَ طَلَبَتْ مِنِّي بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ وَقَدْ أَعْجَبَهَا أَنْ أُشْهِدَكَ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: يَا بَشِيرُ أَلَكَ ابْنٌ غَيْرُ هَذَا، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَهَبْتَ لَهُ مِثْلَ مَا وَهَبْتَ لِهَذَا، قَالَ: لَا، قَالَ: فَلَا تُشْهِدْنِي إِذًا فَإِنِّي لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ".
نعمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری ماں نے میرے والد سے مطالبہ کیا کہ میرے بیٹے کو کچھ عطیہ دو، تو انہوں نے: مجھے عطیہ دیا۔ میری ماں نے کہا: میں اس پر راضی (و مطمئن) نہیں ہوں جب تک کہ میں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا دوں، تو میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا، اس وقت میں ایک چھوٹا لڑکا تھا، مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اس بچے کی ماں رواحہ کی بیٹی نے مجھ سے کچھ عطیہ کا مطالبہ کیا ہے اور اس کی خوشی اس میں ہے کہ میں اس پر آپ کو گواہ بنا دوں۔ تو آپ نے فرمایا: ”بشیر! کیا تمہارا اس کے علاوہ بھی کوئی بیٹا ہے؟“، کہا: ہاں، آپ نے پوچھا: ”کیا تم نے جیسا اسے دیا ہے اسے بھی دیا ہے؟“ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”پھر تو تم مجھے گواہ نہ بناؤ، کیونکہ میں ظلم و زیادتی پر گواہ نہیں بنتا“۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا محمد بن عبيد، قال: حدثنا إسماعيل، عن عامر، قال: اخبرت , ان بشير بن سعد اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إن امراتي عمرة بنت رواحة امرتني ان اتصدق على ابنها نعمان بصدقة، وامرتني ان اشهدك على ذلك، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" هل لك بنون سواه؟" قال: نعم، قال:" فاعطيتهم مثل ما اعطيت لهذا؟" قال: لا، قال:" فلا تشهدني على جور". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: أُخْبِرْتُ , أَنَّ بَشِيرَ بْنَ سَعْدٍ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ امْرَأَتِي عَمْرَةَ بِنْتَ رَوَاحَةَ أَمَرَتْنِي أَنْ أَتَصَدَّقَ عَلَى ابْنِهَا نُعْمَانَ بِصَدَقَةٍ، وَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ عَلَى ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ لَكَ بَنُونَ سِوَاهُ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَأَعْطَيْتَهُمْ مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَ لِهَذَا؟" قَالَ: لَا، قَالَ:" فَلَا تُشْهِدْنِي عَلَى جَوْرٍ".
عامر شعبی کہتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی کہ بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے کہا کہ میری بیوی عمرہ بنت رواحہ نے مجھ سے فرمائش کی ہے کہ میں اس کے بیٹے نعمان کو کچھ ہبہ کروں، اور اس کی فرمائش یہ بھی ہے کہ جو میں اسے دوں اس پر آپ کو گواہ بنا دوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس اس کے سوا اور بھی بیٹے ہیں؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے انہیں بھی ویسا ہی دیا ہے جیسا تم نے اس لڑکے کو دیا ہے؟“، انہوں نے کہا: نہیں تو آپ نے فرمایا: ”پھر تو تم مجھے ظلم و زیادتی پر گواہ نہ بناؤ“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3705 (صحیح) (سند میں انقطاع ہے، مگر دیگر سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میں نے اپنے بیٹے کو کچھ ہبہ کیا ہے تو آپ اس پر گواہ ہو جائیے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا اس کے علاوہ بھی تمہارے پاس کوئی اور لڑکا ہے؟“، انہوں نے کہا: جی ہاں، (ہے) آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے انہیں بھی ایسا ہی دیا ہے جیسے تم نے اسے دیا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تو کیا میں ظلم پر گواہی دوں گا؟“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 6580) (صحیح) (یہ مرسل ہے ’’عبداللہ بن عتبہ تابعی ہیں“مگر اگلی سندوں سے یہ روایت صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: تمہارا دوسرے بیٹوں کو محروم کر کے ایک کو دینا اور اس پر مجھ سے گواہ بننے کے لیے کہنا گویا یہ مطالبہ کرنا ہے کہ میں اس ظلم و زیادتی کی تائید کروں۔
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، عن يحيى، عن فطر، قال: حدثني مسلم بن صبيح، قال: سمعت النعمان بن بشير , يقول: ذهب بي ابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشهده على شيء اعطانيه فقال:" الك ولد غيره؟ قال: نعم , وصف بيده بكفه اجمع كذا الا سويت بينهم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ فِطْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ صُبَيْحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ , يَقُولُ: ذَهَبَ بِي أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشْهِدُهُ عَلَى شَيْءٍ أَعْطَانِيهِ فَقَالَ:" أَلَكَ وَلَدٌ غَيْرُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ , وَصَفَّ بِيَدِهِ بِكَفِّهِ أَجْمَعَ كَذَا أَلَا سَوَّيْتَ بَيْنَهُمْ".
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد مجھے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، مجھے ایک چیز دی تھی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چیز پر گواہ بنانا چاہتے تھے جو انہوں نے مجھے دی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے اس لڑکے کے علاوہ بھی کوئی اور لڑکا ہے؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں ہے، آپ نے اپنا پورا ہاتھ ہتھیلی سمیت ایک دم سیدھا پھیلاتے ہوئے فرمایا: ”تم نے اس طرح ان کے درمیان برابری کیوں نہ رکھی ۱؎؟“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن حاتم، قال: انبانا حبان، قال: انبانا عبد الله، عن فطر، عن مسلم بن صبيح، قال: سمعت النعمان , يقول وهو يخطب: انطلق بي ابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يشهده على عطية اعطانيها، فقال:" هل لك بنون سواه؟ قال: نعم , قال: سو بينهم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ فِطْرٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ , يَقُولُ وَهُوَ يَخْطُبُ: انْطَلَقَ بِي أَبِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشْهِدُهُ عَلَى عَطِيَّةٍ أَعْطَانِيهَا، فَقَالَ:" هَلْ لَكَ بَنُونَ سِوَاهُ؟ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: سَوِّ بَيْنَهُمْ".
نعمان رضی الله عنہ نے دوران خطبہ کہا کہ میرے والد مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر گئے، وہ آپ کو ایک عطیہ پر گواہ بنا رہے تھے تو آپ نے پوچھا: ”کیا اس کے علاوہ تمہارے اور بھی بیٹے ہیں؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں (اور بھی بیٹے ہیں) تو آپ نے فرمایا: ”ان کے درمیان انصاف اور برابری کا معاملہ کرو“۔
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”(لوگو!) اپنے بیٹوں کے درمیان انصاف کرو، اپنے بیٹوں کے درمیان انصاف کرو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ اولاد کے درمیان مساوات کا خاص خیال رکھنا چاہیئے گا، مذکورہ احادیث کی روشنی میں علماء اسے واجب قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ زندگی میں عطیہ یا ہبہ اور بخشش کے سلسلے میں لڑکا اور لڑکی کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہیں ہے، اور لڑکی کے دوگنا لڑکے کو دینے کا مسئلہ موت کے بعد وراثت کی تقسیم میں ہے۔ (واللہ اعلم)