سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
37. بَابُ: اللِّعَانِ فِي قَذْفِ الرَّجُلِ زَوْجَتَهُ بِرَجُلٍ بِعَيْنِهِ
37. باب: بیوی پر متعین شخص سے بدکاری کی تہمت پر لعان کے حکم کا بیان۔
Chapter: Li'an Because Of The Man Accusing His Wife (Of Adultery) With A Specific Person
حدیث نمبر: 3498
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عبد الاعلى، قال: سئل هشام عن الرجل يقذف امراته , فحدثنا هشام، عن محمد، قال: سالت انس بن مالك عن ذلك، وانا ارى ان عنده من ذلك علما، فقال: إن هلال بن امية قذف امراته بشريك بن السحماء، وكان اخو البراء بن مالك لامه، وكان اول من لاعن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما، ثم قال:" ابصروه، فإن جاءت به ابيض سبطا قضيء العينين، فهو لهلال بن امية، وإن جاءت به اكحل جعدا احمش الساقين، فهو لشريك بن السحماء"، قال: فانبئت انها جاءت به اكحل جعدا احمش الساقين.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، قَالَ: سُئِلَ هِشَامٌ عَنِ الرَّجُلِ يَقْذِفُ امْرَأَتَهُ , فَحَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ ذَلِكَ، وَأَنَا أَرَى أَنَّ عِنْدَهُ مِنْ ذَلِكَ عِلْمًا، فَقَالَ: إِنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ بِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ، وَكَانَ أَخُو الْبَرَاءِ بْنِ مَالِكٍ لِأُمِّهِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ قَالَ:" ابْصُرُوهُ، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَبْيَضَ سَبِطًا قَضِيءَ الْعَيْنَيْنِ، فَهُوَ لِهِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا أَحْمَشَ السَّاقَيْنِ، فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ"، قَالَ: فَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا أَحْمَشَ السَّاقَيْنِ.
عبدالاعلیٰ کہتے ہیں کہ ہشام سے ایک ایسے شخص سے متعلق پوچھا گیا جو اپنی بیوی پر زنا و بدکاری کا تہمت لگاتا ہے تو ہشام نے (اس کے جواب میں) محمد بن سیرین سے حدیث بیان کی کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا اور یہ سمجھ کر پوچھا کہ ان کے پاس اس کے بارے میں کچھ علم ہو گا تو انہوں نے کہا: ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو شریک بن سحماء کے ساتھ بدکاری میں ملوث ٹھہرایا۔ بلال براء بن مالک کے ماں کے واسطہ سے بھائی تھے اور یہ پہلے شخص تھے جن ہوں نے لعان کیا ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کا حکم دیا۔ پھر فرمایا: بچے پر نظر رکھو اگر وہ بچہ جنے گورا چٹا، لٹکے ہوئے بالوں اور خراب آنکھوں والا تو سمجھو کہ وہ ہلال بن امیہ کا بیٹا ہے اور اگر وہ سرمئی آنکھوں والا، گھونگھریالے بالوں والا اور پتلی ٹانگوں والا بچہ جنے تو (سمجھو) وہ شریک بن سحماء کا ہے۔ وہ (یعنی انس رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں: مجھے خبر دی گئی کہ اس نے سرمئی آنکھوں والا، گھونگھریالے بالوں والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ چنا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللعان 1 (1496)، (تحفة الأشراف: 1461)، مسند احمد (3/142) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ان سے پہلے کسی نے لعان نہیں کیا تھا ان کے لعان کرنے سے لعان کا طریقہ معلوم ہوا۔ ۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ حالت حمل میں حاملہ عورت سے لعان کرنا منع نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
38. بَابُ: كَيْفَ اللِّعَانُ
38. باب: لعان کس طرح کیا جائے؟
Chapter: How Li'an Is Carried Out
حدیث نمبر: 3499
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمران بن يزيد، قال: حدثنا مخلد بن حسين الازدي، قال: حدثنا هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن انس بن مالك، قال: إن اول لعان كان في الإسلام: ان هلال بن امية قذف شريك بن السحماء بامراته، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبره بذلك فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" اربعة شهداء، وإلا فحد في ظهرك يردد ذلك عليه مرارا، فقال له هلال: والله يا رسول الله، إن الله عز وجل ليعلم اني صادق، ولينزلن الله عز وجل عليك ما يبرئ ظهري من الجلد، فبينما هم كذلك إذ نزلت عليه آية اللعان: والذين يرمون ازواجهم سورة النور آية 6 , إلى آخر الآية، فدعا هلالا، فشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم دعيت المراة فشهدت اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين، فلما ان كان في الرابعة او الخامسة , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وقفوها، فإنها موجبة، فتلكات حتى ما شككنا انها ستعترف، ثم قالت: لا افضح قومي سائر اليوم، فمضت على اليمين , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انظروها، فإن جاءت به ابيض سبطا قضيء العينين فهو لهلال بن امية، وإن جاءت به آدم جعدا ربعا حمش الساقين فهو لشريك بن السحماء، فجاءت به آدم جعدا ربعا حمش الساقين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لولا ما سبق فيها من كتاب الله، لكان لي ولها شان"، قال الشيخ: والقضيء: طويل شعر العينين، ليس بمفتوح العين، ولا جاحظهما، والله سبحانه وتعالى اعلم.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ حُسَيْنٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: إِنَّ أَوَّلَ لِعَانٍ كَانَ فِي الْإِسْلَامِ: أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ شَرِيكَ بْنَ السَّحْمَاءِ بِامْرَأَتِهِ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْبَعَةَ شُهَدَاءَ، وَإِلَّا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ يُرَدِّدُ ذَلِكَ عَلَيْهِ مِرَارًا، فَقَالَ لَهُ هِلَالٌ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَعْلَمُ أَنِّي صَادِقٌ، وَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكَ مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الْجَلْدِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ آيَةُ اللِّعَانِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6 , إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَدَعَا هِلَالًا، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ دُعِيَتِ الْمَرْأَةُ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ فِي الرَّابِعَةِ أَوِ الْخَامِسَةِ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَقِّفُوهَا، فَإِنَّهَا مُوجِبَةٌ، فَتَلَكَّأَتْ حَتَّى مَا شَكَكْنَا أَنَّهَا سَتَعْتَرِفُ، ثُمَّ قَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَمَضَتْ عَلَى الْيَمِينِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْظُرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَبْيَضَ سَبِطًا قَضِيءَ الْعَيْنَيْنِ فَهُوَ لِهِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ آدَمَ جَعْدًا رَبْعًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ، فَجَاءَتْ بِهِ آدَمَ جَعْدًا رَبْعًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْلَا مَا سَبَقَ فِيهَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ"، قَالَ الشَّيْخُ: وَالْقَضِيءُ: طَوِيلُ شَعْرِ الْعَيْنَيْنِ، لَيْسَ بِمَفْتُوحِ الْعَيْنِ، وَلَا جَاحِظِهِمَا، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلا لعان ہلال بن امیہ کا اس طرح ہوا کہ انہوں نے شریک بن سمحاء پر اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو اس بات کی خبر دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: چار گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی (کوڑے پڑیں گے) آپ نے یہ بات بارہا کہی، ہلال نے آپ سے کہا: قسم اللہ کی، اللہ کے رسول! اللہ عزوجل بخوبی جانتا ہے کہ میں سچا ہوں اور (مجھے یقین ہے) اللہ بزرگ و برتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ایسا حکم ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو کوڑے کھانے سے بچا دے گا، ہم سب یہی باتیں آپس میں کر ہی رہے تھے کہ آپ پر لعان کی آیت: «والذين يرمون أزواجهم» ۔ آخر تک نازل ہوئی ۱؎ آیت نازل ہونے کے بعد آپ نے ہلال کو بلایا، انہوں نے اللہ کا نام لے کر (یعنی قسم کھا کر) چار گواہیاں دیں کہ وہ سچے لوگوں میں سے ہیں اور پانچویں بار انہوں نے کہا کہ ان پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹے لوگوں میں سے ہوں، پھر عورت بلائی گئی اور اس نے بھی چار بار اللہ کا نام لے کر (قسم کھا کر) چار گواہیاں دیں کہ وہ (شوہر) جھوٹوں میں سے ہے (راوی کو شک ہو گیا) چوتھی بار یا پانچویں بار قسم کھانے کا جب موقع آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ذرا) اسے روکے رکھو (آخری قسم کھانے سے پہلے اسے خوب سوچ سمجھ لینے دو ہو سکتا ہے وہ سچائی کا اعتراف کر لے) کیونکہ یہ گواہی (اللہ کی لعنت و غضب کو) واجب و لازم کر دے گی، وہ رکی اور ہچکائی تو ہم نے شک کیا (سمجھا) کہ (شاید) وہ اعتراف گناہ کر لے گی، مگر وہ بولی: میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے شرمندہ، رسوا و ذلیل نہیں کر سکتی، یہ کہہ کر (آخری) قسم بھی کھا گئی۔ (اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے دیکھتے رہو اگر وہ سفید (گورا) لٹکے ہوئے بالوں اور خراب آنکھوں والا بچہ جنے تو (سمجھو کہ) وہ ہلال بن امیہ کا لڑکا ہے اور اگر وہ بچہ گندم گوں، پیچیدہ الجھے ہوئے بالوں والا، میانہ قد کا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنے تو (سمجھو) وہ شریک بن سحماء کا ہے۔ تو اس عورت نے گندمی رنگ کا گھونگھریالے بالوں والا، درمیانی سائز کا، پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنا، (اس کے جننے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس معاملے میں اللہ کا فیصلہ نہ آ چکا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔ (یعنی میں اس پر حد قائم کر کے رہتا)۔ واللہ اعلم

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي وانظر ماقبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں (النور: ۶)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت لعان ہلال رضی الله عنہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے وقت نازل ہوئی جب کہ عاصم رضی الله عنہ کی حدیث رقم (۳۴۹۶) میں ہے کہ یہ آیت عویمر رضی الله عنہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ یہ واقعہ سب سے پہلے ہلال کے ساتھ پیش آیا پھر اس کے بعد عویمر بھی اس سے دو چار ہوئے پس یہ آیت ایک ساتھ دونوں سے متعلق نازل ہوئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
39. بَابُ: قَوْلِ الإِمَامِ اللَّهُمَّ بَيِّنْ
39. باب: امام اور حاکم یہ کہے کہ اے اللہ تو اس معاملے کو واضح فرما دے۔
Chapter: The Imam Saying: "O Allah, Make It Clear To Me"
حدیث نمبر: 3500
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عيسى بن حماد، قال: انبانا الليث، عن يحيى بن سعيد، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن القاسم بن محمد، عن ابن عباس، انه قال:" ذكر التلاعن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عاصم بن عدي في ذلك قولا ثم انصرف، فاتاه رجل من قومه يشكو إليه: انه وجد مع امراته رجلا، قال عاصم: ما ابتليت بهذا إلا بقولي، فذهب به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبره بالذي وجد عليه امراته، وكان ذلك الرجل مصفرا قليل اللحم سبط الشعر، وكان الذي ادعى عليه، انه وجده عند اهله آدم خدلا كثير اللحم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم بين، فوضعت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها انه وجده عندها، فلاعن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما" , فقال رجل لابن عباس في المجلس: اهي التي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو رجمت احدا بغير بينة رجمت هذه، قال ابن عباس: لا تلك امراة كانت تظهر في الإسلام الشر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ:" ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ: أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، قَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا إِلَّا بِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبِطَ الشَّعْرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ، أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَ أَهْلِهِ آدَمَ خَدْلًا كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ بَيِّنْ، فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا" , فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الْإِسْلَامِ الشَّرَّ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لعان کا ذکر آیا، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں کوئی بات کہی پھر وہ چلے گئے تو ان کے پاس ان کی قوم کا ایک شخص شکایت لے کر آیا کہ اس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے، یہ بات سن کر عاصم رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میں اپنی بات کی وجہ سے اس آزمائش میں ڈال دیا گیا ۱؎ تو وہ اس آدمی کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور اس نے آپ کو اس آدمی کے متعلق خبر دی جس کے ساتھ اپنی بیوی کو ملوث پایا تھا۔ یہ آدمی (یعنی شوہر) زردی مائل، کم گوشت والا (چھریرا بدن) سیدھے بالوں والا تھا اور وہ شخص جس کو اپنی بیوی کے پاس پانے کا مجرم قرار دیا تھا وہ شخص گندمی رنگ، بھری پنڈلیوں والا، زیادہ گوشت والا (موٹا بدن) تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللہم بین» اے اللہ معاملہ کو واضح کر دے، تو اس عورت نے اس شخص کے مشابہہ بچہ جنا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کرنے کا حکم دیا۔ اس مجلس کے ایک آدمی نے جس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی کہا: (ابن عباس!) کیا یہ عورت وہی تھی جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اگر میں کسی کو بغیر ثبوت کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کر دیتا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نہیں، یہ عورت وہ عورت نہیں ہے۔ وہ عورت وہ تھی جو اسلام میں شر پھیلاتی تھی ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 31 (5310)، 36 (5316)، الحدود 43 (6856)، صحیح مسلم/اللعان 1 (1297)، (تحفة الأشراف: 6328) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی نہ میں کہتا اور نہ یہ شخص میرے پاس یہ مقدمہ و قضیہ لے کر آتا۔ ۲؎: یعنی فاحشہ تھی، بدکاری کرتی تھی لیکن اس کے خلاف ثبوت نہیں تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 3501
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا يحيى بن محمد بن السكن، قال: حدثنا محمد بن جهضم، عن إسماعيل بن جعفر، عن يحيى، قال: سمعت عبد الرحمن بن القاسم يحدث، عن ابيه، عن عبد الله بن عباس، انه قال:" ذكر التلاعن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عاصم بن عدي في ذلك قولا ثم انصرف، فلقيه رجل من قومه، فذكر: انه وجد مع امراته رجلا، فذهب به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبره بالذي وجد عليه امراته، وكان ذلك الرجل: مصفرا قليل اللحم سبط الشعر، وكان الذي ادعى عليه: انه وجد عند اهله آدم خدلا كثير اللحم، جعدا قططا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم بين، فوضعت شبيها بالذي ذكر زوجها انه وجده عندها، فلاعن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما، فقال: رجل لابن عباس في المجلس، اهي التي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو رجمت احدا بغير بينة رجمت هذه، قال ابن عباس: لا تلك امراة كانت تظهر الشر في الإسلام".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ:" ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَقِيَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَذَكَرَ: أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ: مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبِطَ الشَّعْرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ: أَنَّهُ وَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ آدَمَ خَدْلًا كَثِيرَ اللَّحْمِ، جَعْدًا قَطَطًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ بَيِّنْ، فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ: رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ، أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ الشَّرَّ فِي الْإِسْلَامِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لعان کی بات آئی تو عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے اس معاملے میں کوئی بات کہی پھر واپس چلے گئے، ان کی قوم کا ایک آدمی ان کے پاس پہنچا اور اس نے انہیں بتایا کہ اس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ (زنا کرتا ہوا) پایا ہے تو وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر گئے، اس نے آپ کو اس شخص سے باخبر کیا جس کے ساتھ اپنی بیوی کو پایا تھا۔ یہ آدمی (یعنی شوہر) زردی مائل، دبلا، سیدھے بالوں والا تھا اور وہ شخص جس کے متعلق اس نے کہا تھا کہ وہ اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے گندمی رنگ، بھری ہوئی پنڈلیوں والا، فربہ، گھونگھریالے چھوٹے بالوں والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللھم بیّن» اے اللہ تو اسے واضح کر دے پھر اس نے بچہ جنا، وہ بچہ بالکل اسی طرح تھا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کا حکم دیا، ایک آدمی نے جو (اس وقت) مجلس میں موجود تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ اگر میں کسی کو بغیر ثبوت کے رجم کرتا تو اس عورت کو کر دیتا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نہیں، یہ عورت تو اسلام میں رہتے ہوئے شر پھیلاتی تھی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3500 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی بدکاری کراتی تھی، لیکن اقرار اور ثبوت نہ ہونے کے باعث قانون کی گرفت سے بچی ہوئی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
40. بَابُ: الأَمْرِ بِوَضْعِ الْيَدِ عَلَى فِي الْمُتَلاَعِنَيْنِ عِنْدَ الْخَامِسَةِ
40. باب: لعان کرنے والے پانچویں بار جب قسم کھانے چلیں تو ان کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں روکنے کی کوشش کرنے کا حکم۔
Chapter: The Command To Place The Hand Over The Mouth Of The Two Who Are Engaging In Li'an When They Utter Th
حدیث نمبر: 3502
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا علي بن ميمون، قال: حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن ابيه، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" امر رجلا حين امر المتلاعنين ان يتلاعنا: ان يضع يده عند الخامسة على فيه، وقال: إنها موجبة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَرَ رَجُلًا حِينَ أَمَرَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ أَنْ يَتَلَاعَنَا: أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ عَلَى فِيهِ، وَقَالَ: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دو لعان کرنے والوں کو لعان کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص کو (یہ بھی) حکم دیا کہ جب پانچویں قسم کھانے کا وقت آئے تو لعان کرنے والے کے منہ پر ہاتھ رکھ دے ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قسم اللہ کی لعنت و غضب کو لازم کر دے گی ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق27 (2255)، (تحفة الأشراف: 6372) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: تاکہ وہ ایک بار پھر سوچ لے کہ وہ کتنی بڑی اور بھیانک قسم کھانے جا رہا ہے۔ ۲؎: یعنی جھوٹے ہوں گے تو اللہ کی لعنت و غضب کے سزاوار ہونے سے بچ نہ سکیں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
41. بَابُ: عِظَةِ الإِمَامِ الرَّجُلَ وَالْمَرْأَةَ عِنْدَ اللِّعَانِ
41. باب: لعان کرتے وقت امام اور حاکم مرد اور عورت کو سمجھائے اور نصیحت کرے۔
Chapter: The Imam Exhorting The Man And Woman At The Time of Li'an
حدیث نمبر: 3503
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، ومحمد بن المثنى، قالا: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا عبد الملك بن ابي سليمان، قال: سمعت سعيد بن جبير، يقول:" سئلت عن المتلاعنين في إمارة ابن الزبير: ايفرق بينهما؟ فما دريت ما اقول، فقمت من مقامي إلى منزل ابن عمر، فقلت: يا ابا عبد الرحمن، المتلاعنين: ايفرق بينهما؟ قال: نعم، سبحان الله، إن اول من سال عن ذلك فلان بن فلان، فقال: يا رسول الله، ارايت؟ ولم يقل عمرو: ارايت الرجل منا يرى على امراته فاحشة، إن تكلم فامر عظيم؟ وقال عمرو: اتى امرا عظيما، وإن سكت سكت على مثل ذلك، فلم يجبه , فلما كان بعد ذلك اتاه، فقال: إن" الامر الذي سالتك ابتليت به، فانزل الله عز وجل هؤلاء الآيات في سورة النور: والذين يرمون ازواجهم سورة النور آية 6 حتى بلغ والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين سورة النور آية 9، فبدا بالرجل، فوعظه، وذكره، واخبره ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقال: والذي بعثك بالحق ما كذبت، ثم ثنى بالمراة، فوعظها، وذكرها، فقالت: والذي بعثك بالحق إنه لكاذب، فبدا بالرجل، فشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم ثنى بالمراة، فشهدت اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين، والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين، ففرق بينهما".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ:" سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ: أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، فَقُمْتُ مِنْ مَقَامِي إِلَى مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، الْمُتَلَاعِنَيْنِ: أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: نَعَمْ، سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ؟ وَلَمْ يَقُلْ عَمْرٌو: أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ مِنَّا يَرَى عَلَى امْرَأَتِهِ فَاحِشَةً، إِنْ تَكَلَّمَ فَأَمْرٌ عَظِيمٌ؟ وَقَالَ عَمْرٌو: أَتَى أَمْرًا عَظِيمًا، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ، فَلَمْ يُجِبْهُ , فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ" الْأَمْرَ الَّذِي سَأَلْتُكَ ابْتُلِيتُ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6 حَتَّى بَلَغَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 9، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَوَعَظَهُ، وَذَكَّرَهُ، وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَوَعَظَهَا، وَذَكَّرَهَا، فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی امارت کے زمانہ میں دو لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا (کہ جب وہ دونوں لعان کر چکیں گے تو) کیا ان دونوں کے درمیان تفریق (جدائی) کر دی جائے گی؟ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا جواب دوں، میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے گھر چلا گیا، میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی جائے گی؟ انہوں نے کہا: ہاں، سبحان اللہ، پاک و برتر ہے ذات اللہ کی۔ سب سے پہلے اس بارے میں فلاں ابن فلاں نے مسئلہ پوچھا تھا (ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کا نام نہیں لیا) اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! ( «ارأیت» عمرو بن علی جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں انہوں نے اپنی روایت میں «ارأیت» کا لفظ نہیں استعمال کیا ہے)، آپ بتائیے ہم میں سے کوئی شخص کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھے (تو کیا کرے؟) اگر وہ زبان کھولتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے ۱؎ اور اگر وہ چپ رہتا ہے تو بھی وہ ایسی بڑی اور بری بات پر چپ رہتا ہے (جو ناقابل برداشت ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا (اس روایت میں ـ «فأمر عظیم» کے الفاظ آئے ہیں، یہ اس روایت کے ایک راوی محمد بن مثنیٰ کے الفاظ ہیں، اس روایت کے دوسرے راوی عمرو بن علی نے اس کے بجائے «اتی امراً عظیماً» کے الفاظ استعمال کیے ہیں)۔ پھر جب اس کے بعد ایسا واقعہ پیش آ گیا تو وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: جس بارے میں، میں نے آپ سے مسئلہ پوچھا تھا میں خود ہی اس سے دوچار ہو گیا، (اس وقت) اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی یہ آیت: «والذين يرمون أزواجهم» سے لے کر «والخامسة أن غضب اللہ عليها إن كان من الصادقين» تک نازل فرمائیں، (اس کارروائی کا) آغاز آپ نے مرد کو وعظ و نصیحت سے کیا، آپ نے اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابل میں ہلکا، آسان اور کم تر ہے۔ اس شخص نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے جھوٹ نہیں کہا ہے، پھر آپ نے عورت کو بھی خطاب کیا، آپ نے اسے بھی وعظ و نصیحت کی، ڈرایا اور آخرت کے سخت عذاب کا خوف دلایا۔ اس نے بھی کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ شخص جھوٹا ہے۔ (اس وعظ و نصیحت کے بعد لعان کی کارروائی روبہ عمل آئی) تو آپ نے (یہ کارروائی) مرد سے شروع کی۔ اس نے اللہ کا نام لے کر چار گواہیاں دیں کہ وہ سچے لوگوں میں سے ہے اور پانچویں بار اس نے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔ پھر آپ نے عورت سے گواہی لینی شروع کی، اس نے بھی اللہ کا نام لے کر چار گواہیاں دیں کہ وہ (شوہر) جھوٹوں میں سے ہے اور اس نے پانچویں بار کہا: اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب نازل ہو اگر وہ (شوہر) سچوں میں سے ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللعان 1 (1493)، سنن الترمذی/الطلاق 22 (1102)، صحیح البخاری/الطلاق 32 (5311)، 35 (5315)، 53 (5350)، الفرائض 17 (6748)، سنن ابی داود/الطلاق 27 (2258)، (تحفة الأشراف: 7058)، مسند احمد (2/12)، سنن الدارمی/النکاح 39 (2275) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس سے کہا جائے گا کہ چار گواہ لاؤ، چار گواہ نہ پیش کر سکو تو کوڑے کھاؤ۔ ۲؎: لعان کرنے والوں کے مابین جدائی کے سلسلہ میں راجح قول یہ ہے کہ لعان کے بعد دونوں کے مابین جدائی ہو جائے گی، حاکم کے فیصلہ کی ضرورت نہیں، تفصیل کے لیے دیکھئیے زادالمعاد (۵/۳۸۸)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
42. بَابُ: التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ
42. باب: لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان تفریق کر دینے کا بیان۔
Chapter: Separating The Two Who Engage In Li'an
حدیث نمبر: 3504
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، ومحمد بن المثنى واللفظ له , قالا: حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن عزرة، عن سعيد بن جبير، قال: لم يفرق المصعب بين المتلاعنين، قال سعيد: فذكرت ذلك لابن عمر، فقال:" فرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اخوي بني العجلان".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَاللَّفْظُ لَهُ , قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: لَمْ يُفَرِّقْ الْمُصْعَبُ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، قَالَ سَعِيدٌ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ:" فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب نے دو لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق نہیں کی (لعان کے بعد انہیں ایک ساتھ رہنے دیا)۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عجلان کے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے مابین تفریق کر دی تھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللعان 1 (1493)، (تحفة الأشراف: 7061) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
43. بَابُ: اسْتِتَابَةِ الْمُتَلاَعِنَيْنِ بَعْدَ اللِّعَانِ
43. باب: لعان کرنے والے مرد اور عورت سے لعان کے بعد توبہ کرانے کا بیان۔
Chapter: Asking The Two Who Engaged In Li'an To Repent After Li'an
حدیث نمبر: 3505
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا زياد بن ايوب، قال: حدثنا ابن علية، عن ايوب، عن سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عمر: رجل قذف امراته، قال: فرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اخوي بني العجلان، وقال:" الله يعلم إن احدكما كاذب، فهل منكما تائب؟ قال لهما ثلاثا: فابيا، ففرق بينهما"، قال ايوب: وقال عمرو بن دينار: إن في هذا الحديث شيئا لا اراك تحدث به، قال: قال الرجل: مالي، قال: لا مال لك، إن كنت صادقا فقد دخلت بها، وإن كنت كاذبا فهي ابعد منك".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، قَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ:" اللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ قَالَ لَهُمَا ثَلَاثًا: فَأَبَيَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا"، قَالَ أَيُّوبُ: وَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: إِنَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ شَيْئًا لَا أَرَاكَ تُحَدِّثُ بِهِ، قَالَ: قَالَ الرَّجُلُ: مَالِي، قَالَ: لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا فَقَدْ دَخَلْتَ بِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَهِيَ أَبْعَدُ مِنْكَ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: کسی نے اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگایا (تو کیا کرے)؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان کے ایک مرد اور عورت کے مابین تفریق کر دی تھی۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کا ارادہ رکھتا ہے، آپ نے یہ بات ان دونوں سے تین بار کہی پھر بھی ان دونوں نے (توبہ کرنے سے) انکار کیا تو آپ نے ان دونوں کے مابین جدائی کر دی۔ (ایوب کہتے ہیں: عمرو بن دینار نے کہا: اس حدیث میں ایک ایسی بات ہے، میں نہیں سمجھتا کہ تم اسے بیان کرو گے؟ کہتے ہیں: اس شخص نے کہا: میرے مال کا کیا ہو گا (ملے گا یا نہیں)؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ تو اپنی بات میں سچا ہو پھر بھی تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا کیونکہ تو اس کے ساتھ دخول کر چکا ہے اور اگر اپنی بات میں تو جھوٹا ہے تو تیری جانب مال کا واپس ہونا بعید ترشئی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 32 (5311)، 33 (5312)، 53 (5349)، صحیح مسلم/اللعان 1 (1493) مختصراً، سنن ابی داود/الصلاة 27 (2258)، (تحفة الأشراف: 7050)، مسند احمد (1/75، 2/4، 37) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ اس عورت سے فائدہ اٹھایا، اس پر تہمت لگائی اور پھر مال کی حرص بھی رکھتا ہے، اس لیے تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
44. بَابُ: اجْتِمَاعِ الْمُتَلاَعِنَيْنِ
44. باب: لعان کرنے والے مرد اور عورت کا دوبارہ اجتماع (ممکن ہے یا نہیں؟)۔
Chapter: Can The Two Who Have Engaged In The Procedure Of Li'an Stay Together?
حدیث نمبر: 3506
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، عن عمرو، قال: سمعت سعيد بن جبير , يقول: سالت ابن عمر عن المتلاعنين، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للمتلاعنين:" حسابكما على الله احدكما كاذب، ولا سبيل لك عليها"، قال: يا رسول الله، مالي، قال:" لا مال لك، إن كنت صدقت عليها، فهو بما استحللت من فرجها، وإن كنت كذبت عليها، فذاك ابعد لك".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ , يَقُولُ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَقَالَ: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ:" حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، وَلَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي، قَالَ:" لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا، فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا، فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لعان کرنے والوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں سے کہا: تمہارا حساب تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ تم میں سے کوئی ایک ضرور جھوٹا ہے، (مرد سے کہا:) تمہارا اب اس (عورت) پر کچھ حق و اختیار نہیں ہے ۱؎، مرد نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: تمہارا کوئی مال نہیں ہے۔ اگر تم نے اس پر صحیح تہمت لگائی ہے تو تم نے اب تک اس کی شرمگاہ سے حلت کا جو فائدہ حاصل کیا ہے وہ مال اس کا بدل ہو گیا اور اگر تم نے اس عورت پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو یہ تو تمہارے لیے اور بھی غیر مناسب ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 33 (5312)، 53 (5350)، صحیح مسلم/اللعان 1 (1493)، سنن ابی داود/الطلاق 27 (2257)، (تحفة الأشراف: 7051)، مسند احمد 2/11) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ لعان کے بعد دونوں میں جدائی ہمیشہ ہمیش کے لیے ہو جائے گی، حدیث رسول اور اقوال صحابہ سے یہی ثابت ہے۔ ۲؎: یعنی تو نے اس کی شرمگاہ کو حلال بھی کیا، اس پر جھوٹا الزام بھی لگایا اور اس سے اپنا مال بھی لینے وپانے کا متمنی ہے یہ تو اور بھی غیر ممکن ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
45. بَابُ: نَفْىِ الْوَلَدِ بِاللِّعَانِ وَإِلْحَاقِهِ بِأُمِّهِ
45. باب: لعان کے ذریعہ بیٹے کا انکار اور اسے ماں کے حوالے کرنے کا بیان۔
Chapter: Denying The Child Through Li'an, And Attributing Him To His Mother
حدیث نمبر: 3507
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال:" لاعن رسول الله صلى الله عليه وسلم بين رجل وامراته، وفرق بينهما، والحق الولد بالام".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" لَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَتِهِ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْأُمِّ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کا حکم دیا اور ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی اور بچے کو ماں کی سپردگی میں دے دیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 35 (5315)، الفرائض 17 (6748)، صحیح مسلم/اللعان 1 (1494)، سنن ابی داود/الطلاق 27 (2259)، سنن الترمذی/الطلاق 22 (1203)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 27 (2069)، (تحفة الأشراف: 8322)، موطا امام مالک/الطلاق 13 (35)، مسند احمد (2/7، 38، 64، 71)، سنن الدارمی/النکاح 39 (2278) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    5    6    7    8    9    10    11    12    13    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.