(مرفوع) اخبرنا عمران بن يزيد، قال: حدثنا مخلد بن حسين الازدي، قال: حدثنا هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن انس بن مالك، قال: إن اول لعان كان في الإسلام: ان هلال بن امية قذف شريك بن السحماء بامراته، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبره بذلك فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" اربعة شهداء، وإلا فحد في ظهرك يردد ذلك عليه مرارا، فقال له هلال: والله يا رسول الله، إن الله عز وجل ليعلم اني صادق، ولينزلن الله عز وجل عليك ما يبرئ ظهري من الجلد، فبينما هم كذلك إذ نزلت عليه آية اللعان: والذين يرمون ازواجهم سورة النور آية 6 , إلى آخر الآية، فدعا هلالا، فشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم دعيت المراة فشهدت اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين، فلما ان كان في الرابعة او الخامسة , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وقفوها، فإنها موجبة، فتلكات حتى ما شككنا انها ستعترف، ثم قالت: لا افضح قومي سائر اليوم، فمضت على اليمين , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انظروها، فإن جاءت به ابيض سبطا قضيء العينين فهو لهلال بن امية، وإن جاءت به آدم جعدا ربعا حمش الساقين فهو لشريك بن السحماء، فجاءت به آدم جعدا ربعا حمش الساقين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لولا ما سبق فيها من كتاب الله، لكان لي ولها شان"، قال الشيخ: والقضيء: طويل شعر العينين، ليس بمفتوح العين، ولا جاحظهما، والله سبحانه وتعالى اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ حُسَيْنٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: إِنَّ أَوَّلَ لِعَانٍ كَانَ فِي الْإِسْلَامِ: أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ شَرِيكَ بْنَ السَّحْمَاءِ بِامْرَأَتِهِ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْبَعَةَ شُهَدَاءَ، وَإِلَّا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ يُرَدِّدُ ذَلِكَ عَلَيْهِ مِرَارًا، فَقَالَ لَهُ هِلَالٌ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَعْلَمُ أَنِّي صَادِقٌ، وَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكَ مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الْجَلْدِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ آيَةُ اللِّعَانِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6 , إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَدَعَا هِلَالًا، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ دُعِيَتِ الْمَرْأَةُ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ فِي الرَّابِعَةِ أَوِ الْخَامِسَةِ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَقِّفُوهَا، فَإِنَّهَا مُوجِبَةٌ، فَتَلَكَّأَتْ حَتَّى مَا شَكَكْنَا أَنَّهَا سَتَعْتَرِفُ، ثُمَّ قَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَمَضَتْ عَلَى الْيَمِينِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْظُرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَبْيَضَ سَبِطًا قَضِيءَ الْعَيْنَيْنِ فَهُوَ لِهِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ آدَمَ جَعْدًا رَبْعًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ، فَجَاءَتْ بِهِ آدَمَ جَعْدًا رَبْعًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْلَا مَا سَبَقَ فِيهَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ"، قَالَ الشَّيْخُ: وَالْقَضِيءُ: طَوِيلُ شَعْرِ الْعَيْنَيْنِ، لَيْسَ بِمَفْتُوحِ الْعَيْنِ، وَلَا جَاحِظِهِمَا، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلا لعان ہلال بن امیہ کا اس طرح ہوا کہ انہوں نے شریک بن سمحاء پر اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو اس بات کی خبر دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”چار گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی (کوڑے پڑیں گے)“ آپ نے یہ بات بارہا کہی، ہلال نے آپ سے کہا: قسم اللہ کی، اللہ کے رسول! اللہ عزوجل بخوبی جانتا ہے کہ میں سچا ہوں اور (مجھے یقین ہے) اللہ بزرگ و برتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ایسا حکم ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو کوڑے کھانے سے بچا دے گا، ہم سب یہی باتیں آپس میں کر ہی رہے تھے کہ آپ پر لعان کی آیت: «والذين يرمون أزواجهم» ۔ آخر تک نازل ہوئی ۱؎ آیت نازل ہونے کے بعد آپ نے ہلال کو بلایا، انہوں نے اللہ کا نام لے کر (یعنی قسم کھا کر) چار گواہیاں دیں کہ وہ سچے لوگوں میں سے ہیں اور پانچویں بار انہوں نے کہا کہ ان پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹے لوگوں میں سے ہوں، پھر عورت بلائی گئی اور اس نے بھی چار بار اللہ کا نام لے کر (قسم کھا کر) چار گواہیاں دیں کہ وہ (شوہر) جھوٹوں میں سے ہے (راوی کو شک ہو گیا) چوتھی بار یا پانچویں بار قسم کھانے کا جب موقع آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ذرا) اسے روکے رکھو (آخری قسم کھانے سے پہلے اسے خوب سوچ سمجھ لینے دو ہو سکتا ہے وہ سچائی کا اعتراف کر لے) کیونکہ یہ گواہی (اللہ کی لعنت و غضب کو) واجب و لازم کر دے گی“، وہ رکی اور ہچکائی تو ہم نے شک کیا (سمجھا) کہ (شاید) وہ اعتراف گناہ کر لے گی، مگر وہ بولی: میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے شرمندہ، رسوا و ذلیل نہیں کر سکتی، یہ کہہ کر (آخری) قسم بھی کھا گئی۔ (اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے دیکھتے رہو اگر وہ سفید (گورا) لٹکے ہوئے بالوں اور خراب آنکھوں والا بچہ جنے تو (سمجھو کہ) وہ ہلال بن امیہ کا لڑکا ہے اور اگر وہ بچہ گندم گوں، پیچیدہ الجھے ہوئے بالوں والا، میانہ قد کا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنے تو (سمجھو) وہ شریک بن سحماء کا ہے“۔ تو اس عورت نے گندمی رنگ کا گھونگھریالے بالوں والا، درمیانی سائز کا، پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنا، (اس کے جننے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس معاملے میں اللہ کا فیصلہ نہ آ چکا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔ (یعنی میں اس پر حد قائم کر کے رہتا)“۔ واللہ اعلم
وضاحت: ۱؎: جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں (النور: ۶)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت لعان ہلال رضی الله عنہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے وقت نازل ہوئی جب کہ عاصم رضی الله عنہ کی حدیث رقم (۳۴۹۶) میں ہے کہ یہ آیت عویمر رضی الله عنہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ یہ واقعہ سب سے پہلے ہلال کے ساتھ پیش آیا پھر اس کے بعد عویمر بھی اس سے دو چار ہوئے پس یہ آیت ایک ساتھ دونوں سے متعلق نازل ہوئی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3499
اردو حاشہ: (1)”حد لگے گی“ کیونکہ عام افراد کے لیے یہی حکم ہے کہ اگر چار گواہ پیش نہ کیے جاسکیں تو الزام لگانے والے کو قذف کی حد اسی (80) کوڑے لگائے جائیں گے۔ خاوندوں کا خصوصی حکم ابھی نہیں اترا تھا۔ (2)”پانچویں قسم“ عورت کی پانچویں قسم اس طرح ہوگی کہ اگر یہ (میرا خاوند) سچا ہو تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو۔ (3)”لکھا نہ جا چکا ہوتا“ کہ قسمیں کھانے کے بعد کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا‘ خواہ ان میں سے کسی ایک کا جھوٹ صراحتاً ہوجائے جبکہ گواہ نہ ہوں۔ (4) میاں بیوی کے علاوہ کسی اور میں لعان نہیں ہوسکتا کیونکہ نص خاص ان کے بارے میں ہے۔ (5) جج ظاہری دلائل اور شہادتوں کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ اصل حقیقت اللہ بہتر جانتا ہے۔ وہ ایسے معاملات سے خود نمٹے گا۔ (6) لعان قاضی یا جج کی موجودگی میں ہوگا اور اس وقت لوگوں کا ایک مجمع بھی ہو۔ (7) لعان مدخول بہا اور غیر مدخول بہا دونوں کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ ابن منذر رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3499