(مرفوع) اخبرني محمد بن آدم، قال: حدثنا ابو معاوية، عن هشام، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، قالت: كان في بريرة ثلاث قضيات، اراد اهلها ان يبيعوها ويشترطوا الولاء، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اشتريها، واعتقيها، فإنما الولاء لمن اعتق"، واعتقت،" فخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاختارت نفسها"، وكان يتصدق عليها، فتهدي لنا منه، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" كلوه فإنه عليها صدقة، وهو لنا هدية". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ قَضِيَّاتٍ، أَرَادَ أَهْلُهَا أَنْ يَبِيعُوهَا وَيَشْتَرِطُوا الْوَلَاءَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" اشْتَرِيهَا، وَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَأُعْتِقَتْ،" فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا"، وَكَانَ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهَا، فَتُهْدِي لَنَا مِنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" كُلُوهُ فَإِنَّهُ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی ذات سے تین قضیے (مسئلے) سامنے آئے: بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکان نے ان کو بیچ دینا اور ان کی ولاء (وراثت) کا شرط لگانا چاہا، میں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”(ان کے شرط لگانے سے کچھ نہیں ہو گا) تم اسے خرید لو اور اسے آزاد کر دو، ولاء (میراث) اس کا حق ہے جو اسے آزاد کرے“، اور وہ (خرید کر) آزاد کر دی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے آپ کو منتخب کر لیا (یعنی اپنے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا)، اسے صدقہ دیا جاتا تھا تو اس صدقہ میں ملی ہوئی چیز میں سے ہمیں ہدیہ بھیجا کرتی تھی، میں نے یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ نے فرمایا: ”اسے کھاؤ وہ (چیز) اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: اشتريت بريرة، فاشترط اهلها ولاءها، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال:" اعتقيها، فإنما الولاء لمن اعطى الورق"، قالت: فاعتقتها، فدعاها رسول الله صلى الله عليه وسلم فخيرها من زوجها، قالت: لو اعطاني كذا وكذا ما اقمت عنده، فاختارت نفسها، وكان زوجها حرا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اشْتَرَيْتُ بَرِيرَةَ، فَاشْتَرَطَ أَهْلُهَا وَلَاءَهَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْطَى الْوَرِقَ"، قَالَتْ: فَأَعْتَقْتُهَا، فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا، قَالَتْ: لَوْ أَعْطَانِي كَذَا وَكَذَا مَا أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو اس کے (بیچنے والے) مالکان نے اس کی ولاء (وراثت) کی شرط لگائی (کہ اس کے مرنے کا ترکہ ہم پائیں گے)، میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اسے آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرے (یعنی لونڈی یا غلام خرید کر آزاد کرے)، چنانچہ میں نے اسے آزاد کر دیا پھر (میرے آزاد کر دینے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا اختیار دیا۔ اس نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا اتنا دیں تب بھی میں ان کے پاس نہیں رہوں گی، اس نے اپنے حق خود اختیاری کا استعمال کیا (اور علیحدگی ہو گئی)، اس کا شوہر آزاد شخص تھا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عائشہ رضی الله عنہا سے ایک دوسری حدیث رقم (۳۴۸۱) میں بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر سے متعلق آیا ہے «وکان عبدا» یعنی وہ آزاد نہیں بلکہ غلام تھے، اسی طرح ابن عباس کی حدیث میں بھی ہے کہ وہ غلام تھے۔ اس لیے اس سلسلہ میں مناسب اور معقول توجیہ یہ ہے کہ وہ غلام تھے پھر آزاد کر دئے گئے، جن کو ان کی آزادی کی اطلاع نہیں ملی انہوں نے اصل کی بنیاد پر انہیں عبد کہا، ممکن ہے عائشہ رضی الله عنہا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔ صحیح روایات کی موجودگی کہ بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر آزاد تھے، اس حدیث میں یہ ذکر کرنا کہ وہ آزاد تھے شاذ اور ضعیف ہے اس لیے کہ یہ ثقات کی روایت کے خلاف ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله وكان زوجها حرا فإنه شاذ
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، عن عبد الرحمن , قال: حدثنا شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة: انها ارادت ان تشتري بريرة، فاشترطوا ولاءها، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اشتريها، واعتقيها، فإن الولاء لمن اعتق"، واتي بلحم، فقيل: إن هذا مما تصدق به على بريرة، فقال:" هو لها صدقة، ولنا هدية، وخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم"، وكان زوجها حرا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، فَاشْتَرَطُوا وَلَاءَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" اشْتَرِيهَا، وَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَأُتِيَ بِلَحْمٍ، فَقِيلَ: إِنَّ هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ:" هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ، وَلَنَا هَدِيَّةٌ، وَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے ولاء (میراث) خود لینے کی شرط رکھی، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے خرید لو اور آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے ۱؎، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانے کے لیے) گوشت لایا گیا اور بتا بھی دیا گیا کہ یہ اس گوشت میں سے ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں دیا گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے لیے صدقہ ہے، ہمارے لیے تو ہدیہ و تحفہ ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی بریرہ کو) اختیار دیا، بریرہ کا شوہر آزاد شخص تھا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2615) (صحیح دون قولہ: ’’…حرا‘‘ والمحفوظ أنہ کان عبدا مملوکا کما یأتی فی الباب التالی)»
وضاحت: ۱؎: لہٰذا بیچنے والا اگر شرط لگائے تو وہ شرط فاسد ہے اور شرط فاسد کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله حر والمحفوظ أنه كان عبدا
اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا جرير، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة , قالت: كاتبت بريرة على نفسها بتسع اواق في كل سنة باوقية، فاتت عائشة تستعينها، فقالت: لا، إلا ان يشاءوا ان اعدها لهم عدة واحدة ويكون الولاء لي، فذهبت بريرة فكلمت في ذلك اهلها، فابوا عليها إلا ان يكون الولاء لهم، فجاءت إلى عائشة، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك، فقالت لها: ما قال اهلها، فقالت: لا، ها الله إذا إلا ان يكون الولاء لي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما هذا؟" فقالت: يا رسول الله، إن بريرة اتتني تستعين بي على كتابتها، فقلت: لا، إلا ان يشاءوا ان اعدها لهم عدة واحدة، ويكون الولاء لي، فذكرت ذلك لاهلها، فابوا عليها إلا ان يكون الولاء لهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابتاعيها، واشترطي لهم الولاء، فإن الولاء لمن اعتق"، ثم قام فخطب الناس، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال:" ما بال اقوام يشترطون شروطا ليست في كتاب الله عز وجل؟ يقولون: اعتق فلانا والولاء لي، كتاب الله عز وجل احق وشرط الله اوثق، وكل شرط ليس في كتاب الله فهو باطل، وإن كان مائة شرط، فخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم من زوجها، وكان عبدا، فاختارت نفسها"، قال عروة: فلو كان حرا، ما خيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم. أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَاتَبَتْ بَرِيرَةُ عَلَى نَفْسِهَا بِتِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ سَنَةٍ بِأُوقِيَّةٍ، فَأَتَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا، فَقَالَتْ: لَا، إِلَّا أَنْ يَشَاءُوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لِي، فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ فَكَلَّمَتْ فِي ذَلِكَ أَهْلَهَا، فَأَبَوْا عَلَيْهَا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ، فَجَاءَتْ إِلَى عَائِشَةَ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ لَهَا: مَا قَالَ أَهْلُهَا، فَقَالَتْ: لَا، هَا اللَّهِ إِذًا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا هَذَا؟" فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَرِيرَةَ أَتَتْنِي تَسْتَعِينُ بِي عَلَى كِتَابَتِهَا، فَقُلْتُ: لَا، إِلَّا أَنْ يَشَاءُوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً، وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لِي، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِأَهْلِهَا، فَأَبَوْا عَلَيْهَا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ابْتَاعِيهَا، وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلَاءَ، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ"، ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ يَقُولُونَ: أَعْتِقْ فُلَانًا وَالْوَلَاءُ لِي، كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَكُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَوْجِهَا، وَكَانَ عَبْدًا، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا"، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَوْ كَانَ حُرًّا، مَا خَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنی آزادی کے لیے نو اوقیہ ۱؎ پر مکاتبت کی اور ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنے کی شرط ٹھہرائی اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے مدد حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس آئی۔ انہوں نے کہا: میں اس طرح مدد تو نہیں کرتی لیکن اگر وہ اس پر راضی ہوں کہ میں انہیں ایک ہی دفعہ میں پوری رقم گن دوں اور ولاء (وراثت) میرا حق ہو (تو میں ایسا کر سکتی ہوں)، بریرہ اپنے لوگوں کے پاس گئی اور ان لوگوں سے اس معاملے میں بات کی، تو انہوں نے بغیر ولاء (وراثت) کے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا (کہا ولاء (میراث) ہم لیں گے) تو وہ لوٹ کر عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، اور اسی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے، بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مالک کے جواب سے انہیں (عائشہ کو) آگاہ کیا، انہوں نے کہا: نہ قسم اللہ کی جب تک ولاء (میراث) مجھے نہ ملے گی (میں اکٹھی رقم نہ دوں گی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا قصہ ہے؟ انہوں کہا: اللہ کے رسول! (بات یہ ہے کہ) بریرہ اپنی مکاتبت رضی اللہ عنہا پر مجھ سے امداد طلب کرنے آئی تو میں نے اس سے کہا میں یوں تو مدد نہیں کرتی مگر ہاں اگر وہ ولاء (میراث) کو میرا حق تسلیم کریں تو میں ساری رقم انہیں یکبارگی گن دیتی ہوں، اس بات کا ذکر اس نے اپنے مالک سے کیا تو انہوں نے کہا: نہیں، ولاء (میراث) ہم لیں گے (تب ہی ہم اس پر راضی ہوں گے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عائشہ سے) کہا: ”تم اسے خرید لو اور ان کے لیے ولاء (میراث) کی شرط مان لو، ولاء اس شخص کا حق ہے جو اسے آزاد کرے (اس طرح جب تم خرید کر آزاد کر دو گی تو حق ولاء (میراث) تم کو مل جائے گا)“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے لوگوں کو خطاب کیا (سب سے پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہیں ہیں، کہتے ہیں: (ہم سے خرید کر) آزاد تم کرو لیکن ولاء (وراثت) ہم لیں گے۔ اللہ عزوجل کی کتاب بر حق و صحیح تر ہے اور اللہ کی شرط مضبوط، ٹھوس اور قابل اعتماد ہے اور ہر وہ شرط جس کا کتاب اللہ میں وجود و ثبوت نہیں ہے باطل و بے اثر ہے، اگرچہ وہ ایک نہیں سو شرطیں ہوں“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدہ ہو جانے کا اختیار دیا، اس کا شوہر غلام تھا تو اس نے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا۔ عروہ کہتے ہیں: اگر اس کا شوہر آزاد شخص ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے (علیحدہ ہو جانے کا) اختیار نہ دیتے۔
(مرفوع) اخبرنا القاسم بن زكريا بن دينار، قال: حدثنا حسين، عن زائدة، عن سماك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن عائشة: انها اشترت بريرة من اناس من الانصار، فاشترطوا الولاء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الولاء لمن ولي النعمة، وخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم"، وكان زوجها عبدا، واهدت لعائشة لحما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو وضعتم لنا من هذا اللحم؟" قالت عائشة: تصدق به على بريرة، فقال:" هو عليها صدقة، وهو لنا هدية". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا اشْتَرَتْ بَرِيرَةَ مِنْ أُنَاسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَاشْتَرَطُوا الْوَلَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَاءُ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ، وَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، وَأَهْدَتْ لِعَائِشَةَ لَحْمًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ وَضَعْتُمْ لَنَا مِنْ هَذَا اللَّحْمِ؟" قَالَتْ عَائِشَةُ: تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ:" هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو کچھ انصاری لوگوں سے خریدا جنہوں نے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط رکھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولاء (میراث) کا حقدار ولی نعمت (آزاد کرانے والا) ہوتا ہے“۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی بریرہ کو) اختیار دیا، اس کا شوہر غلام تھا (اس نے اس حق کا اپنے حق میں استعمال کیا اور شوہر کو چھوڑ دیا)، اس نے (بریرہ نے) عائشہ رضی اللہ عنہا کو گوشت کا ہدیہ بھیجا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس گوشت میں ہمارے لیے بھی تو حصہ رکھنا تھا“، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ گوشت بریرہ کے پاس صدقہ آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بریرہ کے لیے صدقہ تھا لیکن ہمارے لیے (صدقہ نہیں) ہدیہ ہے“۲؎۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا يحيى بن ابي بكير الكرماني، قال: حدثنا شعبة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، قال: وكان وصي ابيه، قال: وفرقت ان اقول سمعته من ابيك، قالت عائشة: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بريرة، واردت ان اشتريها، واشترط الولاء لاهلها، فقال:" اشتريها، فإن الولاء لمن اعتق"، قال: وخيرت وكان زوجها عبدا، ثم قال: بعد ذلك ما ادري؟ واتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بلحم، فقالوا: هذا مما تصدق به على بريرة، قال:" هو لها صدقة ولنا هدية". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ الْكَرْمَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: وَكَانَ وَصِيَّ أَبِيهِ، قَالَ: وَفَرِقْتُ أَنْ أَقُولَ سَمِعْتُهُ مِنْ أَبِيكَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَرِيرَةَ، وَأَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِيَهَا، وَاشْتُرِطَ الْوَلَاءُ لِأَهْلِهَا، فَقَالَ:" اشْتَرِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ"، قَالَ: وَخُيِّرَتْ وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، ثُمَّ قَالَ: بَعْدَ ذَلِكَ مَا أَدْرِي؟ وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ، فَقَالُوا: هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، قَالَ:" هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں آپ کی رائے پوچھی، میرا ارادہ اسے خرید لینے کا ہے، لیکن اس کے مالکان کی طرف سے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط لگائی گئی ہے (پھر میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس شرط کے ساتھ بھی) تم اسے خرید لو (یہ شرط لغو و باطل ہے) ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہے جو آزاد کرے“۔ راوی کہتے ہیں: (عائشہ رضی اللہ عنہا نے خرید کر آزاد کر دیا) اور اسے اختیار دیا گیا (شوہر کے ساتھ رہنے یا اسے چھوڑ دینے کا) اس کا شوہر غلام تھا۔ یہ کہنے کے بعد راوی پھر کہتے ہیں: میں نہیں جانتا (کہ اس کا شوہر واقعی غلام تھا یا آزاد تھا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت پیش کیا گیا اور لوگوں نے بتایا کہ بریرہ کے پاس صدقہ میں آئے ہوئے گوشت میں سے یہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ”وہ بریرہ کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ و تحفہ ہے“(اس لیے ہم کھا سکتے ہیں)۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله بن الحكم البصري، قال: حدثنا مروان بن معاوية، قال: حدثنا ابو يعفور، عن ابي الضحى، قال: تذاكرنا الشهر عنده، فقال بعضنا: ثلاثين، وقال بعضنا: تسعا وعشرين، فقال ابو الضحى: حدثنا ابن عباس، قال: اصبحنا يوما ونساء النبي صلى الله عليه وسلم يبكين، عند كل امراة منهن اهلها، فدخلت المسجد، فإذا هو ملآن من الناس , قال: فجاء عمر رضي الله عنه، فصعد إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في علية له، فسلم عليه، فلم يجبه احد، ثم سلم فلم يجبه احد، ثم سلم فلم يجبه احد، فرجع فنادى بلالا، فدخل على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: اطلقت نساءك؟ فقال:" لا، ولكني آليت منهن شهرا، فمكث تسعا وعشرين، ثم نزل، فدخل على نسائه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَعْفُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، قَالَ: تَذَاكَرْنَا الشَّهْرَ عِنْدَهُ، فَقَالَ بَعْضُنَا: ثَلَاثِينَ، وَقَالَ بَعْضُنَا: تِسْعًا وَعِشْرِينَ، فَقَالَ أَبُو الضُّحَى: حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَصْبَحْنَا يَوْمًا وَنِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِينَ، عِنْدَ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ أَهْلُهَا، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ مَلْآنٌ مِنَ النَّاسِ , قَالَ: فَجَاءَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَصَعِدَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي عُلِّيَّةٍ لَهُ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، فَرَجَعَ فَنَادَى بِلَالًا، فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ؟ فَقَالَ:" لَا، وَلَكِنِّي آلَيْتُ مِنْهُنَّ شَهْرًا، فَمَكَثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، ثُمَّ نَزَلَ، فَدَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ".
ابویعفور کہتے ہیں کہ ہم ابوالضحیٰ کے پاس تھے اور ہماری بحث مہینہ کے بارے میں چھڑ گئی، بعض نے کہا کہ مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے اور بعض نے کہا: انتیس (۲۹) دن کا۔ ابوالضحیٰ نے کہا: (سنو) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہم سے حدیث بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک صبح ہم سب کی ایسی آئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رو رہی تھیں اور ان سبھی کے پاس ان کے گھر والے موجود تھے، میں مسجد میں پہنچا تو مسجد (کھچا کھچ) بھری ہوئی تھی، (اس وقت) عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اوپر چڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ اپنے بالا خانہ میں تھے، آپ کو سلام کیا تو کسی نے انہیں جواب نہیں دیا، عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سلام کیا پھر کسی نے انہیں جواب نہیں دیا، پھر سلام کیا پھر انہیں کسی نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ پھر لوٹ پڑے اور بلال کو بلایا ۱؎ اور اوپر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے پوچھا: کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، لیکن میں نے ان سے ایک مہینہ کا ایلاء کیا ہے، پھر آپ انتیس (۲۹) دن (اوپر) وہاں قیام فرما رہے، پھر نیچے آئے اور اپنی بیویوں کے پاس گئے۔
وضاحت: ۱؎: «نادی بلالا»(بلال کو بلایا) کے بجائے «نادی بلال» ہے جیسا کہ ”فتح الباری۹/۳۰۲“ میں مذکور ہے، یعنی عمر رضی الله عنہ کو بلال نے آواز دی۔ «ایلاء» کے لغوی معنی ہیں قسم کھانا اور شرع میں «ایلاء» یہ ہے کہ جماع پر قدرت رکھنے والا شوہر اللہ کے نام یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی قسم اس بات پر کھائے کہ وہ اپنی بیوی کو چار ماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے اپنے سے جدا رکھے گا اور اس سے جماع نہیں کرے گا۔ اس تعریف کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ «ایلاء» لغوی اعتبار سے تھا اور مباح تھا، کیونکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے «ایلاء» کیا تھا اور اس «ایلاء» کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما نے آپ سے مزید نفقہ کا مطالبہ کیا تھا۔ «ایلاء» کرنے والا اگر اپنی قسم توڑ دے تو اس پر کفارہ یمین لازم ہے، اور کفارہ یمین یہ ہے: دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن روزے رکھنا۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا حميد، عن انس، قال:" آلى النبي صلى الله عليه وسلم من نسائه شهرا في مشربة له، فمكث تسعا وعشرين ليلة، ثم نزل"، فقيل: يا رسول الله، اليس آليت على شهر؟ قال:" الشهر تسع وعشرون". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" آلَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا فِي مَشْرَبَةٍ لَهُ، فَمَكَثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ نَزَلَ"، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ آلَيْتَ عَلَى شَهْرٍ؟ قَالَ:" الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینے تک نہ جانے کا عہد کیا (یعنی ایلاء کیا) اور انتیس (۲۹) راتیں اپنے بالاخانے پر رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر آئے، آپ سے کہا گیا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے مہینہ بھر کا ایلاء نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”مہینہ انتیس (۲۹) دن کا (بھی) ہوا کرتا ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا الحسين بن حريث، قال: حدثنا الفضل بن موسى، عن معمر، عن الحكم بن ابان، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم قد ظاهر من امراته، فوقع عليها، فقال: يا رسول الله، إني ظاهرت من امراتي، فوقعت قبل ان اكفر، قال:" وما حملك على ذلك يرحمك الله؟" قال: رايت خلخالها في ضوء القمر، فقال:" لا تقربها حتى تفعل ما امر الله عز وجل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ظَاهَرَ مِنِ امْرَأَتِهِ، فَوَقَعَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي ظَاهَرْتُ مِنَ امْرَأَتِي، فَوَقَعْتُ قَبْلَ أَنْ أُكَفِّرَ، قَالَ:" وَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ؟" قَالَ: رَأَيْتُ خَلْخَالَهَا فِي ضَوْءِ الْقَمَرِ، فَقَالَ:" لَا تَقْرَبْهَا حَتَّى تَفْعَلَ مَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا پھر اس سے صحبت کر بیٹھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا لیکن میں کفارہ ادا کیے بغیر اس سے جماع کر بیٹھا۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے، ایسا کر گزرنے پر تمہیں کس چیز نے مجبور کیا ہے“؟ اس نے کہا: چاند کی چاندنی میں میں نے اس کی پازیب دیکھی (تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس سے جماع کر بیٹھا) آپ نے فرمایا: ”(اچھا اب) اس کے قریب نہ جانا جب تک کہ وہ نہ کر لو جس کا اللہ نے (ایسے موقع پر کرنے کا) حکم دیا ہے (یعنی کفارہ ادا کر دو)“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی مرد کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ ۲؎: ظہار کا کفارہ یہ ہے: ایک مؤمن غلام آزاد کرنا اگر اس کی طاقت نہ ہو تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا۔