عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! میرے والد انتقال کر گئے اور انہوں نے حج نہیں کیا، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”کیا خیال ہے اگر تمہارے والد پر کچھ قرض ہوتا تو تم ادا کرتے؟“ اس نے کہا: ہاں (میں ادا کرتا) تو آپ نے فرمایا: ”تو اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کئے جانے کا زیادہ مستحق ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 6041) (ضعیف الإسناد شاذ) (اس کے راوی ’’محکم‘‘ کو وہم ہو جایا کرتا تھا، اسی لیے انہوں نے پوچھنے والے کو مرد اور جس کے بارے میں پوچھا گیا اس کو عورت بنا دیا ہے)»
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی روایت میں صحیح بات یہ ہے کہ مسئلہ پوچھنے والی عورت تھی، اور اپنے باپ کے بارے میں پوچھا تھا جو زندہ مگر کمزور تھا، اور اس واقعہ کے وقت یا تو دونوں بھائی (عبداللہ اور فضل) موجود تھے یا فضل نے یہ واقعہ عبداللہ بن عباس سے بیان کیا، روایت کی صحت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت کے سوا دیگر صحابہ کی روایتوں میں دیگر واقعات بھی اسی طرح کے سوال و جواب کے ممکن ہیں، پوچھنے والے مرد و عورت بھی ہو سکتے ہیں، اور جن کے بارے میں پوچھا گیا وہ بھی مرد و عورت ہو سکتے ہیں، اور یہ کوئی ایسی بات نہیں، جس کو بنیاد بنا کر حدیث کی حجیت کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں۔
(مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى، عن هشيم، عن يحيى بن ابي إسحاق، عن سليمان بن يسار، عن عبد الله بن عباس، ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم ان ابي ادركه الحج وهو شيخ كبير لا يثبت على راحلته فإن شددته خشيت ان يموت، افاحج عنه؟ قال:" ارايت لو كان عليه دين فقضيته، اكان مجزئا؟" قال: نعم، قال:" فحج عن ابيك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَبِي أَدْرَكَهُ الْحَجُّ وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَثْبُتُ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَإِنْ شَدَدْتُهُ خَشِيتُ أَنْ يَمُوتَ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ، أَكَانَ مُجْزِئًا؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَحُجَّ عَنْ أَبِيكَ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے باپ کو (فریضہ) حج نے اس حال میں پایا کہ وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اپنی سواری پر ٹک نہیں سکتے، اگر میں انہیں سواری پر بٹھا کر باندھ دوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں مر نہ جائیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا تو اسے ادا کرتے، تو وہ کافی ہو جاتا“؟ اس نے کہا: ہاں (کافی ہو جاتا) آپ نے فرمایا: ”پھر اپنے باپ کی طرف سے حج کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلنسائي، (تحفة الأشراف: 5657)، انظر حدیث رقم: 2635 (شاذ أومنکر) (اس کے راوی ’’ہشیم“ کثیر التدلیس ہیں، سائل کا عورت ہونا ہی محفوظ بات ہے)»
قال الشيخ الألباني: شاذ أو منكر بذكر الرجل والمحفوظ أن السائل امرأة
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة , والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع، عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن سليمان بن يسار، عن عبد الله بن عباس، قال: كان الفضل بن عباس رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءته امراة من خثعم تستفتيه وجعل الفضل ينظر إليها وتنظر إليه، وجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر، فقالت: يا رسول الله إن فريضة الله في الحج على عباده ادركت" ابي شيخا كبيرا لا يستطيع ان يثبت على الراحلة، افاحج عنه؟ قال: نعم" وذلك في حجة الوداع. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قراءة عليه وأنا أسمع، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ تَسْتَفْتِيهِ وَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ" أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ" وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھے، تو قبیلہ خثعم کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسئلہ پوچھنے آئی، تو فضل اسے دیکھنے لگے، اور وہ فضل کو دیکھنے لگی، اور آپ فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے، تو اس عورت نے پوچھا: اللہ کے رسول! اپنے بندوں پر اللہ کے عائد کردہ فریضہ حج نے میرے باپ کو اس حال میں پایا: انتہائی بوڑھے ہو چکے ہیں، سواری پر ٹک نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں کر لو“، یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا ابي، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، ان سليمان بن يسار اخبره , ان ابن عباس اخبره , ان امراة من خثعم استفتت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع والفضل بن عباس رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله إن فريضة الله في الحج على عباده ادركت" ابي شيخا كبيرا لا يستوي على الراحلة فهل يقضي عنه ان احج عنه؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم" , فاخذ الفضل بن عباس يلتفت إليها، وكانت امراة حسناء، واخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم الفضل، فحول وجهه من الشق الآخر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ اسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَالْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ" أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَوِي عَلَى الرَّاحِلَةِ فَهَلْ يَقْضِي عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ" , فَأَخَذَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا، وَكَانَتِ امْرَأَةً حَسْنَاءَ، وَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَضْلَ، فَحَوَّلَ وَجْهَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسئلہ پوچھنے آئی اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے، اس عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اپنے بندوں پر عائد کردہ اللہ کے فریضہ حج نے میرے والد کو اس حال میں پایا کہ وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں وہ سواری پر سیدھے نہیں رہ سکتے، تو کیا اگر میں ان کی طرف سے حج کروں تو ان کی طرف سے پورا ہو جائے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ہو جائے گا“، تو فضل بن عباس رضی اللہ عنہما اسے مڑ کر دیکھنے لگے، وہ ایک خوبصورت عورت تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس کو پکڑ کر ان کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا يزيد وهو ابن هارون، قال: انبانا هشام، عن محمد، عن يحيى بن ابي إسحاق، عن سليمان بن يسار، عن الفضل بن عباس، انه كان رديف النبي صلى الله عليه وسلم فجاءه رجل فقال: يا رسول الله إن امي عجوز كبيرة، وإن حملتها لم تستمسك، وإن ربطتها خشيت ان اقتلها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارايت لو كان على امك دين اكنت قاضيه؟" قال: نعم , قال:" فحج عن امك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي عَجُوزٌ كَبِيرَةٌ، وَإِنْ حَمَلْتُهَا لَمْ تَسْتَمْسِكْ، وَإِنْ رَبَطْتُهَا خَشِيتُ أَنْ أَقْتُلَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ؟" قَالَ: نَعَمْ , قَالَ:" فَحُجَّ عَنْ أُمِّكَ".
فضل بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے تو آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ماں بہت بوڑھی ہو چکی ہیں، اگر میں انہیں سواری پر چڑھا دوں تو وہ بیٹھی نہیں رہ سکتیں، اور اگر میں انہیں (سواری پر بٹھا کر) باندھ دوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کی جان نہ لے بیٹھوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا خیال ہے اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے؟“ اس نے کہا: جی ہاں (میں ادا کرتا) آپ نے فرمایا: ”تو تم اپنی ماں کی جانب سے حج کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11044)، مسند احمد (1/212)، ویأعند المؤلف برقم: 5396، 5397 (شاذ) (سائل کا عورت ہونا ہی محفوظ بات ہے)»
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: ”تم اپنے باپ کا بڑے بیٹے ہو تو تم ان کی طرف سے حج کرو“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا سفيان، عن محمد بن عقبة، عن كريب، عن ابن عباس، ان امراة رفعت صبيا لها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله" الهذا حج؟ قال: نعم، ولك اجر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةً رَفَعَتْ صَبِيًّا لَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ" أَلِهَذَا حَجٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلَكِ أَجْرٌ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنے بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اٹھایا اور پوچھا: اللہ کے رسول! کیا اس کا بھی حج ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (اس کا بھی حج ہے) اور تمہیں اس کا اجر ملے گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ چھوٹے بچے کو حج کرانا جائز ہے اس کا اجر ماں باپ کو ملے گا لیکن کوئی بچہ بالغ ہونے کے بعد صاحب استطاعت ہو جائے تو اس کے لیے دوبارہ فریضہ حج کی ادائیگی ضروری ہو گی بچپن کا کیا ہوا حج کافی نہیں ہو گا۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے بچے کو ہودج سے اوپر اٹھایا اور کہنے لگی: اللہ کے رسول! کیا اس کا بھی حج ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (اس کا بھی حج ہے) اور تمہیں اس کا اجر ملے گا۔“
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے ایک بچے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اٹھایا اور پوچھنے لگی: کیا اس کا بھی حج ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (اس کا بھی حج ہے) اور تمہیں اس کا اجر ملے گا“۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے جب روحاء پہنچے تو کچھ لوگوں سے ملے تو آپ نے پوچھا: ”تم کون لوگ ہو؟“ ان لوگوں نے کہا: ہم مسلمان ہیں، پھر ان لوگوں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا: ”آپ اللہ کے رسول ہیں“، یہ سن کر ایک عورت نے کجاوے سے ایک بچے کو نکالا، اور پوچھنے لگی: کیا اس کے لیے حج ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں اور ثواب تمہیں ملے گا“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2646 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مکہ کے راستے میں مدینہ سے ۳۶ میل (۷۵ کلومیٹر) کی دوری پر ایک مقام کا نام ہے۔