(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا هشيم، قال: حدثنا حميد الطويل، قال: انبانا بكر بن عبد الله المزني، قال: سمعت انسا يحدث، قال:" سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يلبي بالعمرة والحج جميعا"، فحدثت بذلك ابن عمر، فقال:" لبى بالحج وحده" , فلقيت انسا فحدثته بقول ابن عمر، فقال انس: ما تعدونا إلا صبيانا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لبيك عمرة وحجا معا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا يُحَدِّثُ، قَالَ:" سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي بِالْعُمْرَةِ وَالْحَجِّ جَمِيعًا"، فَحَدَّثْتُ بِذَلِكَ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ:" لَبَّى بِالْحَجِّ وَحْدَهُ" , فَلَقِيتُ أَنَسًا فَحَدَّثْتُهُ بِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ أَنَسٌ: مَا تَعُدُّونَا إِلَّا صِبْيَانًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا مَعًا".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حج و عمرہ دونوں کا ایک ساتھ تلبیہ پکارتے ہوئے سنا ہے تو میں نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کا تلبیہ پکارا تھا، پھر میری ملاقات انس سے ہوئی تو میں نے ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بات بیان کی، اس پر انس رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگ ہمیں بچہ ہی سمجھتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ساتھ «لبيك عمرة وحجا» کہتے ہوئے سنا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن المبارك المخرمي، قال: حدثنا حجين بن المثنى، قال: حدثنا الليث , عن عقيل، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال:" تمتع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع بالعمرة إلى الحج، واهدى، وساق معه الهدي بذي الحليفة وبدا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاهل بالعمرة، ثم اهل بالحج، وتمتع الناس، مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعمرة إلى الحج، فكان من الناس من اهدى، فساق الهدي ومنهم من لم يهد، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة، قال للناس: من كان منكم اهدى، فإنه لا يحل من شيء حرم منه حتى يقضي حجه، ومن لم يكن اهدى فليطف بالبيت، وبالصفا والمروة، وليقصر، وليحلل، ثم ليهل بالحج ثم ليهد، ومن لم يجد هديا، فليصم ثلاثة ايام في الحج وسبعة إذا رجع إلى اهله" , فطاف رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قدم مكة، واستلم الركن اول شيء، ثم خب ثلاثة اطواف من السبع، ومشى اربعة اطواف، ثم ركع حين قضى طوافه بالبيت، فصلى عند المقام ركعتين، ثم سلم، فانصرف، فاتى الصفا، فطاف بالصفا والمروة سبعة اطواف، ثم لم يحل من شيء حرم منه حتى قضى حجه، ونحر هديه يوم النحر، وافاض فطاف بالبيت، ثم حل من كل شيء حرم منه، وفعل مثل ما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، من اهدى وساق الهدي من الناس. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، وَأَهْدَى، وَسَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ وَبَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ، ثُمَّ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، وَتَمَتَّعَ النَّاسُ، مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَكَانَ مِنَ النَّاسِ مَنْ أَهْدَى، فَسَاقَ الْهَدْيَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُهْد، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قَالَ لِلنَّاسِ: مَنْ كَانَ مِنْكُمْ أَهْدَى، فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْدَى فَلْيَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَلْيُقَصِّرْ، وَلْيَحْلِلْ، ثُمَّ لِيُهِلَّ بِالْحَجِّ ثُمَّ لِيُهْدِ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا، فَلْيَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ" , فَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ، وَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ أَوَّلَ شَيْءٍ، ثُمَّ خَبَّ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ مِنَ السَّبْع، وَمَشَى أَرْبَعَةَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ رَكَعَ حِينَ قَضَى طَوَافَهُ بِالْبَيْتِ، فَصَلَّى عِنْدَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَانْصَرَفَ، فَأَتَى الصَّفَا، فَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعَةَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ لَمْ يَحِلَّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى قَضَى حَجَّهُ، وَنَحَرَ هَدْيَهُ يَوْمَ النَّحْرِ، وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ حَلَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ، وَفَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَنْ أَهْدَى وَسَاقَ الْهَدْيَ مِنَ النَّاسِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں تمتع کیا ۱؎ یعنی پہلے عمرہ کیا پھر حج کیا اور ہدی بھیجی، بلکہ اپنے ساتھ ذوالحلیفہ سے ہدی لے گئے (وہاں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عمرہ کا تلبیہ پکارا پھر حج کا تلبیہ پکارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی تمتع کیا، یعنی عمرے کا احرام باندھا پھر حج کا۔ البتہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ہدی بھیجی اور اپنے ساتھ بھی لیے گئے، اور کچھ لوگ ایسے تھے جو ہدی نہیں لے گئے تھے۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچ گئے تو آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”جو لوگ اپنے ساتھ ہدی لے کر آئے ہیں وہ جب تک حج پورا نہ کر لیں کسی بھی چیز سے جو ان پر حرام ہیں حلال نہ ہو) اور جو ہدی ساتھ لے کر نہیں آئے ہیں تو وہ خانہ کعبہ کا طواف کریں اور صفا و مروہ کی سعی کریں، اور بال کتروائیں اور احرام کھول ڈالیں۔ پھر (اٹھویں ذی الحجہ کو) حج کا احرام باندھے پھر ہدی دے اور جسے ہدی میسر نہ ہو تو وہ حج میں تین دن روزے رکھے، اور سات دن اپنے گھر واپس پہنچ جائیں تب رکھیں“، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پہنچ کر طواف کیا، اور سب سے پہلے حجر اسود کا بوسہ لیا پھر سات پھیروں میں سے پہلے تین پھیروں میں دوڑ کر چلے ۲؎، باقی چار پھیرے عام رفتار سے چلے۔ پھر جس وقت بیت اللہ کا طواف پورا کر لیا، تو مقام ابراہیم کے پاس دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا۔ اور نماز سے فارغ ہو کر صفا آئے اور صفا اور مروہ کے درمیان سات پھیرے کیے۔ پھر جو چیزیں حرام ہو گئی تھیں ان میں سے کسی چیز سے بھی حلال نہیں ہوئے یہاں تک کہ اپنے حج کو مکمل کیا اور یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو اپنے ہدی کی نحر کی (جانور ذبح کئے) اور منیٰ سے لوٹ کر مکہ آئے، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا پھر جو چیزیں حرام ہو گئی تھیں ان سب سے حلال ہو گئے، اور لوگوں میں سے جو ہدی (کا جانور) لے کر گئے تھے، انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔
وضاحت: ۱؎: یعنی حج و عمرہ دونوں کو ایک ساتھ کرنے کا فائدہ اٹھایا یہاں تمتع سے لغوی تمتع مراد ہے نہ کہ اصطلاحی کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں قارن تھے۔ ۲؎: یعنی مونڈھے ہلاتے ہوئے تیز چال سے چلے اسے رمل کہتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق لكن قوله وبدأ رسول الله صلى الله عليه وسلم فأهل بالعمرة ثم أهل بالحج شاذ
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا عبد الرحمن بن حرملة، قال: سمعت سعيد بن المسيب , يقول: حج علي , وعثمان فلما كنا ببعض الطريق" نهى عثمان عن التمتع" , فقال علي:" إذا رايتموه قد ارتحل فارتحلوا فلبى علي واصحابه بالعمرة، فلم ينههم عثمان" , فقال علي:" الم اخبر انك تنهى عن التمتع؟" قال:" بلى" قال له علي:" الم تسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم تمتع؟" قال:" بلى". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَرْمَلَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ , يَقُولُ: حَجَّ عَلِيٌّ , وَعُثْمَانُ فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ" نَهَى عُثْمَانُ عَنِ التَّمَتُّعِ" , فَقَالَ عَلِيٌّ:" إِذَا رَأَيْتُمُوهُ قَدِ ارْتَحَلَ فَارْتَحِلُوا فَلَبَّى عَلِيٌّ وَأَصْحَابُهُ بِالْعُمْرَةِ، فَلَمْ يَنْهَهُمْ عُثْمَانُ" , فَقَالَ عَلِيٌّ:" أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَنْهَى عَنِ التَّمَتُّعِ؟" قَالَ:" بَلَى" قَالَ لَهُ عَلِيٌّ:" أَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمَتَّعَ؟" قَالَ:" بَلَى".
سعید بن مسیب کہتے ہیں: علی اور عثمان رضی اللہ عنہما نے حج کیا تو جب ہم راستے میں تھے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے تمتع سے منع کیا، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: جب تم لوگ انہیں دیکھو کہ وہ (عثمان) کوچ کر گئے ہیں تو تم لوگ بھی کوچ کرو، علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا (یعنی تمتع کیا) تو عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں منع نہیں کیا، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا مجھے یہ اطلاع نہیں دی گئی ہے کہ آپ تمتع سے روکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں (صحیح اطلاع دی ہے) تو علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے سنا نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمتع کیا ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور سنا ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس بات چیت کا خلاصہ یہ ہے کہ عمر اور عثمان رضی الله عنہما دونوں کی رائے یہ تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں لوگوں نے جو تمتع کیا اس کی کوئی خاص وجہ تھی، اور اب اس کا نہ کرنا افضل ہے، اس کے برخلاف علی رضی الله عنہ کی رائے یہ تھی کہ یہی سنت اور افضل ہے (واللہ تعالیٰ اعلم)۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن محمد بن عبد الله ابن الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب انه حدثه , انه سمع سعد بن ابي وقاص , والضحاك بن قيس عام حج معاوية بن ابي سفيان وهما يذكران التمتع بالعمرة إلى الحج، فقال الضحاك: لا يصنع ذلك إلا من جهل امر الله تعالى، فقال سعد:" بئسما قلت يا ابن اخي، قال الضحاك:" فإن عمر بن الخطاب نهى عن ذلك" , قال سعد:" قد صنعها رسول الله صلى الله عليه وسلم وصنعناها معه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ , أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ , وَالضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ عَامَ حَجَّ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ وَهُمَا يَذْكُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالَ الضَّحَّاكُ: لَا يَصْنَعُ ذَلِكَ إِلَّا مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللَّهِ تَعَالَى، فَقَالَ سَعْدٌ:" بِئْسَمَا قُلْتَ يَا ابْنَ أَخِي، قَالَ الضَّحَّاكُ:" فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ نَهَى عَنْ ذَلِكَ" , قَالَ سَعْدٌ:" قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ".
محمد بن عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہما کو جس سال معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے حج کیا تمتع کا یعنی عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حج کرنے کا ذکر کرتے سنا، ضحاک رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے وہی کرے گا، جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو گا، اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بھتیجے! بری بات ہے، جو تم نے کہی، تو ضحاک رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تو اس سے روکا ہے اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور آپ کے ساتھ ہم لوگوں نے بھی کیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار واللفظ له، قالا: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة، عن الحكم، عن عمارة بن عمير، عن إبراهيم بن ابي موسى، عن ابي موسى، انه كان يفتي بالمتعة، فقال له رجل: رويدك ببعض فتياك فإنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في النسك بعد، حتى لقيته فسالته، فقال عمر: قد علمت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد فعله، ولكن كرهت ان يظلوا معرسين بهن في الاراك، ثم يروحوا بالحج تقطر رءوسهم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِالْمُتْعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: رُوَيْدَكَ بِبَعْضِ فُتْيَاكَ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدُ، حَتَّى لَقِيتُهُ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَهُ، وَلَكِنْ كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا مُعَرِّسِينَ بِهِنَّ فِي الْأَرَاكِ، ثُمَّ يَرُوحُوا بِالْحَجِّ تَقْطُرُ رُءُوسُهُمْ".
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ تمتع کا فتویٰ دیتے تھے، تو ایک شخص نے ان سے کہا: آپ اپنے بعض فتاوے کو ملتوی رکھیں ۱؎ آپ کو امیر المؤمنین (عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ) نے اس کے بعد حج کے سلسلے میں جو نیا حکم جاری کیا ہے وہ معلوم نہیں، یہاں تک کہ میں ان سے ملا، اور میں نے ان سے پوچھا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے، لیکن میں یہ اچھا نہیں سمجھتا کہ لوگ «اراک» میں اپنی بیویوں سے ہمبستر ہوں، پھر وہ صبح ہی حج کے لیے اس حال میں نکلیں کہ ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: قسم اللہ کی! میں تمہیں متعہ سے یعنی حج میں عمرہ کرنے سے روک رہا ہوں، حالانکہ وہ کتاب اللہ میں موجود ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا عبد الله بن محمد بن عبد الرحمن، قال: حدثنا سفيان، عن هشام بن حجير، عن طاوس، قال: قال معاوية لابن عباس:" اعلمت اني قصرت من راس رسول الله صلى الله عليه وسلم عند المروة؟" قال: لا. يقول ابن عباس:" هذا معاوية، ينهى الناس عن المتعة وقد تمتع النبي صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِيَةُ لِابْنِ عَبَّاسٍ:" أَعَلِمْتَ أَنِّي قَصَّرْتُ مِنْ رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْمَرْوَةِ؟" قَالَ: لَا. يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ:" هَذَا مُعَاوِيَةُ، يَنْهَى النَّاسَ عَنِ الْمُتْعَةِ وَقَدْ تَمَتَّعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
طاؤس کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ مروہ کے پاس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کترے تھے (میں یہ اس لیے بیان کر رہا ہوں تاکہ) ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ معاویہ ہیں جو لوگوں کو تمتع سے روکتے ہیں حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمتع کیا ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہاں روایت میں ایک اشکال ہے اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متمتع تھے حالانکہ صحیح یہ ہے کہ آپ قارن تھے، آپ نے اپنے بال میں سے کوئی چیز نہیں کتروائی اور نہ کوئی چیز اپنے لیے حلال کی یہاں تک کہ یوم النحر کو منیٰ میں آپ نے حلق کرائی اس لیے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ شاید حج سے معاویہ کی مراد عمرہ جعرانہ ہو کیونکہ اسی موقع پروہ اسلام لائے تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قول ابن عباس هذا معاوية
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، عن عبد الرحمن، قال: حدثنا سفيان , عن قيس وهو ابن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن ابي موسى، قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالبطحاء، فقال:" بما اهللت؟" قلت: اهللت بإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" هل سقت من هدي؟" قلت: لا، قال:" فطف بالبيت، وبالصفا، والمروة، ثم حل، فطفت بالبيت، وبالصفا والمروة" , ثم اتيت امراة من قومي فمشطتني، وغسلت راسي، فكنت افتي الناس بذلك في إمارة ابي بكر، وإمارة عمر، وإني لقائم بالموسم إذ جاءني رجل، فقال: إنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في شان النسك قلت:" يا ايها الناس من كنا افتيناه بشيء فليتئد، فإن امير المؤمنين قادم عليكم فاتموا به، فلما قدم قلت: يا امير المؤمنين ما هذا الذي احدثت في شان النسك قال:" إن ناخذ بكتاب الله عز وجل فإن الله عز وجل قال: واتموا الحج والعمرة لله سورة البقرة آية 196 , وإن ناخذ بسنة نبينا صلى الله عليه وسلم، فإن نبينا صلى الله عليه وسلم، لم يحل حتى نحر الهدي". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ قَيْسٍ وَهُوَ ابْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ:" بِمَا أَهْلَلْتَ؟" قُلْتُ: أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" فَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ" , ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَطَتْنِي، وَغَسَلَتْ رَأْسِي، فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ فِي إِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَإِمَارَةِ عُمَرَ، وَإِنِّي لَقَائِمٌ بِالْمَوْسِمِ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ قُلْتُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ بِشَيْءٍ فَلْيَتَّئِدْ، فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَأْتَمُّوا بِهِ، فَلَمَّا قَدِمَ قُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا هَذَا الَّذِي أَحْدَثْتَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ قَالَ:" إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ سورة البقرة آية 196 , وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ نَبِيَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ".
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ بطحاء میں تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تم نے کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے؟“ میں نے عرض کیا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ پر تلبیہ پکارا ہے، پوچھا: ”کیا تم کوئی ہدی لے کر آئے ہو“، میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: خانہ کعبہ کا طواف کرو اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرو پھر احرام کھول کر حلال ہو جاؤ“، تو میں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھر میں اپنے خاندان کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سر دھویا۔ چنانچہ میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں لوگوں کو اسی کا فتویٰ دیتا رہا۔ (ایک بار ایسا ہوا کہ) میں حج کے موسم میں کھڑا تھا کہ یکایک ایک شخص میرے پاس آ کر کہنے لگا: آپ اس چیز کو نہیں جانتے جو امیر المؤمنین نے حج کے سلسلے میں نیا حکم دیا ہے؟ تو میں نے کہا: لوگو! میں نے جس کسی کو بھی کوئی فتویٰ دیا ہو وہ اس پر عمل کرنے میں ذرا توقف کرے، کیونکہ امیر المؤمنین تمہارے پاس آنے والے ہیں، تو وہ جو فرمائیں اس کی پیروی کرو۔ تو جب وہ آئے تو میں نے کہا: امیر المؤمنین! یہ کیا ہے جو حج کے سلسلے میں آپ نے نئی بدعت نکالی ہے؟ انہوں نے کہا: اگر ہم کتاب اللہ پر عمل کریں تو اللہ عزوجل نے فرمایا ہے: «وأتموا الحج والعمرة لله» اور اگر ہم اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کریں، تو آپ حلال نہیں ہوئے جب تک کہ آپ نے ہدی کی قربانی نہیں کر لی۔