(مرفوع) اخبرنا محمد بن قدامة، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن ابي وائل، عن مسروق، عن عائشة، قالت: دخلت علي عجوزتان من عجز يهود المدينة , فقالتا: إن اهل القبور يعذبون في قبورهم فكذبتهما ولم انعم ان اصدقهما، فخرجتا ودخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله , إن عجوزتين من عجز يهود المدينة , قالتا: إن اهل القبور يعذبون في قبورهم , قال:" صدقتا إنهم يعذبون عذابا تسمعه البهائم كلها" , فما رايته صلى صلاة إلا تعوذ من عذاب القبر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ عَجُوزَتَانِ مِنْ عُجُزِ يَهُودِ الْمَدِينَةِ , فَقَالَتَا: إِنَّ أَهْلَ الْقُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ فَكَذَّبْتُهُمَا وَلَمْ أَنْعَمْ أَنْ أُصَدِّقَهُمَا، فَخَرَجَتَا وَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ عَجُوزَتَيْنِ مِنْ عُجُزِ يَهُودِ الْمَدِينَةِ , قَالَتَا: إِنَّ أَهْلَ الْقُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ , قَالَ:" صَدَقَتَا إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ كُلُّهَا" , فَمَا رَأَيْتُهُ صَلَّى صَلَاةً إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں یہود مدینہ کی بوڑھی عورتوں میں سے دو عورتیں میرے پاس آئیں، (اور) کہنے لگیں کہ قبر والوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے، تو میں نے ان کو جھٹلا دیا اور مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ میں ان کی تصدیق کروں، وہ دونوں نکل گئیں (تبھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہود مدینہ کی بوڑھیوں میں سے دو بوڑھیاں کہہ رہی تھیں کہ مردوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں نے سچ کہا، انہیں عذاب دیا جاتا ہے جسے سارے چوپائے سنتے ہیں“، (پھر) میں نے دیکھا آپ ہر صلاۃ کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن قدامة , قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بحائط من حيطان مكة او المدينة، سمع صوت إنسانين يعذبان في قبورهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يعذبان وما يعذبان في كبير , ثم قال: بلى كان احدهما لا يستبرئ من بوله، وكان الآخر يمشي بالنميمة"، ثم دعا بجريدة فكسرها كسرتين، فوضع على كل قبر منهما كسرة , فقيل له: يا رسول الله , لم فعلت هذا؟ قال:" لعله ان يخفف عنهما ما لم ييبسا او إلى ان ييبسا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ مَكَّةَ أَوِ الْمَدِينَةِ، سَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ , ثُمَّ قَالَ: بَلَى كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَبْرِئُ مِنْ بَوْلِهِ، وَكَانَ الْآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ"، ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ، فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً , فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ:" لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا أَوْ إِلَى أَنْ يَيْبَسَا".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ یا مدینہ کے باغات میں سے ایک باغ کے پاس سے گزرے، تو آپ نے دو انسانوں کی آوازیں سنیں جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور انہیں کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے ۱؎، بلکہ ان میں سے ایک اچھی طرح اپنے پیشاب سے پاکی نہیں حاصل کرتا تھا، اور دوسرا چغل خوری ۲؎ کرتا تھا“، پھر آپ نے ایک ٹہنی منگوائی (اور) اس کے دو ٹکڑے کئے پھر ان میں سے ہر ایک کی قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا، تو آپ سے سوال کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ نے فرمایا: ”شاید ان کے عذاب میں نرمی کر دی جائے جب تک یہ دونوں (ٹہنیاں) خشک نہ ہوں“۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے «ما لم ييبسا أو أن ييبسا» فرمایا، یا «إلى أن ييبسا» فرمایا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 31 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے کا مطلب ہے ان کے خیال میں وہ کوئی بڑا جرم نہیں ورنہ شریعت کی نظر میں تو وہ بڑا جرم تھا، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کبیر سے مراد ہے کہ ان کا ترک کرنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں تھا اگر چاہتا تو آسانی سے اس گناہ سے بچ سکتا تھا۔ ۲؎: دو آدمیوں میں فساد ڈالنے کی نیت سے ایک بات دوسرے تک پہنچانے کا نام چغل خوری ہے۔
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، في حديثه عن ابي معاوية، عن الاعمش، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبرين فقال:" إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير، اما احدهما فكان لا يستبرئ من بوله، واما الآخر فكان يمشي بالنميمة"، ثم اخذ جريدة رطبة فشقها نصفين، ثم غرز في كل قبر واحدة , فقالوا: يا رسول الله , لم صنعت هذا؟ فقال:" لعلهما ان يخفف عنهما ما لم ييبسا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، فِي حَدِيثِهِ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ فَقَالَ:" إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَبْرِئُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ"، ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً , فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ فَقَالَ:" لَعَلَّهُمَا أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبر کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور یہ کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دئیے جا رہے ہیں، رہا ان میں سے ایک تو وہ اپنے پیشاب سے اچھی طرح پاکی حاصل نہیں کرتا تھا، اور رہا دوسرا تو وہ چغل خوری کرتا تھا، پھر آپ نے کھجور کی ایک ہری ٹہنی لی (اور) اسے آدھا آدھا چیر دیا، پھر ہر ایک کی قبر پہ گاڑ دیا“، تو لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید ان دونوں کا عذاب ہلکا کر دیا جائے جب تک یہ دونوں (ٹہنیاں) خشک نہ ہوں“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" الا إن احدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي، إن كان من اهل الجنة فمن اهل الجنة، وإن كان من اهل النار فمن اهل النار، حتى يبعثه الله عز وجل يوم القيامة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَلَا إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے، اگر جنتی ہے تو جنت میں کا، اور اگر جہنمی ہے تو جہنم میں کا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز اٹھائے“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا المعتمر، قال: سمعت عبيد الله يحدث، عن نافع، عن ابن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يعرض على احدكم إذا مات مقعده من الغداة والعشي، فإن كان من اهل النار فمن اهل النار، قيل: هذا مقعدك حتى يبعثك الله عز وجل يوم القيامة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يُعْرَضُ عَلَى أَحَدِكُمْ إِذَا مَاتَ مَقْعَدُهُ مِنَ الْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، قِيلَ: هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، چنانچہ اگر وہ جہنمی ہے تو جہنمیوں (کے ٹھکانوں) میں سے (پیش کیا جائے گا)، اور کہا جاتا ہے: یہ ہے تمہارا ٹھکانا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز اٹھائے“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، والحارث بن مسكين، قراءة عليه وانا اسمع واللفظ له , عن ابن القاسم، حدثني مالك، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إذا مات احدكم عرض على مقعده بالغداة والعشي، إن كان من اهل الجنة فمن اهل الجنة، وإن كان من اهل النار فمن اهل النار، فيقال: هذا مقعدك حتى يبعثك الله عز وجل يوم القيامة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ , عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ عُرِضَ عَلَى مَقْعَدِهِ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَيُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اس کا ٹھکانا اس پر صبح و شام پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ جنتی ہے تو جنتیوں (کے ٹھکانوں) میں سے، اور اگر جہنمی ہے تو جہنمیوں (کے ٹھکانوں) میں سے، (اور اس سے) کہا جاتا ہے: یہ تمہارا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل تمہیں قیامت کے روز اٹھائے“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن كعب انه اخبره , ان اباه كعب بن مالك كان يحدث , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إنما نسمة المؤمن طائر في شجر الجنة، حتى يبعثه الله عز وجل إلى جسده يوم القيامة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أَبَاهُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ كَانَ يُحَدِّثُ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ، حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
کعب بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی جان جنت کے درختوں پہ اڑتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کے جسم کی طرف بھیج دے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل الجھاد 13 (1641)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 4 (1449)، والزھد 32 (4271)، (تحفة الأشراف: 11148)، موطا امام مالک/الجنائز 16 (49)، مسند احمد 3/455، 456، 460، 6/386 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا سليمان وهو ابن المغيرة، قال: حدثنا ثابت، عن انس، قال: كنا مع عمر بين مكة والمدينة، اخذ يحدثنا عن اهل بدر , فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ليرينا مصارعهم بالامس قال:" هذا مصرع فلان إن شاء الله غدا" قال عمر: والذي بعثه بالحق ما اخطئوا تيك فجعلوا في بئر، فاتاهم النبي صلى الله عليه وسلم فنادى" يا فلان بن فلان، يا فلان بن فلان، هل وجدتم ما وعد ربكم حقا؟ فإني وجدت ما وعدني الله حقا" , فقال عمر: تكلم اجسادا لا ارواح فيها، فقال:" ما انتم باسمع لما اقول منهم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، أَخَذَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ , فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرِينَا مَصَارِعَهُمْ بِالْأَمْسِ قَالَ:" هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ غَدًا" قَالَ عُمَرُ: وَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا تِيكَ فَجُعِلُوا فِي بِئْرٍ، فَأَتَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَى" يَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ، يَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّي وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللَّهُ حَقًّا" , فَقَالَ عُمَرُ: تُكَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاحَ فِيهَا، فَقَالَ:" مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے کہ وہ ہم سے اہل بدر کے سلسلہ میں بیان کرنے لگے، اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (کافروں کے) مارے جانے کی جگہیں ایک دن پہلے دکھلا دیں، اور فرمایا: ”اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کل فلاں کے پچھاڑ کھا کر گرنے کی جگہ یہاں ہو گی، اور فلاں کی یہاں“، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا! ان جگہوں میں کوئی فرق نہیں آیا، چنانچہ انہیں ایک کنویں میں ڈال دیا گیا، (پھر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، (اور) پکارا: ”اے فلاں، فلاں کے بیٹے! اے فلاں، فلاں کے بیٹے! کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے صحیح پایا؟ میں نے تو اللہ نے جو وعدہ مجھ سے کیا تھا اسے صحیح پایا“، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ایسے جسموں سے بات کر رہے ہیں جن میں روح نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سنتے“۔
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن حميد، عن انس، قال: سمع المسلمون من الليل ببئر بدر، ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم ينادي" يا ابا جهل بن هشام، ويا شيبة بن ربيعة، ويا عتبة بن ربيعة، ويا امية بن خلف، هل وجدتم ما وعد ربكم حقا، فإني وجدت ما وعدني ربي حقا" , قالوا: يا رسول الله , او تنادي قوما قد جيفوا , فقال:" ما انتم باسمع لما اقول منهم ولكنهم لا يستطيعون ان يجيبوا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: سَمِعَ الْمُسْلِمُونَ مِنَ اللَّيْلِ بِبِئْرِ بَدْرٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يُنَادِي" يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ، وَيَا شَيْبَةُ بْنَ رَبِيعَةَ، وَيَا عُتْبَةُ بْنَ رَبِيعَةَ، وَيَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا، فَإِنِّي وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَوَ تُنَادِي قَوْمًا قَدْ جَيَّفُوا , فَقَالَ:" مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَلَكِنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يُجِيبُوا".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے رات کو بدر کے کنویں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے آواز لگاتے سنا: ”اے ابوجہل بن ہشام! اے شیبہ بن ربیعہ! اے عتبہ بن ربیعہ! اور اے امیہ بن خلف! کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے تم نے صحیح پایا؟، میں نے تو اپنے رب کے وعدہ کو صحیح پایا“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ان لوگوں کو پکارتے ہیں جو محض بدبودار لاش ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے، لیکن (فرق صرف اتنا ہے کہ) وہ جواب نہیں دے سکتے“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن آدم، قال: حدثنا عبدة، عن هشام، عن ابيه، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم وقف على قليب بدر , فقال:" هل وجدتم ما وعد ربكم حقا، قال: إنهم ليسمعون الآن ما اقول لهم"، فذكر ذلك لعائشة , فقالت: وهل ابن عمر , إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنهم الآن يعلمون ان الذي كنت اقول لهم هو الحق"، ثم قرات قوله إنك لا تسمع الموتى سورة النمل آية 80 حتى قرات الآية. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ عَلَى قَلِيبِ بَدْرٍ , فَقَالَ:" هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا، قَالَ: إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ الْآنَ مَا أَقُولُ لَهُمْ"، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ , فَقَالَتْ: وَهِلَ ابْنُ عُمَرَ , إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُمُ الْآنَ يَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِي كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ هُوَ الْحَقُّ"، ثُمَّ قَرَأَتْ قَوْلَهُ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتَى سورة النمل آية 80 حَتَّى قَرَأَتِ الْآيَةَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں پہ کھڑے ہوئے (اور) فرمایا: ”کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو صحیح پایا؟“(پھر) آپ نے فرمایا: ”اس وقت جو کچھ میں ان سے کہہ رہا ہوں اسے یہ لوگ سن رہے ہیں“، تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا گیا، تو انہوں نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھول ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں) کہا تھا: ”یہ لوگ اب خوب جان رہے ہیں کہ جو میں ان سے کہتا تھا وہ سچ تھا“، پھر انہوں نے اللہ کا قول پڑھا: «إنك لا تسمع الموتى»(النمل: ۸۰) یہاں تک کہ پوری آیت پڑھی۔