(مرفوع) اخبرنا محمد بن آدم، قال: حدثنا عبدة، عن هشام، عن ابيه، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم وقف على قليب بدر , فقال:" هل وجدتم ما وعد ربكم حقا، قال: إنهم ليسمعون الآن ما اقول لهم"، فذكر ذلك لعائشة , فقالت: وهل ابن عمر , إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنهم الآن يعلمون ان الذي كنت اقول لهم هو الحق"، ثم قرات قوله إنك لا تسمع الموتى سورة النمل آية 80 حتى قرات الآية. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ عَلَى قَلِيبِ بَدْرٍ , فَقَالَ:" هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا، قَالَ: إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ الْآنَ مَا أَقُولُ لَهُمْ"، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ , فَقَالَتْ: وَهِلَ ابْنُ عُمَرَ , إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُمُ الْآنَ يَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِي كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ هُوَ الْحَقُّ"، ثُمَّ قَرَأَتْ قَوْلَهُ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتَى سورة النمل آية 80 حَتَّى قَرَأَتِ الْآيَةَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں پہ کھڑے ہوئے (اور) فرمایا: ”کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو صحیح پایا؟“(پھر) آپ نے فرمایا: ”اس وقت جو کچھ میں ان سے کہہ رہا ہوں اسے یہ لوگ سن رہے ہیں“، تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا گیا، تو انہوں نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھول ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں) کہا تھا: ”یہ لوگ اب خوب جان رہے ہیں کہ جو میں ان سے کہتا تھا وہ سچ تھا“، پھر انہوں نے اللہ کا قول پڑھا: «إنك لا تسمع الموتى»(النمل: ۸۰) یہاں تک کہ پوری آیت پڑھی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2078
اردو حاشہ: حضرت عائشہ ؓ کی مندرجہ بالا تاویل پر بحث حدیث نمبر 2076 میں گزر چکی ہے۔ اور اس مسئلے کی مختصر تحقیق بھی۔ با قی رہا حضرت عائشہ ؓ کا مذکورہ آیت سے استدلال تو جواب یہ ہے کہ نفی آپ کے سنانے کی ہے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کے سنانے کی ﴿إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ﴾ اور آپ کے الفاظ ان کو اللہ تعالیٰ نے سنائے تھے، نیز رسول اللہﷺ نے ان کے سننے کی جو تصریح فرمائی ہے تو وہ سماع وقتی تھا جیسا کہ احادیث میں ”الا ن“ کی قید آتی ہے، یقینا یہ رسو ل اللہ ﷺ کا معجزہ ہی ہے۔ بہر حال سماع مو تیٰ کا مسئلہ متکلم فیہ ہے۔ اہل علم کا ایک گرہ سماع موتیٰ کا قائل ہے، دوسرا قائل نہیں۔ کچھ محققین معتدل ہیں جیسا کہ حدیث نمبر 2076 کے فوائد میں گزرا لیکن یاد رہے، سماع موتیٰ کے قائل ہونے کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ انھیں عبادت میں پکارنا جائز ہے کیونکہ حاجات میں تو زندوں کو پکارنا بھی جائز نہیں جو کہ سب کے نزدیک سنتے ہیں، پھر مردوں کو پکارنا کس طر ح جائز ہو گا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2078