(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عبد الله بن إدريس، قال: انبانا ابن جريج، عن ابن ابي عمار، عن عبد الله بن بابيه، عن يعلى بن امية، قال: قلت لعمر بن الخطاب: فليس عليكم جناح ان تقصروا من الصلاة إن خفتم ان يفتنكم الذين كفروا سورة النساء آية 101 فقد امن الناس، فقال عمر رضي الله عنه: عجبت مما عجبت منه، فسالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك , فقال:" صدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قال: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا سورة النساء آية 101 فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ , فَقَالَ:" صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ".
یعلیٰ بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ: «ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا»”تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے“(النساء: ۱۰۱)، کے متعلق عرض کیا کہ اب تو لوگ مامون اور بےخوف ہو گئے ہیں؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے بھی اس سے تعجب ہوا تھا جس سے تم کو تعجب ہے، تو میں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ”یہ ایک صدقہ ہے ۱؎ جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، تو تم اس کے صدقہ کو قبول کرو“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے اللہ تعالیٰ نے تمہاری کمزوری اور درماندگی کو دیکھتے ہوئے تمہاری پریشانی اور مشقت کے ازالہ کے لیے بطور رحمت تمہارے لیے مشروع کیا ہے، لہٰذا آیت میں «إن خفتم»(اگر تمہیں ڈر ہو) کی جو قید ہے وہ اتفاقی ہے احترازی نہیں۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عبد الله بن ابي بكر بن عبد الرحمن، عن امية بن عبد الله بن خالد، انه قال لعبد الله بن عمر: إنا نجد صلاة الحضر وصلاة الخوف في القرآن، ولا نجد صلاة السفر في القرآن , فقال له ابن عمر:" يا ابن اخي , إن الله عز وجل بعث إلينا محمدا صلى الله عليه وسلم، ولا نعلم شيئا وإنما نفعل كما راينا محمدا صلى الله عليه وسلم يفعل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ، أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَجِدُ صَلَاةَ الْحَضَرِ وَصَلَاةَ الْخَوْفِ فِي الْقُرْآنِ، وَلَا نَجِدُ صَلَاةَ السَّفَرِ فِي الْقُرْآنِ , فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ:" يَا ابْنَ أَخِي , إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا نَعْلَمُ شَيْئًا وَإِنَّمَا نَفْعَلُ كَمَا رَأَيْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ".
امیہ بن عبداللہ بن خالد سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے کہا کہ ہم قرآن میں حضر کی صلاۃ ۱؎ اور خوف کی صلاۃ کے احکام ۲؎ تو پاتے ہیں، مگر سفر کی صلاۃ کو قرآن میں نہیں پاتے؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا: بھتیجے! اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم میں بھیجا، اور ہم اس وقت کچھ نہیں جانتے تھے، ہم تو ویسے ہی کریں گے جیسے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے ۳؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 458 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: قرآن کے سلسلہ میں جو مطلق اوامر وارد ہیں ان کا محمل یہی حضر کی صلاۃ ہے۔ ۲؎: خوف کی صلاۃ کا ذکر آیت کریمہ: «وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا»(النساء: 101) میں ہے۔ ۳؎: اور آپ نے بغیر خوف کے بھی قصر کیا ہے، لہٰذا یہ ایسی دلیل ہے جس سے اسی طرح حکم ثابت ہوتا ہے جیسے قرآن سے ثابت ہوتا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا هشيم، عن منصور بن زاذان، عن ابن سيرين، عن ابن عباس،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من مكة إلى المدينة لا يخاف إلا رب العالمين يصلي ركعتين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ لَا يَخَافُ إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کے لیے نکلے، آپ صرف رب العالمین سے ہی ڈر رہے تھے ۱؎(اس کے باوجود) آپ (راستہ بھر) دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا ابن عون، عن محمد، عن ابن عباس، قال:" كنا نسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين مكة والمدينة لا نخاف إلا الله عز وجل نصلي ركعتين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال:" كُنَّا نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ لَا نَخَافُ إِلَّا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ نُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر کرتے تھے، ہمیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوتا تھا، پھر بھی ہم دو رکعتیں ہی پڑھتے تھے۔
ابن سمط کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ذوالحلیفہ ۱؎ میں دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا، تو میں نے ان سے اس سلسلہ میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا: میں تو ویسے ہی کر رہا ہوں جیسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا ابو عوانة، عن يحيى بن ابي إسحاق، عن انس، قال:" خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من المدينة إلى مكة، فلم يزل يقصر حتى رجع فاقام بها عشرا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ، فَلَمْ يَزَلْ يَقْصُرُ حَتَّى رَجَعَ فَأَقَامَ بِهَا عَشْرًا".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ جانے کے لیے نکلا تو آپ برابر قصر کرتے رہے یہاں تک کہ آپ واپس لوٹ آئے، آپ نے وہاں دس دن تک قیام کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر ال صلاة 1 (1081)، المغازي 52 (4297) مختصراً، صحیح مسلم/المسافرین 1 (693)، سنن ابی داود/الصلاة 279 (1233)، سنن الترمذی/الصلاة 275 (الجمعة 40) (548)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 76 (1077)، مسند احمد 3/187، 190، 282، سنن الدارمی/الصلاة 180 (1551)، ویأتی عند المؤلف فی باب 4 (برقم: 1453) (صحیح)»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں دو رکعتیں پڑھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو رکعتیں پڑھیں، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو رکعتیں ہی پڑھیں۔
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز دو رکعت ہے، عید الفطر کی نماز دو رکعت ہے، عید الاضحی کی نماز دو رکعت ہے، اور سفر کی نماز دو رکعت ہے، اور بزبان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب پوری ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ حضر (اقامت) کی نماز تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر چار رکعتیں فرض ہوئیں، اور سفر کی نماز دو رکعت، اور خوف کی نماز ایک رکعت ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 457 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی صراحت ہے، بعض صحابہ کرام اور ائمہ عظام اس کے قائل بھی ہیں۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر حضر (اقامت) میں چار رکعتیں، اور سفر میں دو رکعتیں، اور خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔