(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن سفيان، عن الحسن بن عبيد الله، عن إبراهيم , ان علقمة صلى خمسا فلما سلم , قال: إبراهيم بن سويد: يا ابا شبل صليت خمسا , فقال: اكذلك يا اعور , فسجد سجدتي السهو , ثم قال: هكذا فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ , أَنَّ عَلْقَمَةَ صَلَّى خَمْسًا فَلَمَّا سَلَّمَ , قَالَ: إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُوَيْدٍ: يَا أَبَا شِبْلٍ صَلَّيْتَ خَمْسًا , فَقَالَ: أَكَذَلِكَ يَا أَعْوَرُ , فَسَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ , ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابراہیم سے روایت ہے کہ علقمہ نے پانچ (رکعتیں) پڑھیں، جب انہوں نے سلام پھیرا، تو ابراہیم بن سوید نے کہا: ابو شبل (علقمہ)! آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں، انہوں نے کہا: کیا ایسا ہوا ہے اے اعور؟ (انہوں نے کہا: ہاں) تو علقمہ نے سہو کے دو سجدے کیے، پھر کہا: اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1257 (صحیح) (علقمہ نے اس حدیث میں صحابی کا ذکر نہیں کیا، اس لیے یہ روایت مرسل ہے، لیکن اصل حدیث علقمہ نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، اس لیے یہ حدیث بھی صحیح ہے، اور امام نسائی نے اس طریق کو اس کی علت ارسال کی وضاحت کے لیے کیا ہے، یہ بھی واضح رہے کہ مزی نے تحفة الاشراف میں اس حدیث کا ذکر نہیں کیا ہے، جب کہ اس کا مقام مراسیل علقمہ بن قیس النخعی ہے)»
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن ابي بكر النهشلي، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن ابيه، عن عبد الله، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , صلى إحدى صلاتي العشي خمسا , فقيل له: ازيد في الصلاة , قال:" وما ذاك" , قالوا: صليت خمسا , قال:" إنما انا بشر انسى كما تنسون واذكر كما تذكرون فسجد سجدتين، ثم انفتل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , صَلَّى إِحْدَى صَلَاتَيِ الْعَشِيِّ خَمْسًا , فَقِيلَ لَهُ: أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ , قَالَ:" وَمَا ذَاكَ" , قَالُوا: صَلَّيْتَ خَمْسًا , قَالَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ وَأَذْكُرُ كَمَا تَذْكُرُونَ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ انْفَتَلَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی دونوں نمازوں (یعنی ظہر اور عصر) میں سے کوئی ایک نماز پانچ رکعت پڑھائی، تو آپ سے کہا گیا: کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے پوچھا: ”وہ کیا؟“ لوگوں نے عرض کیا: آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں انسان ہی تو ہوں، میں بھی بھولتا ہوں جس طرح تم بھولتے، ہو اور مجھے بھی یاد رہتا ہے جیسے تمہیں یاد رہتا ہے“، پھر آپ نے دو سجدے کیے، اور پیچھے کی طرف پلٹے۔
(مرفوع) اخبرنا الربيع بن سليمان، قال: حدثنا شعيب بن الليث، قال: حدثنا الليث، عن محمد بن عجلان، عن محمد بن يوسف مولى عثمان، عن ابيه يوسف، ان معاوية صلى امامهم فقام في الصلاة وعليه جلوس , فسبح الناس فتم على قيامه، ثم سجد سجدتين وهو جالس بعد ان اتم الصلاة، ثم قعد على المنبر , فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" من نسي شيئا من صلاته فليسجد مثل هاتين السجدتين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ مَوْلَى عُثْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ يُوسُفَ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ صَلَّى أَمَامَهُمْ فَقَامَ فِي الصَّلَاةِ وَعَلَيْهِ جُلُوسٌ , فَسَبَّحَ النَّاسُ فَتَمَّ عَلَى قِيَامِهِ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ أَنْ أَتَمَّ الصَّلَاةَ، ثُمَّ قَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ نَسِيَ شَيْئًا مِنْ صَلَاتِهِ فَلْيَسْجُدْ مِثْلَ هَاتَيْنِ السَّجْدَتَيْنِ".
یوسف سے روایت ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے آگے نماز پڑھی (یعنی ان کی امامت کی) تو وہ نماز میں کھڑے ہو گئے، حالانکہ انہیں بیٹھنا چاہیئے تھا، تو لوگوں نے سبحان اللہ کہا، پر وہ کھڑے ہی رہے، اور نماز پوری کر لی، پھر بیٹھے بیٹھے دو سجدے کیے، پھر منبر پر بیٹھے، اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو اپنی نماز میں سے کوئی چیز بھول جائے تو وہ ان دونوں سجدوں کی طرح سجدے کر لے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، مسند احمد 4/100، (تحفة الأشراف: 11452) (ضعیف) (اس کے راوی ’’یوسف‘‘ اور ان کے بیٹے ”محمد“ دونوں لین الحدیث ہیں)»
وضاحت: ۱؎: ایک تو یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، دوسرے اس میں مذکور بھول بالکل عام نہیں ہے، بلکہ رکن کے سوا کسی اور چیز کی بھول مراد ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ قعدہ اولیٰ بھولے تھے جو رکن نہیں ہے، اس طرح کی بھول کا کفارہ سجدہ سہو ہو سکتا ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔
عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دوسری رکعت کے بعد (بغیر قعدہ کے) کھڑے ہو گئے، پھر (واپس) نہیں بیٹھے، پھر جب آپ نے اپنی نماز پوری کر لی تو جو تشہد آپ بھول گئے تھے اس کے عوض بیٹھے بیٹھے سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے، اور ہر سجدہ میں اللہ اکبر کہا، آپ کے ساتھ لوگوں نے (بھی) یہ دونوں سجدے کیے۔
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان دو رکعتوں میں ہوتے تھے جن میں نماز ختم ہوتی ہے، تو آپ (قعدہ میں) اپنا بایاں پاؤں (داہنی طرف) نکال دیتے، اور اپنی ایک سرین پر ٹیک لگا کر بیٹھتے پھر سلام پھیرتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1040 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس بیٹھک کو تورک کہتے ہیں، اس سے پتہ چلا کہ قعدہ اخیرہ میں اس طرح بیٹھنا سنت ہے، بعض لوگ اسے کبرسنی پر محمول کرتے ہیں لیکن اس پر محمول کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں، نیز بعض لوگوں کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ فجر کے قعدہ اخیرہ میں تورک ثابت نہیں، اس حدیث کے الفاظ سے صراحت کے ساتھ یہ ثابت ہو رہا ہے کہ ”قعدہ اخیرہ“ میں تورک کرتے تھے، اب خواہ یہ قعدہ اخیرہ فجر و مغرب کا ہو یا چار رکعتوں والی نمازوں کا۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن ابيه، عن وائل بن حجر، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يرفع يديه إذا افتتح الصلاة , وإذا ركع , وإذا رفع راسه من الركوع , وإذا جلس اضجع اليسرى ونصب اليمنى , ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى ويده اليمنى على فخذه اليمنى , وعقد ثنتين الوسطى والإبهام واشار". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ , وَإِذَا رَكَعَ , وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ , وَإِذَا جَلَسَ أَضْجَعَ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْيُمْنَى , وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَيَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى , وَعَقَدَ ثِنْتَيْنِ الْوُسْطَى وَالْإِبْهَامَ وَأَشَارَ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے (تو بھی اسی طرح اٹھاتے) اور جب آپ (قعدہ میں) بیٹھتے تو بایاں (پاؤں) لٹاتے، اور دایاں (پاؤں) کھڑا رکھتے، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھتے، اور درمیان والی انگلی اور انگوٹھے دونوں کو ملا کر گرہ بناتے، اور اشارہ کرتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 890 و 1160 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ یہ بیان آخری قعدہ کے بارے میں ہے، اس لیے باب سے مناسبت واضح نہیں، یا یہ مراد ہے کہ یہ بیان دونوں قعدوں کے بارے میں ہے، تو یہ بھی درست نہیں، کیونکہ ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیحین کی ہے نیز تورک کے بارے میں واضح ہے۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز میں بیٹھے تو آپ نے اپنا بایاں پاؤں بچھایا، اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھا، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا، آپ اس کے ذریعہ دعا کر رہے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: انبانا بشر بن المفضل، قال: حدثنا عاصم بن كليب، عن ابيه، عن وائل بن حجر، قال:" قلت لانظرن إلى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف يصلي , فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستقبل القبلة فرفع يديه حتى حاذتا اذنيه، ثم اخذ شماله بيمينه , فلما اراد ان يركع رفعهما مثل ذلك ووضع يديه على ركبتيه , فلما رفع راسه من الركوع رفعهما مثل ذلك , فلما سجد وضع راسه بذلك المنزل من يديه، ثم جلس فافترش رجله اليسرى ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى , وحد مرفقه الايمن على فخذه اليمنى وقبض ثنتين وحلق ورايته يقول: هكذا , واشار بشر بالسبابة من اليمنى وحلق الإبهام والوسطى". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ:" قُلْتُ لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي , فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ , فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ , فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ , فَلَمَّا سَجَدَ وَضَعَ رَأْسَهُ بِذَلِكَ الْمَنْزِلِ مِنْ يَدَيْهِ، ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى , وَحَدَّ مِرْفَقَهُ الْأَيْمَنَ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ وَحَلَّقَ وَرَأَيْتُهُ يَقُولُ: هَكَذَا , وَأَشَارَ بِشْرٌ بِالسَّبَّابَةِ مِنَ الْيُمْنَى وَحَلَّقَ الْإِبْهَامَ وَالْوُسْطَى".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر رہوں گا کہ آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں، تو (میں نے دیکھا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور قبلہ رو ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اٹھایا کہ وہ آپ کے کانوں کے بالمقابل ہو گئے، پھر اپنے دائیں (ہاتھ) سے اپنے بائیں (ہاتھ) کو پکڑا، پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ کیا تو ان دونوں کو پھر اسی طرح اٹھایا، اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھا، پھر جب رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو پھر ان دونوں کو اسی طرح اٹھایا، پھر جب سجدہ کیا تو اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اسی جگہ پر رکھا ۱؎، پھر آپ بیٹھے تو اپنا بایاں پاؤں بچھایا، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، اور اپنی دائیں کہنی کو اپنی دائیں ران سے دور رکھا، پھر اپنی دو انگلیاں بند کیں، اور حلقہ بنایا، اور میں نے انہیں اس طرح کرتے دیکھا۔ بشر نے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا، اور انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنایا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 890 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اپنا سر اس طرح رکھا کہ دونوں ہاتھ دونوں کانوں کے بالمقابل ہو گئے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان , قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن مسلم بن ابي مريم شيخ من اهل المدينة، ثم لقيت الشيخ , فقال: سمعت علي بن عبد الرحمن , يقول:" صليت إلى جنب ابن عمر فقلبت الحصى , فقال لي ابن عمر: لا تقلب الحصى , فإن تقليب الحصى من الشيطان وافعل كما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل , قلت: وكيف رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل؟ قال: هكذا ونصب اليمنى واضجع اليسرى , ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى , ويده اليسرى على فخذه اليسرى واشار بالسبابة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ لَقِيتُ الشَّيْخَ , فَقَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , يَقُولُ:" صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ فَقَلَّبْتُ الْحَصَى , فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ: لَا تُقَلِّبِ الْحَصَى , فَإِنَّ تَقْلِيبَ الْحَصَى مِنَ الشَّيْطَانِ وَافْعَلْ كَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ , قُلْتُ: وَكَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ؟ قَالَ: هَكَذَا وَنَصَبَ الْيُمْنَى وَأَضْجَعَ الْيُسْرَى , وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى , وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ".
علی بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم کے بغل میں نماز پڑھی، تو میں کنکریوں کو الٹنے پلٹنے لگا، (نماز سے فارغ ہونے پر) انہوں نے مجھ سے کہا: (نماز میں) کنکریاں مت پلٹو، کیونکہ کنکریاں کو الٹنا پلٹنا شیطان کی جانب سے ہے، (بلکہ) اس طرح کرو جس طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے، میں نے کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے کرتے دیکھا ہے؟، انہوں نے کہا: اس طرح سے، اور انہوں نے دائیں پیر کو قعدہ میں کھڑا کیا، اور بائیں پیر کو لٹایا ۱؎، اور اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا ۲؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1161 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھنے والی ساری روایتیں مبہم ہیں، اور ابوحمید رضی اللہ عنہ والی روایت کہ جس میں قعدہ اخیرہ میں تورک کا ذکر ہے، مفصل ہے اس لیے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مبہم کو مفصل پر محمول کیا جائے۔ ۲؎: دونوں قعدوں میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنا کر دائیں گھٹنے پر رکھنا، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا سنت ہے اس اشارہ کا کوئی وقت متعین نہیں ہے، شروع تشہد سے اخیر تک اشارہ کرتے رہنا چاہیئے، اور اس اشارہ میں کبھی انگلی کو حرکت دینا اور کبھی نہ دینا دونوں ثابت ہے، اس بابت تمام روایات کا یہی حاصل ہے، صرف «أشھد أن لا إلہ إلا اللہ» پر اشارہ کرنا ثابت نہیں ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن مسلم بن ابي مريم، عن علي بن عبد الرحمن، قال: رآني ابن عمر وانا اعبث بالحصى في الصلاة , فلما انصرف نهاني , وقال: اصنع كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع , قلت: وكيف كان يصنع؟ قال: كان" إذا جلس في الصلاة وضع كفه اليمنى على فخذه وقبض يعني اصابعه كلها واشار بإصبعه التي تلي الإبهام , ووضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: رَآنِي ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَعْبَثُ بِالْحَصَى فِي الصَّلَاةِ , فَلَمَّا انْصَرَفَ نَهَانِي , وَقَالَ: اصْنَعْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ , قُلْتُ: وَكَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ؟ قَالَ: كَانَ" إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ وَقَبَضَ يَعْنِي أَصَابِعَهُ كُلَّهَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ , وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى".
علی بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے دیکھا تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے مجھے منع کیا، اور کہا: اس طرح کیا کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح کرتے تھے؟ کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھتے تو اپنی دائیں ہتھیلی اپنی دائیں ران پر رکھتے ۱؎، اور اپنی سبھی انگلیاں سمیٹے رکھتے، اور اپنی اس انگلی سے جو انگوٹھے کے قریب ہے اشارہ کرتے، اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران پر رکھتے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1161 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور ایک روایت میں ہے اپنے داہنے گھٹنے پر۔ ۲؎: اور ایک روایت میں ہے اپنے بائیں گھٹنے پر۔