(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، قال: حدثني ابو حازم بن دينار، ان رجالا اتوا سهل بن سعد الساعدي وقد امتروا في المنبر مم عوده، فسالوه عن ذلك، فقال: والله إني لاعرف مم هو، ولقد رايته اول يوم وضع واول يوم جلس عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى فلانة امراة قد سماها سهل ان مري غلامك النجار ان يعمل لي اعوادا اجلس عليهن إذا كلمت الناس، فامرته فعملها من طرفاء الغابة ثم جاء بها فارسلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فامر بها فوضعت ها هنا، ثم رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم رقي فصلى عليها وكبر وهو عليها ثم ركع وهو عليها، ثم نزل القهقرى فسجد في اصل المنبر، ثم عاد، فلما فرغ اقبل على الناس، فقال:" يا ايها الناس إنما صنعت هذا لتاتموا بي ولتعلموا صلاتي". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ رِجَالًا أَتَوْا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ وَقَدِ امْتَرَوْا فِي الْمِنْبَرِ مِمَّ عُودُهُ، فَسَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُ مِمَّ هُوَ، وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ أَوَّلَ يَوْمٍ وُضِعَ وَأَوَّلَ يَوْمٍ جَلَسَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى فُلَانَةَ امْرَأَةٍ قَدْ سَمَّاهَا سَهْلٌ أَنْ مُرِي غُلَامَكِ النَّجَّارَ أَنْ يَعْمَلَ لِي أَعْوَادًا أَجْلِسُ عَلَيْهِنَّ إِذَا كَلَّمْتُ النَّاسَ، فَأَمَرَتْهُ فَعَمِلَهَا مِنْ طَرْفَاءِ الْغَابَةِ ثُمَّ جَاءَ بِهَا فَأُرْسِلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِهَا فَوُضِعَتْ هَا هُنَا، ثُمَّ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَقِيَ فَصَلَّى عَلَيْهَا وَكَبَّرَ وَهُوَ عَلَيْهَا ثُمَّ رَكَعَ وَهُوَ عَلَيْهَا، ثُمَّ نَزَلَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ فِي أَصْلِ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ عَادَ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا صَنَعْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا بِي وَلِتَعَلَّمُوا صَلَاتِي".
ابوحازم بن دینار کہتے ہیں کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے وہ لوگ منبر کی لکڑی کے بارے میں بحث کر رہے تھے کہ وہ کس چیز کی تھی؟ ان لوگوں نے سہیل رضی اللہ عنہ اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم میں خوب جانتا ہوں کہ یہ منبر کس لکڑی کا تھا، میں نے اسے پہلے ہی دن دیکھا تھا جس دن وہ رکھا گیا، اور جس دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پہل اس پر بیٹھے (ہوا یوں تھا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں عورت (سہل رضی اللہ عنہ نے اس کا نام لیا تھا) کو کہلوا بھیجا کہ آپ اپنے غلام سے جو بڑھئی ہے کہیں کہ وہ میرے لیے کچھ لکڑیوں کو اس طرح بنا دے کہ جب میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کروں تو اس پر بیٹھ سکوں، تو اس عورت نے غلام سے منبر بنانے کے لیے کہہ دیا، چنانچہ غلام نے جنگل کے جھاؤ سے اسے تیار کیا، پھر اسے اس عورت کے پاس لے کر آیا تو اس نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے یہاں رکھا گیا، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اس پر چڑھے، اور اس پر نماز پڑھی، آپ نے اللہ اکبر کہا، آپ اسی پر تھے، پھر آپ نے رکوع کیا، اور آپ اسی پر تھے، پھر آپ الٹے پاؤں اترے اور منبر کے پایوں کے پاس سجدہ کیا، پھر آپ نے دوبارہ اسی طرح کیا، تو جب آپ فارغ ہو گئے، تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”لوگو! میں نے یہ کام صرف اس لیے کیا ہے تاکہ تم لوگ میری پیروی کر سکو، اور (مجھ سے) میری نماز سیکھ سکو“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا إسماعيل بن عمر، قال: حدثنا داود بن قيس، عن محمد بن عجلان، عن يحيى بن سعيد، عن انس بن مالك، انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي على حمار وهو راكب إلى خيبر والقبلة خلفه". قال ابو عبد الرحمن: لا نعلم احدا تابع عمرو بن يحيى على قوله يصلي على حمار، وحديث يحيى بن سعيد، عن انس الصواب، موقوف والله سبحانه وتعالى اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ، قال: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ وَهُوَ رَاكِبٌ إِلَى خَيْبَرَ وَالْقِبْلَةُ خَلْفَهُ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: لَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ عَمْرَو بْنَ يَحْيَى عَلَى قَوْلِهِ يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ، وَحَدِيثُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسٍ الصَّوَابُ، مَوْقُوفٌ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا آپ سوار ہو کر خیبر کی طرف جا رہے تھے، اور قبلہ آپ کے پیچھے تھا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے کہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے عمرو بن یحییٰ کی ان کے قول «يصلي على حمار» میں متابعت کی ہو ۱؎ اور یحییٰ بن سعید کی حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ موقوف ہے ۲؎ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 1665)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیرالصلاة 10 (1100)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 7 (26) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مؤلف کا یہ قول ابن عمر رضی اللہ عنہم کی پچھلی حدیث سے متعلق ہے، اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عمرو بن یحییٰ کے سوا دیگر رواۃ نے «حمار» کی جگہ مطلق سواری ( «راحلتہ») کا ذکر کیا ہے، اور بعض روایات میں ”اونٹ“ کی صراحت ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اونٹ پر سوار تھے نہ کہ گدھے پر، لیکن نووی نے دونوں روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے کہ کبھی آپ اونٹ پر سوار ہوئے اور کبھی گدھے پر، اور اس سے اصل مسئلے میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سواری کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر یا نفل پڑھی ہے۔ ۲؎: صحیح مسلم میں تو اس کی صراحت موجود ہے کہ لوگوں نے انس رضی اللہ عنہ کو گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھتے دیکھا تو سوال کیا، اس پر انہوں نے صراحتاً کہا: ”اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا تو ایسا نہیں کرتا“ اس لیے ان کی روایت کو محض ان کا فعل قرار دینا صحیح نہیں ہے۔