377. حضرت ابوحازم ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد ؓ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ (نبی ﷺ کا) منبر کس چیز سے تیار کیا گیا تھا؟ وہ بولے کہ اب لوگوں میں اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں۔ وہ مقام غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا جسے رسول اللہ ﷺ کے لیے فلاں عورت کے فلاں غلام نے تیار کیا تھا۔ جب وہ تیار ہو چکا اور مسجد میں رکھ دیا گیا تھا تو رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہی۔ دیگر لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے، پھر آپ نے قراءت کی اور رکوع کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے رکوع کیا، پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور پیچھے ہٹ کر زمین پر سجدہ کیا۔ (دونوں سجدے ادا کرنے کے بعد) پھر منبر پر لوٹ آئے، پھر قراءت کی اور رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ منبر نبوی کا یہی قصہ ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:377]
حدیث حاشیہ: 1۔
رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر اس لیے امامت کرائی تاکہ تمام مقتدی آپ کی نماز کا مشاہدہ کرلیں بصورت دیگر صرف وہی لوگ آپ کو دیکھ سکتے تھے جو پہلی صف میں ہوں، تمام لوگ آپ کو نہ دیکھ سکتے تھے۔
اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر نماز پڑھی جو لکڑی کا تھا اور سطح زمین سے بلند تھا۔
امام بخاری ؒ کا عنوان تین اجزا پر مشتمل تھا کہ چھت منبر اور تختوں پر نماز کا جواز۔
یہ تینوں اجزاء اسی ایک روایت سے ثابت ہوگئے۔
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا منبر دو سیڑھیوں اور ایک نشست پر مشتمل تھا۔
دوران نماز میں منبر سے اترنے اور اس پر چڑھنے میں عمل کثیر کا شبہ نہیں ہونا چاہیے جو نماز کے لیے درست نہیں، کیونکہ اترنے اور چڑھنے کی صورت یہ تھی کہ ایک قدم اٹھایا اور رک گئے، پھر ایک قدم اٹھایا اور رک گئے یہ عمل کثیر نہیں بلکہ عمل قلیل کا تکرار ہے جو نماز کے منافی نہیں۔
چنانچہ علامہ خطابی ؒ لکھتے ہیں کہ دوران نماز میں اس قدر عمل یسیر نماز کے لیے باعث فساد نہیں، کیونکہ آپ کا منبر تین سیڑھیوں پر مشتمل تھا اور شاید آپ دوسری سیڑھی پر تھے اس طرح اترنے اور چڑھنے میں دو قدم آگے پیچھے ہونا پڑا ہو گا۔
(إعلام الحدیث: 360/1) 2۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر امام مقتدی حضرات سے اونچے مقام پر کھڑا ہو تو امامت اور اقتدا جائز ہے، اگرچہ ایسا کرنا کراہت سے خالی نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو تعلیم دینے کے لیے اونچا کھڑے ہوئے تھے تاکہ مقتدی حضرات آپ کی حرکات و سکنات سے واقف ہو سکیں۔
البتہ امام اور مقتدی کا یہ فرق اگر کسی ضرورت کی بنا پرہو تو بلا کراہت ایسا کرنا جائز ہے۔
مثلاً:
امام مقتدی حضرات کو نماز کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔
امام کی تکبیرات دوسروں تک پہنچانے کے لیے اونچا کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔
جگہ کم رہ جانے کی وجہ سے چھت پر نماز ادا کرنے کی نوبت آجائے وغیرہ۔
رسول اللہ ﷺ الٹے پاؤں اس لیے اترے تاکہ قبلے سے انحراف نہ ہو۔
(إعلام الحدیث: 360/1) 3۔
بلاوجہ امام کا اونچا کھڑا ہونا اس لیے مکروہ ہے کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس کی کراہت منقول ہے، مثلاً:
حضرت حذیفہ ؓ نے ایک دفعہ اونچی دکان پر کھڑے ہو کر جماعت کرائی وہاں سجدہ کیا۔
دوران نماز میں حضرت ابومسعود ؓ نے انھیں نیچے کردیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابو مسعود ؓ کہنے لگے۔
آپ کو معلوم نہیں کہ اس کی ممانعت ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے جواب دیا اسی وجہ سے تو میں آہ کے اشارے سے نیچے آگیا تھا۔
(صحیح ابن خزیمة: 13/3) حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا:
امام کا مقتدی حضرات سے اونچا کھڑا ہونا ایک ناپسندیدہ حرکت ہے۔
(مجمع الزوائد: 67/3) امام ابو داود ؒ نے اپنی سنن میں اس کے متعلق ایک عنوان بھی قائم کیا ہے۔
4۔
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنے شیخ سفیان بن عیینہ سے پوری حدیث کا سماع نہیں کیا، بلکہ انھوں نے اپنی سند میں صرف اسی قدر نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا منبر غابہ جنگل کے جھاؤ کا تھا۔
باقی حدیث کا علم انھیں حضرت علی بن عبد اللہ المدینی سے ہوا جیسا کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے آخر میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
(فتح الباري: 631/1)