(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا عائذ بن حبيب، قال: حدثنا حميد الطويل، عن انس بن مالك، قال: راى رسول الله صلى الله عليه وسلم نخامة في قبلة المسجد فغضب حتى احمر وجهه، فقامت امراة من الانصار فحكتها وجعلت مكانها خلوقا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما احسن هذا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، قال: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، فَقَامَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَحَكَّتْهَا وَجَعَلَتْ مَكَانَهَا خَلُوقًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَحْسَنَ هَذَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو غضبناک ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا، انصار کی ایک عورت نے اٹھ کر اسے کھرچ کر صاف کر دیا، اور اس جگہ پر خلوق خوشبو مل دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے کیا ہی اچھا کیا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المساجد 10 (762)، (تحفة الأشراف: 698)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 39 (417)، مسند احمد 3/188، 199، 200 (صحیح)»
ابوحمید اور ابواسید (مالک بن ربیعہ) رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو وہ: «اللہم افتح لي أبواب رحمتك»”اے اللہ! تو میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے“ پڑھے، اور جب نکلے تو: «اللہم إني أسألك من فضلك»”اے اللہ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں“ پڑھے“۔
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے“۔
(مرفوع) اخبرنا سليمان بن داود، قال: حدثنا ابن وهب، عن يونس، قال ابن شهاب: واخبرني عبد الرحمن بن كعب بن مالك، ان عبد الله بن كعب، قال: سمعت كعب بن مالك يحدث، حديثه حين تخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، قال: وصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم قادما، وكان إذا قدم من سفر بدا بالمسجد فركع فيه ركعتين ثم جلس للناس، فلما فعل ذلك جاءه المخلفون فطفقوا يعتذرون إليه ويحلفون له وكانوا بضعا وثمانين رجلا، فقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم علانيتهم وبايعهم واستغفر لهم ووكل سرائرهم إلى الله عز وجل، حتى جئت فلما سلمت تبسم تبسم المغضب، ثم قال: تعال، فجئت حتى جلست بين يديه، فقال لي: ما خلفك؟ الم تكن ابتعت ظهرك؟ فقلت: يا رسول الله، إني والله لو جلست عند غيرك من اهل الدنيا لرايت اني ساخرج من سخطه ولقد اعطيت جدلا ولكن والله لقد علمت لئن حدثتك اليوم حديث كذب لترضى به عني ليوشك ان الله عز وجل يسخطك علي ولئن حدثتك حديث صدق تجد علي فيه إني لارجو فيه عفو الله والله ما كنت قط اقوى ولا ايسر مني حين تخلفت عنك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما هذا فقد صدق، فقم حتى يقضي الله فيك"، فقمت فمضيت. مختصر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، قال ابْنُ شِهَابٍ: وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قال: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ، حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، قَالَ: وَصَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُونَ لَهُ وَكَانُوا بِضْعًا وَثَمَانِينَ رَجُلًا، فَقَبِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، حَتَّى جِئْتُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ: تَعَالَ، فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ لِي: مَا خَلَّفَكَ؟ أَلَمْ تَكُنِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ؟ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنِّي سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ لِتَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشَكُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُسْخِطُكَ عَلَيَّ وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ إِنِّي لَأَرْجُو فِيهِ عَفْوَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ، فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ"، فَقُمْتُ فَمَضَيْتُ. مُخْتَصَرٌ.
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اپنا وہ واقعہ بیان کر رہے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو تشریف لائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کر لیا تو جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ کے پاس آئے، آپ سے معذرت کرنے لگے، اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے لگے، وہ اسّی سے کچھ زائد لوگ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہری بیان کو قبول کر لیا، اور ان سے بیعت کر لی، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی، اور ان کے دلوں کے راز کو اللہ عزوجل کے سپرد کر دیا، یہاں تک کہ میں آیا تو جب میں نے سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرائے جیسے کوئی غصہ میں مسکراتا ہے، پھر فرمایا: ”آ جاؤ!“ چنانچہ میں آ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۱؎، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: ”تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے؟ کیا تم نے اپنی سواری خرید نہیں لی تھی؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس ہوتا تو میں اس کے غصہ سے اپنے آپ کو یقیناً بچا لیتا، مجھے باتیں بنانی خوب آتی ہے لیکن اللہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ اگر آپ کو خوش کرنے کے لیے میں آج آپ سے جھوٹ موٹ کہہ دوں تو قریب ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے، اور اگر میں آپ سے سچ سچ کہہ دوں تو آپ مجھ پر ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا، اللہ کی قسم جب میں آپ سے پیچھے رہ گیا تھا تو اس وقت میں زیادہ طاقتور اور زیادہ مال والا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہا یہ شخص تو اس نے سچ کہا، اٹھو چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے“، چنانچہ میں اٹھ کر چلا آیا، یہ حدیث لمبی ہے یہاں مختصراً منقول ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 198 (3088)، صحیح مسلم/المسافرین 12 (716)، سنن ابی داود/الجہاد 173 (2773)، 178 (2781)، (تحفة الأشراف: 11132)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/التفسیر 10 (3102)، مسند احمد 3/455، 457، 459 و 6/388 (کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث کی مفصل تخریج کے لیے حدیث رقم: (3451) کی تخریج دیکھئے، یہاں باب کی مناسبت سے متن اور تخریج میں اختصار سے کام لیا گیا ہے) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مؤلف نے اسی سے باب پر استدلال کیا ہے، یعنی: کعب رضی اللہ عنہ بغیر تحیۃ المسجد پڑھے بیٹھ گئے، پھر اٹھ کر چلے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم نہیں دیا، لیکن یہ بعض حالات کے لیے ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الملائكة تصلي على احدكم ما دام في مصلاه الذي صلى فيه ما لم يحدث: اللهم اغفر له اللهم ارحمه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُصَلِّي عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ الَّذِي صَلَّى فِيهِ مَا لَمْ يُحْدِثْ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے تمہارے حق میں دعا کرتے رہتے ہیں جب تک آدمی اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے، اور وضو نہ توڑا ہو، وہ کہتے ہیں: اے اللہ! تو اسے بخش دے، اور اے اللہ! تو اس پر رحم فرما“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 34 (176)، الصلاة 61 (445)، 87 (477)، الأذان 30 (647)، 36 (659)، البیوع 49 (2119)، بدء الخلق 7 (3229)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 20 (469)، (تحفة الأشراف: 13816)، موطا امام مالک/السفر 18 (54)، مسند احمد 2/266، 289، 312، 394، 415، 421، 486، 502 (صحیح)»
سہل ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو شخص مسجد میں نماز کا انتظار کرتا ہے، وہ نماز ہی میں رہتا ہے“۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پوری روئے زمین ۱؎ میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے، میری امت کا کوئی بھی آدمی جہاں نماز کا وقت پائے نماز پڑھ لے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 432 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس عموم میں اونٹوں کے باڑے بھی شامل ہیں، مگر پھر بھی اس عموم سے دیگر دلائل کی بنیاد پر زمین کے بعض حصے مستثنیٰ ہیں مثلاً گندی اور ناپاک جگہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ان کے پاس تشریف لا کر ان کے گھر میں نماز پڑھ دیں تاکہ وہ اسی کو اپنی نماز گاہ بنا لیں ۱؎، چنانچہ آپ ان کے ہاں تشریف لائے، تو انہوں نے چٹائی لی اور اس پر پانی چھڑکا، پھر آپ نے اس پر نماز پڑھی، اور آپ کے ساتھ گھر والوں نے بھی نماز پڑھی۔
وضاحت: ۱؎: ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانے کی دعوت کی تھی اس موقع پر آپ سے گھر میں مصلیٰ بنانے کی جگہ پر نماز ادا کرنے کی فرمائش کی تو آپ نے اسے قبول فرما لیا، یہ ایک اتفاقیہ بات تھی، مصلیٰ بنانے کی کوئی تقریب نہ تھی، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (۸۰۲ کے حوالہ جات)۔