(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا هشام، قال: حدثنا قتادة، عن سالم بن ابي الجعد، عن معدان بن ابي طلحة، ان عمر بن الخطاب، قال: إنكم ايها الناس تاكلون من شجرتين ما اراهما إلا خبيثتين هذا البصل والثوم، ولقد" رايت نبي الله صلى الله عليه وسلم إذا وجد ريحهما من الرجل، امر به فاخرج إلى البقيع"، فمن اكلهما فليمتهما طبخا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قال: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قال: إِنَّكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ مَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ هَذَا الْبَصَلُ وَالثُّومُ، وَلَقَدْ" رَأَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَجَدَ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ، أَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ إِلَى الْبَقِيعِ"، فَمَنْ أَكَلَهُمَا فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لوگو! تم ان دونوں پودوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں خبیث ہی سمجھتا ہوں ۱؎ یعنی اس پیاز اور لہسن سے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کسی آدمی سے ان میں سے کسی کی بدبو پاتے تو اسے مسجد سے نکل جانے کا حکم دیتے، تو اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا، جو ان دونوں کو کھائے تو پکا کر ان کی بو کو مار دے۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ دونوں ایسی چیزیں ہیں جن کی بو ناگوار اور مکروہ ہے جب تک یہ کچے ہوں، یہ اس اعتبار سے خبیث ہیں کہ انہیں کھا کر مسجد میں جانا ممنوع ہے، البتہ پکنے کے بعد اس کا حکم بدل جائے گا، اور ان کا کھانا جائز ہو گا، اسی طرح مسجد میں جانے کا وقت نہ ہو تو اس وقت بھی ان کا کھانا جائز ہے۔
(مرفوع) اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا يعلى، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن عمرة، عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا اراد ان يعتكف صلى الصبح ثم دخل في المكان الذي يريد ان يعتكف فيه، فاراد ان يعتكف العشر الاواخر من رمضان، فامر فضرب له خباء، وامرت حفصة فضرب لها خباء، فلما رات زينب خباءها امرت فضرب لها خباء، فلما راى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" آلبر تردن؟" فلم يعتكف في رمضان واعتكف عشرا من شوال. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قال: حَدَّثَنَا يَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ صَلَّى الصُّبْحَ ثُمَّ دَخَلَ فِي الْمَكَانِ الَّذِي يُرِيدُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهِ، فَأَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ، فَأَمَرَ فَضُرِبَ لَهُ خِبَاءٌ، وَأَمَرَتْ حَفْصَةُ فَضُرِبَ لَهَا خِبَاءٌ، فَلَمَّا رَأَتْ زَيْنَبُ خِبَاءَهَا أَمَرَتْ فَضُرِبَ لَهَا خِبَاءٌ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" آلْبِرَّ تُرِدْنَ؟" فَلَمْ يَعْتَكِفْ فِي رَمَضَانَ وَاعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر پڑھتے، پھر آپ اس جگہ میں داخل ہو جاتے جہاں آپ اعتکاف کرنے کا ارادہ فرماتے، چنانچہ آپ نے ایک رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا ارادہ فرمایا، تو آپ نے (خیمہ لگانے کا) حکم دیا تو آپ کے لیے خیمہ لگایا گیا، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، پھر جب ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے ان کے خیمے دیکھے تو انہوں نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیمے دیکھے تو فرمایا: ”کیا تم لوگ اس سے نیکی کا ارادہ رکھتی ہو؟“۱؎، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سال) رمضان میں اعتکاف نہیں کیا (اور اس کے بدلے) شوال میں دس دنوں کا اعتکاف کیا۔
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا عبد الله بن نمير، قال: حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: اصيب سعد يوم الخندق رماه رجل من قريش رمية في الاكحل" فضرب عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم خيمة في المسجد ليعوده من قريب". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: أُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الْخَنْدَقِ رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ رَمْيَةً فِي الْأَكْحَلِ" فَضَرَبَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ لِيَعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: غزوہ خندق (غزوہ احزاب) کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے، قبیلہ قریش کے ایک شخص نے ان کے ہاتھ کی رگ ۱؎ میں تیر مارا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگایا تاکہ آپ قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن سعيد بن ابي سعيد، عن عمرو بن سليم الزرقي، انه سمع ابا قتادة، يقول: بينا نحن جلوس في المسجد إذ خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يحمل امامة بنت ابي العاص بن الربيع وامها زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي صبية يحملها" فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي على عاتقه يضعها إذا ركع ويعيدها إذا قام حتى قضى صلاته يفعل ذلك بها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا قَتَادَةَ، يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ أُمَامَةَ بِنْتَ أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ وَأُمُّهَا زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ صَبِيَّةٌ يَحْمِلُهَا" فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عَلَى عَاتِقِهِ يَضَعُهَا إِذَا رَكَعَ وَيُعِيدُهَا إِذَا قَامَ حَتَّى قَضَى صَلَاتَهُ يَفْعَلُ ذَلِكَ بِهَا".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامہ بنت ابی العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کو (گود میں) اٹھائے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے، (ان کی ماں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا ہیں) امامہ ایک (کمسن) بچی تھیں، آپ انہیں اٹھائے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے نماز پڑھائی، جب رکوع میں جاتے تو انہیں اتار دیتے، اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں پھر گود میں اٹھا لیتے، ۱؎ یہاں تک کہ اسی طرح کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کی۔
وضاحت: ۱؎: یہ باجماعت نماز تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرض نماز رہی ہو گی کیونکہ جماعت سے عموماً فرض نماز ہی پڑھی جاتی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ فرض نماز میں بھی بوقت ضرورت ایسا کرنا جائز ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کرنا یا تو ضرورت کے تحت رہا ہو گا، یا بیان جواز کے لیے، کچھ لوگوں نے اسے منسوخ کہا ہے، اور کچھ نے اسے آپ کے خصائص میں سے شمار کیا ہے لیکن یہ دعوے ایسے ہیں جن پر کوئی دلیل نہیں۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن ابي سعيد، انه سمع ابا هريرة، يقول:" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له: ثمامة بن اثال سيد اهل اليمامة، فربط بسارية من سواري المسجد" مختصر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَرُبِطَ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ" مُخْتَصَرٌ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو قبیلہ نجد کی جانب بھیجا، تو وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی ایک شخص کو (گرفتار کر کے) لائے، جو اہل یمامہ کا سردار تھا، اسے مسجد کے کھمبے سے باندھ دیا گیا، یہ ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر بیٹھ کر طواف کیا، آپ ایک چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے، اور مسجد میں خرید و فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جمعہ کے دن مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ جمعہ کے دن مسجد میں خطبہ سننا اور خاموش رہنا ضروری ہے، اور جب لوگ حلقہ بنا کر بیٹھیں گے تو خواہ مخواہ باتیں کریں گے، اور اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ جمعہ سے پہلے کسی وقت بھی حلقہ باندھ کر نہیں بیٹھ سکتے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اشعار پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 220 (1079)، سنن الترمذی/الصلاة 124 (322)، سنن ابن ماجہ/المساجد 5 (749)، مسند احمد 2/179، والمؤلف في عمل الیوم واللیلة 66 (برقم: 173)، (تحفة الأشراف: 8796) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: مسجد میں فحش اور مخرب اخلاق اشعار پڑھنا ممنوع ہے، رہے ایسے اشعار جو توحید اور اتباع سنت صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ اصلاحی مضامین پر مشتمل ہوں تو ان کے پڑھنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، قال: مر عمر، بحسان بن ثابت وهو ينشد في المسجد فلحظ إليه، فقال: قد انشدت وفيه من هو خير منك، ثم التفت إلى ابي هريرة، فقال: اسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" اجب عني، اللهم ايده بروح القدس"؟ قال: اللهم نعم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قال: مَرَّ عُمَرُ، بِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ يُنْشِدُ فِي الْمَسْجِدِ فَلَحَظَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: قَدْ أَنْشَدْتُ وَفِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ: أَسَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَجِبْ عَنِّي، اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ"؟ قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ.
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے، تو عمران رضی اللہ عنہ کی طرف گھورنے لگے، تو انہوں نے کہا: میں نے (مسجد میں) شعر پڑھا ہے، اور اس میں ایسی ہستی موجود ہوتی تھی جو آپ سے بہتر تھی، پھر وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے، اور پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (مجھ سے) یہ کہتے نہیں سنا کہ ”تم میری طرف سے (کافروں کو) جواب دو، اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید فرما!“، تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا! ہاں (سنا ہے)۔