(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن يعقوب، قال: حدثنا النفيلي، قال: حدثنا زهير، قال: حدثنا عبد الملك، عن عطاء، عن يعلى، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا يغتسل بالبراز، فصعد المنبر، فحمد الله واثنى عليه، وقال:" إن الله عز وجل حليم حيي ستير يحب الحياء والستر، فإذا اغتسل احدكم فليستتر". (مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قال: حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، قال: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ يَعْلَى، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَغْتَسِلُ بِالْبَرَازِ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَلِيمٌ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسَّتْرَ، فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْتَتِرْ".
یعلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھلی جگہ غسل کرتے دیکھا تو منبر پر چڑھے، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ «حلیم»”بردبار“، «حیی»”باحیاء“ اور «ستر»”پردہ پوشی پسند فرمانے والا“ ہے، حیاء اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی غسل کرے تو پردہ کر لے“۔
یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ عزوجل «ستر»”پردہ پوشی کرنے والا“ ہے، تو جب تم میں سے کوئی غسل کرنا چاہے تو کسی چیز سے پردہ کر لے“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا عبيدة، عن الاعمش، عن سالم، عن كريب، عن ابن عباس، عن ميمونة، قالت:" وضعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ماء، قالت: فسترته فذكرت الغسل، قالت: ثم اتيته بخرقة فلم يردها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، قالت:" وَضَعْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاءً، قَالَتْ: فَسَتَرْتُهُ فَذَكَرَتِ الْغُسْلَ، قَالَتْ: ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِخِرْقَةٍ فَلَمْ يُرِدْهَا".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی رکھا، پھر میں نے آپ کے لیے پردہ کیا، پھر آپ نے غسل کا ذکر کیا، پھر میں آپ کے پاس ایک کپڑا لے کر آئی تو آپ نے اسے نہیں (لینا) چاہا۔
(قدسي) اخبرنا احمد بن حفص بن عبد الله، قال: حدثني ابي، قال: حدثني إبراهيم، عن موسى بن عقبة، عن صفوان بن سليم، عن عطاء بن يسار، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بينما ايوب عليه السلام يغتسل عريانا خر عليه جراد من ذهب فجعل يحثي في ثوبه، قال: فناداه ربه عز وجل: يا ايوب، الم اكن اغنيتك، قال: بلى يا رب، ولكن لا غنى بي عن بركاتك". (قدسي) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنِي أَبِي، قال: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَمَا أَيُّوبُ عَلَيْهِ السَّلَام يَغْتَسِلُ عُرْيَانًا خَرَّ عَلَيْهِ جَرَادٌ مِنْ ذَهَبٍ فَجَعَلَ يَحْثِي فِي ثَوْبِهِ، قَالَ: فَنَادَاهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا أَيُّوبُ، أَلَمْ أَكُنْ أَغْنَيْتُكَ، قَالَ: بَلَى يَا رَبِّ، وَلَكِنْ لَا غِنَى بِي عَنْ بَرَكَاتِكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایوب علیہ السلام ننگے غسل کر رہے تھے ۱؎ کہ اسی دوران ان کے اوپر سونے کی ٹڈی گری، تو وہ اسے اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے، تو اللہ عزوجل نے انہیں آواز دی: ایوب! کیا میں نے تمہیں بے نیاز نہیں کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، کیوں نہیں میرے رب! لیکن تیری برکتوں سے میں بے نیاز نہیں ہو سکتا“۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن سے جس کا نام فرق تھا غسل کرتے تھے، اور میں اور آپ دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہم اس سے لپ (بھربھر کر) لیتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتن کے سلسلے میں کھینچا تانی کر رہی ہوں، میں اور آپ دونوں اسی سے غسل کر رہے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، عن محمد، حدثنا شعبة، عن عاصم، ح واخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن عاصم، عن معاذة، عن عائشة، قالت:" كنت اغتسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد، ابادره ويبادرني حتى يقول: دعي لي، واقول انا: دع لي". قال سويد: يبادرني وابادره، فاقول: دع لي، دع لي. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، ح وأَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت:" كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، أُبَادِرُهُ وَيُبَادِرُنِي حَتَّى يَقُولَ: دَعِي لِي، وَأَقُولَ أَنَا: دَعْ لِي". قَالَ سُوَيْدٌ: يُبَادِرُنِي وَأُبَادِرُهُ، فَأَقُولُ: دَعْ لِي، دَعْ لِي.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک برتن سے غسل کرتے تھے، میں چاہتی کہ آپ سے پہلے میں نہا لوں اور آپ چاہتے کہ مجھ سے پہلے آپ نہا لیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”تم میرے لیے چھوڑ دو“، اور میں کہتی: آپ میرے لیے چھوڑ دیجئیے۔
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، آپ ایک ٹب سے غسل کر رہے تھے جس میں گندھا ہوا آٹا لگا تھا، اور آپ کو (فاطمہ رضی اللہ عنہا ۱؎) کپڑا سے پردہ کیے ہوئے تھیں، تو جب آپ غسل کر چکے، تو آپ نے چاشت کی نماز پڑھی، اور میں نہیں جان سکی کہ آپ نے کتنی رکعت پڑھی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف 18009)، مسند احمد 6/341 (شاذ) (اس کا آخری ٹکڑا ’’فما ا ٔدری…الخ ہی شاذ ہے، کیوں کہ ام ہانی کی حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے آٹھ رکعات پڑھیں، دیکھئے حدیث رقم226)»
وضاحت: ۱؎: جیسا کہ دوسری روایتوں میں ہے راوی نے اختصار کی غرض سے یہاں ان کا ذکر نہیں کیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله فما أدري .. إلخ فإنه شاذ ولعله من أوهام عبدالملك فقد صح من طرق عن أم هانىء أنه صلى ثمان ركعات بعضها في الصحيحين