سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز فجر پڑھی وہ اللہ تعالیٰ کی امان (پناہ) میں ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4578، ومصباح الزجاجة: 1384)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/10) (ضعیف)» (حسن بصری نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے صرف حدیث عقیقہ سنی ہے، اس لئے اس سند میں انقطاع ہے)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص گمراہی کے جھنڈے تلے لڑے، عصبیت کی دعوت دے، اور عصبیت کے سبب غضب ناک ہو، اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 13 (1848)، سنن النسائی/تحریم الدم 24 (4119)، (تحفة الأشراف: 12902)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/296، 306، 488) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جاہلیت کے زمانے میں ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے نفسانیت اور تعصب کے جذبے سے لڑتا اور فخر و غرور اورتکبر اس کو قتل و قتال پر آمادہ کرتے، اور اپنے قبیلہ کی ناموری اور عزت کے لئے جان دیتا اور جان لیتا، پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کے زمانہ میں جو شرعی سبب کے بغیر لڑائی کرے اس کا حکم بھی جاہلیت کا سا ہے، یعنی اس لڑائی میں کچھ ثواب نہیں بلکہ عذاب ہو گا، اور گمراہی کے جھنڈے کا یہی مطلب ہے کہ نہ شرع کے مطابق امام ہو، نہ شرع کے اصول و ضوابط کے لحاظ سے جہاد ہو، بلکہ یوں اپنی قوم کا فخر قائم رکھنے کے لئے کوئی لڑے اور مارا جائے تو ایسے لڑنے والے کو کچھ ثواب نہیں، سبحان اللہ، دین اسلام سے بڑھ کر اور کوئی دین کیسے اچھا ہو سکتا ہے، ہر آدمی کو اپنی قوم عزیز ہوتی ہے، لیکن اسلام میں یہ حکم ہے کہ اپنے قوم کی مدد بھی وہیں تک کر سکتا ہے، جب تک کہ وہ ظالم نہ ہو، اور انصاف اور شرع کے مطابق کاروائی کرے، لیکن جب قوم ظالم ہو اور انسانوں پر ظلم و زیادتی کرے، تو ایسی قوم سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کر لے، ایمان کا یہی تقاضا ہے، اور جو لوگ عادل و منصف اور متبع شرع ہوں ان کا ساتھ دے، اور انہی کو اپنی قوم اور جماعت سمجھے۔
فسیلہ نامی ایک عورت کہتی ہے کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا عصبیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ ظلم پر قوم کی مدد کرنا عصبیت ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11757، ومصباح الزجاجة: 1386)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب 121 (5119) مختصراً (ضعیف)» (سند میں عباد بن کثیر اور فسیلہ ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف عباد بن كثير: متروك وللحديث طريق ضعيف عند أبي داود (5119) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 517
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی بڑی جماعت) کو لازم پکڑو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1715، ومصباح الزجاجة: 1387) (ضعیف جدا)» (ابو خلف الاعمی حازم بن عطاء متروک اور کذاب ہے، اور معان ضعیف، لیکن حدیث کا پہلا جملہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یہاں پر سواد اعظم کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالنی مناسب ہے کہ زیر نظر حدیث میں اختلاف کے وقت سواد اعظم سے جڑنے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ حدیث کا یہ ٹکڑا ابوخلف الاعمی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے، اگر اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد حق پر چلنے والی جماعت ہی ہو گی، نبی اکرم ﷺ کی جب بعثت ہوئی تو آپ کی دعوت کو قبول کرنے والے اقلیت ہی میں تھے، اور وہ حق پر تھے، اور حق ان کے ساتھ تھا، یہی حال تمام انبیاء و رسل اور ان کے متبعین کا رہا ہے کہ وہ وحی کی ہدایت پر چل کر کے اہل حق ہوئے اور ان کے مقابلے میں باطل کی تعداد زیادہ رہی، خلاصہ یہ کہ صحابہ تابعین،تبع تابعین اور سلف صالحین کے طریقے پر چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہی سواد اعظم ہیں، چاہے ان کی جماعت قلیل ہو یا کثیر، قلت اور کثرت سے ان کا حق متاثر نہیں ہو گا، اور اہل حق کا یہ گروہ قلت اور کثرت سے قطع نظر ہمیشہ تاقیامت موجود ہو گا، اور حق پر نہ چلنے والوں کی اقلیت یا اکثریت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گی، ان شاء اللہ العزیز۔ اس ضعیف ترین حدیث کے آخری فقرہ: «فعليكم بالسواد الأعظم» کو دلیل بنا کر ملت اسلامیہ کے جاہل لوگ اور دین سے کوسوں دور والی اکثریت پر فخرکرنے والوں کو صحیح احادیث کی پرکھ کا ذوق ہی نہیں، اسی لیے وہ بے چارے اس آیت کریمہ: «من الذين فرقوا دينهم وكانوا شيعا كل حزب بما لديهم فرحون»(سورة الروم:32) کے مصداق ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پھوٹ ڈالی (قرآن و سنت والے اصلی اور فطری دین کو چھوڑ کر اپنے الگ الگ دین بنا لیے اور وہ خود کئی گروہ میں بٹ گئے، اور پھر ہر گروہ اپنے جھوٹے اعتقاد پر خوش ہے، پھولا نہیں سماتا، حقیقت میں یہ لوگ اسی آیت کریمہ کی تفسیر دکھائی دیتے ہیں، جب کہ قرآن کہہ رہا ہے: «وإن تطع أكثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله إن يتبعون إلا الظن وإن هم إلا يخرصون»(سورة الأنعام: 116)”اے نبی! آپ اگر ان لوگوں کے کہنے پر چلیں جن کی دنیا میں اکثریت ہے (سواد اعظم والے) تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے، یہ لوگ صرف اپنے خیالات پر چلتے ہیں، اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں) پھر اس سواد اعظم والی منکر اور سخت ضعیف حدیث کے مقابلہ میں صحیحین میں موجود معاویہ رضی اللہ عنہ والی حدیث قیامت تک کے لیے کس قدر عظیم سچ ہے کہ جس کا انکار کوئی بھی صاحب عقل و عدل مومن عالم نہیں کر سکتا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: «لايزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله، لايضرهم من كذبهم ولا من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك»”میری امت کا ایک گروہ برابر اور ہمیشہ اللہ کے حکم (قرآن و حدیث) پرقائم رہے گا، کوئی ان کو جھٹلائے اور ان کی مدد سے دور رہے، اور ان کے خلاف کرے، ان کا کچھ نقصان نہ ہو گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آ پہنچے اور وہ اسی (قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے والی) حالت میں ہوں گے“(صحیح البخاری، کتاب التوحید حدیث نمبر ۷۴۶۰)، صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں: «لاتزال طائفة من أمتي قائمة بأمر الله، لايضرهم من خذلهم أو خالفهم، حتى يأتي أمر الله وهم ظاهرون على الناس»(کتاب الإمارۃ) یہاں اس روایت میں امت کی جگہ «طائفہ» کا کلمہ آیا ہے، اور طائفہ امت سے کم کی تعداد ظاہر کرتا ہے (بلکہ دوسری روایات میں «عصابہ» کا لفظ آیا ہے، جس سے مزید تعداد کی کمی کا پتہ چلتا ہے) یعنی کسی زمانہ میں ان اہل حق، کتاب و سنت پر عمل کرنے والوں کی تعداد ایک امت کے برابر ہو گی، کسی دور میں کسی جگہ «طائفہ» کے برابر اور کسی زمانہ میں «عصابہ» کے برابر۔ اور یہ کہ «وهم ظاهرون على الناس»”اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے“ سبحان اللہ، نبی آخر الزماں ﷺ کا فرمان کس قدر حق اور سچ ہے، اور آپ کے نبی برحق ہونے کی دلیل کہ آج بھی صرف قرآن و سنت پر عمل کرنے والے لوگ جو سلف صالحین اور ائمہ کرام و علمائے امت کے اقرب إلی القرآن والسنہ ہر اجتہاد و رائے کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں، معاملہ امت اسلامیہ کے اندر کا ہو یا باہر کا، دین حق پر ہونے کے اعتبار سے یہ اللہ کے صالح بندے ہمیشہ سب پر غالب نظر آتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: یہ گروہ اگر اہل حدیث کا نہیں ہے تو میں نہیں جانتا کہ اور کون ہیں؟ مندرجہ بالاصحیح مسلم کی حدیث کی شرح میں علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی لکھتے ہیں: اب اہل بدعت و ضلالت کا وہ ہجوم ہے کہ اللہ کی پناہ، پر نبی اکرم ﷺ کا فرمانا خلاف نہیں ہو سکتا، اب بھی ایک فرقہ مسلمانوں کا باقی ہے جو محمدی کے لقب سے مشہور ہے، اور اہل توحید، اہل حدیث اور موحد یہ سب ان کے نام ہیں، یہ فرقہ قرآن اور حدیث پر قائم ہے،اور باوجود صدہا ہزارہا فتنوں کے یہ فرقہ (گروہ اور جماعت) بدعت و گمراہی سے اب بھی بچا ہوا ہے، اور اس زمانہ میں یہی لوگ اس حدیث کے مصداق ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا دون الجملة الأولى
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا معان بن رفاعة: لين الحديث وأبو خلف حازم بن عطاء: متروك ورماه ابن معين بالكذب (تقريب: 8083) وللحديث شاهد ضعيف عند أبي نعيم الأصبھاني في أخبار أصفهان (208/2) والسند ضعفه البوصيري و لحجية الإجماع انظر سنن الترمذي بتحقيقي (الأصل: 2166) والحمد للّٰه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 517
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير , وعلي بن محمد , قالا: حدثنا ابو معاوية , عن الاعمش , عن رجاء الانصاري , عن عبد الله بن شداد بن الهاد , عن معاذ بن جبل , قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما صلاة فاطال فيها , فلما انصرف , قلنا: او قالوا: يا رسول الله , اطلت اليوم الصلاة , قال:" إني صليت صلاة رغبة ورهبة , سالت الله عز وجل لامتي ثلاثا فاعطاني اثنتين , ورد علي واحدة , سالته ان لا يسلط عليهم عدوا من غيرهم فاعطانيها , وسالته ان لا يهلكهم غرقا فاعطانيها , وسالته ان لا يجعل باسهم بينهم فردها علي". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ رَجَاءٍ الْأَنْصَارِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا صَلَاةً فَأَطَالَ فِيهَا , فَلَمَّا انْصَرَفَ , قُلْنَا: أَوْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَطَلْتَ الْيَوْمَ الصَّلَاةَ , قَالَ:" إِنِّي صَلَّيْتُ صَلَاةَ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ , سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِأُمَّتِي ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ , وَرَدَّ عَلَيَّ وَاحِدَةً , سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِيهَا , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَهُمْ غَرَقًا فَأَعْطَانِيهَا , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَرَدَّهَا عَلَيَّ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن بہت لمبی نماز پڑھائی، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے (یا لوگوں نے) عرض کیا: اللہ کے رسول! آج تو آپ نے نماز بہت لمبی پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، آج میں نے رغبت اور خوف والی نماز ادا کی، میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے تین باتیں طلب کیں جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو عطا فرما دیں اور ایک قبول نہ فرمائی، میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کیا تھا کہ میری امت پر اغیار میں سے کوئی دشمن مسلط نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے دیا، دوسری چیز میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کی تھی کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی مجھے دیا، تیسری یہ دعا کی تھی کہ میری امت آپس میں جنگ و جدال نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہ فرمائی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11326، ومصباح الزجاجة: 1388)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/240) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: 406)»
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا محمد بن شعيب بن شابور , حدثنا سعيد بن بشير , عن قتادة انه حدثهم , عن ابي قلابة الجرمي عبد الله بن زيد , عن ابي اسماء الرحبي , عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" زويت لي الارض حتى رايت مشارقها ومغاربها , واعطيت الكنزين الاصفر او الاحمر , والابيض يعني: الذهب والفضة , وقيل لي: إن ملكك إلى حيث زوي لك , وإني سالت الله عز وجل ثلاثا: ان لا يسلط على امتي جوعا فيهلكهم به عامة , وان لا يلبسهم شيعا ويذيق بعضهم باس بعض , وإنه قيل لي إذا قضيت قضاء فلا مرد له , وإني لن اسلط على امتك جوعا فيهلكهم فيه , ولن اجمع عليهم من بين اقطارها حتى يفني بعضهم بعضا ويقتل بعضهم بعضا , وإذا وضع السيف في امتي فلن يرفع عنهم إلى يوم القيامة , وإن مما اتخوف على امتي ائمة مضلين , وستعبد قبائل من امتي الاوثان , وستلحق قبائل من امتي بالمشركين , وإن بين يدي الساعة دجالين كذابين قريبا من ثلاثين , كلهم يزعم انه نبي , ولن تزال طائفة من امتي على الحق منصورين لا يضرهم من خالفهم , حتى ياتي امر الله عز وجل" , قال ابو الحسن: لما فرغ ابو عبد الله من هذا الحديث , قال: ما اهوله. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ , حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ , عَنْ قَتَادَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ , عَنْ أَبِي قِلَابَةَ الْجَرْمِيِّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ , عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" زُوِيَتْ لِي الْأَرْضُ حَتَّى رَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا , وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَصْفَرَ أَوِ الْأَحْمَرَ , وَالْأَبْيَضَ يَعْنِي: الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ , وَقِيلَ لِي: إِنَّ مُلْكَكَ إِلَى حَيْثُ زُوِيَ لَكَ , وَإِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثًا: أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَى أُمَّتِي جُوعًا فَيُهْلِكَهُمْ بِهِ عَامَّةً , وَأَنْ لَا يَلْبِسَهُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ , وَإِنَّهُ قِيلَ لِي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَلَا مَرَدَّ لَهُ , وَإِنِّي لَنْ أُسَلِّطَ عَلَى أُمَّتِكَ جُوعًا فَيُهْلِكَهُمْ فِيهِ , وَلَنْ أَجْمَعَ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يُفْنِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَيَقْتُلَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا , وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي فَلَنْ يُرْفَعَ عَنْهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , وَإِنَّ مِمَّا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي أَئِمَّةً مُضِلِّينَ , وَسَتَعْبُدُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ , وَسَتَلْحَقُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ , وَإِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ دَجَّالِينَ كَذَّابِينَ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِينَ , كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ , وَلَنْ تَزَالَ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ , حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" , قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: لَمَّا فَرَغَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ , قَالَ: مَا أَهْوَلَهُ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی حتیٰ کہ میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا، پھر اس کے دونوں خزانے زرد یا سرخ اور سفید (یعنی سونا اور چاندی بھی) مجھے دئیے گئے ۱؎ اور مجھ سے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) حکومت وہاں تک ہو گی جہاں تک زمین تمہارے لیے سمیٹی گئی ہے، اور میں نے اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کا سوال کیا: پہلی یہ کہ میری امت قحط (سوکھے) میں مبتلا ہو کر پوری کی پوری ہلاک نہ ہو، دوسری یہ کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کر، تیسری یہ کہ آپس میں ایک کو دوسرے سے نہ لڑا، تو مجھ سے کہا گیا کہ میں جب کوئی حکم نافذ کر دیتا ہوں تو وہ واپس نہیں ہو سکتا، بیشک میں تمہاری امت کو قحط سے ہلاک نہ کروں گا، اور میں زمین کے تمام کناروں سے سارے مخالفین کو (ایک وقت میں) ان پر جمع نہ کروں گا جب تک کہ وہ خود آپس میں اختلاف و لڑائی اور ایک دوسرے کو مٹانے اور قتل نہ کرنے لگیں، لیکن جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو وہ قیامت تک نہ رکے گی، مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف گمراہ سربراہوں کا ہے، عنقریب میری امت کے بعض قبائل بتوں کی پرستش کریں گے، اور عنقریب میری امت کے بعض قبیلے مشرکوں سے مل جائیں گے، اور قیامت کے قریب تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے، اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، اور ہمیشہ ان کی مدد ہوتی رہے گی، اور جو کوئی ان کا مخالف ہو گا وہ ان کو کوئی ضرور نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آ جائے ۲؎۔ ابوالحسن ابن القطان کہتے ہیں: جب ابوعبداللہ (یعنی امام ابن ماجہ) اس حدیث کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا: یہ حدیث کتنی ہولناک ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس سے روم و ایران کے خزانے مرادہیں۔ ۲؎: یعنی قیامت قائم ہو، اس حدیث میں آپ ﷺ کا کھلا معجزہ ہے، آپ نے فرمایا: ”مجھ کو زمین کے پورب اور پچھم دکھلائے گئے“ اور ایسا ہی ہوا کہ اسلام پورب یعنی ترکستان اور تاتار کی ولایت سے لے کر پچھم یعنی اندلس اور بربر تک جا پہنچا لیکن اتری اور دکھنی علاقوں میں اسلام کا رواج نہیں ہوا۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا سفيان بن عيينة , عن الزهري , عن عروة , عن زينب ابنة ام سلمة , عن حبيبة , عن ام حبيبة , عن زينب بنت جحش , انها قالت: استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم من نومه وهو محمر وجهه , وهو يقول:" لا إله إلا الله , ويل للعرب من شر قد اقترب , فتح اليوم من ردم ياجوج , وماجوج" وعقد بيديه عشرة , قالت زينب: قلت: يا رسول الله , انهلك وفينا الصالحون , قال:" إذا كثر الخبث". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ , عَنْ حَبِيبَةَ , عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ , عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ , أَنَّهَا قَالَتْ: اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَوْمِهِ وَهُوَ مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ , وَهُوَ يَقُولُ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ , فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ , وَمَأْجُوجَ" وَعَقَدَ بِيَدَيْهِ عَشَرَةً , قَالَتْ زَيْنَبُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ , قَالَ:" إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ".
ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا مبارک چہرہ سرخ تھا، اور آپ فرما رہے تھے: ” «لا إله إلا الله» عرب کے لیے تباہی ہے اس فتنے سے جو قریب آ گیا ہے، آج یاجوج و ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کی انگلیوں سے دس کی گرہ بنائی“۱؎، زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے؟ حالانکہ ہم میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، جب معصیت (برائی) عام ہو جائے گی“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: دس کی گرہ یہ ہے کہ شہادت کی انگلی کے سرے کو انگوٹھے کے پہلے موڑپر رکھ کردائرہ بنایا جائے۔ ۲؎: تو نیک لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی عذاب آئے گا، یاجوج اور ماجوج دو قومیں ہیں، جو قیامت کے قریب نکلیں گی۔
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب کئی فتنے ظاہر ہوں گے، جن میں آدمی صبح کو مومن ہو گا، اور شام کو کافر ہو جائے گا مگر جسے اللہ تعالیٰ علم کے ذریعہ زندہ رکھے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4916، ومصباح الزجاجة: 1389)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المقدمة 32 (350) (ضعیف جداً)» (سند میں علی بن یزید منکر الحدیث اور متروک ہے، علم کے جملہ کے بغیر اصل متن صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 3696)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا وهو صحيح دون جملة العلم
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف علي بن يزيد: ضعيف وأصل الحديث صحيح بالشواهد دون قوله: ”إلا من أحياه اﷲ بالعلم‘‘ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 517
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير , حدثنا ابو معاوية , عن الاعمش , عن شقيق , عن حذيفة , قال: كنا جلوسا عند عمر , فقال: ايكم يحفظ حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة , قال حذيفة: فقلت: انا , قال: إنك لجريء , قال: كيف؟ قال: سمعته يقول:" فتنة الرجل في اهله وولده وجاره , تكفرها الصلاة والصيام والصدقة , والامر بالمعروف , والنهي عن المنكر" , فقال عمر: ليس هذا اريد , إنما اريد التي تموج كموج البحر , فقال: ما لك ولها يا امير المؤمنين , إن بينك وبينها بابا مغلقا , قال: فيكسر الباب او يفتح , قال: لا بل يكسر , قال: ذاك اجدر ان لا يغلق , قلنا لحذيفة: اكان عمر يعلم من الباب , قال: نعم , كما يعلم ان دون غد الليلة , إني حدثته حديثا ليس بالاغاليط , فهبنا ان نساله من الباب فقلنا لمسروق: سله فساله , فقال: عمر. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ حُذَيْفَةَ , قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ , فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ , قَالَ حُذَيْفَةُ: فَقُلْتُ: أَنَا , قَالَ: إِنَّكَ لَجَرِيءٌ , قَالَ: كَيْفَ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ , تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ , وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ , وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ" , فَقَالَ عُمَرُ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ , إِنَّمَا أُرِيدُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ , فَقَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا , قَالَ: فَيُكْسَرُ الْبَابُ أَوْ يُفْتَحُ , قَالَ: لَا بَلْ يُكْسَرُ , قَالَ: ذَاكَ أَجْدَرُ أَنْ لَا يُغْلَقَ , قُلْنَا لِحُذَيْفَةَ: أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ مَنِ الْبَابُ , قَالَ: نَعَمْ , كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ , إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ , فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ مَنِ الْبَابُ فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ: سَلْهُ فَسَأَلَهُ , فَقَالَ: عُمَرُ.
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ نے کہا کہ تم میں سے کس کو فتنہ کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: مجھ کو یاد ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بڑے جری اور نڈر ہو، پھر بولے: وہ (حدیث) کیسے ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل و عیال، اولاد اور پڑوسی میں ہوتا ہے اسے نماز، روزہ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں، (یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میری یہ مراد نہیں ہے، بلکہ میری مراد وہ فتنہ ہے جو سمندر کی موج کی طرح امنڈ آئے گا، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! آپ کو اس فتنے سے کیا سروکار، آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان تو ایک بند دروازہ ہے، تو انہوں نے پوچھا: کیا وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ؛ بلکہ وہ توڑ دیا جائے گا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر وہ کبھی بند ہونے کے قابل نہ رہے گا ۱؎۔ ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ جواب دیا: ہاں، وہ ایسے ہی جانتے تھے جیسے یہ جانتے ہیں کہ کل سے پہلے رات ہے، میں نے ان سے ایک ایسی حدیث بیان کی تھی جس میں کوئی دھوکا جھوٹ اور مغالطہٰ نہ تھا، پھر ہمیں خوف محسوس ہوا کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کریں کہ اس دروازے سے کون شخص مراد ہے؟ پھر ہم نے مسروق سے کہا: تم ان سے پوچھو، انہوں نے پوچھا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ دروازہ خود عمر رضی اللہ عنہ ہیں (جن کی ذات تمام بلاؤں اور فتنوں کی روک تھی)۔
وضاحت: ۱؎: حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے جائیں گے اور آپ کی شہادت سے فتنوں کا دروازہ ایسا کھلے گا کہ قیامت تک بند نہیں ہو گا، بلاشبہ ایسا ہی ہوا آپ کی رحلت کے بعد طرح طرح کے فتنے رونما ہوئے۔